امریکی سرپرستی میں بھارت کا علاقائی بالادستی کا خواب

بھارت امریکہ دفاعی معاہدہ ....بھارت کے جارحانہ عزائم اور پاکستان دشمنی کا مظہر ہے

گزشتہ دنوں بھارت نے اپنی پہلی ایٹمی آبدوز”آئی این ایس ایریہانت“ سمندر میں اتار دی جو کہ جوہری میزائلوں سے لیس اور 80 میگا واٹ کے جوہری ری ایکٹر سے چلتی ہے اور سمندر کی گہرائیوں سے اپنے حدف پر نشانہ لینے کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے، اس آبدوز کی خوبی یہ ہے کہ سمندر کی اوپری سطح سے زیر سمندر جانے کی تیز رفتار صلاحیت رکھتی ہے، بھارت کی یہ ایٹمی آبدوز دو برس تک سمندر میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرے گی اور2011ء میں اسے باضابطہ طور پر بھارتی بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق اسی طرح کی دو اور جوہری آبدوزیں بھارت 2015ء تک تیار کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، یہ آبدوز جوہری میزائل سے حملہ اور جوابی حملہ کرنے والی روسی آبدوز” چارلی -1“ کی ساخت پر بنائی گئی ہے، اس کی چوڑائی 11میٹر، لمبائی 110میٹر اور وزن 6 ہزار ٹن ہے جبکہ اس کی رفتار پچپن کلو میٹر فی گھنٹہ ہے، اس آبدوز سے سو میٹر کی گہرائی سے میزائل فائر کیے جا سکتے ہیں۔

اریہنت پانی کے نیچے سوسے زیادہ دنوں تک رہ سکتی ہے اور اسے پیغام رسانی کے لیے بھی پانی کی اوپری سطح پر بھی نہیں آنا پڑے گا، اس آبدوز کے سمندر میں اترنے سے بھارت امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے بعد دنیا کا چھٹا ملک بن گیا ہے جس کے پاس جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی سے چلنے والی ایٹمی آبدوز ہیں۔

واضح رہے کہ یہ جوہری آبدوز ایک ایسے وقت میں بھارتی بحریہ کے حوالے کی گئی ہے جب کارگل جنگ کو دس سال کا عرصہ مکمل ہوگیا ہے، ایک روسی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی بحریہ 10سالہ لیز پر آبدوز آئی این ایس چکرہ بھی 65 کروڑ امریکی ڈالرز کے خفیہ معاہدے کے تحت حاصل کرنے جارہی ہے، خاموشی سے طے پانے والے بھارت روس معاہدہ کے تحت رواں سال دسمبر تک فراہم کی جائیگی جو اِس وقت بحر الکاہل میں تجرباتی و آزمائشی مرحلے سے گزر رہی ہے۔

پاک بحریہ کے ایک ریٹائرڈ آفیسر کے مطابق بھارتی بحریہ کے پاس موجود جوہری آبدوزیں جو کہ دو سے تین ماہ تک پانی میں رہنے اور روایتی ہتھیاروں کیساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کی حامل ہے، پر نصب ایٹمی وار ہیڈز سے پاکستان کیلئے بحر ہند سے مزید دباﺅ بڑھے گا اور بھارتی بحریہ کو متحرک سمندری پلیٹ فارم کے ذریعے گوادر اور صوبہ سندھ کے اندرونی شہروں تک میزائل داغنے کی صلاحیت حاصل ہو جائیگی۔

ایٹمی آبدوز کے سمندر میں اتارے جانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا کہ بھارت کسی ملک کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ کسی کیلئے خطرے کا باعث ہے، من موہن سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گا، انہوں نے کہا کہ سمندر کسی بھی ملک کی سلامتی کے لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بھارت اس ضمن میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ازسرنو مرتب کر رہا ہے۔

ایک طرف بھارت روز بروز اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کررہا ہے تو دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کہنے والی ہندو اسٹیٹ بھارت، منہ میں رام رام اوربغل میں چھری لیے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش میں بھی مبتلا ہے، گو کہ بھارت سفارتکاری کے محاذ پر ہمیشہ سے خطے میں امن اور استحکام کی بات کرتا ہے لیکن دوسری جانب اپنے دفاع کے حوالے سے اتنا حساس واقع ہوا ہے کہ اس نے اپنے سالانہ جنگی بجٹ کی مد میں34 فیصد اضافہ کردیا ہے جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کیلئے مختص رقم میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔

دفاعی بجٹ میں مجوزہ اضافہ بلاشبہ بھارت کے گھناؤنے عزائم کی نشاندہی کرتا ہے، بھارت دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کے غریب عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں، اس کے باوجود بھارت عوام کی فلاح و بہبود اور اس کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے کوئی اقدامات کر نے کے بجائے بھارتی حکومت اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ دفاع اور اسلحہ کی خریداری اور ایٹمی توانائی کے حصول پر خرچ کررہی ہے، بھارت کا یہ اقدام اس کے جنگی جنون اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے مترادف ہے ۔

گزشتہ دنوں بھارت نے اپنے بجٹ میں سرحدوں سے دراندازی روکنے کیلئے بارڈر پر باڑ لگانے اور دیگر سیکیورٹی انتظامات کی مد میں اپنے جنگی بجٹ میں 34 فیصد اضافہ کیا، بھارت دراصل دفاعی بجٹ میں اضافے کی آڑ میں اضافہ کردہ رقوم پڑوسی ممالک میں مختلف تخریبی کارروائیوں کے ذریعے انتشار پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے، گزشتہ سال بھارت کا دفاعی بجٹ دس کھرب 56 ارب روپے تھا، جس میں آئندہ مالی سال کے دوران تین کھرب69 ارب روپے تیس کروڑ سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کیلئے مختص رقم میں55 فیصد اضافہ الگ ہوا ہے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا مالی سال2009-10ء کیلئے دفاعی بجٹ 343 ارب روپے ہے، اس لحاظ سے بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں7 گنا زیادہ ہے، اگر پاک بھارت دفاعی بجٹ کا موازنہ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے کیا جائے تو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کبھی بھی اس رفتار سے اضافہ نہیں ہوا جس رفتار سے بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے، اس لحاظ سے بھارت کی جانب سے اس کے دفاعی بجٹ میں اندھا دھند اضافہ اس کے گھناؤنے عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان میں قائم کردہ بھارتی سفارتخانے پاکستان کے اندر دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں اور بھارت دیگر پاکستان دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ”خاکم بدہن “پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے، دوسری طرف بھارت نے اپنی جنگی صلاحیت میں اضافے کیلئے امریکہ سے ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا ہے ۔

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے موقع پر ہونے والے اس دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ بھارت کی فوج کو جدید امریکی اسلحہ سے لیس کرنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی، ہتھیار اور ایٹمی پرزے، 126 لڑاکا طیارے، سیٹلائٹ اور دو ایٹمی ری ایکٹر بھی فراہم کرے گا، اس دفاعی معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت امریکہ کا مضبوط ترین دفاعی حلیف ہے اور دونوں ملک باہمی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے، دفاعی تجزیہ نگاروں کے اندازوں کے مطابق امریکی کمپنیاں بھارت کو دس ارب کی دفاعی اشیاء بھی برآمد کرسکیں گی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ دورہ بھارت کے دوران ہیلری کلنٹن نے ایک طرف تو نائن الیون کے ملزموں کی پاکستان میں موجودگی کا بیان دیکر نئی امریکی حکمت عملی اور مخاصمانہ عزائم کو ظاہر کیا تو دوسری طرف بھارت کو جدید ترین امریکی اسلحہ فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کر کے امریکہ نے عملاً بھارت کو خطے کی بالادست فوجی قوت بنانے کے اس منصوبے کی ابتداء کی ہے، جس کی داغ بیل کلنٹن اور بش کے دور میں ڈالی گئی تھی اور جس کا مقصد پاکستان کی صورت میں موجود راستے کی اہم ترین رکاوٹ کو دور کر کے بھارت کو چین کے مدمقابل کھڑا کرنا، اسے سلامتی کونسل کا رکن بنانا اور خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کا فرض سونپنا ہے۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و فوجی طاقت سے امریکہ و یورپ دونوں ہی پریشان ہیں اور وہ اس کے گھیراﺅ کیلئے بھارت کی مدد چاہتے ہیں، جبکہ پس پردہ بھارت کے اپنے مکروہ عزائم ہیں جس کے تحت وہ امریکہ و یورپ کے سامنے چین کا ہوا کھڑا کر کے خود علاقے کا چوہدری بننے کیلئے کوشاں ہے، کل تک اس نے اس مقصد کیلئے روس کو بے وقوف بنایا تھا اور آج وہ امریکہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے، دراصل بھارت کی اصل تکلیف پاکستان ہے جس نے ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کر کے بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔

دوسری طرف امریکہ اپنے اسلام دشمن کروسیڈی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھارت کے موقف اور تعاون کو خوشدلی سے قبول کر رہا ہے، گزشتہ دنوں ہونے والے بھارت امریکہ دفاعی معاہدے کو اگرچہ بھارت چین کے حوالے سے پیشرفت قرار دیکر فوجی تعاون کے اصل مقاصد اور ممکنہ نتائج پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کبھی بھی چین کیخلاف جارحیت کی جرات نہیں کر سکتا، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ چین ایک طاقتور مگر پرامن ملک ہے اور اس کے اپنے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں، اسکے باوجود بھارت کی آنکھوں میں اگر کوئی پڑوسی ملک کھٹکتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے ۔

گویا دفاعی اعتبار سے بھارت کا کوئی بھی قدم پاکستان کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ بھارت ہمارا ایسا کھلا دشمن ہے جس کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ہمیں ہمہ وقت ہوشیار اور ہمیشہ تیار رہنے کی ضرورت ہے، اس تناظر میں درحقیقت یہ معاہدہ سو فیصدی پاکستان کیخلاف، بھارت کے جارحانہ عزائم کا عکاس اورخطے میں امریکہ کی پاکستان مخالف حکمت عملی کا بھی مظہر ہے، جس کا احساس ہمارے حکمرانوں اور فوجی قیادت کیلئے ضروری ہے ۔

یہ درست ہے کہ امریکہ اور بھارت کی سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ نظرانداز کیا ہے اور اپنے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ پاکستان کا قابلِ اعتماد دوست ہے، البتہ وہ بھارت سے بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے، لیکن بش دور میں امریکہ کی طرف سے بھارت کیساتھ سول ایٹمی تعاون کا معاہدہ اور اوباما کے دور میں ممبئی حملوں کے ملزموں کے حوالے سے پاکستان پر بے جا دباﺅ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ امریکہ دراصل پاکستان کا کبھی بھی دوست نہیں رہا، وہ پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا دوست ہے اور اس نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔

لیکن اس کھلی حقیقت کے باوجود آج بھی ہمارے حکمرانوں کو بھارت سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، جبکہ دہشت گری کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی کہنے والا امریکہ اپنے مفادات کیلئے دوستی کادم پاکستان سے بھرتاہے، مگر درپردہ اور ظاہراً وہ بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھاتا رہا ہے ، جس کا اظہار اس کے بھارت کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدے سے بھی ہورہا ہے۔

درحقیقت یہ امریکہ کا وہ کھلا تضاد اور دوہرا معیار ہے جس پر ہمارے ارباب اقتدار کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، ہمارے بار بار احتجاج کے باوجود امریکہ نے پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ہمارے مطالبے کے باوجود امریکہ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر آمادہ نہیں، اس صورتحال میں کہ پاکستان نے امریکی خوشنودی کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی مفادات کیلئے اپنی سالمیت تک داؤ پہ لگا دی ہے اور معیشت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے نتیجے میں اب تک 40 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی اٹھا چکا، جبکہ ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری اور جوان بھی اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر چکے ہیں۔

مگر اس قدر بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بھی امریکی نوازشات کا جھکاؤ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی طرف ہے جو کہ ہماری حکومت کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے، رہ گئی امریکی دوستی کی بات تو یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی دوستی کبھی آڑے وقت میں پاکستان کے کام نہیں آئی ہے، گزشتہ ساٹھ سالہ امریکی طرز عمل اس بات کا عملی گواہ ہے کہ ہر مشکل وقت میں امریکہ نے پاکستان کو سوائے دھوکے دینے کے اور کچھ نہیں دیا۔

اس وقت پاکستان بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے، ایک طرف اقتدار کی کشمکش جاری ہے تو دوسری جانب مہنگائی، بے روز گاری، پانی و بجلی کا بحران اور اداروں کی توڑ پھوڑ کے باعث سیاست، معیشت اور انتظامی ڈھانچے سمیت معاشرے کا کوئی شعبہ بھی مستحکم نظر نہیں آتا، ہم بے شمار گمبھیر مسائل سے نمٹنے میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں، ادھر ہمارا دشمن بھارت ہمیں ہر محاذ پر نیچا دکھانے اور بیرونی طاقتوں کی مدد سے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے میں لگا ہوا ہے، اس وقت اس کی توجہ کا مرکز توانائی ہے جس کے حصول کی خاطر جہاں وہ ہمیں آبی ذخائر سے محروم کرکے ڈیم بنانے اور بجلی پیدا کرنے میں مصروف ہے وہیں وہ ایٹمی توانائی کے حصول اور اس کے استعمال سے بھی غافل نہیں ہے ۔

بھارت نے ایٹمی آبدوز تیار کر کے خطے میں ایٹمی اسلحے کی نئی دوڑ شروع کی ہے جس میں پاکستان کا شامل ہونا ایک لازمی امر ہے، بحرہ ہند میں بھارت کی ایٹمی آبدوز کے آنے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل رہے، چنانچہ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کا موجودہ رویہ اس کے مستقبل کے عزائم اور منصوبہ بندی کو واضح اور اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنے دشمن اول بھارت کے قریبی دوست اور خیرخواہ امریکہ کے ایسے اقدامات کو نظرانداز کرنے کا مطلب اپنی سلامتی، خود مختاری ، آزادی، سالمیت اور بقاء کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنا ہے۔

لہٰذا اپنی دفاعی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے امریکہ کے اس غیر دوستانہ بلکہ پاکستان دشمنی پر مبنی اقدام کو کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ بات امریکی انتظامیہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت کی ایٹمی صلاحیت اور جنگی تیاریاں صرف پاکستان کے خلاف ہیں، اس کے باوجود پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کو طاقتور بنانے کی امریکی پالیسی واضح طور پر پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔

اس صورتحال میں ہماری حکومت کو بھی اپنے یکطرفہ تعاون سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ہم اپنے ارباب اقتدار سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ دھوکہ باز امریکہ پر تکیہ کرنے اور معیشت سنبھالنے کے لیے غیروں کے سامنے کشکول گدائی پھیلانے کے بجائے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرے، یاد رہے کہ پاکستان کی سلامتی، آزادی، خودمختاری، استحکام اور عزت و وقار کے ساتھ ہی قومی سلامتی یکجہتی، عزت و وقار اور آن بان شان وابستہ ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313691 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More