پنکی سے شہادت تک

27دسمبر 2013بینظیر بھٹوشہید کی برسی پر خصوصی ایڈیشن کے لئے

بچھڑا کس اس ادا سے کہ رُت بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
27 دسمبر2007کا دن پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام کرگیاکیونکہ اس دن پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی ہر دلعزیزلیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کوشہید کردیا گیاتھا ۔ ان کی شہادت کا دکھ عوام آج تک نہیں بھولی۔ مجھے یا د ہے جس روز یہ واقعہ ہوا میں پیپر دیکر آرہا تھا ۔ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کررہا تھا جب مجھے فون پر اطلاع دی گئی کہ لیاقت باغ میں پی پی کے جلسے میں خودکش حملہ ہوگیا ہے ۔جس میں بے نظیر شہید ہوگئیں ہیں۔ مجھے اس کی یہ بات سن کر یقین نہیں آیا مگر جب میں اپنے بس سٹاپ پر اترا تو مجھے دیکھ کر ایسا لگا جیسے دھماکہ پنڈی میں نہیں میرے شہرمیں ہوا ہے۔ہر طرف خاموشی خاموشی اور سوگ کا ماحول تھا۔ ہر کوئی محترمہ ’’ پنکی ‘‘کی بات کررہا تھا خواہ وہ کیسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔یہ کوئی شک والی بات نہیں محترمہ بینظیر بھٹو ملک کے چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں ۔ محترمہ بینظیربھٹوکے قتل کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست کا ایک باب جو بھٹو خاندان کے نام سے چل رہا تھاوہ ختم ہوگیا۔جو اب کبھی بھی شروع نہیں ہوسکتا۔محترمہ نے اپنی جان اپنے باپ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے اصولوں پر چلتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے دی۔

محترمہ بینظیر بھٹو21جون1952کو پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ۔ اس کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئیں اور اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ پنکی کے نام سے پکاری جانے والی بچی نے 15سال کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کیا اور پھر اے لیول مکمل کرنے کے بعد کراچی آگئی ۔پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک چلی گئی ۔ 5سال تک ریڈکلف کالج اور ہارورڈیونیورسٹی امریکہ میں زیرتعلیم رہی۔ اسی دوران بی اے کی ڈگری حاصل کی اور وہاں سے مزید تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلی گئی ۔ یہاں آکسفورڈمیں فلسفہ ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے انہیں پڑھا ا وراس کے علاوہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کے مضامین میں بھی خاصی دلچسپی لی۔ 1976میں آکسفورڈیونین کا صدر بھی بننے کااعزاز حاحل کیا ۔

بے نظیر کی شادی 18دسمبر1987کوزرداری خاندان کے نوجوان آصف علی سے ہوئی ۔بے نظیر کی اولاد میں تین بچے بلاول ،بختاور اورآصفہ ہیں۔ اس حقیقت سے نہ صرف اہل پاکستان ہی اچھی طرح سے واقف ہیں بلکہ ساری دنیا بھی یہ خوب جانتی ہے کہ بھٹوخاندان کا چراغ کس طرح گل ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکوپھانسی دی گئی ۔ ان کے بڑے بیٹے شاہ نواز بھٹوکو زہردے کر ہلاک کردیاگیا ۔ پھر ان کے بعدمحترمہ کے دوسرے بھائی مرتضی بھٹو کو بھی ہلاک کر دیاگیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کا سفر سیاست کا آغاز جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ملک میں ہو نے والے 1988کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بارنئے جذبے کے ساتھ شریک ہوئی اور ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہو ئی۔ اس طرح 1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک کی بلکہ امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں ۔

1993کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر کامیاب ہوئی تو محترمہ بینظیر بھٹو کو ملک کا دوسری بار وزیراعظم منتخب کرلیا گیامگر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں اپنی حکومت کا خاتمہ کرایا۔1998میں نواز شریف کے دوراقتدار میں کو جلاوطنی اختیا ر کرنی پڑی ۔ 12اکتوبر1999 کو جب جنرل پرویزمشرف نوازشریف کی حکومت پر شب خون مارکرملک پر قابض ہوگیا اورنوازشریف کو ان کے اہل خانہ سمیت راتوں رات جہاز میں بٹھا کر جلاوطن کردیا۔ پہلے تو صرف محترمہ ہی ملک سے باہر تھیں اور اب تو نوازشریف بھی ملک سے باہر تھے۔ کچھ عرصہ بعدجب پرویز مشرف پر عالمی دباؤبڑھا تو اس آمر جنرل نے محترمہ بھٹو سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کردی۔جب بے نظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر2007کو کراچی واپس آئیں تو ان کے تاریخی استقبالیہ جلوس میں بم دھماکہ ہوا۔ اس قاتلانہ حملے میں محترمہ بینظیر بھٹو خوش قسمتی سے محفوظ رہیں۔ آپ بلاخوف وخطرملک کے کونے کونے میں اپنے انتخابی جلسے اورجلوسوں کی قیادت کرتی رہیں مگر27دسمبر2007کو جب ایک انتخابی جلسے کے دوران راولپنڈی کے لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو پر آخری قاتلانہ حملہ اس وقت ہواجب خطاب کے بعداپنی گاڑی میں سوار ہوکرواپس جارہی تھیں۔ اس دوران لیاقت باغ نے خون سے اپنی زمین کورنگین کر لیا۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی ا سی باغ میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی شہید کیا گیاتھا۔

افسو س اس بات کا ہے کہ آج پانچ سال گزرجانے کے باوجود محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث عناصر منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔ شہید بے نظیر کے جدا ہونے کے بعد آج ملک میں ہر جگہ انارکی پھیل رہی ہے ۔ وہ سیاستدان جو پاکستان کی اکائی کے لیے جان نثار کر گئی آج اسی کی جماعت کی حکومت اپنی مدت پوری کرگئی مگر بے نظیر کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ بھٹو خاندان کے تمام لوگوں کو کسی نہ کسی طرح قتل کیا گیا مگر آج تک ان میں سے کسی ایک کے قاتلوں کا سراغ نہ لگ سکا۔ پی پی کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کیے اور ان کے ساتھ ساتھ زرداری نے بھی اپنے صدارت کی مدت مکمل کی مگر وہ بھی اپنی بیگم کے قاتلوں کوبے نقاب نہ کراسکے۔ اب اس بات سے آپ خود اندازہ لگالیں جو اپنے لیڈروں کے قاتلوں کو نہ پکڑ سکے تووہ عام پبلک کے لیے کیا کریں گے؟

بے نظیر کے برسی کے موقع پر ہماری اﷲ تعالیٰ سے یہی دعاہے کہ اﷲ دختر پاکستان بے نظیر بھٹو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اورساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ اس ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.