ایچ آر مینیجرز کے لئے ایک نصیحت

یہ کراچی کے مضافات میں واقع ایک کارخانے کا قصہ ہے

ایک ورکر کو پیٹ میں تکلیف ہوئی -رات کے تین بجے تھے - اسے کارخانے کی ڈسپنسری میں لے جایا گیا - وہاں نہ جانے کیا مسئلہ ہوا کہ شفٹ انچارج کو کارخانہ چھوڑ کر مداخلت کر نی پڑی - لیکن یہ مداخلت مہنگی پڑی - ڈسپینسر نے شفٹ انچارج کو گریبان سے پکڑ کر دھکے دئے -

اگلے دن کوئی بھی ورکر شفٹ انچارج کی سائیڈ لینے نہیں آیا حالانکہ شفٹ انچارج نے انہی کے مفاد کے لئے ڈسپینسر سے پوچھ گوچھ کی تھی-

شفٹ انچارج جو کہ میکا نیکل انجینئر تھا بڑا مایوس ہوا -اس کا سارا یقین اور اعتماد خاک میں مل رہا تھا - ہو سکتا تھا کہ ایک ورکر کی غلط حرکت کے سبب اس میں ہمیشہ کے لئے اعتماد کی کمی واقع ہو جاتی اور ملک ایک اچھے انجینئر سے محروم ہو جاتا -

یہ ایک سنگین مسئلہ تھا چنانچہ ایچ آر مینیجر نے اسے سنجیدگی سے لیا - لیکن اسے کہیں سے ایسا سرا نہیں مل رہا تھا کہ ملزم اپنے کیفر کردار کو پہنچے-

اپنی یونیورسٹی کے ایک وزٹنگ پروفیسر کو فون کیا اور اپنی مشکل سے آگاہ کیا “سر اسے ہر قیمت پر سزا دینا چاہتا ہوں کیوں کہ دوسری طرف یہ بھی شور اٹھے گا کہ انتظامیہ ڈھیلی ہے اور ویسے بھی ملزم کو سبق تو ملنا ہی چاہئے “ -

پروفیسرصاحب کا پاکستان میں ایچ آر فیلڈ کا تیس سال کا تجربہ تھا اور اس وقت بھی کسی ملٹی نیشنل صنعتی ادارے میں ڈائرکٹرکی حیثیت سے انتظامی معالات و افرادی امور دیکھ رہے تھے - جب انہیں فون کیا تو اس وقت وہ شاید اچھے موڈ میں تھے -ٹیلی فون پر ہی ایک زور دار قہقہہ لگایا “ہا ہا ہا ترکیب --- پی ایف --استعمال کرو اور خود سگریٹ کے پف لگأکے بعد میں تماشہ دیکھو - سارے دلدر دور ہو جائیں گے“ -

اس سے پہلے مینیجر صاحب مزید کچھ پوچھتے -ڈائرکٹر صاحب نے کہا “ میاں اس کا مطلب یہ ہے اس فرد یا مجرم کی پرسنل فائل منگوا کر بغور جائزہ لو -باریک بینی سے مطالعہ کرو -دستخطوں کو اچھی طرح دیکھو-- مختلف ڈیٹس جو سرٹیفیکیٹ میں ہیں انہی کا تجزیہ کرو تمہیں اس کے کاغذات میں یا اس کی درخواست میں یا کسی سرٹیفیکیٹ میں یا جوائن کرنے بعد کسی معاملہ میں یا کسی اور طرف سے روشنی کی ایسی کرن ضرور ملے گی جس کی بنیاد پر اس ملزم کےخلاف کاروائی کر سکتے ہو چاہے اس خامی کا اس موجودہ معاملے سےبالکل ہی تعلق نہ ہو - مقصد ہے اسے سزا دلوانا یا اسکے خلاف کاروائی کرنا ہے - تاکہ دیگر لوگوں کو میسیج جائے کہ انتظامیہ کو ڈھیل ڈھالی نہیں ہے-

اس ڈسپینسر کی پرسنل فائل منگوائی گئی - اس کا بغور مطالعہ کیا گیا - ایک جگہ ایک پوائنٹ مل ہی گیا -وہ تھا ڈسپینسر کا میڈیکل ٹریننگ کا سرٹیفیکٹ - یہ جعلی لگ رہا تھا - کسی نے اؤور رائٹنگ کی تھی-

مینیجر نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو ایک ہزار روپے دئے کہ جاؤ اور ڈأو میڈیکل کالج جاکر سرٹیفکٹ یا سند کی تصدیق کرا کے لأو -ایک ہزار اس لئے دئے کہ ڈأو میڈیکل کالج میں کوئی اتنا مخلص نہیں کہ فورآ سند کی تصدیق کرے --

خیر ڈاؤ میڈیکل کالج والوں نے پرانا سارا ریکارڈ نکالا اور پتہ چلا کہ یہ سند کسی اور کے نام اشو ہوئی تھی اور اس ڈسپینسر نے اس کو أور رائٹ کر کے اپنا نام لکھ لیا تھا - اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی سرٹیفکٹ کی بنیاد پر سعودی عرب بھی نوکری کر آیا تھا-

انتظامیہ نے اگلے ہی دن اسے نوکری سے باہر کیا - اس طرح ایک ڈسپلن کا کیس جس میں مجرم کو قرار واقعی سزا ملنی چاھئے تھی نہیں مل رہی تھی اسے ہشیار انتظامیہ نے کسی اور طریقے ( یعنی پرسنل فائل) کے ذریعہ حل کیا -

انتظامیہ نے مزید کہا کہ شکر کرو تمہیں پولیس کے حوالے نہیں کیا ورنہ اس پر دھوکہ دہی -لوگوں کی جانوئ سے کھیلنے اور جعلی سرٹیفکٹ حاصل کر نے کے الزامات پاکستان کے قوانین کے مطابق لگ سکتے تھے-

اس سلسلے میں ایک ایچ آر مینیجر سے بات ہوئی تو انہوں نے ایک سینئر بنکر محمد سعید جاوید کی ایک کتاب “اچھی گزر گئی“ جو کہ پچھلے سال ہی لاہور کے ایک ادارے “پرل پبلشر “ سے چھپی ہے کا حوالہ دیا کہ جناب سعید صاحب کو بنک میں ایک ہیڈ کیشیئر سے واسطہ پڑا جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور نہ دیگر عملے کو کام کرنے دیتا تھا - پورے بنک کا ماحول خراب کیا ہوا تھا-اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتاتھا - جن لوگوں کے اکاونٹ کھلے ہوئے تھے اس سے بھی ترش روئی سے پیش آتا تھا - بنک مینیجر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے تو انہیں بھی الٹی سیدھی سنادیا کرتاتھا - ایک آڈٹ ٹیم والے آئے تو انسے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا بلکہ کام میں روڑے ہی اٹکائے -غلط معلومات پہنچانے کی کوشش کی -آخر چیف آڈیٹر نے تنگ آکر یہی پرسنل فائل کا طریقہ استعمال کیا -پرسنل فائل منگوائی اورایک کاغذ ایسا ملا جس کی بنیاد پر وہ شام تک نوکری سے فارغ کردیا گیا-

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 356857 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More