پرانے وقتوں کی بات ہے، گھر میں ہر وقت،ہر روز مہمانوں کا ایک تانتا بندھا
رہتا تھا۔ضلعی دفاتر ،عدالتیں ،تحصیل سے متعلقہ معاملات کے باعث لوگوں کو
راولاکوٹ آنا پڑتاتھا تو ہمارے دوردراز کے تمام رشتہ دار اکثر ہمارے ہاں ہی
ٹھہرا کرتے تھے۔ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے ابوجان سے کہہ دیا کہ یہ لوگ
اپنے کام سے آتے ہیں ہمیں ملنے تونہیں آتے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ اس رشتہ کی
بنیاد ایک معمولی سے مقصد پر ٹکی ہے، جب یہ مقصد نہ رہا تو رشتہ بھی نہ
رہیگا تو پھر اس کا کیا فائدہ۔۔۔؟ ابو جان میرے اس روئیے سے نا خوش ہوئے
اور مجھے سمجھایا کہ! مہمان کا آنا ویسے ہی ہوتا ہے جیسے اﷲ رب العزت کی
جانب سے کوئی فرشتہ وحی لے کر کسی پیغمبر کے پاس آتا ہے۔تو اس کی میزبان سے
رشتہ کی بنیاد نہیں دیکھی جاتی بلکہ بھیجنے والے کے مقاصد کو دیکھا جاتا ہے
،اس لئے ایسا کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس مقصد سے آئے بلکہ اسے اﷲ کی
جانب سے ایک رحمت سے تعبیر کرنا چاہیے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوچ و فکر میں بھی تبدیلیاں آئیں اور اقدار و معیار
بھی بدلے ۔۔۔یہاں تک کہ ہم ملک کے سیاسی و سماجی معاملات میں بھی پنگا لینا
شروع کر چکے تھے ۔ابو جان کی نصیحت سر آنکھوں پر اور ہم نے اس کیفیت کو دل
سے مان بھی لیا تھا مگر ایک حد تک ۔۔۔لیکن جب جب لوگوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے
مقاصد کے لئے دیس کا نام استعمال کرتے دیکھااور حصول مقصد کے بعد ’’تم کون
میں کون‘‘ جیسے رویے دیکھے تو پھر ان جیسوں کا احترام کرنے میں بڑی دقت پیش
آتی رہی ہے۔
جنگ ۷۱ کے دوراں ہمارے ایک ماموں جومشرقی پاکستان میں ملازمت کرتے تھے
بنگلہ دیش میں قید ی بنے اور برسوں تک ان کا کوئی پتہ نہ چلا ۔پھر جب
قیدیوں کو رہائی ملی وہ بھی واپس آئے لیکن واپسی پر ان کے ساتھ ان کاپورا
خاندان بھی تھا ۔انہوں نے بنگلہ دیش میں ہی شادی کر رکھی تھی اور بچے بھی
تھے۔وہ واپس آئے تو حکومت پاکستان نے انہیں فیصل آباد میں زمین دیدی اور وہ
وہیں رہایش پذیر ہو گئے۔ہم نے ان کے بارے میں بس اتنا ہی سن رکھا تھا ۔
سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا تو شہر میں اچھی جان پہچان
بھی تھی ۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے اکثر لوگ بوقت ضرورت اپنے دیس کے نام
کو اپنے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے مقصد کے لئے استعمال تو کر جاتے ہیں
لیکن وطن کے حوالے سے اپنی زمہ داریوں سے ہمیشہ صرف نظر کرتے ہیں ۔۔۔ایک
روز شام کو گھر پہنچے تو گھر میں کچھ مہمان تشریف فرما تھے لیکن وہ دیکھنے
میں قطعی طور پر کسی بھی زاوئے سے ہمارے ہموطن نہیں لگتے تھے ۔وہ دو بھائی
تھے اور ان کے دانت تب نظر آتے جب وہ مسکراتے اور آنکھ تب نظر آتی جب وہ
نظر اٹھا کر بات کرتے ۔۔۔اتنے ’’ کالے کشمیری‘‘ میں نے اپنی زندگی میں کبھی
نہ دیکھے تھے ۔۔۔نعوذ بااﷲ۔۔۔ یہ تو ٹھہری خالق کی تخلیق ۔۔۔انسان کے لئے
رنگت نہیں کردار اہم ہوا کرتے ہیں ۔انہوں نے ایک خط میری طرف بڑھاتے ہوئے
کہا کہ یہ فلاں آدمی نے آپ کے لئے دیا تھا۔میں نے خط لے کر پڑھا تو معلوم
پڑھا کہ یہ ہمارے فیصل آباد والے ماموں کے بیٹے ہیں جن کا ننھیال ’’ بنگلا
دیش‘‘ میں ہے۔اور انہیں فیصل آباد میں کسی محکمے میں کسی اچھے عہدے پہ
ملازمت مل رہی ہے اگر ان کے پاس آزاد کشمیر کا شناختی کاردڈاور پشتینی
سرٹیفکیٹ ہو۔کیوں کہ وہ متعلقہ نشست شائد کشمیر کے کوٹے میں ہے جو کسی
کشمیری کہ ہی مل سکتی ہے اورجب انہیں یہ پتہ چلا تو’’کشمیر‘‘ یاد آیا۔بہت
یاد آیا ۔۔۔اور کچھ رشتے بھی یاد آئے کہ جن کی بنیاد پر یہاں تشریف لے آئے
۔اب مجھے یہ جان کر بہت دکھ و افسوس ہوا ۔میری نظر میں یہ شخص قانونی طور
پر تو ریاست کا پشتینی تھا اور ان دستاویز کاحقدار بھی ۔۔۔ لیکن اخلاقی طور
پر وہ کسی مدد کا مستحق نہیں تھا۔بہر حال اس کا شناختی کارڈ بن گیا ۔اور
بعد میں سنا کہ اسے جاب بھی مل گئی ۔لیکن وہ ’’کالاکشمیری ‘‘اپنے رنگ سے
زیادہ دل کا کالا ثابت ہوا۔کیوں کہ ہم نے اسے اس واقعے سے پہلے اور اس کے
بعد آج تک اس ریاست میں کہیں نہ دیکھا نہ سنا کسی رشتہ دار کی شادی بیاہ
میں یا کسی کے انتقال پر۔۔۔کسی خوشی یا غمی میں کبھی نہ دیکھا اور نہ ہی
اسے یہ رشتے یاد آئے نہ کبھی یہ بد قسمت ملک ہی یا د آیا۔
کل ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ میں ایک کشمیری کو ملازمت ملی تو
لوگوں نے کافی مبارکبا د کے پیغام بھیجے تو سوال یہ ہے کہ کون سا کشمیری ہے
جس نے ذرہ برابر مراعات ملنے کے بعد اپنے آپ کو کشمیری مانا ہو۔۔۔؟دنیا بھر
کے اعلی ترین عہدوں تک کشمیری پہنچا ضرور ہے مگر جب وہ وہاں پہنچا ۔۔۔ہم
جیسے تو اسے کشمیری سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں لیکن کیا وہ اپنے آپ کو کشمیری
کہتا ہے ۔۔۔؟ ہر گز نہیں ۔۔۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسحاق ڈار اپنے آپ کو
کشمیری کہے یا سعد رفیق ۔۔۔نواز شریف کبھی کہے گا کہ وہ کشمیری ہے یا خواجہ
آصف ۔۔۔؟ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اصغر خان نے کہا ہو کہ وہ کشمیری ہے
۔۔۔مسعود خان یا تسنیم اسلم ۔۔۔ارے بابا یہ تو کشمیر میں رہنا ہی پسند نہیں
کرتے ۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ ہے جس کا اسرائیل سے
کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے ۔لیکن وہ ہمیشہ اسرائیل کے خلاف ہونیوالی کسی بھی
تحریک کو ویٹو کرتا ہے اور اسرائیل کا تحفظ کرتا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے
کہ امریکن اعلی ترین اداروں میں اسرائیلی براجمان ہیں ۔وہ امریکن نیشنل ہیں
اور مکمل مراعات بھی سمیٹتے ہیں لیکن برملہ اپنے آپ کو اسرائیلی کہنے میں
ذرہ ججھک محصوس نہیں کرتے اور عملاً اسرائیلی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں ۔آج
اگر امریکہ خود بھی چاہے تو انہیں روک نہیں سکتا ۔لیکن ہمارے ہموطنوں کا یہ
وہ افسوس ناک رویہ ہے وہ بھیانک و سیاہ ترین روپ ہے جس سے نفرت تو کی جا
سکتی ہے احترام نہیں ۔کیوں کہ چہرے کی رنگت کالی ہو اس سے فرق نہیں پڑھتا
لیکن کردار کا سیاہ ہونا کسی بھی قوم کے لئے باعث فخر بات نہیں ہے۔اس لئے
ایسے تمام احباب جنہوں نے دیس کا نام اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اس دیس
کی تقسیم و غلامی کے برابر زمہ دار ہیں اور دیس کے طو ل و عرض میں کالے
کشمیریوں کی کمی نہیں ہے ۔ |