دہلی ایک تاریخی شہرہے ۔جس میں
موجود لال قلعہ اور جامع مسجد مغلوں کے پرشکوہ دور کی چغلی کھاتے ہیں تو
قطب مینار قطب الدین ایبک کے دورکی یادگارہے۔
1649سے 1857تک اسے برصغیر کے دارلحکومت بننے کا شرف حاصل رہا۔اسکے بعد
12دسمبر 1911کو دہلی دربار کے دوران جارج پنجم ‘کوئین میری کے اعلان کے بعد
دارلحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل کردیاگیا۔دہلی دنیاکادوسراگنجان
آبادشہرہے۔نئی دہلی 14,484km2رقبے کے لحاظ سے انڈیا کا سب سے بڑاعلاقہ ہے۔
2013کی مردم شماری کے مطابق نئی دہلی کی کل آبادی 16,787,941ہے جس
میں53.53فیصد یعنی8,987,326مرداور 46.47فیصدیعنی7,800,615خواتین ہیں۔دہلی
میں مجموعی خواندگی شرح 86.2فیصدہے۔دارلحکومت کے رولر اوراربن ایریاکے
تناسب سے یہ شرح 86.3اربن ایریامیں جبکہ 81.9فیصدرولرایریامیں ہے۔اوراگر
مردوخواتین کا تناسب دیکھا جائے تو دارلحکومت کے 90.9فیصد مرداور80.8فیصد
خواتین خواندہ ہیں۔
کم وبیش 15ایکڑپر پھیلے دہلی کے رام لیلا میدان میں کرپشن کے خلاف اناہزارے
کی تحریک نے اپناجوبن کے دن گزارے‘اور ہندوستانی اخبارات کے مطابق ہفتہ کے
روز ’’عام آدمی پارٹی ‘‘کی تاجپوشی بھی اسی میدان میں سجے گی‘اروند کجریوال
نئی دہلی کے ساتویں وزیراعلی کے طورپرحلف اُٹھائیں گے۔۔بارہ ماہ کی عمر میں
عام آدمی پارٹی نے دہلی کی 28نشستیں جیت کرجہاں ہندوستان کی سیاست میں ہلچل
مچادی ہے وہیں کانگریس کی 8بیساکھیوں سے حکومت سازی کرنے جارہی ہے۔یہ وہی
کانگریس ہے جسے معتوب بناکرالیکشن کا دنگل جیتاگیاتھا۔25دسمبر کو اپنی
ویڈیوبیان میں کجریوال نے کہا کہ’’ہم بی جے پی یاکانگریس کے بارے میں نہیں
سوچتے ‘ہم صرف عام آدمی کے بارے میں سوچتے ہیں‘ہمارامقصدصرف عوام کے مسائل
حل کرناہے‘‘۔ہندوستان ایکسپریس کے مطابق ’’سرکاربننے کے بعد 24گھنٹوں کے
اندردہلی کی عوام کو 700لیٹرپانی دینے کے وعدے پر عمل شروع کردیاجائے گا‘‘۔
شیلاڈکشٹ کی تاریخی شکست‘کانگریس کا پندرہ سالہ اقتدارکاغروب ہوتاسورج
اورعام آدمی پارٹی کا ظہور اس بات کی علامت ہیں کہ نئی دہلی کی عوام اب نئی
اور شفاف قیادت چاہتے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس کے لیڈروں کی
جانچ پڑتال ہوئی توکیاکانگریس پھربھی اپنی حمایت ’آپ‘کے ساتھ جاری رکھے
گی؟یقینا جواب نفی میں ہے۔اور اگر کانگریس ایسا کرتی ہے تو پھر اسکامطلب
یہی ہواکہ وہ اپناطرز عمل بدل رہی ہے اور اگرایساہوتاہے توپھر یہی کجریوال
کی جیت ہے۔کجریوال نے جو وعدے عوام سے الیکشن سے پہلے کیئے تھے اورجو وہ
مسلسل کیئے جارہے ہیں کیا وہ ’’مشکل‘‘ہیں یا ’’ناممکن‘‘۔ملاحظہ کیجئے اروند
کجریوال کے الفاظ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق( ترجمہ)’’ایساپہلی مرتبہ
ہورہاہے کہ یہاں ایک ایساوزیراعلی ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے دیانت
دارلوگوں کی تمناکررہاہے‘جبکہ پہلے جب بھی کوئی وزیراعلی آتا(یاآتی)تو وہ
ایسے ساتھیوں(وزراء)کی تلاش میں رہتاجواسکے لیئے کرپشن کے ذریعے کمیشن
کماسکیں‘‘۔صحافیوں نے جب حلف برداری کی تقریب میں مدعوکیئے گئے لوگوں کی
وضاحت طلب کی تواروند کجریوال نے کہا’’یہ (میدان رام لیلا)سب کیلئے
کھلاہوگا‘یہاں کوئی ’’خاص‘‘نہیں ہوگا‘تمام ’’عام آدمی‘‘موجود ہوں گے‘تم سب
کو دعوت ہے‘‘۔
اور جہاں تک بات اناہزارے کی ہے تو دی انڈین ایکسپریس لکھتاہے کہ ’’جب
رپورٹرز نے پوچھا کہ کیاآپ حلف برداری کی تقریب میں ہوں گے تو اناہزارے نے
کہاکہ میں بیماری کی وجہ سے سفرنہیں کرسکتا‘‘نہیں معلوم ان کے بغیر عام
آدمی پارٹی کہاں تک سفرکرپائے گی کیونکہ اناہزارے اگراپنے ہمنواکی حمایت
کریں تویہ جماعت بڑوں بڑوں کی کم ازکم ایک دفعہ تو چھٹی کرواسکتی ہے
اورہمیشہ کیلئے اسلیئے نہیں کہہ سکتے کہ سیاست کی زمین پراعتبارنہیں
کیاجاسکتا‘تاریخ گواہ ہے کبھی کبھاریہ ایسادھوکہ دیتی ہے کہ آنکھوں پریقین
نہیں آتا‘پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بسااوقات رہبرراہزن بن جاتے ہیں
اورعوام کواشتعال دلاکرالیکشن جیتنے کے بعدعوام سے کوسوں دورانہیں
جاگیرداروں‘سرمایہ داروں کے پاس لوٹ جاتے ہیں جن کے خلاف عوام سے ووٹ لیئے
ہوتے ہیں‘مگراُمیدہے کہ اروندسیاست کے میدان میں پاکستانی شعبدہ بازوں سے
کہیں بہترثابت ہوں گے۔اروندکجریوال کے ان الفاظ پر بحثیت پاکستانی
غورکیجئے’’میں تم سب سے گزارش کرتاہوں کہ smsاورای میل کے ذریعے مجھ سے
رابطہ رکھنا‘ہم اچھے لوگوں کو اچھامقام دلائیں گے اور انکے ساتھ چلناچاہیں
گے ۔میرے پاس کوئی منترنہیں ہے کہ جس سے مسائل کو حل کروں لیکن اگراچھے
‘دیانت دار اورقابل کارکن ہمیں میسر آئے توپھر کچھ بھی ناممکن نہیں رہے
گا‘‘(انڈین ایکسپریس26دسمبر)۔یہ ہیں عام آدمی پارٹی کے کنوینرکے الفاظ۔ اب
دیکھنایہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں
یانہیں اسکے لیئے وقت کا انتظارکرناہوگا۔مخالف جماعتیں ان کیلئے کیسے جال
بنتی ہیں اوران کے کارکنان کیاگل کھلاتے ہیں؟۔لیکن اس سب سے قطع نظر یہ بات
اہم ہے کہ کیاوہ اپنے منتخب کردہ راستے پر قائم رہتے ہیں یااقتدارکی بیڑیاں
پہن کر’’جیسادیس ویسابھیس ‘‘کانعرہ بلندکرتے ہیں۔
آخرمیں عام آدمی پارٹی کے تناظرمیں پاکستان کی سیاسی صورتحال کامختصرجائزہ
لیتے ہیں۔1:اس وقت پاکستان میں حقیقی تبدیلی کاعلم تھامے کوئی بھی ایسی
سیاسی جماعت منظرعام پرموجود نہیں۔2:ہمارے ہاں پانچ سے چھ نشستیں جیتنے
والابھی اپناموبائل نمبرتبدیل کردیتاہے ۔ایک ایسی پارٹی کے سربراہ ایسے بھی
ہیں جن کوابھی دو نشستیں بھی نہیں ملی تھیں اور ان کا سرآسمان کو چھورہاتھا۔
3۔دہلی جیسی گنجان آباد اوروسیع زمینی علاقہ کی حامل ریاست کیلئے محض چھ
وزراء جبکہ ہمارے ہاں ایسے محکموں کے وزیربھی رہے ہیں جن محکموں کا قیام
کاغذں تک محدود رہا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ دن کب آئے گا کہ ہم بھارت کے مثبت
اقدامات کی تقلیدکریں گے ؟کیا ہم صرف ایٹم بم کے بدلے ایٹم بم بناسکتے
ہیں؟میزائل کے بدلے میزائل ؟ دفاع اشد ضروری مگر ٹیکنالوجی‘آئی
ٹی‘ڈیمز‘مضبوط خارجہ پالیسی‘خودداری ‘اپنی ثقافت کاتحفظ ‘زرعی میدان میں
انقلابی اقدامات ‘تجارت ‘اور تسلسل کے ساتھ چلتاسیاسی نظام ‘کیایہ سب میدان
قابل تقلید یارشک کے قابل نہیں ہیں؟ |