رب العزت کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے ہمیں نبی
آخری الزماں ۖ کے امتی پیدا کیے ، اور آپ ۖ ایک ایسی کامل دین لے کر مبعوث
ہوئے جو دین فطرت کہلاتی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام لمحات میںدین فطرت انسان
کی کامل و اکمل رہنمائی کر تاہے ۔ آپ ۖ کی حیات طیبہ اور آپ کے جانثار
صحابہ کی زندگی میں ہمیں سفر اور حضر کے لیے رہنما اصول ملتے ہیں ۔ آپ ۖ
اور آپ کے جانثاروں نے بے شمار اسفار کیئے ہیں۔
نبی آخرالزماں ۖ نے اپنے رب کے حکم پر نبوت کا اعلان کیا تو اہل مکہ آپۖ
اور آپ پر ایمان لانے والوں کے جانی دشمن بن گئے ، بالآخر آپۖ کو اپنے
احباب سمیت اپنے آبائی وطن کو خیرآباد کرنا پڑا۔ اور وہ خوبصورت دھرتی
چھوڑنا پڑا جس میں آپ ۖ کا بچپن اور لڑکپن گزرااور عنفوان شباب کی کئی
بہاریں گزری تھیں ، اوروہاں خدا کا گھر اپنی پوری عظمت اور جلال و دبدبہ کے
ساتھ موجود تھا۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سفر ناقابل شکست عزم ، غیر
متزلزل استقامت ، عدیم المثال ایثار اور بے نظیر قربانی کا مظہرہے ۔ظلم اور
باطل کے سامنے جھکنے کے بجائے اس کے مقابلے میں شعور ، یقین اور عزم کے
ساتھ کھڑا ہونے کا تاریخی اعلان ہے ۔اس لازوال تاریخی اعلان نے مظلوم اور
مفلوک الحال انسانی معاشروں بالخصوص کمزور اور لاچاروں کو جدوجہد کا ایک
نیا اسلوب عطا ء کیااور نصب العین سے مستقل وابستگی کا قرینہ سکھایااور
فکرونظر اور عقیدے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا ایک نرالا باب رقم کیا۔
وادی غذر محبتوں کی سر زمین ہے۔ اس وادی کے دو مشہور اور تاریخی علاقے چٹور
کھنڈ اور یاسین کے دو سفر ہوئے ۔ یہ دونوں اسفار خالص دینی ،فکری ،تحریکی
اور اصلاحی تھے۔ ان میں محبت و مودت اور امن و آشتی کا عنصر غالب تھا ۔
آئندہ سطور میں قاضی صاحب حفظہ اللہ کی معیت میں کیے گئے ان دو تبلیغی
اسفار کی مختصر روئیداد بیان کی جائے گی۔ امید ہے کہ ناچیز کی اس ناکام سی
کوشش کو آپ پسند فرمائیں گے۔
سفر وسیلہ ظفر
یہ جمعہ کا دن تھا۔ڈگری کالج گلگت میں مسلسل ٣ پیریڈ پڑھا کر تھکا ماندا
کالج وین میں بیٹھا ہی تھا کہ سیل فون رنگ رنگ بجنے لگا۔ دوسری جانب قاضی
نثار احمد صاحب محو گفتگو تھے۔ علیک سلیک کے بعد فوراً فیصلہ صادر فرمایا
کہ بھائی جمعہ کی نماز کے بعد علماء کرام اور کچھ بزرگوں کا ایک وفد چٹور
کھنڈ جارہا ہے تو آپ کا ساتھ جانا ضروری ہے۔میں پس و پیش کر رہا تھا مگر ان
کا انداز آمرانہ تھااور فیصلہ اٹل ، جہاں میرے اعذار نہ چل سکے۔سیانوں کا
قول ہے کہ رواں ، رواں اور ہر دم جواں زندگی کے لیے سفر شرط ہے اور اگر یہ
سفر مثل جنت نظیر ہو تو وسیلہ ظفر بن جاتاہے۔ اسی وسیلہ ظفر کے لیے ہم بھی
پا بہ سفر ہوئے۔
مرکزی جامع مسجد گلگت میں جمعةالمبارک کی نماز کی ادائیگی کے بعد گاڑیوں
اور موٹر سائیکلوں کا ایک قافلہ جامع مسجد سے جامعہ نصرة الاسلام کونو داس
کی طرف چل پڑا ،مجھے بھی بھائی شرافت الدین اور برادرم میر باز کے ساتھ ایک
پجارو گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑیوں کا یہ قافلہ پولیس موبائیلوں کی حفاظت
میںجامعہ نصرة الاسلام کے آفس پر جا رکا۔ میرے استفسار پر معلوم ہوا کہ دو
روزہ دورہ خالصتاً تبلیغی و اصلاحی دورہ ہے۔
مناظر قدرت کے مشاہدے کا حکم
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی مسافر یا سیاح سفر یا سیاحت و تفر یح
کے لیے روا نہ ہو تا ہے خواہ وہ سفر تبلیغی و اصلاحی نوعیت کا ہو یا مناظر
قدرت دیکھنے کا ، تو اس کے دل و دماغ میں جذبات و خیالات کا ایک طوفان بپا
ہوتا ہے۔ اپنے مسکن سے دوری اور اپنے روزمرہ کے کاموں کا جائزہ ، اپنے سفر
کے مختلف پڑائو و مراحل ، راستے کی دشواری ، بُعد منزل کی دوری کاخیال اور
وہاں کے حالات و ماحول کے بارے میں خدشے و اندیشے ، لوگوں کے رویے ، کام کی
نوعیت ، واپسی کا ٹائم فریم اور نہ جانے کیا کیا دل و دماغ کے اسکرین پر
ایک فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں۔جن کے طلاطم میں مسافر پا بہ رکاب ہوتا ہے۔
قارئین ! اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ مسلم مصنفین اور قلم کاروں
نے ہر زمانے میں بڑ ے دلچسپ اور معلومات افزا سفر نامے لکھے ہیں۔ اور آج
بھی یہ روایت زوروں پر ہے ۔ کیونکہ خدائے وحدہ لاشریک کی آخری کتاب قرآن
کریم فرقان حمید سیر و سیاحت ، مناظر قدرت کے مشاہدے اور خدا بزرگ و برتر
کی عظیم الشان نشانیوں پر غور و فکر کی بار بار دعوت دیتا ہے۔
جب میں سفر کے لیے ذہنی و جسمانی طور پر تیار ہوا تو حکم خدا وندی یا د آیا
۔ قرآن پاک کی یہ آیات بے اختیار زبان پر آگئی "سیرو فی الارض" اللہ تعالیٰ
کے حبیب ۖ نے بھی سفر کو وسیلہ ظفر قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر مسلمانوں میں
سفر پر جانے کا داعیہ ہمیشہ طاقتور اور مستحکم رہا ہے ۔ تھوڑا غور کیا جائے
تو تاریخی اہمیت کے بڑے بڑے سفر نامے وجود میں آئے ہیں۔ انظرو ماذا فی
السمٰوت والارض پھر کیا تھا کہ رخت سفر باندھ لیا ۔
سفر کی مسنون دعائیں
جب بھی مسلمان سفر پر نکلے تو مسنون دعائوں کا اہتمام ضرور کریں۔آپ ۖ کی وہ
پاکیزہ دعائیں جو آپ ۖ سفر پر روانہ ہوتے وقت فرماتے تھے میں نے بھی پڑھنا
شروع کر دیا۔
(١) اللھم انی اسئلک فی سفری ھٰذا البروالتقٰویٰ ومن العمل ما ترضیٰ، (اے
اللہ میں تجھ سے اس سفرمیں نیکی اور تقویٰ کی توفیق مانگتاہوں اور ایسے عمل
کی جس سے تو راضی ہو)
(٢) سبحان الذی سخرلناھٰذاوماکنا لہ مقرنین، و انا الیٰ ربنا لمنقلبون،
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کر دیاجب کہ ہم
میں اس کی طاقت نہ تھی اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے
والے ہیں ۔
روانگی
٣٠ ستمبر ٣ بجے کے قریب ٢٠ رکنی قافلہ پولیس کی حفاظت میں براستہ سکارکوئی
چٹور کھنڈ کے لیے روانہ ہوا۔ قافلہ کے روح رواں قاضی نثار صاحب تھے۔ان کے
ساتھ گاڑی میں مولانا منیر صاحب ،محمد نوازصاحب اور چند ذاتی محافظ تھے۔
ہماری گاڑی میں بھی ٥ ساتھی تھے مگر سب نوجوان اور خیالات و جذبات میں
یکسانیت رکھنے والے تھے ۔ابتداء سفر سے ہی ماحول خوشگوار تھا۔ نعت ،تقاریر
اور مختلف ترآنے ابتداء سفر سے ہی رفیق سفر تھے۔ گاڑیاں سکارکوئی روڈ پر
فراٹے بھرتیںبسین کراس کر گئیں۔ میں خیالوں کی دنیا میں مگن تھا کہ بھائی
شرافت الدین نے پھبتی کَسی کہ میاں یہ ڈگری کالج کی لائبریری نہیں ہے، کہ
آپ افلاطون اور ارسطو کے بوسیدہ نظریات کا مطالعہ کر واور ان کو اپنی کسوٹی
پر پرکھو !میں ہو، ہا ، نا، نا کر کے شریک محفل سخن ہونا چاہتا مگر دل تھا
کہ مضطرب ، مسلسل قلابازیاں کھا رہا تھا، تخیلات کے بے آب و گیا وادیوں میں
۔ایک گاڑی میں حاجی جلیل صاحب اور دیگر احباب تھے۔
گاڑیوں کا یہ قافلہ اپنی آب و تاب کے ساتھ ہینزل جا پہنچااور اچانک ایک کچی
روڈ پر مڑا ۔ اور سیدھا جاکر ایک گھر کی چار دیواری میں رکا۔ میں نے حیرت
سے پوچھا کہ کیا یہ چٹور کھنڈ ہے ؟ تو بھائی میر باز نے ایک زور دار قہقہہ
لگایا او کہا بات یہ نہیں بلکہ گذشتہ روز ایک نوجوان کا علاقہ جج بارگو میں
کار ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوا ہے۔ تو ان کی فاتحہ خوانی بھی پروگرام کا حصہ
ہے ۔ ان کا نام نعیم ہے ہینزل کا باشندہ ہے۔ میں ہینزل کا جائزہ لے
رہاتھامکئی کی فصل پک کر تیار تھی۔ درختوں کے جھنڈ اور دریائے غذرکی روانی
اور موسم خزاں کی ابتدائی ہوائیں فراق کی سی کیفیت پیدا کر رہی تھی کہ اتنے
میں ایک صاحب میر ا ہاتھ کہہ رہا تھا کہ یہ ہے گلگت بلتستان کے معروف شاعر
و گلوکار جناب صلاح الدین حسرت ، میں علیک سلیک کے بعد حسرت صاحب کے خدو
خال اور ان کی مونچھوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ صاحب کہنے لگے کہ حسرت
صاحب! یہ ہیں آپ کے پسندیدہ کالم نگار ، سابق ابن شہزاد حقانی اور موجودہ
امیر جان حقانی جن سے با لمشافہ ملاقات آپکی ترتیب حیات تھی۔دائیں جانب
ٹینٹ لگے ہوئے تھے اور دو بڑے درخت ٹینٹوں پر شاخیں پھیلائے سایہ کے فرائض
انجام دے رہے تھے ۔ لوگ مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرتے ،آ جا رہے تھے کہ
قاضی صاحب بھی خوبصورت عربی جبہ زیب تن کیئے ہوئے فاتحہ گاہ میں داخل ہوئے
۔ میں ان مناظر کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ معروف قلم کار و شاعر حبیب الرحمان
بغل گیر ہوئے۔ صلاح الدین حسرت اور حبیب الرحمان مشتاق سے اللہ نگہبان کہہ
کر فاتحہ گاہ میں داخل ہوا۔ لوگون کا ایک جم غفیر ہے۔ ہمہ تن خاموش قاضی
نثار احمد صاحب کا چہرہ تک رہے ہیں ۔ سکوت کا عالم ہے ۔ مرحوم کے لواحقین
بھی خاموش ہیں۔ میں بھی دبک کر ایک کونے میںبیٹھ گیا، بالآخر سکوت ٹوٹ گیا۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ "کل نفس ذائقةالموت" ہر ذی جان نے موت کا پیالہ
پینا ہے موت اٹل ہے۔ مسلمان کو ہر وقت موت کا خیال رکھنا چاہیے۔ کل ہم نے
بھی وہاں جانا ہے۔ کیا ہم جب بھی اپنے مرحومین کی قبروں میں حاضری دیتے ہیں
تو یہ دعا نہیں پڑھتے ہیں۔ "السلام علیکم یا اھل القبور، یغفراللہ لنا
ولکم، و انتم سلفنا و نحن بالاثر" دفعتاً دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ دراز
فرما دیے ۔ سب نے مل کر کئی بار اجتماعی دعا کی، لواحقین سے صبر جمیل کی
تلقین کی ، اور اپنی نشست سے اٹھ کر چل دیے ۔میں صلاح الدین حسرت کے بارے
سوچ رہا تھا ، ان کی عجیب زندگی ہے۔وہ ایک بہتر ین شاعر ہیں ، کاش! وہ اپنی
شاعری کو خالص اسلامی شاعری میںتبدیل کریں تو کیا بات ہوگی، کل قیامت کے دن
آپ کے مداحوں میں ان کا نام بھی ہوگا اور یہ کسی سعادت سے کم نہیں۔ اگر
حسرت صاحب تک میر ی نحیف سی آواز پہنچی تو وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور
کرے،خدا سب کو راہ مستقیم دکھا دیں۔آمین یارب العالمین
دریائے غذر کی بے پروائی سے روانی
قافلہ ہرپون کی آبادی سے گزر رہاتھا اور کوئی میرے کان میں سرگوشی کر
رہاتھاکہ حقانی بھائی ! یہ خالص کشروٹیوں کا علاقہ ہے میں حال و قال سے بے
خبر دریا کی روانی پر سوچ رہا تھا۔ دریائے غذر اپنی تیز بہائو و روانی سے
ہمیں یہ باور کروا رہاتھا کہ کسی کے آنے جانے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
غذر کا روڈ اور دریا کا حسین ملاپ ہے۔ دریا میں نیلے پانیوں کی سرزمین کا
پانی جمع ہوکر بہتاہے تو روڈ میں تار کول کی سیاہی نے عجب دلکشی پیدا کی ہے
دور سے دیکھنے والے کو بڑا دلکش منظر دِکھتاہے۔
تھولداس
تھولداس روڈ سے اس پار ایک چھوٹی سی آبادی ہے ۔ تھولداس کے لوگ غیرت مند
اور اسلام پسند ہیں۔ گلگت کے ناک تلے اس گائوں میں شاید ہی کوئی سرکاری
ملازم ہو، مسائل کا انبار ہے زندگی کی تمام سہولتوں سے یہ گائوںعاری ہے۔
تھولداس میں پہلے بھی ایک دفعہ جانے کا اتفاق ہوا ہے ۔ یہاں ایک مسجد کی
سنگ بنیاد پر گلگت بلتستان کی دو نامور شخصیات مولانا قاضی نثار احمد اور
مولانا عطاء اللہ شہاب صاحب (مشیر چیئر مین گلگت بلتستان کونسل ) مدعو تھے
۔
شیکیوٹ میںمسجد کا تعمیراتی کام کا جائزہ
بارگو اور شروٹ آمنے سامنے ہیں ۔ شکیوٹ میں قاضی نثار احمد صاحب کی نگرانی
و انتظام میں ایک بڑی مسجد کا تعمیراتی کام جاری ہے ۔ کسی بندہ خدانے ٥٣
کنال زمین مدرسہ و مسجد کے لیے وقف کیا ہے ۔ جہاں مستقبل قریب میں ایک بہت
بڑا دارالعلوم بنے گا ۔ مسجد کے قربت میں اقراء روضة الاطفال کا سکول ہے ۔
اقراء روضةالاطفال دینی اسکولوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے ۔ جس کے پورے ملک
میں ٣٠٠ سے زائد سکول ہیں گلگت بلتستان کے مضافات میں بھی اقراء کے کئی
سکول بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اقر اء سکولوں کے ابتداء و اِرتقاء
میں شہید اسلام حضرت مولانا یوسف لدھیانوی جیسے اکابر علماء کی جدو جہد اور
دعائیں شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں اقراء اسکول کے قیام و انتظام میں قاضی
نثار احمد صاحب کا بڑا عمل دخل ہے ۔ چونکہ قاضی صاحب لدھیانوی کے خلیفہ
مجاز ہیں۔ تو حضرت بنفس نفیس یہاں آئے اور قاضی صاحب کی معیت میں کئی
اسکولوں کا افتتاح کیا۔ہمارا قافلہ مسجد کے سامنے جا رکااور قافلہ کے تمام
شرکاء نے مسجد کی زیارت کی اور قاضی صاحب میرا ہاتھ تھامے کام کی تفصیلات
سے آگاہ کر رہے تھے اور مستقبل قریب کے پلان کو بڑی خوبصورتی سے بیان کر
رہے تھے مگر دل و دماغ میں ایک اضطراب ، انقلاب، اور خیالات و سوالات کا
ایک دریا امڈ آرہاتھاکہ کیا ہم موجودہ تعلیمی صورت حال سے مطمئن ہیں؟ عصری
نظام تعلیم و دینی نظام تعلیم ؟طبقاتی نظام تعلیم؟ غریبوں کے لیے الگ اور
امیروں کے لیے الگ، قدیم طرز تعلیم و جدید طرز تعلیم؟ ہمارے نظام تعلیم کو
طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری علمی و تحقیقی بنیادیں کمزور
ہوگئی ہیں، کیمبرج سسٹم، فرنچ سسٹم،امریکن سسٹم، مدرسہ سسٹم، اور گورنمنٹ
اسکول سسٹم جس کو آپ پیلے اسکول نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس ملک میں بہ یک
وقت کئی نظام چل رہے ہوں وہ ملک ترقی کیسے کر سکتاہے اور کیسے ترقی یافتہ
ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتاہے۔ہمارا نظام تعلیم تخلیقی بنیادوں پر نہیں
ہے۔ کاش صرف اور صرف طریق تدریس ہی کو جدید بنیادوں پر استوارکیا جاتا اور
اپنی قومی و مادری زبان کو تدریسی زبان قرار دی جاتی۔ کیا ترقی یافتہ چین
اور چاپان نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی بدیسی زبان کو تعلیمی زبان کے طور پر
اپنا کر بام عروج حاصل کئے ہیں؟۔ ہر گز نہیں۔تو پھر ہم کیوں انگریزی کو
اپنی کھال سمجھ بیٹھے ہیں اور پیشاب تک انگریزی میں کیوں کرنے لگے
ہیں۔کیاہم اب تک اس گورے کے غلامی کے طوق میں پھنسے ہوئے نہیں ہیں؟ مجھے تو
ڈر لگ رہا ہے کہ ہم بہت جلد نماز بھی انگریزی میں پڑھنے لگیں۔ اللہ بچائے۔
آہ ! دھرتی عزیز میںیکساں نظام تعلیم نہیں ہے مختلف طبقے اور گروہ پیدا ہو
رہیں ،عجب ابہام ہے۔ ایک طبقہ صرف قدیم اور مدرسے کی تعلیم کو اہم اور
ضروری سمجھتا ہے اور ایک بڑا طبقہ انگلش میڈیم اور مغربی طرز تعلیم کو
کامیابی کی کنجی اور ترقی و عروج کا راز سمجھتاہے ۔ اور کچھ بے چارے دونوں
طبقوں میں پھنس کر اپنے نونہالوں کو دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں یہ لوگ قابل تقلید ہیںمگر یہ انداز بے حد صعب و مشقت طلب
ہے ۔
قارئین! دل کی بات یہ ہے کہ میں تعلیم میں دوئی کا قائل نہیںہوں۔ اسلامی
تاریخ پر عمیق نظر ڈالی جائے تو تعلیم میں تقسیم نظر نہیں آئے گی۔ یہ تقسیم
گذشتہ ٢، ٣ سو سال پہلے کی ہے جو ہمارے دشمن کی کامیاب چال ہے۔تعلیم کا
بنیادی مقصد انسانوں کو حیوانیت کی نچلی سطح سے اٹھا کرانسانیت و مسلمانیت
کے عروج و بلندیوں پر پہنچانا ہے ۔ تعلیمی نظام و نصاب ایسا ہونا چاہیے جو
فرد کو اس کی اصل حقیقت و ذات سے روشناس کروائے ، اور وہ اپنے اعمال کا خود
ذمہ دار ہو، دو جہانوں میں ،اور یہ کہ اپنے اندر چھپی ہوئی تمام صلاحیتوں
کا کھوج لگائے اور حقیقت کا ادراک کر لے۔ اور جب وہ اس قابل ہوکہ وہ خود کو
جان سکے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکے تو پھر وہ جدھرچاہے
ادھر جائے۔ چاہے تو مفسر و محدث بنے یا ڈاکٹر و انجینئراور تعلیمی نظام اس
کی کامیاب رہنمائی و مد د کرے۔ انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ کیا ہمارا
موجودہ تعلیمی نظام ہماری درست رہنمائی کر رہاہے ؟ بالخصوص ہمارا موجودہ
نصاب تعلیم (دینی و عصری) کسی نو عمر کی ذات کی نشو ونما ، حقیقت کا ادراک،
سچ کی تلاش اور کامیاب زندگی کے لیے مکمل کردار ادا کر رہا ہے ؟ یقینا جواب
نفی میں ہوگا۔ ہمیں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سخت قسم کے اقدامات کرنے
ہونگے۔
سنگل اور گلمتی جڑواں بستیاں
پولیس موبائل گلاپور سے واپس ہوئی اور وہاں سے آگے سیکیورٹی کے انتظامات
ضلع غذر کے پولیس نے سنبھالا، گلاپور کے بعد شیر قلعہ آتا ہے ۔ شیر قلعہ
نالے سے بہنے والا پانی انتہائی شفاف ہے دودھ سے زیادہ سفید یہ پانی جب
دریائے غذر سے ملتاہے تو عجب خوبصورت سماں بن جاتا ہے ۔ مشہور قوم پرست
لیڈر اور گلگت بلتستان لیجسلیٹیو اسمبلی کے رکن نواز خان ناجی بھی یہاں کا
باسی ہے ۔
سنگل کافی بڑا گائوں ہے قافلہ خرامے خرامے چل رہا ہے ۔ میں عقابی نظروں سے
دائیں بائیں کا جائزہ لے رہا ہوں ۔ مکئی کی فصل کاٹ کر کھیتوںمیں بچھا دی
گئی ہے ۔ سنگل میں ایک پرانا ریسٹ ہائوس ہے۔ غالباً ١٩٩١ء میں مولانا لقمان
حکیم صاحب اور مولانا نذیراللہ صاحب مرحوم گرفتار کر کے یہاں لائے گئے تھے
۔ یہاں کے لوگوں نے ان کی بڑی قدر دانی کی۔دونوں حضرات ہمیشہ اعتراف کیا
اور اپنے ان بھائیوںکی محبت پہ فخر کرتے ہیں۔
سنگل ایک ڈیویلپڈگائوں کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آغا خان کمیونٹی کے کئی
اسکول اور ہسپتال کام کر رہے ہیں ۔ سنگل اور گلمتی جڑواں گائوں ہیں۔ گلمتی
مرکزی مسجد کے خطیب مولوی غفران صاحب مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ حقانی بھائی ،
آپ نے گلمتی اور سنگل میں کیا فرق محسوس کیا؟دونوں الگ الگ بستیاں ہیں یا
ایک؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو دونوں جڑواں گائوں لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا
لو جی ! میر ا مسئلہ حل ہوگیا۔ اصل میں انہوں نے گلمتی میں نماز جمعہ کے
حوالے سے دارالعلوم کراچی سے استفتاء کیا ہے ۔ دارالعلوم والوں نے لکھا ہے
کہ اگر دونوں جڑواں ہیں تو نماز جمعہ شروع کیا جائے ۔ اور اب یہ فیصلہ باقی
تھا کہ جڑواں کا حکم کون لگائے گا۔ قاضی صاحب غور سے سن رہے ہیں اور فرمانے
لگے کہ میاںغفران !حقانی باہر سے آنے والے آدمی ہیں ان کا مشاہدہ ہمارے لیے
دلیل رکھتا ہے۔ بس اب کسی فیصلے کی ضرورت کی گنجائش کہاں رہتی ہے ۔
قاضی عبدالرزاق صاحب کے آبائی گائوں میں
گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا قافلہ ٹھیک اسی جگہ جارکایہاں گلگت بلتستان کے
عظیم قومی لیڈر بطل حریت قاضی عبدالرزاق صاحب پید ا ہوئے ہیں ۔ یہاں قاضی
صاحب کے خاندان والے اب بھی موجود ہیں۔قاضی صاحب کی زمینیں اب بھی موجود
ہیں۔ ہم اس گلی سے گزر رہے تھے یہاں قاضی مرحوم کا گھر ہے ۔ قاضی نثار احمد
صاحب میر ا ہاتھ تھامے تفصیلات بتانے میں مصروف تھے ۔ مولانا منیر صاحب اور
دیگر احباب قاضی صاحب کے نقش پا میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ یہاں برادر خلیق
صاحب کے گھر میں عصرانہ کا انتظام تھا ۔ گھر پہنچتے پہنچتے کافی سیر ہوگئی
،باغات دیکھے ۔ پرانی طرز کے مکانات قدیم طرز لائف کا پرچار کررہے ہیں ۔
عورتیں کھیتوں میں کام کاج کر رہی تھیں۔ راستے میں ایک بوڑھے بابا کے ساتھ
ملاقات ہوئی وہ فرداً فرداً سب سے ملا ۔ خیریت دریافت کی، جب انہیں بتایا
گیا کہ یہ(قاضی نثار احمد) قاضی عبدالرزاق کے فرزند ارجمند ہیں تو وہ فرط
محبت میں چیخ اٹھے کہ ہائے میرے "بابا"کے بیٹے ہیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا
کہ وہ اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ مگر عجب حیرت کی بات ہے کہ
قاضی مرحوم کے لیے اتنی وسعت ظرفی اور فرط محبت ، درحقیقت ایں سعادت بزور
بازو نیست،۔
نماز عصر مرکزی مسجد گلمتی میں ادا کی گئی اور مولوی غفران صاحب کو بھی
شریک سفر کیا گیااور یوں گاڑیاں فراٹے بھرنے لگیں
سلپی اور گاہکوچ کے درمیان دریا کی تباہ کردہ زمین
ضلع غذر کے کپیٹل ایریا گاہکوچ سے چند قدم پہلے تحصیل اشکومن کے لئے جو پل
بنائی گئی ہے وہاں سے پولیس کاحفاظتی دستہ تبدیل ہوا اور سیکورٹی کے
انتظامات اشکومن پولیس نے سنبھال لیئے، اشکومن پل اتنی خوبصورت اور پختگی
کے ساتھ بنائی گئی ہے کہ دیکھتے دیکھتے جی نہیں بھرتا۔یہاں سے تھوڑا آگے
سلپی ہے جو چھوٹا سا گاؤں ہے،گاہکوچ اور سلپی کے درمیان دریائے غذر بہہ رہا
ہے، سلپی اور کاہگوچ کے درمیان دریا کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہے کہ ایک چھوٹا
سا جزیرہ نما دکھائی دے رہا ہے،پانی کے بہاؤ اور پھیلاؤ سے بڑی قیمتی زمین
ضائع ہو ا ہے، اچھی پلاننگ کی جائے تو ہزاروں کنا ل قیمتی اراضی بچائی جا
سکتی ہے۔دریا کے وسط میں جزیرہ نما زمین پر لڑکے کرکٹ، فٹ بال اور والی بال
کھیلتے نظرآ رہے تھے۔
درختوں کے جھنڈ میں راز ونیاز کی باتیں
جب ہم اشکومن روڈ سے گزر رہے تھے توسورج غروب ہو چکا تھا، شام کے دھندلکے
میںوادی غذر کا حسن نکھر کر سامنے آرہا تھا، سلپی سے تھوڑا آگے درختوں کا
ایک بڑا جھنڈ ہے جو ایک چھوٹا چھانگا مانگا نظر آرہا تھا، لوگوں کی
ٹولیاںبیٹھی نظر آرہی تھی،دور چند پرندے سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ ایک طرف
نظر گئی، غالباََایک پریمی جوڑا راز ونیاز کی باتیں کررہا تھا،سپیدہ کے
ہزاروں درخت خزاں کا استقبال کے لیے کھڑے تھے اور لوگ بھی مکمل خزان سے
پہلے درختوںکے جھنڈ سے بہار کی لذتوں سے محظوظ ہونے کیلئے باغات اور درختوں
کے جھنڈ میں سرکتے نظر آرہے تھے، میں بھی ان مناظر کو دیکھ کر محظوظ تو ہو
رہا تھا مگر دل تھا کہ عجب کیفیت میں مبتلا تھا۔
باسیان ِغذر کی ایک دل موہ لینے والی عادت
لوگ قافلے کی جانب ٹکٹکی باندھ کردیکھ رہے تھے اور ہاتھ ہلا ہلاکراظہار
محبت کررہے تھے۔ضلع غذر کے لوگوں کی ایک عادت دل موہ لینی والی ہے، ہرگزرنے
والے کوہاتھ اُٹھا کر سلام کرتے ہیں، اس میں کوئی تمیز نہیںکہ سلام کرنے
والے مرد و زن اور بوڑھے جوان سبھی شامل ہیں،آپ ۖ کا فرمان ہے کہ افشوا
السلام(سلام کو پھیلاؤ) ، ایک اور روایت میں ہے کہ البادیٔ بالسلام بری من
الکبر، نبی کریمۖ کے ان فرامین مبارکہ کا صحیح عملی مفہوم ایسے مواقعوں پر
سمجھ آجاتا ہے،کاش!یہ روایت ہمیں بھی اپنانے کی توفیق ملتی۔ایک اور حدیث
مبارکہ میں صاف ارشاد ہے کہ '' لاتاذنو ا من لم یبدأ بالسلام'' جو سلام کے
بغیر داخل ہو اس سے داخل ہونے کی اجازت نہ دیجیے۔ہم مسلمانوں نے اسلام کے
ان زندہ و جاوید فرامین کو پس پشت ڈالا ہوا ہے۔
اشکومن میں سیلابی تباہ کاریاں اور پیر کرم کی عدم چشمیاں
وادی غذر کے پہاڑوں میںبرف کی سفید تہ ہلکی سے جمی ہوئی تھی، پانی یخ ٹھنڈا
تھا،منظر بڑا دلکش دکھائی دے رہا تھا۔ ایک موسم سہانا ، دوسرا ہوا خوشگوار،
کیا ہی دلچسپ ماحول۔۔۔۔۔۔ سلپی سے چٹور کھنڈ تک کے بعض علاقوںمیں سیلاب نے
جو تباہ کاریاں مچائی ہے اسکو دیکھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے ،مگر کمال ہے
کہ ہمارے گورنر صاحب کواپنے ناک تلے یہ تباہ کاریاں نظر نہیں آرہی
ہو،دہائیوں سے الیکشن جیتنے والوں کو عوامی تباہ کاریاں نظر کیوںکر آسکتی
ہیں،ویسے بھی انہوں نے اپنی طبعی عمر پوری کی ہے، اور الیکشن سے ریٹائرڈ
ہونے والے ہیں، خدا اندھے کو ناخن نہ دے۔ ہمیں اس بارے زیادہ متحیر نہیں
ہونا چاہیے کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔ زندگی کی اقدار بدل چکی ہیں،اب نیا
دور ہے،وہی کامیاب ہے جو زمانے کے ساتھ چل سکے یعنی جھوٹ، دھوکہ،
فراڈ،اقربا پروری اور ذخیرہ اندوزی۔ اور ہمارے گورنر صاحب بھی یہی کر رہے
ہیں۔ اشکومن روڈ میں ہاسیس بڑی خوبصورت جگہ ہے، ہاسیس میں بھی بڑی تعداد
میں درخت لگائے گئے ہیں۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ
فمانی میں شاندار استقبال
فمانی ایک خوبصورت گاؤں ہے ،جہاں مولوی اکبر صاحب، مولوی رحمت گل صاحب اور
دیگر احباب قافلے کی استقبال کے لئے نماز جمعہ کے بعد چٹور کھنڈ سے تشریف
لائے تھے،فمانی میں مولوی رحمت گل کے گھر میں چائے کا انتظام تھا مگر مغرب
کا وقت قریب ہورہا تھا اس لئے قاضی صاحب کی خواہش پر چٹور کھنڈ کی جامع
مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تھوڑا سا وقفہ کے بعد قافلہ
روانہ ہوا ۔ فمانی سے چٹور کھنڈ تک گاڑیوں کا ایک سیلاب تھا جو اپنے
مہمانوں کے استقبال کے لئے جمع کی گئی تھی، لوگ ذاتی اور کرایہ کی گاڑیا ں
لیے قافلہ کے ہم دم ہوئے۔ دیہاتی لوگوں میںخلوص ومحبت کا پرجوش مظاہرہ تھا،
اشکومن کے علماء اور معززین تشریف لائے تھے، سچی بات ہے کہ یہ تمام مناظر
محبت ومودت کے خالص جذبے مجھے عجیب لگ رہے تھے۔ میں نے محبت کے قصے و
کہانیاں صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔زند گی کی کچھ بہاریں تو لہو ولعب میں
گزری اور جب ہوش سنبھا لا تو تعلیم کے لئے کراچی سدھار گئے، عنفوان شباب کے
کچھ دن ''ڈگریوں '' کے حصول میں بیت گئے اور کچھ غم دوراں میں گزرنے شروع
ہوئے۔کہاں محبت کے فلسفے اور مودت کی باتیں اور اکرام و شرف کی نرالی
کیفیات سمجھ آتیں۔ یقینا غذر کے احباب کا انداز محبت اور والہانہ استقبال
کو دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ کیا مادیت کے اس دور میں اس کی گنجائش ہے۔
ذہن کے نہاں خانوں میں فلسفہ ِ محبت پر خیالات کے موجیں اُ مڈ ارہی تھی،
کبھی اقبال کے اشعار اور فلسفہ اسکرین پر نمودار ہورہے تھے۔ آپ ۖ سے آپ کے
جانثاروں کی محبت و ایثار کی کہانیاں بھی یاد آرہی تھی۔ اختر شیرانی کے یہ
اشعار سے سہار ا لینا پڑا، لو آپ بھی محظوظ ہو جائے اور سر دھنتے جائیے ۔
محبت،آہ! تیری یہ محبت رات بھر کی ہے
تیری رنگین خلوت کی لطافت رات بھر کی ہے
تیر ے شاداب ہونٹوں کی عنایت رات بھر کی ہے
تیرے مستانہ ہونٹوں کی حلاوت رات بھر کی ہے
تو کیا جانے سودائے محبت کس کو کہتے ہیں
محبت اور محبت کی لطافت کس کو کہتے ہیں
چٹور کھنڈ میں نماز مغرب کی ادائیگی
چٹور کھنڈ کی جامع مسجد میں نماز مغرب ادا کی گئی، بابا عبدالقیوم سے
مختصربات چیت ہوئی، قاضی عبد الرزاق صاحب،مولانا گلشیرصاحب، مولانا نزیر
اللہ ، مولانا عزیزا لرحمن صاحب اور دیگر علما ء کی یادیں تازہ کروادیں جو
1953ء میں مدرسے کے چندے کے حوالے سے یہاں آئے تھے،ان اکابر کو یاد کرتے نہ
تھکتے، اس زمانے میں روڈ کی سہولیات نہیں تھی لوگ پیدل اور گھوڑوں میں سفر
کرتے۔
کراچی کی بریانی کی خوشبو
رات کا کھانا دائن میں مولوی اکبر کے گھر میں تھا اور قیام کا بندوبست بھی
وہی تھا، ہم سب نے وہاں چل دیے۔تمام مقامی اور گلگت سے آئے ہوئے مہانوں کے
لیئے قیام و طعام کا بندوبست تھا، اب شرکاء کی تعداد ٣٠ سے متجاوز کر گئی
تھی، نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد کھانے کا دور چلا، ضلع غذر کے لوگوں کی
مہمان نوازی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیاجوکھبی سنا تھا آج دیکھنے کاموقع ملا،
ضلع غذر کے ایک گاؤں میں جب کراچی کی بریانی کی خوشبو آنے لگی تویادوں کے
دریچے کھل گئے، بسم اللہ ہوٹل، الحرمین چکن سینٹر اور پشاوری ہوٹل کا وہ
دور یاد آنے لگا کہ ہم ساتھیوں کا ایک ٹولہ اکثر بریانی کھانے وہاں جائے
کرتے تھے، معلوم کرنے پر انکشاف ہوا کہ مولوی اکبر کی گھر والی کافی عرصہ
کراچی میںرہ کر آئی ہے یہ ان کے ہاتھ کا کما ل ہے کہ پہاڑوں کی بیٹی شہریوں
سے بھی آگے نکل سکتی ہے۔کھانا واقعتا بڑا لذیذ تھا، پرتکلف بھی تھا، پانی
نارمل تھامگر بہت ہی شریں، چشمے کا لگتا تھا، بعد میں معلوم کرنے پہ پتا
چلا کہ واقعی چشمے کا صاف پانی ہے۔میںپانی اور چائے کے بارے میں بڑا حساس
ہوں، پورے پاکستان کا پانی چکھ لیا ہے، سب سے شریںاور ذائقہ دار پانی گلگت
بلتستان کا ہی ہے، اور گلگت بلتسان میں سب سے زیادہ شریں پانی گوہر
آباد(گنو داس) کا ہے۔ ایک حکیم کی تحقیق اور تجربے کے مطابق گنو داس کا
پانی انتہائی ہاضم ہے۔
کمانڈر منیر کے ساتھ بات چیت
کمانڈر منیر صاحب کے ساتھ جب بھی نشست ہوتی تو و ہ اپنے دور کی کہانیاں مزے
لے لے کے سنا رہے تھے، ایک دور تھا جب وہ کراچی سے گلگت اور خیبر سے
افغانستان تک گھوما کرتے تھے، جگہ جگہ ان کی دفاتر ہوا کرتے تھے اور وہ
اپنے پروفیشنل کام کو بڑی مستعدی سے انجام دیا کرتے۔ میڈیا بھی ان کو بڑی
اچھی کوریج دیتی۔ آج کل وہ قاضی نثار احمد کے دست معاون بنے ہوئے ہیں اور
تنظیم اہلسنت کے امور بڑی خوش اسلوبی کیساتھ نمٹا رہے ہیں اورمحمد نواز
صاحب بھی ان کے ہمدم ہیں، اللہ نے محمد نواز صاحب کے قلم میں بڑی تاثیر
رکھی ہے، اردو اور انگلش میں انہیں ید طولیٰ حاصل ہے۔جتنا اچھا بولتے ہیں
اس سے کئی گنا اچھا لکھتے ہیں۔
SMSکا روگ
موبائل فون کے غلط اور بے جااستعمال کے نتیجے جو نقصانات وقوع پذیر ہوتے
رہتے ہیں وہ بے حد مضر ہوتے ہیں۔ ان میں اخلاقی بے راہ وری اور بد کاری کو
بھی فروغ ملتا ہے۔ نہایت ہی بے ہودہ اور نازیبا و فحش قسم کے SMS کے تبادلہ
نے نوجوانوں کو مخرب اخلاق بنایا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیںکہ موبائل فون کے
غلط استعمال نے ہماری معاشرت کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔کلاس رومز میں ہمارے
طلبہ و طالبات گیمز میں مصروف رہتے ہیں او رSMS تو معمول کی بات ہے۔
انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ طلبہ میںSMS کے تبادلہ تو بڑی دینی درسگاہوں کے
رواج عام پکڑ چکا ہے' یقینا یہ کوئی مثبت اوراچھی صورت حال نہیں ہے۔
ہمارے دوست برادرم شرافت الدین بھی کھبی کھبارمحفل سخن میں شریک ہونے کی
سعی کرتے مگراچانک SMS کرنے لگ جاتے۔SMSکا روگ بھی عجیب روگ ہے،جس کو لگ
جائے اسکی جان نہیں چھوڑتا، اور پھر اگر انسان غیر شادی شدہ ہو تو اس کی تو
راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے، بعض دفعہ یہی SMS انسان کے لئے بڑے مضر ثابت
ہوتے ہیں۔ میرے بعض دوستوں نے تو SMS چینل کھول رکھے ہیں جو تمام باتیں
SMSکے ذریعے ہی پو چھتے ہیں۔ کھبی کھبار تو یہSMS اتنے مضحکہ خیز ہوتے ہیں
کہ الامان والحفیظ، ایک اور فعل بذریعہ SMSسرزد ہوتا ہے وہ یہ کہ بعض اسلام
بیزار لوگ قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ کے ترجمے اور مفاہیم اپنی طرف سے نقل
کرکے آگے فاروڈ کرتے ہیں اور اس سے مزید آگے فاروڈ نہ کرنے کی صورت میں سخت
نتائج کا مژدہ سناتے ہیں۔درالاصل اس قسم کے SMS من گھڑت اور واہیات ہوتے
ہیں۔انہی غلط SMS کی انفار میشن پر مجھے اپنے نیٹ ورک سے ہاتھ دھونا پڑا
اورکئی دن نمبر بند پڑا رہا اور تما م احباب سے رابط منقطع۔ برادرم شرافت
الدین کی حالت دیدنی تھی، شاید وہ اپنی منکوحہ کو اپنی سفری کارکردگی
سنارہے تھے بذریعہ ایس ایم ایس، ان کی ابھی رخصتی نہیںہوئی ہے، اور رسم
رواج کے بندھن میں پھنسا یہ معاشرہ کب اسلامی اقدار کو اپنا لے گا۔
نوجوانوں کو اسطرح نہیں تڑپانا چاہیے۔شادی بیا ں اور نکاح کو جتنا ممکن ہو
آسان بنانا چاہیے۔ عین اسلام کے مطابق
رات کے مشاغل اور قاضی صاحب کے سفری معمولات
رات کافی بیت چکی تھی۔قاضی صاحب اور دیگر علماء کے ساتھ مختلف موضوعات پر
تفصیلی گفت وشنید ہوتی رہی،قاضی نثار احمد صاحب کی ایک عادت بھلی لگی، وہ
سخت سے سخت بات کوبھی سنتے ہیں، اپنوں کے لئے ابریشم اور غیروں کے لیے سخت
جان،یہاں بھی میںسفری واقعات قلمبد کرتا رہا۔ اکثر احباب مجھ سے گفتگو کرنا
ضروری خیا ل کرتے، بعض پھبتیاں کستے اور بعض دھیمے انداز میں طنز و مزاح کے
نشتر چلاتے اور کچھ بڑے محتاط رہتے۔
جب سوئے تو لمبی تان کر سوئے، یکم اکتوبر٢٠١١ء کو علی الصبح مؤذن کی آواز
نے جاگنے پر مجبور کیا، اللہ اکبر کی صدا گونجنے لگیں،قاضی صاحب ہمیں کہ
رہے تھے کہ یوں گھوڑے بیچ کر سونا اچھی بات نہیں، وہ سفر اور حضرمیں تہجد
کی پابندی کرتے ہیں، یہاں بھی وہ تہجد پڑھ کر اپنے وظائف میں مشغول تھے،
مجھے ان کے ساتھ کئی دفعہ سفر کرنے کا موقع ملا ہے، وہ ذکر و اذکار اور
اپنے معمولات کا بڑی تندی سے پابندی کرتے ہیں۔ حصن حصین میں ایک حدیث منقول
ہے کہ جو شخص اپنے سفر میں تنہائی کے وقت اللہ تعالیٰ کے دھیان اور اس کے
ذکر میں مشغول رہتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ اسکا ہم سفر بنا دیتے ہیں۔
اور جو شعر و شاعری اور دیگر لغویات مین منھمک ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کے
پیچھے ایک شیطان لگا دیتے ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ '' والشعراء
یتبعھم الغاؤن، تاہم یہاں وہ شاعری مراد جو حدود سے متجاوز ہو، ہاں حدود و
قیود کے اندر رہ کر شاعری کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، مثبت اور معیاری
شاعری کا ہونا تو ضروری ہے، شاعری سے حالات و کیفیات میں ٹھہراؤ آجاتاہے
اور لوگوں کے طبائع بھی نثر سے زیادہ نظم کو قبول کرتیں ہیں اور فوری اثر
لیتی ہیں۔مثبت اور تعمیری شاعری کی مکمل حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
یخ بستہ پانی سے وضوء ، رومان و حقیقت میں کشمکش اور مخمصہ حیات
نماز فجر سے کافی پہلے یعنی صبحِ کاذب کو قضائے حاجت کے لیے دائن کے کھیتوں
میں نکل گیا، چاروں طرف مکئی کی فصل کھڑی سردی سے ٹھٹھر رہی تھی اور میں
بھی سرد موسموں کی وجہ سے سر تا پا ہل رہا تھا، تمام بدن میں کپکپی جاری
تھی،اُف یا خدا ! سرسرا تے ہوئے یہ جھونکے۔میں نیند کے خمار میں تھا تاہم
یہ ضرور محسوس کر رہا تھا کہ ہوا کے سرد جھونکے دھیرے دھیرے سر گوشیوں میں
مصروف تھے، شاید ان کی یہ وجد آفریں سرگوشیاں ایک نو وارد کے حوالے سے ہوں
۔اچانک دل و دماغ میں خیالات کا ''ورود'' ہونا شروع ہوا،اپنے متعلق عجیب و
غریب باتوں نے آ گھیرا، جس طرح دائن کی یخ ہواؤں نے جسم کے تمام حصوں کو
منجمد کردیا تھا بالکل اسی طرح مختلف وساوس اور خیالات نے دماغ کو فریز بنا
دیا تھا۔ جسم اور دماغ کی اس کیفیت کے درمیان بیچارہ دل سراسیمہ تھا۔ماضی
اور مستقبل کے سارے مناظر ہاتھ جوڑ کر دست بدستہ کھڑے تھے۔ اپنی حالت اس
شعر کے مانند تھی۔
عرصہ گاہ زندگی کا ہوں وہ رہرو جسے
فکر منزل ہے نہ کچھ اندیشہ سود و زیاں
ہوں میں وہ آشفتہ سر وہ بیخود جُوش طلب
جس کی حاجت راہبر کہ ہے نہ ذوق آستاں
یہ ایک حقیقت ہے کہ رومان حقیقت سے زیادہ دلکش ہوتے ہیں مگررومان حقیقت
نہیں ہوتے ، حقیقت کے آئینہ دار ضرور ہوتے ہیں۔ میں اپنی اس کیفیت کا نام
حقیقت رکھوں (جو واقعی حقیقت ہے) تو پھر یہ رومان لگتی ہے اور اگر رومان کا
نام دوں توحقیقت ہے ۔ذہنی نہاں خانوں میںکشمکش کی یہ لڑائی جاری تھی، میں
جامدو ساکت ایک کھیت میں کھڑاآسمان کے تاروں کو تک رہا تھا،دور کہی چاند
نیلگوں گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا اور بادل کے سیاہ ٹکڑے اِدھر اُدھر
دندناتے پھر رہے تھے۔ درخت بھی خاموشی سے میر ی حالت زار پر رو رہے تھے،
اور کچھ غریب الدیار سمجھ کر ترس بھی کھا رہے تھے تاہم کچھ منچلے توڈھٹائی
سے ہنس رہے تھے۔مجھے درختوں کا یہ رویہ اچھا نہیں لگا۔چھٹی حس کہ رہی تھی
کہ قریب کہی دریائے غذر کی سرکش موجیں مدھم سروں میںکوئی پریمی نغمہ الاپ
رہی ہیں۔ اللہ !اللہ!!! کشمکش حیات کی یہ ہنگامہ آرائیاں۔ہر شے پر دلاویز
مسکراہٹ جھلک رہی تھی،بس میں ہی تھا جو قلابازیاں کھا رہا تھا اور مجھے لگ
رہا تھا کہ فضائے بسیط میں کوئی مقدس ہستی مجھ پر کھلکھلا رہی ہے اور اس کے
مخلوقات میری درماندگی و بیچارگی پر مسرور ہیں اور مجھے یہ باور کرانے پر
تلے ہوئے ہیں کہ کشاکش حیات کی حیرانگی و شوریدگی پر یقین کرلو، مجھے اس
عالم پر کیف کی شوریدگیوں پر بادل نخواستہ بھی یقین کرنا ہی پڑا۔ بالآخر یخ
بستہ پانی سے وضوء کیا جو کہ چشمہ کا تھا، اس وقت میر ا پورا جسم سردی سے
کانپ رہا تھا اور قریب بیٹھے دوست بھی میر ی ٹھٹھر اہٹ پر کھکھلاہٹ کا
مظاہرہ کر ہے تھے،سچ بات یہ ہے کہ مجھ سے سردی برداشت نہیں ہوتی وہ بھی غذر
کی۔
دائن کا جائزہ ا ور پل کی خستہ حالی
ناشتے کے بعد میںکھسک کر باہر نکل گیا اور دائن کا جائزہ لینے لگا، دائن
ایک خوبصورت گاؤں ہے، یہاں انگور،ناشپاتی، سیپ، خوبانی،انار اور بادام کے
درخت وافر مقدار میںپائے جاتے ہیں۔ دائن سے پکورا کامنظر بڑا خوبصورت
دکھائی دیتاہے،چٹور کھنڈ اور دائن جڑواں گاؤں ہیں مگر درمیان میں دریا حائل
ہے، ایک پل کے ذریعے دونوں کوملادیا گیا ہے اور اس پل کی خستہ حالی کی کا
کیا کہنا، ہمارے ہاں عموماََ اشیاء کی خستہ حالی مثالی ہوتی ہے، ہم نے کبھی
بھی سنجیدگی سے خوش حالی کو نہیں سوچا ہے۔ یہ ہمار اقومی المیہ اور وطیرہ
ہے اور بد قسمتی سے ہم اس پر فرحاں و شاداں بھی ہیں۔ اور قوم کی اس خستہ
حالی اور بد حالی کے نام پر عالمی ڈونرز سے بھاری رقوم لیتے ہیں اور ہڑپ کر
جاتے ہیں، اس چھینا چھپٹی میں حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی اور ملکی و بین
الاقوامی این جی اوز (NGOs) بھی شریک ہیں۔ آو مل بیٹھ کر کھائیں والا سلسلہ
گزشتہ کئی دہائیوں سے ساری و جاری ہے۔
اشکومن کے مختلف گاؤں
تحصیل اشکومن میں کئی خوبصورت گاؤں ہیں جن میں سلپی،گولوداس، ہابس،فمانی،
بِرگَل،چٹور کھنڈ، بارجنگل، دائن،پکورہ ایمت وغیرہ قابل ذکر ہیں،چٹور کھنڈ
اشکومن کا کیپٹل ایریا ہے اور پیر کرم علی شاہ کا آبائی گاؤں بھی ہے۔ پیر
صاحب کی حویلی بہت مشہور ہے جس پر کروڈوں خرچ کرکے بنائی گئی ہے،پیر کرم
علی شاہ اپنے حلقہ انتخاب سے ہمیشہ جیتا ہے، اب کی بار تو وہ جیت کر پھر
جیتا ہے،اب شاید دوبارہ اس کا نمبر نہیں آئے گا کیونکہ ضلع غذر کے لوگ اب
بہت ہوشیار ہوگے ہیں، اور پیر صاحب مرحوم کی عمر کا تقاضہ بھی ہے، انہوں نے
بڑی تگ و دَو کرکے گورنرکا عہدہ ہتھیا لیا ہے،جب وہ گونر بنے تو ان کی سیٹ
پر ناجی نے بھاری اکثریت سے جیتا۔بہر صورت پیر کرم علی شاہ ،شاہ سے زیادہ
شاہ (اسلام آباد کے شاہوں کی بات ہورہی ہے)کا وفادار ہونے کا عملی مظاہرہ
کر رہے ہیں اور قومی مسائل پر توجہ کے بجائے ذاتی مفادات کی تکمیل میںمصروف
ہیں۔
اشکومن کا آخری گاؤں ایمت ہے، اس کی سطح سمندرسے بلندی6500فٹ ہے۔ اشکومن
میں بالعموم اور ایمت میں بالخصوص مختلف زبانیں بولی جاتیں ہیں،سب سے زیادہ
بولی جانی والی زبان وخی ہے۔، پھر بالترتیب شینا،کھوار،گوجری،پشتو،
کاشغری،کوہستانی، فارسی اور بروشکی بولی جاتیں ہیں۔یوں مقامی کلچر ایک خاص
قسم کا مربہ بن گیاہے۔
دریائے غذر پر'' پگڈنڈی پلوں'' کی بھر مار اور ڈراؤنی کیفیت
ضلع غذر کے تمام گاؤں دریا کے آس پاس ہیں۔نالوں کی شکل میں آبادی بہت کم
ہے، ضلع دیامر میںدریا کے ساتھ آبادیاں ضرور ہیں مگر اصل آبادیاں نالوں کی
شکل میںہیں۔ ضلع غذر میںدریا کوعبور کرنے اور ایک گاؤں سے دوسرے
گاؤںکوملانے کے لیے جگہ جگہ ''پگڈنڈی پل'' بنائے گئے ہیں۔لوگ ان پلوں کے
ذریعے دریا کراس کرتے ہیں، بہت سارے پل خطرناک حد تک ڈراؤنے لگ رہے ہیں اور
اگر ہوا تیز چلے تو یہ پل الٹ ہی جاتے ہیں۔ ان پلوںکے ذریعے صرف انسان ہی
ایک طرف سے دوسری طرف جاسکتے ہیں۔گاڑی کا گزارنا ممکن نہیں، لوگ رسک لے کر
اپنے ساتھ ہلکا پھلکا سامان بھی اُٹھا لاتے ہیں۔ کئی قیمتی جانوں کا ضیاع
ہو چکا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اسماعیلیوں کا مذہبی پیشوا پرنس کریم آغاخان
اور حکومت وقت اس پر چپ سادھ کیو ں لئے بیٹھے ہیں۔
دائن میں سیپ گرلز سکول کی بے چار گی
میں دائن کا وزٹ کرتے کرتے ایک سڑک سے گرز رہاتھاایک عمارت کے اندرسے ''پاک
سر زمیں شاد باد، کشور حسین شاد باد''کی سریلی آواز سنائی دی۔معلوم کرنے پر
پتا چلا کہ یہ دائن کا سیپ گرلز سکول ہے،معصوم بچیوں کی محسور کن آوازوں نے
مجھے سکول کے اندر جانے پر مجبور کردیا۔تمام بچیاں لب آتی اور پاک سر زمیں
کے خوبصورت ترانے کے ذریعے ملک وملت کی سلامتی کے لیے اجتماعی طور پر دعا
گوہ تھیں۔بڑے شہروں اور بند کمروں میںبیٹھ کر ملکی محبت کے نام نہاد
علمبرداروں اور بھاری معاوضوں کے بدلے سرکاری امور انجام دے کہ ملک و ملت
کی پاسبانی کے دعویداروں کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ ملک و ملت کے اصل
پاسبان اور محب تو یہی لوگ ہیں جوزندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم
ہونے کے باوجود محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ اصل
پاکستانی کون ہے تو میرا سیدھا سادھا جواب ہوگا کہ گوہر آباد کے مارتل میں
رہنے والا ''گجر گونیا انکل'' اور دائن کے سیپ سکول میں بغیر لالچ اور
ستائش کے ملک وملت کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے والی وہ تمام بچیاںا ور
بچے ہیں اور جو ملک کے کسی بھی پسماندہ گاؤں میںہوں،اور پہاڑوں میں رہنے
والا وہ غریب طبقہ جو باوجود آن پڑھ ہونے کے اردو بولتا ہے اور سمجھتا
ہے،اور اردو سے محبت کرتا ہے،یہی حال انکل گوجر گونیا کا ہے۔ کیا اقتدار کے
سنگھا سن پر براجمان ارباب حل و عقد نے کبھی ان غریب محب وطن پاکستانیوں کی
بھلائی کا سوچا ہے؟ یقینا نہیں،وہ کیوں سوچے، ان کی ترجیحات ہی کچھ اور
ہیں۔خیر ! دائن میں چار سکول ہیں۔ ١۔ڈی جی پرائمری سکول ٢۔نان فارمل
پرائمری سکول، ٣۔ پرائمری سکول اور سیپ گرل سکول ،جس میں میں گیا تھا۔ میر
ے ساتھ ایک مقامی آدمی بھی تھا انہوں نے اسکول اسٹاف سے میر اتفصیلی تعارف
کروایا۔ یہاں ایک سرکاری پرمننٹ ٹیچر ہے اور دو کمیونٹی استانیاں ہیں،
اکیسوی صدی میں مجھے یہ انوکھی بات سننے کو ملی کہ گورنمنٹ کی طرف سے ان دو
کمیونٹی استانیوں کو ماہوار 150 روپے تنخواہ ملتی ہے۔ ان میں ایک میڑک پاس
اور ایک انٹر میڈیٹ ہے، ڈائیریکٹوریٹ آف ا یجو کیشن کی ان کے ساتھ یہ
ہمدردانہ سلوک کا دورانیہ چھ سال پر مبنی ہے اور ہنوز جاری ہے۔ اس سکول
میں45بچیاں تعلیم حاصل کرہی ہیں۔ تینوں استانیاںاپنے مسائل بیان کررہی
تھیں، کہ بس میں ان کے مسائل حل ہی کردوں گا۔ میں نے ان کی توجہ اس علاقے
کے باسی گورنر پیر کرم کی طرف کروانی چاہی تو انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب
اور علاقے کے ڈسٹرکٹ ممبر کئی دفعہ تشریف لاچکے ہیںمگر........بچیوں کے لیے
بیٹھنے کی کرسیاںتو چھوڑو، دریاں تک نہیںہیں، ان کی سینئر کا مطالبہ تھا کہ
میر ی دونوں کولیگ کو ریگولر کیاجانا چاہیے۔ ہم نے گورنر کے سامنے تمام
باتیں رکھیں ہیں مگر صرف وعدے وعید سے کام لیا جارہاہے، تین کمروں اور تین
ٹائلٹوں پر مشتمل یہ سکول پرائیوٹ کمیونٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل کے فنڈ سے
تعمیر ہوا ہے۔جس آدمی نے سکول کے لیے جگہ دی ہے اسکو سکول کا گریڈ ون لگانا
تھا جو نہیں لگایا جارہا ہے، بہر صورت ان سے تمام مسائل سننے کے بعد ان سے
یہ وعدہ کرکے رخصت ہواکہ آپ کے مسائل ارباب اقتدار اور صاحبان بست وکشاد تک
ضرور پہنچائیں گے۔ یوں آج ان سطور کے ذریعے اپنے وعدے کا ایفا کررہاہوں۔
ریٹائرڈ صوبیدار حاجی نیک بخت سے ملاقات
انہوں نے پاک آرمی میں٢٤ سال خدمات انجام دیں ہیں اوراب انکھوں سے معذور
ہیں۔1995ء میںدعوت تبلیغ میںوقت لگایا، اسماعیلی مکتبہ فکر کو خیر آباد کہ
کرہلسنت برادری میں شامل ہوگے اور مذہب حقہ کی ترویج و تنفیذ کو اپنا
اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ ان کے ساتھ بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی، ان کا کہنا ہے
کہ ان کی پوری برادری اب بھی اسماعیلی ہی ہے مگرا پس کی خوشی غمی میں آنا
جانا رہتا ہے۔تبدیلی مذہب سے معاشرتی زندگی میں کوئی بگاڑ پید ا نہیں ہوئی
ہے۔ یہی اصل دینی مزاج ہے کہ انسان انسان کی قدر کریں، اسلام نے ہمیشہ
دوسروں کی قدر و احترام کا درس دیا ہے اور صبر و تحمل کی تلقین کی ہے،
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسکا شدیدفقدان ہے۔ علاقے میں ان کی دینی خدمات کا
بڑا غلغلہ ہے،کئی مسجدیں تعمیر کرواچکے ہیں۔ باتوں باتوں سے پتہ چلا کہ
نماز فجر کے بعد قاضی نثار صاحب بھی ان کے ساتھ ملاقات کرچکے ہیں۔ وہ بھی
ان سے بڑے متاثر تھے۔حاجی صاحب علاقے کے مسائل پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے
ہیں۔ انہوں نے ناشپاتی اور دیگر فروٹ کے ذریعے ہماری ضیافت کی اور خشک میوہ
جات دیکر رخصت کیا۔حاجی صاحب کا کہنا تھا کہ پیر کر م علی شاہ ٤٢ سال سے
علاقے کا نمایندہ ہیں مگر کبھی اس علاقے کے لیے کچھ نہیں کیا۔علاقے کی
پسماندگی آپ کے سامنے ہے۔ ہنستے ہوئے ۔ اب تو وہ سیاست اور حکومت سے
ریٹائرڈ ہونے والے ہیں لہذا علاقے کے مسائل سے انہیں کیا سروکار۔ناجی بھی
الیکشن سے پہلے بڑی بڑی باتیں کیاکرتے تھے، کئی دفعہ یہاں آیا تھا مگر
جیتنے کے بعد دوبارہ یہاں کا رخ نہیں کیا۔
مدرسہ حدیقة الاسلام چٹور کھنڈ میں
یکم اکتوبر صبح 9 بجے دائن سے مدرسہ حدیقة الاسلام واقع چٹور کھنڈ معلم
آباد کی طرف نکلے۔ اس کے مدیر و رئیس مولوی نادر شاہ صاحب ہیں، مولوی نادر
شاہ جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں۔فراغت کے بعد
اپنے علاقے میں دینی خدمات کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔میر ی ناقص معلومات کے
مطابق مدرسہ حدیقة الاسلام چٹور کھنڈ کی باقاعدہ اولین دینی درسگاہ ہے۔ اور
وفاق المدارس کے ساتھ ملحق ہے۔جامع مسجد چٹور کھنڈ اور مدرسہ ایک ساتھ واقع
ہیں۔ مسجد کمیٹی کے چند ممبران اور مدرسہ کے اراکین میںکچھ چپقلش تھی جس کو
سلجھانے کو ضروری خیال کیا گیا تھا، قاضی نثار صاحب نے طرفین کی بات تفصیل
سے سنی، مسجد کمیٹی والے اپنی بات پر مصر تھے۔ کچھ ایسے احباب تھے جو دین
کا فرضی جذبہ لیے اندرون خانہ مسجد و مدرسہ دونوںکے لیے کینہ رکھتے تھے۔
اردو لٹریچر پڑھ کر علوم عربیہ و اسلامیہ پر عبور حاصل کرنے والا یہ طبقہ
دین کی اصل روحانیت سے ہمیشہ عاری رہا ہے مگر بزعم خویش خود کو بڑا مفکر
اورمصلح سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ دینی امور میں ٹانگ اَڑاتے ہیں جومضحکہ
خیز ہوتے ہیں،جہاں پر بھی یہی معاملہ تھا۔بہر صورت مولوی نادر شاہ مکمل
یکسوئی اور خاموشی کے ساتھ رہے۔ ان پر تلخی اور سختی کا الزام تھا مگر پورے
دو دن وہ مہمان علماء کے سامنے مہر بلب رہے۔
جامع مسجد چٹور کھنڈمیں اجتماع عام
دس بجے عوام الناس نے مسجد آنا شروع کیا، بڑی تعداد نے شرکت کی۔قاضی نثار
صاحب کی ایماء اور دیگر احبا ب کی اصرار پر احقر راقم الحروف نے بھی''اخلاق
مصطفیٰ اور ہماری حالت زار'' کے عنوان پر تفصیلی گفتگو کی۔میری گفتگو کا لب
لباب کچھ یوں تھا۔
''حمد و ثناء کے بعد: سورة القلم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی اور ان کی
مختصر تشریح کے بعد''وانک لعلی خلق عظیم'' پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
'' جب بھی اس آیت کو کوئی پڑھتا ہے تو یوں کہتا ہے کہ''نبی کریم بہت
بااخلاق تھے'' بے شک تھے مگر ایک طالب علم کی وضاحت یوں ہے کہ بااخلاق تو
دنیا میں ایسے ایسے موجود ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔صرف با اخلاق ہونا
قرب خداوندی کی اساس نہیں،تاہم یہ بہت اچھی صفت ہے جو کسی کسی کے حصہ میں
آتی ہے۔ انک لعلی خلق میں علی استعلاء کے لیے اتا ہے، نبی کریم اخلاق کی اس
بلندی پر کھڑے ہیں کہ اخلاق کی انہیںکوئی ضرور ت نہیں ہے بلکہ اخلاق کو
پیارے حبیب کی ضرورت ہے۔ اخلاق ہاتھ جوڑ کر آپ کے نیچے ہے اور آپ کے جوتیوں
کے تلے۔جہاں اخلاق کی انتہا ہے وہاں محبوب کی ابتدا ہے،جتنی مرضی اخلاق کے
محل بنا لیے جائیں اور مینارے تعمیر کیے جائیں اور اخلاق کے کے۔ ٹو اور
ننگا پربت سے اونچی چوٹیاں بنا لیے جائیں مگر جہاں محمد عربی ۖ فداہ ابی و
امی کے جوتے ہیں وہاں اخلاق کا سر ہے۔ اخلاق اخلاق کے رٹ لگانے والو! اخلاق
سے کہا جائے کہ ذرا خیا ل سے چلو،جہاں وہ جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ بڑا
اخلاق والا آیا ہے مگر جہاں میرے آقا مدنی کے قدم پڑیں گے وہاں اخلاق کے
چشمے صافی ابل پڑیں گے''۔ بہر صورت آج مسلمانوںکو نبی کی قدموں والا اخلاق
اپنانا چاہیے نہ کہ مغرب کے بوسیدہ اخلاقیات پر سر جھکانا چاہیے۔
برادرم شرافت الدین نے بھی مجمع عام سے خطاب کیا مگر تفصیلی خطاب تو حضرت
مولانا قاضی نثار احمد کا ہی ہوا ۔ قاضی نثار احمد ایک جید عالم دین ہیں،
اللہ نے انہیں بڑی اچھی خوبیوں سے نوازا ہے۔ وہ درس تدریس کے ساتھ ایک اچھے
خطیب بھی ہیں۔ ان کی تقریر میں عجب اثر ہے، کبھی انداز بڑا سخت ہوتا ہے اور
کھبی ابریشیم کی طرح نرم، ان کی آواز بہت بلند، ثریلی اور مؤثر اور لحن بہت
ہی دلپذیر، انہوں نے سلیس اور سادہ انداز میںعوام الناس سے بڑی شستہ گفتگو
کی۔ ان کی تقریر دلپذیر ہوتی ہے۔قرآنی آیات و احادیث مبارکہ کی انبار لگاتے
ہیں۔ اسماعیلی مکتبہ فکر کی بڑی تعداد بھی تھی،قاضی نثار احمد نے اسماعیلی
اور سنی بھائیوں کو محبت اور آشتی سے رہنے کی تلقین کی۔ گلگت میں ہونے والے
واقعات و حادثات کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا اور یہ بات واضح کردی کہ حالات کی
کشیدگی میں ایک مخصوص ٹولہ ملوث ہے۔ اظہار حقیقت کوئی برائی نہیں۔بہر صورت
قاضی نثار احمد کا خطاب جتنا دلنشیں تھا اتنا ہی دلوںکو موہ لینے والا بھی
تھا۔
پکورہ کا وزٹ
چٹورکھنڈ سے چار میل کی مسافت پر پکورہ کی آبادی ہے۔ ہمارا قافلہ پکورہ میں
ایک مسجدکے کچھ امور سلجھانے گیا تھا، وہاں قاضی صاحب اور دیگر علماء نے
مقامی لوگوں سے مشاورت کی،مسجد اور مدرسے کی نوعیت دیکھی اور مسجدمیں مجمع
عام سے خطاب بھی کیا۔میں اور برادرم عبداللہ ایک دیوار کی نکڑ پر بیٹھ کر
پکورہ کاجائزہ لے رہے تھے، دائیں بائیں کا منظر دیدنی تھا،چار سو سبزہ
تھاتاہم خزاں کی آمد آمد تھی،عورتیں کھیتوں میں کام کاج کرتیں نظر آرہیں
تھیں، بچے ہاتھ ہلا ہلا کر اظہار محبت کررہے تھے، قافلے کے چند نوجوان
پکورہ کے نالے میں بہنے والا شفاف پانی سے ہاتھ پاؤں دھو رہے تھے، چار سو
پہاڑوں میںگھر ی اس وادی میں کئی بہتے جھرنے ہیں، ان تمام
جھرنوں،گلیشیروںاور آبشاروں کا بہتا پانی دریائے اشکومن میں جاگرتا ہے اور
پھر دریائے غذر کے نام سے دریائے سند ھ میں جا شامل ہوتاہے۔
میں بھی شکستہ دل کو لئے پکورہ میں بہنے والے نالے کی طرف چل پڑا، برادرم
عبداللہ بھی خرامے خرامے اُترائی اُترنے لگے۔شفاف پانی تھا، وہاں ہر قسم کے
پتھر دیکھنے کو ملے۔ضلع غذر کی خلقت بھی عجیب ہے۔ موسم بہار بالخصوص موسم
گرما میں ضلع غذر کو سیاحوں کی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
گلگت بلتستان کو خوبصورتی بالخصوص ضلع غذر کی ہیئت،حسن جمال کو سامنے رکھ
کرمیرے دوست عبدالکریم کریمی نے ایک دل آویز غزل کہی ہے جس کے چند بند یہاں
آپ کو محظوظ کرنے کے لیے درج کئے جاتے ہیں۔
فلک کے ماہ و اختر بولتے ہیں
پہاڑوں کے یہ پتھر بولتے ہیں
اسے کہتے ہیں سیاحوں کی جنت
یہاں کے سب گُل و تر بولتے ہیں
پہاڑی سلسلوں میںہر قدم پر
زمرد لعل و جوہر بولتے ہیں
اچھلتی کودتی نہروں کی مستی
چمن میں اب کوثر بولتے ہیں
لب دریا پہ ٹیلے ریت کے ہیں
ذرا تو دیکھیے زر بولتے ہیں
ذرا اُڑ کر یہاں کے ٹو کو دیکھو
پرندوں کے کھلے پر بولتے ہیں
کھڑا کس شان سے ہے ننگا پربت
مناظر اس کے اکثر بولتے ہیں
گلگت بلتستان کے بے شمار آبشاروں،جھرنوں،چشموں اور گلیشیرؤں سے بہنے والا
پانی کئی دریاؤں کے نام سے بالاخر دریائے سندھ بن جاتا ہے اور دریائے سندھ
کے پانی پر حق بھی یہاں کے مقامی لوگوں کا ہے مگر بدقسمتی سے دیامر میں ڈیم
بنا کر اس کی ریالٹی اور دیگر مراعات صوبہ خیبر پختون خواہ کو دی جاتی ہیں،
یہ کو نسا نظام حکومت اور انصاف کا تقاضہ ہے،غرقابی کا شکار ہم ہوں اور
مراعات اور سہولیات کوئی اور سمیٹے۔ کم سے کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
نالے سے بہنے والاپانی اور ریتلی زمین میںنیلے پتھروں سے کھیل رہا تھااچانک
وادی پکورہ کی طرف نظریں گھوم گئی،کیا دیکھتا ہوں کہ مرد و زن اور پیر و
جواں اکھٹے کام کرتے نظر آرہے ہیں،سکول کے بچے بچیاں گھروں کو لوٹ رہے
ہیں،عجیب مناظر دیکھنے کو ملے۔یہاں محبت ، زندگی کے منتشر اجزا کو جمع کرنا
شروع کرتی ہے اور محبت کے بے پناہ جذبے دیکھنے کو ملے۔سچ کہاکسی نے کہ غذر
محبتوںکی زمیں ہے،محبتیں اور پیار یہاں خوب ملتا ہے،پہلے ہم نے کتابوں
میںپڑھا تھا اور احبا ب سے سنا تھا اور اب خود دیکھ کر پڑھا اور سنا ہوا پر
یقین آنے لگا۔سچ تو یہ ہے کہ یہ زمین واقعی شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین
ہے،میری ملاقات کارگل کے جنگ میں شرکت کرنے والے کئی غازیوں اور کئی
ریٹائرڈ فوجی بزرگوں سے ہوئی۔ان کا وطن اور گلگت بلتستان کے لیے جذبہ دیدنی
تھا اور ناقابل بیان بھی۔ امارت اسلامی افغانستان میں بھی وادی غذر کے کئی
سپوتوں نے جرأت وہمت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں،کئی شہید ہوئے ہیں اورکئی دوست
اب بھی موجود ہیںجو دل و دماغ سے اسلامی نظام حکومت اور نظام خلافت راشدہ
کے احیاء کے لیے بے تاب ہیں،خدا ہمیں ان شھداء اور غازیان اسلام کی برکت
جوپوری دنیا میں بغیر طمع و حرص کے کفر سے برسر پیکار ہیں کی بدولت نظام
اسلامی سے مالا مال فرمائے اور اسلام کا اولین سنہرا دور جیسا دور و عروج
دکھا دے۔آمین
پکورہ میں ظہرانہ
پکورہ میں مولوی رقیب اللہ اور برادرم غیاث کے گھر میں ظہرانہ تھا،مختصر
طعام کے بعد پکورہ کی مرکزی جامع مسجد باب الجنةمیں جانا ہوا،یہاں عوام
الناس کی بڑی تعداد جمع تھی ،قاضی نثار صاحب نے ان سے تفصیلی خطاب کیا اور
تنظیم سازی کی۔
باب الجنة میںمہانوں پر پھول نچھاور کیے جارہے تھے،سکول کے بچے جگہ جگہ
مہانوں کے استقبا ل میں کھڑے تھے اور کچھ نوجوانوں نے سیکورٹی کے انتظامات
کا سلسلے کو سنبھا لا ہوا تھا ، ہم نے یہ منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ
لوگ واقعتا دل سے قد ر کرتے ہیں۔ عجب اتفاق تھا کہ شرکا ء استقبا ل میں بڑی
تعدا د اسماعیلی برادری کی بھی تھی جو بڑے پیار محبت سے ملتے تھے ۔ اور
قاضی نثار صاحب جگہ جگہ اپنے خطاب میں اہلسنت برادری سے گزارش کرتے کہ''
اسماعیلی برادری کے ساتھ رواداری و تلطف اور امن کے ساتھ رہیں کیونکہ وہ آپ
کے ہمسایہ ہیں اور آپس میں خونی رشتہ داریاں بھی ہیں،گلگت جیسے حساس شہر
میں بھی کبھی اسماعیلی اور سنی اختلاف اور جھگڑا نہیں ہوا ہے۔ اگر کسی نے
شعوری یا لاشعوری طور پر فساد یا دنگاکی کوشش کی بھی تو جانبین سے گزارش ہے
کہ صبر و تحمل سے کام لیں، صبر کرنے والوں کو اللہ کے ہاں بے حد عزت دی
جائی گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں دخول کی اجازت دی جائے گی۔ اور اپنے
عمل اور اخلاق کریمہ سے ثابت کریں اور ان کے ساتھ تشدد ،سختی اور زیادتی
والا معاملہ سے گریز کریں''۔
قاضی نثار نے مزید کہا کہ'' آپس کے نظم و نسق اور طرز معاشرت کو مثالی
بناؤ، چٹورکھنڈ، پکورہ اور دائن کے علماء اور عوام الناس سے گزارش کی کہ
آپس میں اتحاد و یکجہتی قائم کرکے جماعت کا نظم بناؤ اور ہمیشہ ہمارے ساتھ
رابطے میںرہو، اب کمیونیکیشن گیپ ختم ہونا چاہیے اپنی کارکردگی اور محنت سے
وقتا فوقتا ہمیں آگاہ کرتے رہو''
چٹور کھنڈ سے واپسی
ظہر کی نماز اور پکورہ کی باب الجنة سے فارغ ہوکر واپسی کے لیے سامان سفر
باندھ لیا اور اشکومن کی ایک بڑی تعداد نے اپنے مہانوں کورخصت کیا اور یوں
ہم لوگ ان کی محبتیں سمیٹ کر روانہ ہوئے۔ہمارے قافلے کے ساتھ کئی گاڑیاں
اور درجنوں موٹر سائیکلیں تھی جو ہمیں الوداع کرنے کے لیے سلپی پل تک آئے ۔
پولیس والوں نے بھی سیکورٹی کا حق ادا کیا۔
قاضی نثار صاحب کی ایک نیک خصلت
یہ میر اذاتی مشاہدہ ہے کہ قاضی نثار صاحب سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکار
وں کا بے حد خیال رکھتے ہیں،جہاں بھی خوردونوش کا سلسلہ چلتا وہاں قاضی
صاحب اپنے میزبانوں سے پوچھتے کہ بھائی پولیس والوں کو کھانا کھلایا ہے،
اکثر ایسا ہوتا کہ ان تک چائے اور کھانا پہنچ چکا ہوتا اور بعض دفعہ میزبان
جھینپ سے جاتے اور کہتے کہ حضرت ابھی پہنچاتے ہیں۔ میں نے بارہا دیکھا کہ
وہ اپنی پلیٹ سے گوشت کی بوٹیاں اٹھا اٹھا کر پولیس والوں کی جانب بڑھا
دیتے۔ جب گلگت پولیس نے گلاپور میں سیکورٹی کے انتظامات غذر پولیس کے حوالے
کیا تو قاضی صاحب نے گلگت پولیس کے لیے بہترین انگورراستے میں کھانے کے
لیئے خرید کردیے۔ہمارے وی آئی پی کلچر میں ایسی باتوں کو متروک سمجھا
جاتاہے اور بعض دفعہ تو سیکورٹی پر مامور اہلکار وں کو قضائے حاجت تک کی
اجازت نہیں دی جاتی، اگر آپ کو وزیروں اور مشیروں کے ساتھ وقت گزارنے کا
موقع ملا ہے تو آپ نے ضرور دیکھا ہوگا۔ میں خود کئی ایسی واقعات کی چشم دید
گواہ ہوں اور سیکورٹی اہلکاروں سے نازیبا سلوک کی کئی داستانیں زبان زد عام
ہیں۔ مغرب کے اس غلیظ کلچر سے جب تک جان نہ چھڑائی جائے تب تک ہم ان کی
تقلید میں کھڑے ہو کر پیشاب کرتے رہیں گے۔
گلمتی میں قبور کی زیارت
حدیث شریف میں آتاہے کہ جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کی
قبر کی زیارت کی اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کو ایک مقبول حج کا
ثواب ملے گا اور جو (نیک بخت ) شخص ماں باپ کی زیارت کرے گا، فرشتے اس کی
قبر کی زیارت کو آئیں گے۔زیارت قبور بالخصوص روضہ رسول اکرم پر حاضری تو
کسی سعادت سے کم نہیں،قاضی صاحب نے اپنے ابا و اجداد کے قبور کی زیارت کی
اور طویل دعائیں مانگی، قافلے کے دوسرے ارکان بھی ان کے ساتھ دعاؤں میںشریک
ہوئے مگر جلد ہی وہ ادھر اُدھر سرکنے لگے مگر قاضی صاحب دیر تک دعا مانگتے
رہے، ہمارے ایک دوست اور جامعہ کے استاد کا بھی معمول ہے کہ ہر جمعرات کو
اپنے والدین کے قبور پر حاضری دیتے ہیں اور دعاؤ ں کا اہتمام کرتے ہیں۔
نماز عصر کے بعد گلگت روانگی
عصر کی نماز گلمتی کی جامعہ مسجد میں اداکرنے کے بعد گلگت روانہ ہوئے۔ اب
تک سیکورٹی کے انتظامات غذر پولیس کے پاس تھی ، گلاپور سے آگے سیکورٹی کی
ذمہ داریاں گلگت پولیس نے سنبھال لی، انسپکٹر عبدالرؤف اپنی پلاٹون لیے
کھڑا تھا، یوں ان کی معیت میں گلگت پہنچ گئے،قافلے کے تمام احباب مسرت امیز
لہجے میں محو گفتگو تھے۔ سب کے ریماکس یہی تھے کہ سفر بے حد اچھا رہا اور
اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب رہا۔چٹورکھنڈ کی مسجد و مدرسہ کے بگڑے
معاملات بھی سدھر گئے۔بقول مولوی اکبر کے ''یہ علماء کرام کے دورہ اور
دعاؤں کی برکت کا نتیجہ ہے۔کہ مولوی میر نادر شاہ اور مسجد انتظامیہ شیر و
شکر بن گئے''۔الحمدللہ علی ذلک |