شیراز عالم عرف پپو کو میں بچپن سے جانتا
ہوں،آج اس کے چہرے پر مایوسی کے اثرات چھائے ہوئے تھے۔ ہرپل مسکرانے والے،
قہقہے لگانے والے شخص پر یاسیت کے بادل عجیب دکھائی دے رہے تھے۔ روزبات بے
بات پلجھڑیاں چھوڑنے والے شیراز عرف پپو نے جب دوستوں کی مجلس میں کسی بات
میں دلچسپی کااظہار نہ کیاتومجھ سے رہا نہ گیا۔ کیفے ٹیریا میں جب اس سے آج
کی غیر معمولی کیفیت کے بارے میں دوبارہ پوچھا تووہ پھٹ پڑا''کیا پوری
زندگی تعلیم اسی لیے حاصل کی تھی، کیا اسی ذلت کے لیے ڈگریوں کے حصول میں
اپنا وقت ضائع کیا؟کیا مختلف فورم میں جاکر بار ہا پرفامنس اس لیے کی تھی؟،
کیا تھیسز اور اسائیمنٹ کی تیاری میں مہینوں اس لیے ضائع کیے تھے؟، یار
حقانی !تم ہی بتاؤ کہ کیا راتوں کی نیند اس لیے آڑا دی تھی ؟،کیاباپ کی
کمائی کا بڑا حصہ اس لیے تعلیمی مصارف میں خرچ کیا تھا؟ ،وہ رکے بغیر ایک
ہی سانس میں بولتا جارہا تھا''۔ اس کے پاس سوالات کا انبار تھا اور زمانے
کی نیرنگیوں کا شکوہ بھی،ارباب حل و عقد کی موج مستیوں کا فسانہ بھی تھا
اور صاحبان بست و کشاد کی کارستانیوں کا پلندہ بھی۔
اس کی باتوں نے بے ساختہ مجھے ہنسنے پر مجبور کردیا''کیا انہی باتوں نے
تمہیں اتنا پریشان کررکھاہے، میں سمجھا خدانخواستہ کوئی نا خوشگوار واقعہ
رونما ہواہے'' میری بات سن کر وہ مزید سیخ پاگیا''یہ ناخوشگوار واقعہ نہیں
تو اور کیا ہے۔ پورے ایک سال کاعرصہ بیت گیا اور میں یوں ہی چوتیاںچٹخائے
پھررہاہوں۔ درجنوں جگہ درخواست دی کہیں ڈھنگ کاکام نہ ملا،ہر جگہ تجربہ اور
ایکسپیرنس مانگتے ہیں، بھئیا اگر کہی جاب ملے تو ہم ایکسپیرنس سرٹیفیکیٹ
دیں گے نا۔'' میںنے اسے ٹھنڈی ہوتی چائے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا''پپو
بھائی!اس میں آپ کی غلطی نہیں اور نہ ہی یہ آپ کا اکیلا مسئلہ ہے، آپ ارد
گرد نظریں دوڑائیں ،آپ کو اپنے جیسے ہزاروں ملیںگے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے
کہ ہم تاریخ سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم اپنے بڑوں کے تجربات سے فائدہ
اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آپ کسی بھی فیلڈ میںمہارت حاصل کرنے والے
کی تاریخ کے اوراق پلٹیں، اس کی مہارت اور کامیابی کے پیچھے انتھک محنت ،
بے شمار تکالیف اورجہد مسلسل کے واقعات بکھرے ہوں گے۔اگر آپ ان واقعات کو
اپنے لیے مشعل راہ بناؤ تو کوئی بات نہیں کہ کامیابی آپ کے قد م نہ چوم لے،
آپ ان کی آپ بیتاںورق ورق پڑھیں اور دیکھیں کہ زمانے نے ان کے ساتھ کون کون
سی ستم ظریفیاں نہیں کی ہے ،تپتی سورج پر وہ اپنا کام کرتے دکھائی دیں گے،
یخ بستہ ہواؤں میںبھی وہ اپنی جہد مسلسل کو جاری رکھیے نظر آئیں گے''
''امریکا کے صدر ابراہام لنکن کے نام سے کون واقف نہیں ۔ برطانیہ نے اس کی
شخصیت سے متاثرہوکر اسے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ویسٹ منسٹرایبے میں اس
کا مجسمہ نصب کیا ۔ لیکن آپ اس کی ابتدائی زندگی پرنظر ڈالیے توناکامیوں سے
اٹی دکھائی دے گی۔ وہ انتخابات میں کھڑاہوا تو شکست فاش سے دوچار ہوا،
تجارت کرناچاہی تو بری طرح ناکام ہوا، ایک حسینہ سے محبت ہوئی جس کاجلد
انتقال ہوگیا، جس عورت سے شادی کی وہ عمر بھر اسے ستاتی رہی، سرکاری ملازمت
حاصل کرنے کی کوشش کی تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، کانگریس کی طرف
گیاتوشکست خوردہ ہونا پڑا،سنیٹر بننے کی کوشش کی، رائیگاں گئی۔ مگر ان تمام
ناکامیوں کے باوجود وہ ہمت نہ ہارا، مایوسی کو اپنے قریب آنے نہیں
دیا،بالآخر امریکا کاصدر بن کر ہی دم لیا۔آج اس کا نام صرف امریکا نہیں
عالمی تاریخ میں ثبت ہوچکا ہے''۔
''عمران خان سے اصولی اختلاف مجھ سمیت سینکڑوں لوگوں کوہوسکتا ہے اور ہونا
بھی چاہیے کیونکہ اختلاف میں حسن ہے۔مگر اس نے جس جگہ ہاتھ ڈالا،لوگوں کی
باتوں کا پرواہ کیے بغیر نا مساعد حالات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے
گئے۔پاکستان کی ناتجربہ کار ٹیم کو عالمی سطح پر کھڑا کیا، شوکت خانم
ہسپتال جو خوا ب وخیال ہی لگتاتھا اسے تعبیر دی،پندرہ سال'' بے دل
سیاست''کے اکھاڑے میں ہارتارہا،پر ہمت نہ ہاری۔ آج لگتاہے پورا پاکستان اس
کا گرویدہ ہے، لوگوں کاجم غفیر اس کی طرف امڈتا چلاآرہاہے، کل تک جو آدمی
لوکل سیاستداں نہیں مانا جاتا آج عالمی سیاستدان کا روپ دھار چکا ہے
اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بھی اس کے حق میں استعمال ہوتے نظر آرہے ہیں''۔
''پندرہزار سے زائد دینی مدارس و جامعات اور ان میںتعلیم حاصل کرنے والے
اٹھائیس لاکھ سے زائد طلبہ کے وفاق، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان لمبے عرصے تک مدارس میں پڑھاتے
رہے،ہندوستان اور پاکستان کے نامی گرامی جامعات میں درس دیا،مگر پھر ایک
کمرے پر مشتمل اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔اور للٰہیت کے ساتھ خلوص دل سے
محنت کو اپنا شعار بنایا۔ ٥٥ سال کی جہد مسلسل کے بعدجامعہ فاروقیہ نے ایک
عالمی اسلامی یونیورسٹی کا روپ دھار چکی ہے۔جامعہ کے تین کیمپس کام کررہے
ہیں۔فیز2میں ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے تعمیراتی کام ممکمل ہونے کو ہے
جہاں ایک آئی ٹی ڈیپارمنٹ،ڈھائی سو بیڈپر مشتمل ہسپتال، گرلزاینڈ بوائی
سیکینڈری اسکو ل انیڈ کالج اور ٹیکنیکل کالج کا قیام عمل میں لایا جاچکا
ہے۔ دس ہزار نمازیوں کے لیے ایک جامع مسجد اور دارالقرآن اور دارالحدیث اور
درس نظامی کی بلڈنگ اور اساتذہ اور طلبہ کے قیام کی بے حد بڑی رہائشی
سوسائٹی وجود میں آچکی ہے، آنے والے دنوں میں جامعہ فاروقیہ عالم اسلام کی
مایہ ناز دینی اداروں میں ایک ہوگا ۔آج یہ جامعہ چار ہزارسے زائید طلبہ
کوزیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی
کررہی ہے ۔مولانا سلیم اللہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں،ہندوستان سے
ہجرت کرکے آنے والے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی بے پناہ خدمت کی
ہے، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی اور علم طب کے بے تاج بادشاہ حکیم
سعید شہید کی زندہ و تابندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔کیا ان کی زندگیوں اور
نقوش حیات میں ہمیں کامیابی کے راز نہیں ملے گے؟۔
''شیراز بھائی! مشتے نمونہ ازخروارے کے طورپرمیں نے آپ کے سامنے چند مثالیں
پیش کیں۔ آپ کسی بھی کامیاب شخص سے اس کی کامیابی کاراز پوچھیے، اسی فیصد
کی کہانی کی تان انتھک محنت ،تکالیف اور ر اہ عمل پر اپنوں اور غیروں کی
ریشہ دوانیوں پر آکر ٹوٹے گی۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کرپیدا ہونے والے
بہت کم ہوں گے۔دیکھو پپو میاں!بھوپال کا ایک مہاجر بچہ'' عبدالقدیر
''پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور پاکستانیوں کا ہیرو ، ایک لوہاری کا
بیٹا''احمدی نژاد'' ایران کا صدر ، امریکا کے ایک سکول کا ٹیچر'' اوبامہ''
صدرامریکہ ، کراچی کے فٹ پاتوں پر سونے والا'' نعمت اللہ خان'' دنیا کا
پانچواں بیسٹ میئر ، کراچی کے گلیوں میںریڑھی چلانے والا'' عبدالستار
ایدھی'' دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس کا چیئرمین بن سکتاہے تو پھر ہمیں
کیا ہوا ہے کہ ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو ان کامیا ب
اشخاص کی سوانح عمریاں اور آپ بیتاں کامل یکسوئی اور غور وفکر سے پڑھنا
چاہیے اوراپنے لیے کامیابی کے راستے ڈھونڈنے چاہیے۔ اور دوسری طرف وہی لوگ
ناکام دکھائی دیں گے جوکام چور،محنت سے جی چرانے والے اور سست وکاہل قسم کے
ہوں گے۔ بے شک ان کے پاس ما ل کی فراوانی ہو مگر کامیابی ان کے قریب سے بھی
نہیں گزرے گی۔یاد رہے کہ! اللہ کے ہاںدیر ہے اندھیر نہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے
کہ بیشک تکلیف کے ساتھ راحت ہے ۔ آج اگر ہر پاکستانی محنت ، جہد مسلسل اور
تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والا بن جائے اور اپنی ذمہ داریوں کو
احسن انداز میں نبھانے والا بن جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئے اور پاکستانی نوجوان بھی خوشحالی
کے دن نہ دیکھ سکے۔یاد رہے کہ خدا کے تما م برگزیدہ پیامبرنے بھی محنت کو
اپنا شعاربنا لیار اور اپنے اھداف کے لیے ہمیشہ کمر بست رہے ہیں ، سمجھ
داروں کے لیے ان کی سیرتوں اور زندگیوںمیں بہت کچھ پنہاں ہے، فاعتبرو یا
اولی الابصار'' ۔ |