ممتاز صحافی ،دانشور ٗ کشمیری
رہنما ٗ ہفت روزہ ’’کشیر‘‘ کے ایڈیٹر ٗ خواجہ عبدالصمد وانی(مرحوم) کی
شخصیت کشمیریوں کے ا ن جذبات کی عکاس ہے کہ کشمیری پاکستان سے کس طرح کی
والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ وانی صاحب نے ساڑھے چودہ سال کی عمر میں
نظریہ پاکستان کے مقصد سے 1950 ء میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کی اور آخری دم
تک نظریہ پاکستان کے پرزور داعی رہے ۔ نظریئے کے بارے میں وانی صاحب پر
کبھی بھی کمزور لمحات حاوی نہیں ہو سکے۔ برصغیر اور کشمیر کے مختلف شعبوں
سے متعلق وانی صاحب حیرت انگیز معلومات رکھتے تھے۔ تاریخ ٗ سیاست اور حالات
حاضرہ کے ہرموضوع سے متعلق ٗ وانی صاحب کی معلومات سے کئی اہم شعبوں کے
افراد اپنی معلومات ’اپ ڈیٹ ‘ کرتے تھے۔ آزادکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ
مطالعہ کشمیر کی مجلس مشاورت کے علاوہ وانی صاحب پاکستان کی تمام
یونیورسٹیوں میں واحد غیر سرکاری رکن رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ
کشمیر یات میں وانی صاحب کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مکالمہ لکھا گیا اوراب
نئی دہلی کی جواہر لال ریسرچ یونیورسٹی میں ایک کشمیری پنڈت وانی صاحب کی
شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مکالمہ تیار کررہا ہے۔ وانی صاحب کی ناگہانی وفات سے
کشمیر کے مختلف شعبوں کی تاریخ کے کئی اہم باب ہمیشہ کیلئے کھو گئے ہیں ٗکیونکہ
اب تاریخ کے یہ واقعات کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ مقبوضہ کشمیر میں وانی
صاحب کی وفات پر کئی تعزیتی تقریبات منعقد ہوئیں ٗ جن میں مقبوضہ کشمیر کے
دانشور وں ٗ حریت پسند رہنماؤں ٗ صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات نے وانی
صاحب کی مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی وفات کو
کشمیر اور کشمیریوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان اور ایک المیہ قرار دیا ہے۔
کشمیریوں کے لئے وانی صاحب کی وفات ایک دھچکہ ثابت ہوئی ہے اور پاکستان بھی
اپنے ایک پرفخر اثاثے سے محروم ہوگیا ہے۔ وانی صاحب آل جموں وکشمیر مسلم
کانفرنس کو صرف ایک جماعت ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام دیتے تھے ٗ ایک
ایسی تحریک جس کا مقصد ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا حصول اور
ان کی ترقی و سربلندی ہے۔ مسلم کانفرنس سے وانی صاحب کی دیرینہ اور گہری
وابستگی نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر استوار رہی ہے۔ اب کوئی ایسا شخص
نہیں جو تحریک آزادی کشمیر اور کشمیر کے ہر فردسے بخوبی واقف ہو۔ یہ بات
بھی ایک حقیقت ہے کہ وانی صاحب کے انتقال سے مسلم کانفرنس ایک مضبوط
نظریاتی چٹان سے محروم ہوگئی ہے۔
وانی صاحب نے قائدکشمیر چوہدری غلام عباسؒ کے کہنے پر یکم جنوری 1966 ء کو
راولپنڈی اور مظفرآبادسے ہفت روزہ اخبار ’’کشیر‘‘ جاری کیا اور اپنے36 سالہ
دور’’ ادارت‘‘ میں وانی صاحب نے ’’کشیر‘‘ کو کشمیریوں کا ترجمان اور کشمیری
صحافت کا پرفخر نشان بنا دیا ہے۔ ہفت روزہ ’’کشیر‘‘ آزادکشمیر ٗ مقبوضہ
کشمیر ٗ پاکستان اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں میں یکساں مقبول و معروف ہے ۔
مسئلہ کشمیر اور آزادو مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اندرونی صورتحال سے آگاہی
کا ٗ ’’کشیر‘‘ ایک موثر ذریعہ ہے۔ وانی صاحب نے ’’کشیر‘‘ کو نظریہ پاکستان
اور کشمیریوں کے حقوق کے حصول کا پرزور داعی بنایا ہے۔’’کشیر‘‘ نے ہمیشہ
نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر تعمیری تنقید کے انداز کی ترویج کی ہے۔
کشمیریوں کی نسل درنسل جدوجہد اور قربانیاں اس بات کی نوید ہیں کہ بھارت سے
آزادی کی جدوجہد ایک دن کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔خواجہ عبدالصمد وانی کی
شخصیت ٗ سیاست و صحافت پر طائرانہ جائزہ پیش ہے۔
خواجہ عبدالصمد وانی 2 اکتوبر 1935 ء میں سری نگر بانڈی پور روڈ پر
اتھارہویں میل پر واقع ایک تاریخی گاؤں صفا پورہ کے محلہ میں معزز وانی
خاندان کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اس خاندان کا آبائی پیشہ تجارت
ہے۔ دنیا کے سینئر ترین ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن وانی کے مطابق
کشمیر کے قدیم دور میں سنسکرت کے عالم کو وانی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی تعلیم
انہوں نے پرائمری سکول صفا پورہ پبلک سکول جس مڈل سکول سمبل ٗلوئر ہائی
سکول گاندر بل اور گورنمنٹ ہائی سکول بانڈی پور سے حاصل کی۔ سکول کے زمانے
سے ہی آپ نے خاندانی روایت کے مطابق آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور تحریک
پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کی۔ مسلم کانفرنس کو نومبر 1947 ء میں بھارتی
حکام کی طرف سے خلاف قانون قرار دیا گیا آپ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی
طلبہ تنظیم جموں وکشمیر مسلم سٹوڈنٹس یونین کے علاقائی پبلسٹی سیکرٹری مقر
ر ہوئے۔ 1950 ء میں اقوام متحدہ کے نمائندے سراوون ڈکس نے کشمیر کا دورہ
کیا تو اس موقع پر کشمیری نوجوانوں نے جگہ جگہ ٗ بھارت کے خلاف اور پاکستان
کے حق میں پرجوش مظاہرے کئے۔ ایک ایسے ہی مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے مقبوضہ
کشمیر کی پولیس نے خواجہ عبدالصمد وانی کو گرفتار کر کے شدید تشدد کے بعد
بدنام زمانہ تھانہ کوٹھی باغ سری نگر کی حوالات میں قید کر دیا۔ جو بھارت
مخالف پاکستان کے حامیوں کے لئے ایک سب جیل تھی۔ جون 1950 ء کا مہینہ آپ
اسی سب جیل میں مقید رہے۔ یکم جولائی کو رہائی کے بعد انہیں پولیس کے مقامی
چوکی آفس شادی پورہ میں ہر ہفتے حاضر ی دینے کا پابند کیا گیا۔ مقبوضہ
کشمیر کی پولیس کے ظلم و ستم اور تشدد سے تنگ آکر آپ پاکستان کی عقیدت اور
آزادی کی تلاش میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر کے آزادکشمیر /پاکستان
آئے۔ انہوں نے 25 اگست 1950 ء کو وادی نیلم کے بالائی علاقے کے ایک مقام
جندر سیری کے مقام سے جنگ بندی لائن (حال کنٹرول لائن عبور کی ۔ یکم ستمبر
1950 ء کو مظفرآباد اور 8 دسمبر کو راولپنڈی پہنچے۔ یہاں آپ نے اپنی تعلیم
مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں نہایت سرگرم رہے
اور 1954 ء میں مسلم کانفرنس کی راولپنڈی شاخ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔
17 اگست 1955 ء میں سردار عبدالقیوم خان کو پہلی بار مسلم کانفرنس کا صدر
منتخب کیا گیا تو خواجہ عبدالصمد وانی مسلم کانفرنس کی انتظامی کمیٹی کے
سیکرٹری تھے۔ جون 1958 ء میں ممتاز کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس مرحوم
اور انکے ساتھیوں نے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں پہلی بار جنگ بندی لائن
کو توڑنے (عبور کرنے) کی تحریک ’’کے ایل ایم ‘‘ (کشمیر لبریشن موومنٹ) شروع
کی تو وانی صاحب بھی اس تحریک کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے قید ہوئے اور
ساڑھے تین ماہ تک راولپنڈی سنٹر ل جیل اور اٹک ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند رہے۔
1960 ء میں مسلم کانفرنس کی تنظیم نو میں وانی صاحب نے سرگرمی سے حصہ لیا۔
مئی 1961 ء میں سردار عبدالقیوم خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس کا سالانہ
اجلاس مظفرآباد میں منعقد ہوا۔ وانی صاحب اس اجلاس کی مرکزی انتظامی کمیٹی
کے سیکرٹری تھے اور انہیں 25 سال کی عمر میں مسلم کانفرنس کا مرکزی پبلسٹی
سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ خواجہ عبدالصمد وانی نصف صدی سے آل جموں وکشمیر مسلم
کانفرنس سے وابستہ ہیں اور آپ اس کے کئی اہم اور مرکزی عہدوں پر فائز رہے
ہیں جنمیں چار سال پبلسٹی سیکرٹری تیس سال خازن ٗ چارسال چیئرمین پبلسٹی
بورڈ اور چار سال مرکزی نائب صدر کے علاوہ مسلم کانفرنس کی دستور ی اساسی
کمیٹی ‘ منشور کمیٹی کے رکن اور پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری اور رکن رہے ہیں۔
وانی صاحب ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ ساز جماعت مسلم کانفرنس کے ان چند
شخصیات میں شامل ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف اس جماعت کی نظریاتی روایات کو
برقرار رکھنے میں اہم کردار اداکیا بلکہ جماعت کے اصولوں کی بھی ترویج کی۔
آپ 1951 ء سے 1965 ء تک پاکستان آزادکشمیر کے مختلف اخبارات و جرائد میں
کشمیر کے بارے میں مضامین لکھتے رہے اور یکم جنوری 1966 ء کو مظفرآباد /
راولپنڈی سے ایک ویکلی اخبار ’’کشیر‘‘ جاری کیا جسے کشمیر کے تمام شعبوں کے
’’معلومات نامے‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور ’’کشیر‘‘ کو آزادکشمیر و پاکستان
میں کشمیری صحافت کا واحد نمائندہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ’’کشیر‘‘
ریاست جموں وکشمیر کا سب سے کثیر الاشاعت جریدہ ہے اور دنیا بھر میں کشمیر
کاز کا ایک موثر ترین ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ جواہر لعل نہرو ریسرچ
یونیورسٹی نئی دہلی نے ریاست جموں و کشمیر کی صحافت سے متعلق اپنی ایک
تحقیقاتی رپورٹ میں ’’کشیر‘‘ کو ریاست جموں وکشمیر میں انیسویں صدی کے چھ
بہترین اور معیاری اور موثر اخبارات و جرائد میں شامل کیا ہے۔ کلکتہ سے
شائع ہونے والے (سنڈے ویکلی) نے 1990 ء میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ خواجہ
عبدالصمدوانی کی زیر ادارت شائع ہونے والا ’’کشیر‘‘ آزادکشمیر کا سب سے
بااثرجریدہ ہے۔’’کشیر‘‘ کو یہ اعزاز بھی اصل ہے کہ لائبریری آف امریکن
کانگریس ٗ نیشنل لائبریری کلکتہ اور جواہر لعل یونیورسٹی نئی دہلی سمیت
دنیا بھر کی 45 لائبریریاں ’’کشیر‘‘ کی مکمل فائل مرتب کرتی ہیں۔
کشمیر کے تمام موضوعات کے بارے میں وانی صاحب کو ایک ’’اتھارٹی‘‘ کی حیثیت
حاصل ہے۔ کشمیر کی تاریخ ٗ جغرافیہ ٗ تمدن ٗ زبانٗ ادب ٗ سیاست اور تحریک
آزادی کے بارے میں وانی صاحب کی معلومات مکمل اور معتبر حیثیت کی حامل ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر اور کشمیر کاز کے لئے وانی صاحب کی سیاسی ٗ صحافتی اور
ادبی شعبوں میں منفرد خدمات کشمیر کی موجودہ تحریک کا ایک لازمی حصہ ہیں۔
حکومت آزادکشمیر نے تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں 1987 ء میں ’’کشمیر
لبریشن سیل‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ٗ وانی صاحب اس کی پالیسی ساز
مجلس کے رکن اور آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد میں ادارہ مطالعہ
کشمیر کے مشاورتی بورڈکے رکن ہیں۔ آپ متعدد بار حکومت آزادکشمیر کی پریس
مشاورتی کمیٹی جس کے چیئرمین صدر اور وزیراعظم (آزادکشمیر ) ہوتے ہیں ٗ کے
رکن رہے ہیں۔ آپ آزادکشمیر کی بارہ سے زائد مختلف خصوصی کمیٹیوں کے رکن ہیں۔
وانی صاحب پاکستان کے اخبارات وجرائد کے مالکان کی تنظیم ’’اے پی این ایس‘‘
کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں اور کئی بار اس کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے
ہیں آپ پاکستان کے اخبارات و جرائدکے ایڈیٹروں کی تنظیم ’’سی پی این ای‘‘
کی مجلس عاملہ کے بھی متعدد بار رکن منتخب ہوئے ہیں۔
وانی صاحب کی ذاتی لائبریری کشمیر کے مختلف موضوعات کی کتابوں ٗ ممتاز
اخبارات وجرائد اور تاریخی دستاویزات پر مشتمل ہیں اور یہ کشمیر پر دنیا
بھر میں بہترین ذخیرہ کتب ہے۔ وانی صاحب نے آزادکشمیر ٗ مقبوضہ کشمیر اور
پاکستان کے اخبارات و جرائد میں کشمیر اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے
بارے میں سینکڑوں مضامین لکھے ہیں۔ وانی صاحب تحریک آزادی کشمیر کے بارے
میں دو اہم کتابوں کے ایل ایم (تحریک آزادی کشمیر ) اور ’’کشمیرکی کہانی‘‘
(تحریک حریت کشمیر) کے مولف ہیں۔ جبکہ ان کی تحریر کردہ کم سے کم پانچ
کتابیں مسودے کی شکل میں موجود ہیں۔
وانی صاحب نے نیشنل کے ایچ خورشید لائبریری مظفرآباد کو کشمیر کے بارے میں
کئی نادر کتابیں عطیہ کی ہیں۔ اس لائبریری میں وانی صاحب کی طرف سے دی گئی
کتابوں پر مشتمل ایک خصوصی کارنر’’وانی کولیکشن‘‘ کے نام سے قائم ہے۔ خواجہ
عبدالصمد وانی ریاست جموں وکشمیر کے پہلے سیاستدان ٗ صحافی اور دانشور ہیں
جو ریاست کے ہر علاقے سے واقف ہیں ٗ جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر کا ہر
علاقہ ٗ وادی کشمیر ٗ جموں ٗ آزادکشمیر ٗ گلگت بلستان تفصیلی طور پر دیکھا
ہے۔ ریاست جموں وکشمیر اس وقت کل 26 انتظامی اضلاع میں تقسیم ہے۔ وانی صاحب
مقبوضہ جموں و کشمیر ٗ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے ہر
ضلع اور علاقے میں گئے ہیں۔ تحریک حریت کشمیر کے ایک بانی رہنما چوہدری
غلام عباس مرحوم نے اپریل 1966 ء میں اپنے ایک خط / پیغام میں لکھا کہ
’’وانی صاحب کی اسبات رائے ٗ سیاسی عقائد کی پختگی اور مضبوطی مسلسل جماعتی
وفاداری اور کشمیر کے سلسلے میں ان کا رسوخ از م جانی پہنچانی چیزیں ہیں‘‘۔
آزادجموں وکشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور تحریک آزادی کشمیر کی جامع
تاریخ ’’کشمیری فائٹ فار فریڈم‘‘ کے مولف جسٹس ریٹائرڈ خواجہ محمدیوسف صراف
محروم نے مارچ 1960 ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے نوجوان
کارکنان میں وانی صاحب سب سے ذہین ٗ تجربہ کار ٗ بالغ النظر اور
باشعورکارکن ہیں‘‘ جموں و کشمیر کلچرل اکادمی سرینگر کے سابق سیکرٹری ٗ
ممتاز کشمیری ادیب اور دانشور محمدیوسف ٹینگ نے جولائی 1983ء کو سرینگر
کلچر ل اکادمی کی طرف سے وانی صاحب کے اعزاز میں ایک خصوصی استقبالیہ سے
خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وانی صاحب اور ان کا جریدہ ’’کشیر‘‘ ریاست
جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے حصوں کے درمیان ایک پل کی
حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے معروف صحافی اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد میاں محمد شفیع
(م ۔ش) نے اپنے جریدہ اقدام مورخہ 7 مئی 1961 ء میں لکھا تھا کہ ’’وانی
صاحب ایک محبت وطن کشمیری فرزند ہیں اور انہوں نے کشمیر کی تاریخ کا غائر
مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کی ہر تحریک میں ایک اہم کارکن کی
حیثیت سے حصہ لیا ہے‘‘ مورخہ 3 مئی 1975ء کو میاں محمد شفیع (م ۔ش) نے وانی
صاحب کو ایک خط لکھا جو ’’کشیر‘‘ مورخہ 10 مئی 1975 ء کی اشاعت میں ان
الفاظ میں شائع ہوا تھا۔’’ آپ جس بہادری اورغیرت سے آزادی کشمیر کی جنگ
جمہوریت لڑ رہے ہیں اور جس طرح مخصوص مفاد کے گماشوں کو بے نقاب کر رہے ہیں
اس پر میری طرف سے ہدیہ تبریک قبول فرمائیں۔ میں آپ کیلئے دعا کرتا رہوں گا
کہ آپ کا قلم حق و صداقت کی حمایت میں چلتا رہے‘‘۔
1988 ء اور 1989 ء سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف جو مسلح جدوجہد
شروع ہوئی ہےٗ اس تاریخ ساز اور انقلاب آفرین تحریک میں خواجہ عبدالصمدوانی
کا ایک اہم کردار ہے۔ آپ ریاست جموں وکشمیر کے دونوں طرف مقبوضہ جموں
وکشمیر ٗ آزادکشمیر اور پاکستان کے کشمیری رہنماؤں ٗ صحافیوں ٗ ادیبوں اور
دانشوروں کے درمیان ایک موثر رابطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وانی صاحب کے
مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر طبقے بالخصوص سیاست دانوں ٗ صحافیوں اورعلمی و
ادبی شخصیات اور مختلف شعبوں کی اہم شخصیات سے بھی ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔
ان کا جریدہ ’’کشیر‘‘دنیا بھر کے کشمیریوں میں ایک موثر اور وسیع حلقہ اثر
اورحلقہ قارئین رکھتا ہے۔ خواجہ عبدالصمدوانی کو ریاست جموں وکشمیر کے
دونوں حصوں کی سیاست ٗ صحافت تاریخ اور ادب میں ایک منفرد مقام و حیثیت
حاصل ہے۔ پاکستان کے بعض اور ممتاز سیاستدانوں ٗ صحافیوں ٗ کالم نویسوں
ٗادیبوں اوردانشوروں سے بھی ان کے ذاتی تعلقات کا ایک وسیع میدان ہے۔ وانی
صاحب اور ’’کشیر‘‘ کو تحریک آزادی کشمیر اور جموں وکشمیر میں تحریک پاکستان
کا ایک اہم نظریاتی اور موثر ترین ترجمان مانا جاتاہے اور یہ تحریک آزادی
کشمیر اور کشمیر کاز کا ایک گراں قدر اثاثہ ہیں۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف موجودہ مسلح جدوجہدکے حوالے سے
آزادجموں وکشمیر کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمدیوسف صراف نے 1984 ء میں ایک
خط میں لکھا تھا’’ جب خواجہ عبدالصمد وانی نے 1983 ء میں مقبوضہ کشمیر کا
دورہ کیا تو اس وقت تک دوسرے کئی لوگوں نے بھی تحریک آزادی کشمیر کی خاطر
مقبوضہ کشمیر کے دورے کئے لیکن ان سے جتنے لوگ بھی گئے۔ سب میں سے اہم ترین
ٗ بامقصد ٗ مفید اور موثر دورہ آپ کا ہے‘‘۔
آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد کے شعبہ مطالعہ کشمیر کی مجلس مشاورت
کے علاوہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں آپ واحد غیر سرکاری رکن رہے ہیں۔
پاکستان کے کالم نویسوں اور سیاسی مبصرین نے وانی صاحب کو پاکستان میں
’امورکشمیر ‘کا سب سے بڑا ’ماہر‘ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے معروف اور ممتاز
تعلیمی ادارے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے وانی صاحب کو ایم
فل کی ڈگری کیلئے اپنے ایگزامینر پینل میں شامل کیا ہوا ہے۔ یکم ستمبر
2001ء کو وانی صاحب کو آزادکشمیر کے وزیراعظم سردارسکندرحیات خان کا معاون
خصوصی مقرر کیا ۔ اس طرح وانی صاحب اپنی نصف صدی کی سرگرم سیاسی اورصحافتی
زندگی میں پہلی بار آزادجموں وکشمیر کے سرکاری سیٹ اپ میں شامل ہوئے۔
31 دسمبر 2001 ء کو مظفرآباد میں خواجہ عبدالصمد وانی اچانک ’’ہارٹ اٹیک‘‘
کی وجہ سے 66 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ خواجہ عبدالصمدوانی کے انتقال
پر ان کے سوگ میں 31 دسمبر 2001 ء کو آزادکشمیر میں سرکاری تعطیل کی گئی
اور اس دن آزادکشمیر کا پرچم سرنگوں رہا۔ مظفرآباد کے جلال آباد گارڈن میں
نماز جنازہ کے بعد ان کی میت راولپنڈی پہنچی جہاں عصر کے بعد دوبارہ نماز
جنازہ ادا ہوئی اور انہیں ایف بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے شاہ قاف
قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
عمائدین و قائدین ملت ٗ سامعین و حاضرین ٗ وقت پہلے ہی بہت زیادہ ہو چکا ہے
اور نماز مغرب قریب ہے اور ماسوائے سردارعتیق صاحب باقی سب نے اپنے اپنے
علم اور وقت کے مطابق جناب عبدالصمد وانی صاحب کے متعلق باتیں کی ہیں۔ کچھ
ایسی باتیں بھی یہاں پر ہوئی ہیں جو شاید لوگوں کے علم میں نہ ہوں ۔ صمد
وانی صاحب کے متعلق میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا اس لئے
کہ عبدالصمد وانی صحافت میں اور گلزار احمد فدا یہ دو ان کے اخبارات وہ
نظریہ الحاق پاکستان اور نظریہ الحاق پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے آرگن
تھےٗ ان کی آواز تھے ٗ دونوں آج ہم سے جدا ہیں۔ صمد وانی صاحب کو 1970 ء کے
الیکشن میں دیکھا وہ پارلیمانی بورڈ کے ممبر تھے اور میں ان کے سامنے ایک
کینیڈیٹ کے طورپر پیش ہوا ۔ اس سے پہلے جماعت کی آرگنائزیشن کے سلسلے میں
بشارت احمد شیخ ٗ محمد علی کنول صاحب مرحوم اور صمد وانی صاحب یہ 1960 ء کی
دہائی کی بات ہے ٗ یہ دوردراز علاقوں کے دورے کرتے ٗ انہوں نے کہا کہ ہم نے
کریلہ مجہان جانا ہے والد مرحوم کے پاس تو میں نے کہا کہ وہاں سڑک جاتی ہے
آپ جائیں۔ یہ ان دنوں کی بات جب کوئی کوئی نظریئے اور جماعت کی بات کرتا
تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں ٗ مغموم صاحب یہاں بیٹھے ہیں ٗ مفتی صاحب ہیں ٗ یہ وہ
لوگ ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں جماعت کا ساتھ دیا۔ میں نے صمد وانی
صاحب کو ایک کٹر پاکستانی دیکھا اس میں کوئی کشمیر ٗ بلکہ ایک مرتبہ میں نے
وانی صاحب سے پوچھا کہ اسلام اور پاکستان میں آپ کس طرح موازنہ کریں گے تو
کہنے لگے کہ دیکھیں جی پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ اتنے راسخ
العقیدہ پاکستانی میں نے نہیں دیکھا۔ دوسری بات میں آپ سے یہ گزارش کروں گا
کہ جہاں تک ایک غیرت مند کشمیری ہونے کا تعلق ہے ٗ میں نے صمد وانی سے بڑھ
کر کوئی اتنا غیرت مند کشمیری ٗ دونوں طرف کے لوگوں کو اوراس کشمیر میں صرف
صوبہ کشمیر یا ویلی نہیں ہے ٗ ریاست جموں وکشمیر اس سے مراد ہے ۔ بہت
’’ویلیوڈ‘‘ انسان تھے۔ کبھی انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ٗ یہ
میں آپ کو اس ایڈوائزری کا قصہ بھی سناؤ ٗ ہم نے ہمیشہ کوشش کی وہ روزاول
سے پارلیمانی بورڈ کے ممبر ہوتے تھے ٗ ہم نے ان کو کونسل کی نشست پیش کی
سردار عبدالقیوم خان صاحب اور میں نے انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو کمتر
نہیں کرنا چاہتا ٗ یہ دانشوروں کی بھی محفل ہے ٗ بیوروکریٹس بھی اس میں
موجود ہیں ٗ عمائدین بھی ہیں ٗ ابھی ایک چھوٹی سی خبر نکلی ہے کہ
ایڈمنسٹریٹر آزادکشمیر میں لگنے ہیں تو میں ویسے ہی چھپتا پھرتا ہوں کہ
لوگوں سے کیسے جان چھڑائی جائے ٗ صمد وانی صاحب کو ہم نے کئی بار کہا کہ وہ
کونسل کے ممبر بنیں۔ الیکشن لڑیں ٗ انہوں نے ہمیشہ انکار کیا کہا کہ میں
اپنی حیثیت کو کم نہیں کرناچاہتا۔ کیا شخص تھا۔۔۔! یہاں محفل میں میرے دوست
حمید اختر موجود ہیں ٗ اس دفعہ مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے کہا کہ میں
ایڈوائزر کے طورپر جانے کیلئے تیار ہوں میں نے وانی صاحب سے کہا ٗ ’’موسٹ
ویلکم ‘‘ بناتا ہوں ٗ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ تبدیلی کیوں ۔ انہوں نے کہا
کہ ایک خبر آئی ہے اخبار میں کوٹلی والے راجہ اکرم صاحب کی طرف سے کہ مجاہد
اول اور سکندر حیات کے بعد جماعت میں ٗ میں سینئر ترین آدمی ہوں۔ تو وانی
صاحب کا کہنا یہ تھا کہ مجھے خیال آیا کہ سنیارٹی شروع کہاں سے ہوتی ہے۔
شاید یہ فلیگ سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے کہ راجہ اکرم صاحب اور میں 1970 ء
میں ان کے پاس ٹکٹ کے لئے آئے۔ وہ قائد ملت کے ساتھ بیٹھے تھے جب ہم طالب
علم تھے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت میں اب یہ بات ہوگئی ہے کہ سنیارٹی کی ٗ
انہوں نے کہا کہ میں تو قائد ملت ٗ مجاہد اول کا ساتھ ساتھ کا ساتھی ہوں۔
وہ اتنے بےغرض تھے ٗ ان کے نزیک شہرت کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ یہ بات میں
آپ سے گزارش کروں کہ بے غرض آدمی تھے ٗ بے غرض دوست ٗ بے غرض ساتھی ٗ کم گو
ٗ شرافت کا مجسمہ اور یہ کیا بات ہے کہ ان کی ہرکوئی عزت کرتا تھا ٗ جماعت
میں بھی اور جماعت کے علاوہ بھی ٗ ان کے نظریات کے لوگ بھی اور ان کے
نظریات کے علاوہ بھی ٗ اس لئے کہ وہ بھی لوگوں کی عزت کرتے تھے وہ کسی کو
کافر نہیں کہتے تھے جس طرح ہم فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں چونکہ
ہمارے نظریئے کا آدمی نہیں ہے تو یہ کافر ہوگیا ہے ۔ وہ سبھی کے دلوں کی
دھڑکن ایک ایسے دوست تھے ایک ایسے ساتھی تھے ایک ایسے صحافی تھے جو ہم سے
بچھڑ گئے اور میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک لیڈر شپ ۔۔ کہنے لگے
چھوڑیں ٗ میں نے کہا پھر بھی تو کہنے لگے کہ میں قائداعظم کے بعد صرف قائد
ملت سے متاثر ہوا ہوں ایک کو قریب سے دیکھا ہے ٗ ان کے متعلق ہم نے پڑھا ہے
جس شخص نے قائد ملت کے پہلو میں بیٹھ کر سیاست کی تربیت حاصل کی ہو وہ تو
پھر بڑی غنیمت بات ہے۔ میں نے بلا کی ذہانت ان میں دیکھی ہے ٗ کبھی میں نے
پنسل سے انہیں لکھتے نہیں دیکھا ٗ رپورٹنگ جب ہوتی تھی تو صرف بحرف ٗ جیسے
کوئی کمپیوٹر ہو اسی طرح گلزار احمد فدا ٗ سردار عبدالقیوم خان صاحب کا
کہنا ہے کہ میری بات سیاق و سباق ملا کر پیش کرنے والے صرف شیخ گلزار احمد
فدا تھے ۔ آج تو ویسے ڈر لگتا ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں اخبار میں صبح کچھ اور
لکھا ہوتا ہے۔ تردید کرو تو وہ تردید پہلے سے بھی بری ہو جاتی ہے۔ لیکن
اتنی دیانتدار رپورٹنگ ٗ اتنی بے باک تنقید ٗ میرے متعلق ٗ میرا ان کے ساتھ
ہمیشہ تعلق رہا لیکن جب گورنمنٹ پر وہ تنقید کرتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ
میں اور صمد وانی صاحب شاید کبھی ملیں گے بھی نہیں۔ اسی طرح سردار عبدالقیو
م خان صاحب کے وقت ٗ کاش جماعت میں ایسے لوگ ہوں لیکن ایسے کوئی نہیں ہیں ٗ
اب صمد وانی صاحب جیسے لوگ نہیں ہیں ٗ غازی الٰہی بخش صاحب جیسے لوگ نہیں
ہیں۔ اس لئے جماعت میں ٗ میرے پاس آئے تو ٹھیک سات سلامت ٗ عتیق صاحب کے
پاس گئے تو سات سلامت ادھر گئے تو پھر بھی ٹھیک ٗ ادھر گئے تو پھر بھی ٹھیک
اس طرح جماعت ٹھیک نہیں رہ سکتی ۔ ان لوگوں کی کمی تو گئی ہے جو صرف اور
صرف نظریات کے لئے صرف اور صرف اسلام اورپاکستان کی سربلندی کے لئے ٗ کشمیر
کی آزادی کے لئے کام کرتے تھے ٗ وہ رفتہ رفتہ ہم سے جدا ہو رہے ہیں جس کی
وجہ سے ایسا خلاء پیدا ہورہا ہے کہ وہ خلاء مشکل سے ہی پر ہوگا۔ دوسری بات
آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں پولیٹیکل آفس کی بات کرتا ہوں تو کتنا فساد
ہوتا ہے کہ مجھے صدر بنا دیا جائے مجھے جنرل سیکرٹری بنا دیا جائے ۔ ہمیشہ
ہم نے کوشش کی کہ کنول صاحب کے بعد یا کنول صاحب کی موجودگی میں بھی کہ
انہیں جماعت کا جنرل سیکرٹری بنایا جائے Unoppose آل جموں وکشمیر مسلم
کانفرنس کا ٗ ہمیشہ انہوں نے انکار کیا ۔ یہ بھی بے غرضی کی ایک مثال ہے ٗ
اور پھر امانت اتنی کہ ہمیشہ ہم نے کہا کہ ہمیں کسی پر اعتماد نہیں ہے آپ
سیکرٹری مالیات ہوں گے اور وہ آخر تک مسلم کانفرنس کے سیکرٹری مالیات رہے ٗ
بعض اوقات انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ صحافت سدراہ ہوتا ہے اس میں تو ہم نے
کہا کہ کچھ بھی ہو آپ پر ہی ہمیں اعتماد ہے۔ آپ امانت میں دیکھیں ٗ دیانت
میں دیکھیں ٗ بے غرضی میں دیکھیں تو صمد وانی صاحب کا کوئی نعم البدل نظر
نہیں آتا۔ عتیق صاحب نے بھی کہا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مشو رہ ٗ کسی
قسم کا مشورہ ٗ سیاست میں مشورہ ٗ سردار عبدالقیوم خان صاحب ان سے مشاورت
کرتے تھے ٗ ویسے شاید بات چیت بھی نہیں تھی ٗ تو یہ بھی ایک کمال کی بات ہے
کہ کاش ایسے کچھ لوگ ہوں کہ جن کی صفات سے معاشرہ فائدہ اٹھا سکے ۔ آخر میں
میں یہ بات بھی آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اتنے غیر متعصب ٗ ایک دفعہ تجویز
آئی کہ آزادکشمیر یونیورسٹی کا نام شاہمدان یونیورسٹی رکھا جائے ٗ خود
مجاہد اول نے بھی کہا کہ اس سے شاید برکت ہو اور ہم سے شاید کوتاہی ہو ٗ
صمد وانی صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہ نہ کرنا بذات خود آزادکشمیر ہماری تاریخ
کا حصہ ہے ٗ آزادکشمیر میں شہیدوں کا خون لگا ہے۔ یہ آزادکشمیر کے ساتھ ٗ
آزاد کشمیر کے ساتھ زیادتی ہوگی اگر یونیورسٹی کا نام تبدیل کیا گیا میں نے
سوچا کہ کیا فکر ہے کیا سوچ ہے اور کتنی حقیقت پسندی ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ
ان کا مشن ابھی نامکمل ہے ٗ ابھی کشمیر آزاد ہونا ہے اور اس کے لئے ہم پر
کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ٗ میں ایک جملے میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں
آزادکشمیر کے پرائم منسٹر کی حیثیت سے صدر مسلم کانفرنس سردارعتیق احمد خان
اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایسی کسی بھی
تجویز کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں ہیں کہ جو ہمیں کشمیر کی آزادی کی طرف
لے جائے۔ مسلم کانفرنس کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری ہم مشکل
حالات میں بھی نبھاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہماری سعی ہوگی کوشش ہوگی کہ
ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے آزادی کشمیر کا راستہ آسان ہونے کی
بجائے مشکل ہوتا جائے۔ میں عمائدین تحریک خریت سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ All
section of people یہاں موجود ہیں۔ امان اﷲ خان صاحب گواہ ہیں کہ جب 1985 ء
سے 1990 ء کے دوران کشمیر سیل قائم کیا تو اس کشمیر سیل کے تحت ہی ہم نے
جموں وکشمیر الائنس بنایا تھا اور وہ الائنس 11 پارٹیوں کا مجموعہ تھا اور
اس میں مسلم کانفرنس بھی شامل تھی ۔ اس کے صدر شاید امان اﷲ خا ن صاحب بنے
تھے اور اس کے سیکرٹری جنرل ترابی صاحب بنے تھے یا ترابی صاحب صدر تھے یہ
جنرل سیکرٹری ٗ وہ ایک پیش رفت ہوئی تھی اکٹھا ہونے کی ٗ ایک جگہ بیٹھنے کی
اور آج بھی میں اس بات کیلئے آمادہ ہوں۔ بالکل بستہ اٹھا کر چلنے کو تیار
ہوں اس کے بعد بھی ہماری آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ہے ۔ لیکن لوگ دو قدم چلتے
ہیں اور پھر تین قدم پیچھے چل پڑتے ہیں اور اس کے بعد سرٹیفکیٹ آتا ہے کہ
سکندر حیات کو شاید دلچسپی نہیں ہے ٗ سکندر حیات شاید یہ ہے وہ ہے ٗ میں
تشہیر کا عادی نہیں ہوں میں الفاظ کا عادی نہیں ہوں ٗ میں عمل چاہتا ہوں
اگر کسی نے عمل کرنا ہے اگر کسی کے دل میں کوئی پروگرام ہے تو بتائے۔ میں
صرف فوٹو اور ٹی وی پر آنے کے لئے کشمیر کے نام پر یہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں
حکومت کی جانب سے پھر یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ذرائع ٗ ہماری
انرجی ٗ ہمارا سب کچھ اس کشمیر کے لئے تیار ہے اور ہم ہمہ وقت کوشش کریں ٗ
یہی وہ مشن ہے صمد وانی صاحب کا یہاں سے یہ باتیں کہہ کر اٹھ جانا اس سے
صمد وانی صاحب کو کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں ٗ آگے سب کچھ اعمال پر ہوتا ہے ٗ
اگر ہم یہاں سے یہ تہیہ کر کے اٹھیں کہ ہم صمد وانی صاحب کی شرافت ٗ ان کی
دیانت ٗ ان کی امانت ٗ اور ان کی راست القعیدہ پر عمل کریں گے جہاں تک ہم
سے ہو سکے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر ان کی روح کو بھی ثواب ہوگا اور کشمیر
کی آزادی اور منزل قریب ہونے کی نشاندہی ہوگی۔ اگر یہ بات نہیں تو پھر
اٹھنے بیٹھنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
تین باتیں ٗ یہاں اشتہارات کے متعلق کہی گئیں ہیں ٗ میرے نوٹس میں تو اطہر
نے یہ بات نہیں لائی کہ اشتہارات کی تقسیم میں کوئی بخل ٗ سے کام لیا گیا
ہے ٗ ان کا زیادہ حق ہے ٗ مجھے بتایئے گا ٗ اطہر ویسے بھی میرے ساتھ 5 سال
کام کرتا رہا ہے ٗ صمد وانی کے علاوہ بھی ٗ کوئی تکلف نہیں ہونا چاہئے اس
سلسلے میں ٗ مجھے بتائیں ٗ ان کا ڈیوشیئر تو یہ ہے کہ ان کوزیادہ ملے ٗ ان
کی زیادہ قربانی ہے ۔ شاہراہوں کے نام پر ڈاکٹر غضنفر مہدی صاحب کی تجویز
تھی ہم ان کولکھ کر بھی بھیجتے ہیں اور جو ہم سے اس سلسلے میں کوآرڈنیشن
ہوسکی ہم کریں گے ۔
آزادکشمیر کے صحافیوں کے لئے کمیٹی کی تجویز یہاں آئی تھی میں نے 1985 ء سے
1990 ء تکٗ اس وقت صحافی بھی کم تھے اور واقعی صحافت تھی آج صحافت پھیل بھی
گئی ہے اور اسے اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل ہے لیکن مجھے اس تجویز سے اتفاق ہے
ٗ میں نے ڈی جی انفارمیشن سے کہا ہے ٗایک نئے آدمی(سلیم بسمل) کو ہم نے
لگایا ہے کہ وہ چل پھر کر دیکھیں کہ کیا کیا مسائل ہیں صحافیوں کے ٗ وہ
یہاں بھی آئے ٗ پھر وہ میرپور گئے تھے ٗ کوٹلی گئے تھے ٗ پھر میں انہیں
بھیجوں گا جہاں جہاں لوگ ہیں اور اس سلسلے میں آزادکشمیر کی حکومت پہلے 85
ء سے 90 ء تک منشی معراج الدین مرحوم اور دوسرے لوگوں کو ہم نے
Recognization کے طورپر کشمیر ہاؤس میں بلا کر اسی طرح انہیں یاد کیا تھا
جس طرح ہم نے 47 ء سے شہید ہونے والے اور 47 ء سے پہلے کے سیاسی کارکنوں کو
ایوارڈ دیئے تھے ٗ یہ بھی 85 ء سے 90 ء تک کی حکومت کا ایک کام تھا اور
صحافیوں کو بھی ہم نے اس وقت نظرانداز نہیں کیا تھا ٗ انشاء اﷲ تعالیٰ یہ
تجویز بھی میرے سامنے ہے ۔ آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو
ہمت و توفیق دے کہ ہم کسی طور پر بھی کسی پرسنٹیج کے لحاظ سے بھی صمد وانی
صاحب کی اس زندگی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں۔ اس سے ہم وہ مقاصد پا
سکتے ہیں جو ہم سب کا مشترکہ کام اور مشترکہ منزل ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ہم جو
کہتے ہیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
خواجہ عبدالصمد وانی مرحوم ریاست جموں وکشمیر کے ایک ممتاز قائد ٗ دانشور ٗ
محقق ٗ صحافی اور قابل تقلید انسان تھے۔ انہوں نے وادی کشمیر کی ایک
خوبصورت بستی میں آنکھ کھولی۔ یہ جگہ صفاپور کے نام سے موسوم ہے اور کشمیر
کی ایک خوبصورت جھیل مانسبل کے کنارے پر واقع ہے۔ اس پر فضا ماحول کی
پاکیزگی نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ان کے ہم جلیس دوستوں کے
مطابق وہ بچپن سے ہی انتہائی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ ریاست جموں
وکشمیر پر مسلط غلامی کی تاریک رات صبح آزادی میں بدلنے کے عزم کی باتیں وہ
بچپن میں اپنے ہم مکتب ساتھیوں سے کیا کرتے تھے۔ شیخ محمد عبداﷲ کے مقابلے
میں وہ قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کو اپنا قائد مانتے
تھے۔ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ فکری اور جذباتی وابستگی نے وانی صاحب کو
ہجرت پرآمادہ کیا اور اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے وہ آزاد جموں
وکشمیر میں وارد ہوئے۔ آزاد فضاؤں میں انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا
اور چوہدری غلام عباس کی رفاقت اختیار کی وانی صاحب نے خانہ پورہ بارہمولہ
کے معروف سیاسی کارکن جناب محمد دلاور وانی مرحوم کی دختر نیک اختر سے
ازدواجی رشتہ استوار کیا ۔ جو ان کی زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔ ان کی
اہلیہ محترمہ حفیظہ وانی نے اپنے نیک سیرت شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا
ملاکر آزادی کشمیر کے ارفع مقصد کے لئے کام کیا۔ میری دعا ہے کہ رب العزت
ان کو اپنے شوہر کے نامکمل مشن کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین ۔ ان کے
سبھی فرزندان شریف النفس اور اعلیٰ ظر ف کے مالک ہیں ان میں اطہر مسعود
وانی نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت کی مشعل کو تھاما ہے اور مجھے
خوشی ہے کہ ’’کشیر‘‘ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے ۔ مجھے امید ہے یہ
ہفت روزہ اخبار ریاست جموں وکشمیر کے عوام کا حقیقی ترجمان بن کر عوامی
احساسات کاآئینہ دار ہوگا۔
وانی صاحب سے میری پہلی ملاقات نواب بازار سری نگرمیں اپنے ایک دوست برادرم
کلیم اﷲ صاحب کے گھر پر ہوئی۔ اسلامک سٹڈی سرکل کی طرف سے ان کے اعزاز میں
جو ظہرانہ دیا گیا اس میں مجھے بھی دعوت دی گئی تھی۔ وانی صاحب کا تذکرہ
چونکہ میرے کئی دوست کیا کرتے تھے۔ وانی صاحب کے قرابت داروں میں سے برادرم
رشید شاہد صاحب اور ڈاکٹرارشاد احمد وانی میرے عزیز ترین دوست تھے۔ وہ بھی
ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اس لئے مجھے ان سے ملنے کا اشتیاق بھی تھا۔ ان
دنوں میں کالج آف ایجوکیشن / سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ٗ میں دوہری
ذمہ داریاں ادا کررہاتھا۔ صوفی غلام قادر صاحب نے حاضرین سے وانی صاحب کا
تعارف کرایا۔ سری نگر میں وانی صاحب کا ایک وسیع حلقہ احباب تھا جس میں
صحافی دانشور اور بہت سے سیاسی زعماء بھی شامل تھے۔ وانی صاحب مجھ سے بڑی
خندہ پیشانی سے ملے اور مجھے پاکستان میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کی خیریت
سے آگاہ کرنے کے علاوہ کئی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان سے یہ آشنائی
ان کی زندگی کی آخری سانس تک قائم رہی۔1987 ء میں شاہ ہمدان انٹرنیشنل
کانفرنس کی طرف سے مجھے مظفرآباد میں منعقد ہونے والی سہ روزہ کانفرنس میں
شرکت کی دعوت ملی۔ یہ دعوت نامہ موصول کرتے ہوئے مجھے خوش گوار حیرت ہوئی
اور میں نے مظفرآباد آنے کے لئے رخت سفر باندھ لیا اس کانفرنس میں شرکت کی
دعوت مقبوضہ کشمیر کے کئی علماء اور دانشوروں کو دی گئی تھی۔ ان حضرات میں
ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ٗ پروفیسر غلام محمد شاد ٗ ڈاکٹر زمان آزردہ ٗ ڈاکٹر
شمس الدین احمد اور خواجہ محمد امین پنڈت بھی تھے۔ میرے ایک شاگرد نے مجھے
یہ اطلاع دی کہ یہ سری نگر ایئرپورٹ سے پاکستان جانے والوں کے پاسپورٹ ضبط
کئے جائیں گے۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں سرینگر کے بجائے اندرا گاندھی
انٹرنیشنل ایئرپورٹ نئی دہلی سے عازم سفر ہوں گا۔ میں اپنے اہل خانہ کے
ہمراہ پی آئی اے کی فلائٹ پر سوار ہونے کے لئے جب جہاز کے لئے بورڈنگ کا
رڈلے رہاتھا۔ مجھے پروفیسر غلام محمد شاد اور ڈاکٹر شیخ محمد اقبال سے
ملاقات ہوئی اور پھر ہم ایک ہی فلائٹ میں 30 ستمبر کو لاہور پہنچے ۔ لاہور
سے پنڈی پہنچنے پر جن اصحاب نے ہمارا استقبال کیا ۔ ان میں میر عبدالعزیز
مرحوم اور خواجہ عبدالصمد وانی مرحوم پیش پیش تھے۔ رات کشمیر ہاؤس اسلام
آباد میں گزارنے کے بعد ہم مظفرآباد روانہ ہوگئے۔ کانفرنس کا افتتاح صدر
پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے کیا اور ہمیں یہ اطلاع دی کہ آپ کے
دوسرے احباب جو سری نگر ایئرپورٹ سے پاکستان روانہ ہونے والے تھے ان کے
پاسپورٹ ضبط کئے گئے اور انہیں روک دیا گیا۔ اس دورے کی کئی یادگار تصاویر
بارہ مولہ میں ایک کریک ڈاؤن کے دوران ضائع ہوئیں۔1992 ء میں جب میں لاہور
پہنچا تو حال احوال معلوم کرنے کے لئے میں نے وانی صاحب سے فون پہ رابطہ
کیا دعا و سلام کے بعد انہوں نے مجھے چند لمحات کے توقف کے بعد برادر اکبر
خواجہ بشیر احمد کے انتقال کی خبر سنائی۔ انہوں نے کہا کہ بشیر صاحب معمولی
علالت کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے میری ڈھارس بندھائی اور
صبر کی تلقین کی۔ اپنے بھائی جان کی جدائی کی سوغات سمیٹتے ہوئے 29 فروری
1992 ء کو میں غلطان و پنچان پنڈی پہنچا۔ یہاں پہ خواجہ غلام الدین وانی
مرحوم ہمارے منتظر تھے ان کی معیت میں اپنے بھائی کے گھر واقع G-6/4 اسلا م
آباد پہنچا۔ اسی روز خواجہ عبدالصمد وانی اور پروفیسر اشرف صراف صاحب سے
ملاقات ہوئی۔
پنڈی آنے کے بعد ان کے ساتھ ایک مربوط رابطہ قائم ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد
ہے آزادکشمیر جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہوٹل ہالیڈے ان میں ایک آل پارٹیز
کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی صدارت سردار سکندر حیات نے کی وہ اس وقت
آزاد ریاست کے صدر تھے۔ اس کانفرنس کے شرکاء کے سامنے میں نے مقبوضہ ریاست
کی سیاسی صورتحال کا ایک بے لاگ تجزیہ پیش کیا ۔ اس کے بعد سوالات کے
جوابات بھی دیئے ۔ کانفرنس ان کیمرہ تھی۔ یہاں جو احباب موجود تھے۔ ان میں
خواجہ عبدالصمد وانی بھی تھے بریگیڈیئر (ر) محمدشفیع خان اور وانی صاحب نے
مجھے حقائق اور دلائل کے ساتھ اپنا نکتہ نگاہ پیش کرنے پر مشفقانہ تھپکی
دی۔ مختلف کانفرنسوں ٗ سیمیناروں اور تحریک آزادی کشمیر سے متعلق پروگراموں
میں ہم اکٹھے شریک ہوتے رہے۔ جب وانی صاحب مشیر حکومت آزادجموں وکشمیر بنے
انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حکومت اور مقبوضہ کشمیر کے دوستوں کے
درمیان پل کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کوششیں قابل تحسین رہی
ہیں اور میں یہ بلاخوف تردید لکھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ وادی کشمیر سے
تعلق رکھنے والے کوئی بھی فرد ٗ وزیر یا مشیر حکومت عبدالصمد وانی مرحوم کی
سرنجا مرنج وسعت قلبی کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ مقبوضہ ریاست سے آنے والے
لاتعداد لوگوں کے لئے ان کی رہائش گاہ ایک ایسا سائبان تھا جہاں وہ خلوص
اور محبت کی گرمی محسوس کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو کروٹ
کروٹ جنت نصیب کرے ۔ بقول غالب
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا |