قافلہ راہ حق میں جس کا نام لکھا گیا

قافلہ راہ حق میں جس کا نام لکھا گیا
شہید کی جو موت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مالا کنڈ سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوچکی ہے، اس سے قبل چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ اور نواحی علاقوں کے کیمپوں میں مقیم متاثرین بونیر اور سوات کے مختلف علاقوں میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے ہیں، بھاری تعداد میں متاثرین کی واپسی کے بعد مینگورہ میں بھی زندگی کی رونقیں بحال ہورہی ہیں اور اب بیشتر بازاروں میں گہما گہمی نظر آنے لگی ہے، مختلف نوعیت کے کاروبار سے وابستہ افراد پھر سے اپنے کاروبار میں مصروف دکھائی دینے لگے ہیں۔

دوسری طرف اسکولوں میں مقیم پناہ گزینوں کی اپنے علاقوں کی طرف روانگی بھی شروع ہوچکی ہے اور اگلے مرحلے میں رشتہ داروں کے ہاں یا کرائے کے مکانات میں رہائش پزیر متاثرین کی واپسی ہوگئی، مندرجہ بالا صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن سے متعلق معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن اس سارے معاملے میں ایک پہلو دکھ کا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آپریشن کے دوران ہماری مسلح افواج کے ان متعدد اعلیٰ افسروں اور جوانوں کی شہادت ہے۔

جنہوں نے اس نیک مقصد کیلئے اپنی جانیں قربان کر کے قوم کو ان دہشت گردوں سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جنہوں نے عوام کی زندگی ہی اجیرن نہیں بنائی تھی بلکہ وہ اس قدر طاقتور اور خود سر بھی ہوگئے تھے کہ حکومت کو بلیک میل کرتے اور معاہدوں کو کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔

ظاہر ہے ان حالات میں حکومت کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ یہ علاقے یا تو ملک دشمن عسکریت پسندوں کے حوالے کردیتی یا پھر ان کے خلاف بھر پور فوجی کاروائی کرتی، چنانچہ ان حالات میں آپریشن ایک ناگزیر عمل تھا، جو پاک آرمی نے اپنے جوانوں کی شہادت اور عوام کی مدد سے ممکن بنایا، سوات اور بونیر میں آپریشن کی کامیابی کے بعد امید ہو چلی ہے کہ وہ علاقے بھی جلد عسکریت پسندوں سے خالی کرالیے جائیں گے جہاں عسکریت پسند جا چھپے ہیں اور ان علاقوں کے مکین بھی جلد ہی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کل تک جو علاقے شورش زدہ اور دہشت گردوں کے کنٹرول میں تھے، آج پرامن اور عسکریت پسندوں سے مکمل طور پر صاف ہوچکے ہیں، ان علاقوں سے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا خاتمہ، امن و امان کی بہتری، حکومتی رٹ کا قیام اور متاثرین مالاکنڈ، بونیر اور سوات کی اپنے گھروں کو واپسی کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستان کی مسلح افواج کو جاتا ہے۔

جس کی بروقت، بھر پور اور منظم کاروائی کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہوا، اور حکومتی رٹ بحال ہوئی، کل تک یہی علاقے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ قرار دیئے جاتے تھے اور عسکریت پسندوں کے نام نہاد اسلام کے نام پر قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے سلسلے نے ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور اور ریاست کے اندر ریاست کے قیام نے حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کیا ہوا تھا۔

لیکن پاکستان آرمی نے ان علاقوں کو عسکریت پسندوں سے خالی کرا کر جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ بلاشبہ عسکریت پسندوں کے خلاف پاک فوج کی بہترین حکمت عملی اور اعلیٰ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کو پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ممکن بنایا، تب کہیں جا کر نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے گھروں کو واپسی ممکن ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک دشمن دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف اس آپریشن میں پاک فوج کے بہت سے اعلیٰ افسروں اور سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا، جن کا تذکرہ وقتاً فوقتاً قومی اخبارات و میڈیا میں آتا رہا ہے، وطن عزیز کی حفاظت میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ان مجاہدین کی طویل فہرست میں سپاہی ملک آصف نواز شہید جو ہمارے عزیز دوست ملک زاہد اعوان کے کزن تھے، کا نام بھی شامل ہے، جو سوات میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

ملک آصف نواز 1982 میں صوبیدار میجر (ر) ملک نواز کے گھر پیدا ہوئے، ان کا تعلق ضلع تحصیل ایبٹ آباد کے ایک گاوں ”کا کوٹ“ سے تھا، والد، چچا اور دیگر خاندان کے افراد کا تعلق فوج سے ہونے کی وجہ سے انہیں بھی بچپن ہی سے فوج میں جانے کا شوق تھا، ملک آصف نواز شہید سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔

انہوں نے دینی تعلیم گاوں کے مدرسے میں حاصل کی اور میٹرک کرنے کے بعد 2000ء میں پاکستان آرمی جوائن کی، شہادت کے وقت وہ ایس ایس جی یونٹ ون (کمال کمپنی)“ میں بطور سپاہی خدمات انجام دے رہے تھے، وہ 11 اور 12 مئی کی درمیانی شب اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تحریک طالبان سوات کے سربراہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے 23 ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔

وطن کی مٹی سے محبت کرنے والے ملک آصف نواز ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھے، شہادت کی رات وہ نہایت ہی بے جگری سے دشمن سے برسر پیکار تھے اور اپنے کمپنی کمانڈر کے ساتھ بھاگتے ہوئے عسکریت پسندوں کا پیچھا کررہے تھے، ایک موقع پر جب عسکریت پسندوں کی جوابی گولی سے ان کا کمپنی کمانڈر زخمی ہوگیا تو ملک آصف نواز نے فوراً ہی اپنے زخمی کمپنی کمانڈر کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے کیمپ پہنچے ۔

کمپنی کمانڈر کو بحفاظت کیمپ پہنچا کر جب وہ دوبارہ عسکریت پسندوں کے پیچھے روانہ ہونے لگے تو ساتھیوں نے ان کو بہت منع کیا لیکن اس وقت ملک آصف نواز پر عسکریت پسندوں کو کچل دینے کا جنون سوار تھا، اس معرکے میں ان کے ہاتھوں چھ عسکریت پسند بھی مارے گئے اور وہ خود بھی اپنے 23ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے،ان کے سینے پر دو اور ماتھے پر ایک گولی لگی تھی۔

شہید ملک آصف نواز بہت رحم دل، ہر دلعزیز اور دوست نواز شخصیت تھے، وہ ایک صالح اور دیندار اور عبادت گزار نوجوان تھے، وہ اپنے دوستوں میں بے انتہا مقبول تھے، دو سال قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی اور کچھ عرصہ بعد ان کے یہاں بچے کی ولادت متوقع ہے، اپنی شہادت سے چھ دن قبل رخصت ہوتے وقت، انہوں نے اپنی بیوی، والدہ اور دیگر عزیز و اقارب سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے یہ میری آخری ملاقات ہو، آپ لوگ میری تمام غلطیاں اور خطائیں معاف کردینا میں چاہتا ہوں کہ میرا ہونے والا بیٹا بھی اپنے باپ دادا اور دیگر رشتہ داروں کی طرح فوج میں جائے اور دفاع وطن کا فریضہ سر انجام دے۔

شہید کے والد ملک نواز اور شہید کی والدہ کو اپنے بیٹے کی شہادت پر بہت فخر ہے ،ان کا کہنا ہے کہ وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہمارے بیٹے نے بہادروں کی طرح سینے پر گولیاں کھا کر ہمارا سر فخر سے بلند کردیا ہے اور اس شہادت نے ہمیں بھی شہداء کے والدین کی ہم رکابی کا شرف بخشا ہے۔

ہم شہید کے والدین کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور ان تمام عظیم والدین اور بالخصوس ماؤں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جن کے جگر گوشوں کی قربانیاں پاکستان کی سالمیت، تحفظ، بقاء اور آزادی کی ضامن ہیں، یہی لوگ ملک و قوم کے ماتھے کا جھومر اور درخشندہ ستارے ہیں، شاعر نے کیا خوب کہا ہے
شہید کی موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف سرحدوں پر دشمن سے ملک کی حفاظت ہی نہیں کرتی بلکہ ملک کے اندر بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ اور پاکستانی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی کرتی ہے، ہم ملک آصف نواز شہید سمیت دفاع وطن کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے تمام شہداء کی عظمت کو سلام کرتے ہیں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

پھر ایک جواں نے گواہی دے کر، فسانہ عشق مومناں میں
جو سرخ سا رنگ بھر دیا ہے، زمیں کو سیراب کردیا ہے
شہید آصف تیرے لہو سے افق پہ لالی سے سی چھاگئی ہے
مایوس، ڈرے، خوفزدہ چہروں پہ اک مسکراہٹ سی آگئی ہے
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313672 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More