قائد ملت سندھ کے مشہو ر شہر
کراچی میں25دسمبر 1876 کو پیدا ہوئے آپ کے والد محترم کا نام جناح
پونجاقائداعظم محمد علی جناح کی ابتدائی تعلیم 1876میں قائم ہونے والے
الفینٹ ورنا کیولر مشن سکول سے 1883میں شروع ہوئی اس طرح انہوں نے چوتھی
جماعت تک گجرات میں تعلیم حاصل کی ۔ان کے والد ایک معروف تاجر تھے وہ ایک
مشن سکول میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیتے تھے انہوں نیقائداعظم محمد
علی جناح کا چرچ مشن سکول کی بجائے سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ 4جولائی
1887میں انگریزی کی پہلی جماعت میں دلوایا مگر آپ چند ماہ بعد ہی یہ مدرسہ
چھوڑ کر کراچی سے ممبئی تک کا پہلا اور لمبا سمندری سفر کیا ممبئی پہنچ کر
انہیں تعلیم کے زیادہ مواقع میسر آئے یہاں ان کا داخلہ انجمن اسلام ہائی
سکول کی پھر انگریزی کی پہلی جماعت میں ہوا یہاں بھی قائداعظم محمد علی
جناح زیادہ عرصے نہ ٹھہرسکے کیوں وہ اپنی والدہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے
اس لئے وہ اپنی والدہ کی محبت میں بے تاب ہو کر واپس کراچی آگئے۔والدہ بھی
عظیم بیٹے کو بے انتہا چاہتی تھی اس لئے وہ انہیں پیار سے محمد کہہ کر
پکارتی تھی۔یہاں کراچی پہنچ کر ان کا داخلہ ایک بار پھر سندھ مدرستہ
الاسلام میں 23دسمبر 1887میں ہوگیااﷲ تعالی نے انہیں اچھا ذہن عطاکیا تھا
یہاں کراچی پہنچ کر انہیں داخلہ لینے میں تاخیر نہ ہوئی انہوں نے بلاوجہ
تعلیم کو نظر انداز نہ ہونے دیا اور یہ سلسلہ یوں چلتا رہا اور یہ وقت
1890کا جب قائداعظم محمد علی جناح پانچویں5جماعت میں تھے۔
ان کے والد نے ان کو انگلستان بھیجنے کا ارادہ کر لیا تو ادھر ان کی والدہ
کی محبت میں اصرار تھا کہ ہمارے محمد کی پہلے شادی کر دی جائے پھر بیرون
ملک بھیجا جائے آخر کار ان کا امربی سے نکاح ہوگیا لیکن رخصتی نہیں ہوئی
۔یوں قائداعظم محمد علی جناح نے 31اکتوبر 1892کوچرچ مشن ہائی سکول کی چھٹی
جماعت چھوڑی اور 1893میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان چلے گئے یہاں
پہنچ کر انہوں نے اپنے والد کو خط لکھا کہ مجھے لندن میں رہنے کی اجازت دیں
تاکہ میں یہاں قانون کی تعلیم حاصل کر لو ں والد نے ان کی خواہش کا احترام
کرتے ہوئے اس کی اجازت دے دی اور پھر انہوں نے بیرسٹری کی تعلیم کے لئے
ابتدائی امتحان دیا داخلہ کا امتحان یوں دینا پڑا قائداعظم صرف چھٹی جماعت
پاس تھے اس درس گاہ میں داخلہ کا اہلیت میٹرک تھی واضح رہے کہ اس وقت میں
میٹرک دسویں کو نہیں بلکہ ساتویں کو کہتے تھے آخر کار 1893کو لنکنزان میں
قائدکو داخلہ مل گیا اور وقت گزرتا گیا1896کے وسط میں آپ لندن سے وطن واپس
آئے تو اس وقت تک ان کا گھرانہ کراچی سے ممبئی منتقل ہوچکا تھا اس طرح
قائداعظم بھی ممبئی چلے گئے اور 24اگست 1896کو ہائیکورٹ کے رجسٹرمیں اپنا
نام درج کروایا اور باقاعدگی سے وکالت کرنے لگے ان دنوں مسلمانوں کے حالات
سخت خراب تھے ۔جب کلکتہ میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ہوا توانہیں اس اسلامی
قانون اور برطانوی عدالتی کاروائی پر اظہار خیال کا موقع ملا اور
یہقائداعظم کی پہلی تقریر تھی جسے مورئخ ان کی مذہبی و سیاسی تقریر قرار
دیتے ہیں جوکسی پلیٹ فارم سے ہوئی تھی اس وقت تک آل انڈیا مسلم لیگ قائم
نہیں ہوئی تھی جبکہ اس کی بنیاد انہی دنوں 30دسمبر 1906میں ڈھاکہ میں رکھی
گئی آل انڈیا نیشنل کانگریس کے نام سے ایک سیاسی جماعت انگریزوں نے قائم کر
رکھی تھی 1906میں تازہ ہونا بیرسٹر جناح کی شہرت وکامیابی کا پہلا زینہ
ثابت ہوا اس مسئلے پر ان کی کاوش نے مسلمانان ہند کے دل جیت لئے اور
26دسمبر1907میں جناح نے کانگریس نے دوسرے گروہ کا ساتھ دیاکیوں کہ کانگریس
کے ڈیلی گیٹس دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ایک گروہ انتہا پسندوں کا تھا
دوسرا اعتدال پسندوں کا1909میں جناح ممبئی کے مسلم حلقے سے منتخب ہوکر
امپیریل لچسلیٹو کونسل میں پہنچے یہاں آپ کا مقابلہ مولوی رفیع الدین سے
تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے ان کو انتخاب میں شکت دی اس
طرح 1913میں مسلمان وقف ویلیڈیٹنگ بل کے بارے میں سللیکٹ کمیٹی کی رپورٹ پر
امپیریل لچسلیٹو کونسل میں تقریر کے اس بل کی منظوری وائسرائے نے 7مارچ کو
دی اور قانون بن گیا جو مسلمانان برعظیم کے حق میں عظیم الشان اہمیت کا
قانون تھا اسی سال 22-23مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس
لکھنومیں خصوصی دعوت پر شرکت کیااور اسی میں سلیف گورنمنٹ سوٹ ٹو انڈیا کے
لئے مسلم لیگ کا جذبہ نعرہ اور مطالبہ منظور کر لیا گیا پھر آپ لندن روانہ
ہوئے اور 25جون کو کیکسٹن ہال ویسٹ منسٹر میں لندن انڈین ایسوسی ایشن کے
قیام پر تقریر کی مولانا محمد علی اور سید وزیر حسن نے جو مسجد کانپور کے
سلسلے میں لندن میں پہلے ہی سے موجود تھے ان کو آل انڈیا مسلم لیگ کارکن
10اکتوبر کو بنایا ان حضرات نے وہیں آپ سے دستخط لئے لندن سے واپسی پر
انہوں نے انجمن ضیا الاسلام ممبئی کے جلسے کی صدارت 20دسمبر کو کی اور
27دسمبر کو کانتیس کے اجلاس کر اچی میں شریک ہوئے اور پھر یہاں سے آپ سیدھے
آگر ہ چلے گئے اور وہاں آپ نے آل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت
کی اس وقت قائد اعظم اس کے باقاعدہ ممبر بن چکے تھے 1916میں آل انڈیامسلم
لیگ کے اجلاس جو لکھنو میں 30.31دسمبر کو منعقد ہوا اس میں صدارت کی مجلس
استقبالیہ کے چیئرمین نے آپ کو شاندار خراج تحسین یہ کہہ کر پیش کیا کہ
اگرچہ یہ عمر کے لحاظ سے نسبتا جوان ہیں لیکن انہوں نے ملک کی عوامی زندگی
میں اپنا امتیاز قائم کر لیا ہے امپیریل لچسلیٹو کونسل کے دوبارہ رکن منتخب
ہوئے ممبئی کی پوانشل کانفرنس منعقد احمد آباد کی صدارت آپ نے اسی سال
21اکتوبر کوکی اور مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ انتخاب کی وکالت بھی کی
مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہندومسلم مفاہمت اور سمجھوتے کی صورت میں
مشہور میشاق لکھنو بھی آ پ ہی کی کوششوں سے وجود میں آیا اور اس دستخط ثبت
ہوئے اور اس معاہدے کے ہیرو اور چیمپئن اور سفیر اتحاد قرار پائے ۔1928میں
کوکلکتہ میں ہونے والے مسلم لیگ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے
یہ اعلان کیا کہ برطانیہ عظمی کے خلاف یہ دستوری اعلان جنگ ہے ہماری مساوی
حصہ داری سے انکار کیا گیا ہے ہم لوگ جدید تعلیم وتلقین کی مخالفت اپنی بھر
پور قوت سے کریں گے ۔اس سال کے آخر میں نہرورپورٹ ان کو باہر بھیجی گئی اور
اس کی ایک کاپی بحری جہاز پر جون میں ان کو ملی انہوں نے نہرورپورٹ کی سخت
مخالفت کی اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی مخالفت کی انہوں نے دسمبر میں
مسلم لیگ کے اجلاس کلکتہ میں شرکت کی اور وہ اجلاس ہی میں علاضی صدارت سے
ریٹائر ہوگئے 1929میں مارچ میں قائد اعظم نے اپنے 14نکات مرتب کئے یہ
اکثریت سے مفاہمت کی ایک تجویز تھی انہوں نے وزیر اعظم انگلستان مسٹر ریمزے
میک ڈونلڈ کو ایک خط لکھا اور گول میز کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی
۔1930میں آل انڈیامسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد کے دوران جس میں علامہ اقبال
نے دسمبر مسلم انڈیا ودان انڈیا کی تجویز پیش کی قائد اعظم گول میز کانفرنس
میں شرکت کے لئے لندن جا چکے تھے اور بر عظیم کے معاملات سے اس قدر
دلبرداشتہ ہوچکے تھے کہ لندن ہی میں رہ جانے کا فیصلہ کر لیا ،یہ فیصلہ ایک
خوداختیاری جلا وطنی تھی۔
یوں قائداعظم محمد علی جناح کی دن رات کی کوششوں کے بعد پاکستان 14اگست
1947کو معرض وجود میں آگیا یہ ایک وہ خواب تھا جسے ہمارے قائداعظم محمد علی
جناح نے دیکھنے کے لئے دن رات محنت کی۔ انہوں نے اپنے آپ کے ساتھ کھیل کر
اس وطن عزیز کو حاصل کیا اس وطن عزیز کے خواب کو پورا کرنے کے لئے آپ نے
اپنی صحت تک داؤ پر لگا دی اور اس وقت تک آرام اور سکون سے نہیں بیٹھے تھے
جب تک انہوں نے پاکستان کو حاصل نہیں کر لیا۔ان تھک کوششوں میں لگے رہنے کی
وجہ سے آپ بیمار ہو گئے آپ کی طبیعت سنبھل نہ سکی ۔آخر کار 11ستمبر 1948کو
آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
**قائداعظم بھی ان عظیم ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے بے لوث وطن عزیز کی
بنیاد رکھنے کے لئے اپنا تن من دھن بھی قربان کرنے سے گریز نہ کیا قائداعظم
کی ہستی وہ عظیم ہستی تھی جیسے آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہو عین اسی طرح ہر
دل کی دھڑکن بن گئے ہر نوجوان کے جسم اور روح کو جھنجوڑا اور سوئے ہوئے
نوجوانوں کے ضمیر کو جگایا۔انکو انکے اصل مشن کی طرف گامزن کیا بلکہ میں
یوں کہوں گا کہ وہ ایسا پھول برصغیر کی زمین پر کھلا جس کی خوشبو آج بھی
تروتازہ اور زندہ ہے اور انہوں نے پاکستان کا تحفہ ایک ایسے کسان کی فصل کی
طرح تیار کر کے ہمیں تحفہ دیا جیسے کسان نے ساری مشکلات جھیل لی ہوں اور
ہمیں صرف پھل کھانے کے لئے پیش کیا ہو ۔لیکن میں جب کل کے پاکستان کو
دیکھتا ہوں تو وہ بڑا صاف اور شفاف نظر آتا تھا لیکن جب آج کے پاکستان کو
دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ،کیا ہمیں قائداعظم محمد علی
جناح نے پاکستان اس لئے دیا تھا کہ ہم اس میں غنڈہ گردی ،اور چوریاں کریں
یا اپنی ماں ، بہن،بیٹی کی عزت وعصمت کو بے آبرو کریں ۔
خداراہ! اپنے قائد کے فرمانات کو سامنے رکھتے ہوئے اس وطن عزیز کے ساتھ
وفاداری کا ثبوت دیں ،عظیم قائد کے عظیم اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ آج
بھی 1947والا صاف اور شفاف پاکستان بنا سکتے ہیں، اپنے ضمیر کو جگایئے اور
تمام قسم کی غداری والی سوچوں کو ختم کیجئے ایک نئی زندگی تا عہد کریں کہ
ہم نے پاکستان میں رہ کر قائد کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ان کی دی ہوئے
کشتی کو بہت آگے بڑھانا ہے اور ان کے نعروں کو زندہ رکھنا ہے ۔
میں امید کرتا ہوں کہ میری اس قلم کی آوازاور سوچ کو سمجھتے ہوئے ایک معزز
پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں گے ۔ |