اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں
ہے کہ عمران خان آج کل عوامی قوت کا مظہربنا ہوا ہے ۔اس وقت سٹریٹ پاور اس
کے پاس ہے جس کا مظاہرہ اس نے چند روز قبل لاہور میں مہنگائی کے خلاف ایک
بڑے عوامی احتجاج کے ذریعے کیا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ اس طرح کی عوامی قوت
کی مظہر پی پی پی ہوا کرتی تھی۔حکومتیں اس سے خوفزدہ رہتی تھیں کیونکہ عوام
پی پی پی کے ساتھ ہوتے تھے ۔ جنرل ضیا الحق اس کی بہترین مثال ہے جس نے
جیالوں کو مار مار کر آدھ موا کر دیا تھا لیکن پی پی پی سے ان کی وابستگی
پھر بھی ختم نہ کی جاسکی تھی۔جنرل ضیالحق نے محض اس وجہ سے فوجی وردی نہیں
اتاری تھی کیونکہ اسے جیالوں کا خوف دامن گیر تھا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو
کی شہادت کے بعد وہی پی پی پی قصہِ ماضی بنتی جا رہی ہے۔اب یہ ایک ایسی
جماعت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔جس جماعت کا
شریک چیرمین یہ کہے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں تو پھر پی
پی پی کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنا چنداں دشوار نہیں ہو گا ۔ بات
اگر یہی تک رہتی تو بھی شائد قابلِ برداشت تھی لیکن انتہا یہ ہوگئی کہ جنرل
ضیا الحق کے منہ بولے بیٹے میاں محمد نوا ز شریف کو ایوانِ صدر بلوا کر
اپنے بچوں سے گلدستے بھی پیش کروائے گے۔وہ جیالے جھنوں نے ساری زندگی جنرل
ضیا الحق اور اس کی باقیات کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے وہ
گلدستے پیش کرنے کا یہ منظر کیسے برداشت کر سکتے ہیں ۔ پی پی پی کی قیادت
نے شائد یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ اس طرح کے طرزِ عمل سے جیالوں کے
دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا جیا لوں کا لہو اتنا ارزاں ہے کہ اسے اقتدار کی
خاطر فرا موش کر دیا جا ئے ؟ اس طرح کے غیر حقیقی مظا ہروں کے بعد جیالے
بھی تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ ان کی قیادت اب انھیں منہ لگانے کیلئے
تیار نہیں ہے۔ جیالوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کہاں جائیں کیونکہ ان کی
اپنی جماعت انھیں عزتِ نفس اور مان دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔اس طرح کے
حوصلہ شکن حالات میں عوام نے عمران خان سے اپنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں
کیونکہ بہت سی جماعتوں نے سیاست کو کاروبار سمجھ رکھا ہے اور سیاست پیسہ
بنانے کی ایک مشین بنا لی گئی ہے جس سے عوام میں بددلی اور بے چینی پھیلتی
جا رہی ہے۔ عوام ملکی خزانے کو اپنی نگاہوں کے سامنے لٹتے ہوئے دیکھ رہے
ہیں لیکن پھر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کاروباری سیاست کے ناخداؤں
نے ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرنا اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔یہ سچ
ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف خیبر پختونخواہ میں قابلِ ذکر کارکردگی کا
مظاہرہ نہیں کر سکی لیکن پھر بھی عوام کی نگاہیں تحریکِ انصاف پر ہی جمی
ہوئی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیرِ اعظم بن کر جو کارنامے
سر انجام دے سکتے ہیں انھیں خیبر پختونخواہ کی حکومت کے آئینے میں نہیں
دیکھا جا سکتا۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ صوبہ دھشت گردی کا شکار ہے اور
دوسرے تحریکِ انصاف کو اپنے اتحادیوں کی سرد مہری سے بھی واسطہ رہتا ہے
کیونکہ اس کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے اور اسے قانون سازی میں مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے
۔۔ ۔۔
عمران خان کے لا ہور میں ا حتجاجی جلسے کے بعد حکومتی ایوانوں میں زلزلے کی
سی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔حکومتی وزرا حسبِ ِ معمول عمران خان کے خلاف اپنی
توپوں کے دھانے کھول کے بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ انھیں علم ہونا چائیے کہ
جلسے جلوس کرنا اور حکومتی اقدامات پر احتجاج کرنا اپوزیشن کا آئینی حق
ہوتا ہے۔تحریکِ انصاف نے بھی ا پنا یہ حق استعمال کیا ہے۔اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات کسی بھی معیار سے شفاف نہیں تھے ۔ان
انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھا ندلی کی گئی تھی کیونکہ مقصد مسلم لیگ (ن)
کو فتح سے ہمکنار کرنا تھا ۔اس دھاندلی کا واضح ثبوت انگوٹھوں کے نشانات کی
جانچ پڑتال سے پہلو تہی کی کوششیں ہیں۔ ابھی تک جتنے حلقوں میں گنتی اور
انگوٹھوں کی تصدیق ہوئی ہے وہاں پر ہزار ہا جعلی ووٹوں کی نشاندہی ہو چکی
ہے جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ انتخابات غیر شفاف، جانبدارنہ اور
فکسڈ تھے۔مسلم لیگ (ن) کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس کا مینڈیٹ
حقیقی نہیں ہے لہذا وہ کس معمولی سے احتجاج پر بر انگیختہ ہو جاتی ہے اور
ہر اس جماعت کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتی ہے جو انتخابات میں دھاندلی کو
طشت از بام کرنے کی بات کرتی ہے ۔عمران خان نے حال ہی میں اپنے کارکنوں کو
حکم دے دیا ہے کہ وہ انتخابات کی تیاری کریں اور یہ بات مسلم لیگ (ن) کو
سخت ناگوار گزرتی ہے۔ وہ اپنی فتح کو عوامی حمائت سے تعبیر کرتی ہے جبکہ
آزاد میڈیا ،غیر جانبدار تجزیہ نگار،کالمسٹ اور عوام مسلم لیگ(ن) کے مینڈیٹ
کو چوری کا مینڈیٹ سمجھتے ہیں۔ٖ یہی وجہ ہے کہ آج کل مڈ ٹرم کا شوشہ بڑی
شدت سے اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا مڈ
ٹرم انتخابات کو سازش سے تعبیر کرنا اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ مسلم لیگ
(ن) اندر سے بھو کھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور وہ عوامی احتجاج سے خوفزدہ
ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومتی وزرا
عمران خان کے خلاف لٹھ لے کر نہ پڑ جاتے۔ مسلم لیگ (ن) کو مڈ ٹرم سے خوف
آتا ہے کیونکہ مڈ ٹرم میں اس کا صفایا یقینی ہے۔
عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ان کا بس چلے
تو وہ حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر ان کا وہ حشر کریں کہ سیا
ستدان کوچہِ سیاست میں آنے سے قبل کئی بار سوچیں لیکن وہ بے بسی کی تصویر
بنے حکومتی جبر،کرپشن اور ہٹ دھرمی کو برداشت کر رہے ہیں۔ عمران خان کا
حالیہ ا حتجاج عوام کی دبی ہوئی امنگوں کی ترجمانی کر رہا ہے جس سے مسلم
لیگ (ن) سیخ پا ہو رہی ہے۔عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس بھی کوئی
اعلی پائے کی ٹیم نہیں ہے ۔وہی گھسے پٹے چہرے ہیں جو جماعتیں بدل بدل کر
خود بھی تھک چکے ہیں۔جہاں سے دانہ د ھنکا ملنے کی امید ہوتی ہے یہ بادِ مرغ
نما قسم کے لوگ اسی جماعت میں گھس جاتے ہیں اور پھر پارٹی قائد کی ایسی خوش
آمد کرتے ہیں کہ خوش آمد بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔جنرل پرویز مشرف اس کی
بہترین مثال ہیں۔جنرل صاحب کے ڈھنڈورچی آجکل بالکل نایاب ہو چکے ہیں جبکہ
کسی زمانے میں ہر طرف انہی کا شورو غوغہ ہوا کرتا تھا اور اس شور و غل میں
صرف جنرل پرویز مشرف کا نام ہی گو نجا کرتا تھا ۔مجھے تو وہ زمانہ بھی یا د
ہے جب ۱۹۶۷ میں ذولفقات علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیادیں رکھی تھیں تو ان
کے شانے سے شانہ ملانے والوں میں شیخ رشید، میاں محمود علی قصوری،حنیف
رامے،میاں معراج خالد،معراج محمد خان،غلام مصطفے کھر، مختار رانا، عبدا
لحفیظ پیرزادہ،ڈاکٹر مبشر حسن اور خورشید حسن میربڑے نمایاں تھے جو مڈل
کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے اورجن کا مطمعِ نظر دولت کا حصول نہیں تھابلکہ
ان کا مطمعِ نظر قوم کی ترقی تھی ۔ لیکن اب تو ہر جماعت میں سرمایہ داروں
اور جاگیرداروں نے قدم جما ر کھے ہیں اور تحریکِ ا نصا ف پر بھی یہی لوگ
قابض ہو تے جا رہے ہیں جس سے تبدیلی کے عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے
کا اندیشہ ہے۔مڈل کلاس کو اختیارات منتقل کئے بغیر جو تبدیلی بھی آئے گی وہ
ناپائیدار ہو گی ۔ مڈل کلاس کا سیاسی کارکن اقتدار میں اپنا حق چاہتا ہے۔
وہ قربانیاں دے دے کر تھک چکا ہے اب وقت آگیاہے کہ اسے بھی با اختیار بنایا
جائے ۔عمران خان کی اصل قوت یہی مڈل کلاس ہے لیکن اسی جماعت میں وڈیرے اور
سردار مڈل کلاس کے اس ٹیلنٹ کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک تو اہلِ
ہشم طبقات کو بالا دستی حا صل ہے لیکن آخرِ کار مڈل کلاس کو ہی غالب آنا ہے
کیونکہ ان میں ذہانت اور وفا کا ایسا نادر جوہر ہوتا ہے جس سے سر مایہ یہ
دار طبقے محروم ہوتے ہیں۔عمران خان کی کوشش یہ ہونی چائیے کہ وہ اپنے اس
مڈل کلاس کے گروہ کو اپنے زیادہ قریب کرے کیونکہ تبدیلی لانے کی طاقت انہی
کے پاس ہے ۔تبدیلی بپا ہو کر رہنی ہے اور عمران خان کے ہا تھوں ہی بپا ہونی
ہے لیکن اگر عمران خان اس کا صحیح ادراک نہ کر سکے تو یہ تبدیلی رائیگاں
بھی جا سکتی ہے جو بہت بڑا قومی المیہ ہو گا۔۔ |