فاطمہ ثریا بجیا پر شائع ہونے والی کتاب بجیا

 بر صغیرکی عظیم ڈرامہ نویس ․․․فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی کی تعارفی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال

فاطمہ ثریا بجیاکے نام سے کون واقف نہیں۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور سماجی خدمات کے حوالے سے بجیا ایک معتبر حوالہ ہیں۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں لوگ تعزیم و تکریم اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بجیا ایک ہمدرد دل ، نیکی کرنے کی عملی خواہش رکھنے والی ایسی خاتون ہیں جن میں ہمت، عظمت اور استقا مت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ بجیا کے تخلیق کردہ معرکتہ الآرا ڈراموں کے سلسلے شمع، آگئی، بابر، عروسہ، آساوری کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ سب پر عیاں ہے۔ بجیا ان تخلیق کاروں میں سے بھی ہیں جنہوں نے جاپانی کہانیوں کو اسٹیج پر روشناس کرایا۔ بجیا صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ وہ ایک انجمن ، ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ شہر کراچی میں ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہیں۔ شہر کی کوئی بھی سماجی، ثقافتی یا ادبی تقریب بجیا کے بغیر ادھوری ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت اور ڈرامہ نویسی کے حوالے سے کتاب کا منظر عام پر آنا یقینا ایک قبل ستائش اقدام ہے ۔

’’بجیا : بر صغیرکی عظیم ڈرامہ نویس ․․․فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے سیدہ عفت حسن رضوی نے بجیا کے حالات زندگی پر مشتمل کتاب تحریر کی ۔ ۲۱ مئی ۲۰۱۲ء پیر کی شام آرٹس کونسل کے خوب صورت آڈیٹو ریم میں تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ میَں نے یہ خبر روزنامہ جنگ میں دو روز قبل ہی پڑھی اور ارادہ کرلیا کہ کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کی جائے۔ چنا ں چہ ہم اپنی بیگم شہنازکے ہمراہ وقت مقررہ پر تقریب گاہ پہنچ گئے۔ مہمان کتاب سے زیادہ بجیا سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ تقریب کو ساڑھے چھ بجے شروع ہونا تھا۔ ہمارے ہاں عام طور پر تقریبات اپنے وقت مقررہ سے کم از کم ایک گھنٹہ لیٹ ضرور شروع ہوتی ہیں۔ لیکن اس تقریب کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ اپنے وقت مقررہ سے کچھ قبل ہی شروع کردی گئی۔ اسٹیج پر بجیا کے علاوہ بجیا کے ایک بھائی انور مقصود ، ایک بہن معروف شاعرہ زہرہ نگاہ، کتاب کی مصنفہ سیدہ عفت حسن رضوی، صدر جلسہ آغا ناصر موجود تھے۔ ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔تقریب کی دوسری خوبی یہ تھی کہ تقریب ختم ہوئی لیکن لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جب ہم آرٹس کونسل سے باہر نکلے تو ایک فیمیلی گاڑی سے اتری ہمیں واپس جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا تقریب ختم ہوگئی۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بچارے وہیں سے واپس ہوگئے۔

انور مقصود نے اپنے منفرد اور ہلکے پھلے مزاہ کے ساتھ تقریب کے میزبان کے فرائض انجام دئے۔ انور مقصود کی بَذلَہ سَنجی، خوش طبعائی، حاضر جوابی نے تقریب کو اور بھی زیادہ دلکش بنا دیا تھا۔ وہ دوران تقریب جب بھی کسی مہمان کو اظہار خیال کی دعوت دیتے یا کسی مقرر کی تقریر کے اختتام پر ضرور کوئی نہ کوئی چٹکلا چھوڑ کر سامعین کو مَحظُوظ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ ان کے اس طرز عمل کے باعث سامعین کی بھر پور توجہ اور دل چسپی مسلسل قائم رہی اور وہ بھر پور انداز سے مقررین اور بجیا کو وقفے وقفے سے خراج تحسین پیش کرتے رہے۔

بجیا کی سوانح سیدہ عفت حسین رضوی نے چھ سال کی تحقیق کے بعد قلم بند کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس دوران بجیا کے ساتھ رہیں اور وقت گزارا، انھوں نے بجیا سے بہت ہی ذاتی قسم کے سوالات بھی کیے لیکن بجیا نے کسی سوال پر اپنی بَھویں نہیں چڑھائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کی کہانی لکھنا میرے لیے اعزاز ہے۔ میں جیسے جیسے بجیا سے ملتی رہی بجیا کی زندگی کے اوراق میرے سامنے کھلتے گئے اور حیرت انگیز شخصیت ، درویش صفت اور وقت کی ولی بجیا کی کہانی مرتب ہوگئی۔

تقریب کے میزبان انور مقصود نے مقررین کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہوئے مقررین سے گزارش کی کہ وہ اپنی تقاریر کو بجیا کی طرح مختصر رکھیں۔ کیوں کہ وقت کم ہے مقررین زیادہ ہیں، ہمیں یہ حال کسی دوسری تقریب کے لیے خالی کرنا ہوگا۔ ایک موقع پر انور مقصودنے اپنے خاندان کے مابین محبت کی وجہ بتاتے ہوئے وضاحت کی اور بتایا کہ ہم دس بہن بھائیوں میں بہت محبت کی وجہ شاید یہ بھی رہی کہ ہمارے والدین ہمارے لیے کچھ چھوڑ کر نہیں گئے۔ اگر وہ جائیداد وغیرہ چھوڑ جاتے تو شاید ہم ایک دوسرے سے اتنی محبت نہ کرتے انہوں نے بتا یا کہ ان کا چھوڑا ہوا سرمایا دس ہزار کتابیں ہیں۔

اپنی بہن زبیدہ طارق کا تعارف انور مقصود نے کچھ اس طرح کرایا ـ’’آپ چھ چمچے تہذیب کے لیجیے، آٹھ تمدن کے، اور نو ماضی کے۔ پھر سب کو ملا کر منہ کے ایک کونے میں رکھ لیجیے آیندہ کبھی بدتمیزی نہیں کریں گے‘‘۔ زبیدہ طارق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی ماں اور بجیا کو مختلف نہیں پایا۔ بجیا نے جس کام میں ہاتھ ڈال دیا وہ نکھر گیا۔

معروف اداکار قاضی واجد کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ قاضی واجد وہ واحد فن کار ہیں جو بجیا کے ڈرامے لکھنے سے بھی پہلے سے تھیٹر کررہے ہیں۔ قاضی واجد اپنے مخصوص انداز سے ہنستے مسکراتے اسٹیج پر تشریف لائے اور فرمایا میرے پاس جو شہرت ہے اس میں بجیا کا بہت دخل ہے۔ ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اوریہ جملہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ اس سے مختصر تقریر ہو
نہیں سکتی۔

قدسیہ اکبر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ بجیا ہمارے ساتھ موجود ہیں ، ہمارے درمیان ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی تمام تر شفقتوں ، محبتوں کو سمیٹ لیں، بجیا نے ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ انہوں نے جاپان لوک ورثہ کو بھی متعارف کریا، جاپان کے شہنشاہ نے انہیں سب سے بڑا سول اعزاز عطا کیا۔ بجیا ایک پرعظم اور باہمت خاتون ہیں ہم نے انہیں کبھی حوصلہ ہارتے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ پر امید دکھائی دیتی ہیں ، ہم نے کبھی ان کے لبوں پر شکایت یا تکلیف کا اظہار کرتے نہیں دیکھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بجیا ہمارے لیے گھنے سایہ دار شخصیت کی مانند ہیں۔ اﷲ ان کا سایہ سلامت رکھے۔ مصنفہ نے بجیا کی کہانی لکھ کر یقینا ایک بڑی خدمت کی ہے۔

اقبال لطیف نے کہا کہ دنیا کی سارے ممتا ، دنیا کی ساری بہنوں کی محبت ، دینا کے تمام لوگوں کی محبت کو جمع کردیا جائے تو بنتا ہے ’بجیا‘۔ وہ بے لوث محبت کرنے والوں میں سے ہیں۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کے دوران بجیا کاکر دار ایک استاد، ماں، بڑی بہن کی طرح کا ہوا کرتاتھا ۔ ہم نے دوران کام ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

بجیا کی معروف شاعرہ بہن زہرہ نگاہ نے بہت ہی فصیح و بلیغ تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دس بہن بھائی ہیں اور ہمارے درمیان ’’تواور میں‘‘کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں، اس وجہ سے اگروہ اپنی بہن کی ستائش میں کچھ کہیں گی گویا وہ اپنے بارے میں ہی کچھ ہوگا، اس وجہ سے یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ بجیا ہماری ہی بڑی بہن نہیں یہ تمام پاکستانیوں کی بڑی بہن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجیا کا گھر ایک سماجی مساوات کی ایک مثال ہے ان کے ہاں نا امیدی نہیں وہ تو ابدی امید پرست ہیں ۔ حالات اس قدر خراب ہیں لیکن بجیا اس کے باوجود معاشرہ کی بہتری کے لیے بہت پر امید رہتی ہیں۔

معروف شاعر پروفیسر سحر انصاری نے خطاب کرتے ہوئے بجیا کے کردار اور خدمات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ بجیا کی شخصیت میں انسان سے محبت اور اس کی فلاح کاجذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔بجیا ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ان کے نانا نواب نثار یار جنگ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ا نھوں نے بجیا کی ایک عادت کا بطور خاص ذکر کیاکہ وہ ہر ایک کو خواہ وہ ان سے بڑاہو یا چھوٹاـ’بیٹا‘ کہتی ہیں جب وہ خود چالیس (۴۰)سال کی تھیں تو اسی (۸۰) سال کے شخص کو بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ بجیا کی پاکستان جاپان فورم، غالب لائبریری اور آرٹس کونسل کے لیے بجیا کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ایک موقع پر انور مقصود نے بتا یا کہ بجیا سے ملنے کے لیے کسی کو بھی پیشگی وقت لینے کی ضرورت نہیں ۔ بجیا کا گھر چوبیس گھنٹے ہر ایک کے لیے کھلا رہتا ہے۔ ان کا کوئی مہمان کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاتا۔ بجیا کسی کو بھی ’’نہیں ‘‘ نہیں کہہ سکتیں، وہ ہمہ وقت ہر ایک لیے حاضر رہتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائریکٹرو براڈ کاسٹر آغا ناصر نے اپنی طویل تقریر میں بجیا کے حوالے سے مختلف واقعات بیان کیے۔ انہوں نے بتایا کہ بجیا پاکستان ٹیلی ویژن سے کیسے منسلک ہوئیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اپنے سفر کا آغاز ایک ڈرامے میں ساس کا کردار ادا کرکے کیا تھاجس کے پروڈیوسر وہ خود تھے۔انہوں نے کہا کہ جب ضیاء الحق کے دور میں ٹیلی ویژن پر خواتین کے لیے دوبٹہ پالیسی پر سختی سے عمل کرنے کے احکامات جاری ہوئے تو بجیا نے بغداد ار غرناطہ کے حوالے سے منفرد کردار تخلیق کیے۔انہوں نے بتایا کہ بجیا کو جاپان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نواز جاچکا ہے لیکن بجیا جیسی شخصیت کے لیے یہ اعزاز انتہائی نا کافی ہیں انہیں اس سے بڑے اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔آغا ناصر نے کتاب کے حوالے سے کہا کہ بجیا پر بہت پہلے کتاب آجانی چاہیے تھی لیکن دیر آید درست آید، مصنفہ قابل مبارک باد ہیں لیکن یہ ایک کتاب بجیا جیسی عظیم ہستی پر کافی نہیں ان پر مختلف زاویوں سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ اگر حکومتی ادارے یہ کام کریں تو بہتر ہے۔آغا ناصر کے اس مطالبہ کے جواب میں کہ بجیا کو بڑے اعزاز سے نوازا جائے ، انور مقصود نے ازراہ مزاق جملہ کسا کہ ’بجیا ان اعزازات سے بہت بہتر ہیں کیوں کہ یہ اعزازات بابر اعوان، رحمان ملک اور سلمان فاروقی جیسے لوگوں کو دیے گئے ہیں۔تقریب سے احمد شاہ نے بھی خطاب کیا۔آخر میں مہمانوں کی تواضع کا اہتمام تھا۔ اس سے قبل مختلف احباب نے بجیا کو پھول پیش کیے اور تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

کتاب کی مصنفہ سیدہ عفت حسن رضوی نے اپنی اس کتاب میں فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کے حالات و واقعات کو احسن طریقے سے اور سلیقے کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ بجیا کے خاندان،والد، والدہ، بہن بھائیوں اور دیگر عزیز رشتہ داروں کے بارے میں معلومات کے علاوہ بجیا کی ڈرامہ نگاری کے بارے میں سیر حاصل مواد جمع کردیا ہے۔ بجیا کی سماجی سرگرمیوں ، سیاسی اور نیم سیاسی حالات کا تذکرہ بھی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ بے بہا خصو صیات کی حامل خصو صیات پر یہ پہلی لیکن اچھی کوشش ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قدر خوبیوں کی مالک شخصیت پر مذید کام کیا جائے۔بجیا کے خاندان خصوصاً بھائی اور بہن اس مقام و مرتبہ پر ہیں کہ وہ بجیا پر تصنیف و تالیف کے کام کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کراچی کی اشاعت ۲۰ مئی ۲۰۱۲ ء میں کتاب پر تبصرہ شائع ہوچکا ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق بجیا ادبی میدان میں پانچ دہائیوں سے زائد عرصے سے فعال ہیں۔ پیش نظر کتاب کے نام ہپی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجیا کے بارے میں ہے۔ سعدہ رفعت حسن رضوی نے اپنی کتاب میں آپ کی زندگی کے حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ تبصرہ نگار نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں بجیا نے کچھ عرصہ جنگ کراچی میں بھی کام کیا تھا، میں (یعنی تبصرہ نگار) میگزین ایڈیٹر اور وہ (یعنی بجیا) خواتین کے صفحات کرتی تھیں، مجھے کتاب میں اس کا حوالہ نظر نہیں آیا، ہوسکتا ہے مجھ سے مطالعے میں چوک ہوگئی ہو اور کہیں ذکر ہو اور مجھے نظر نہ آیا ہو۔

کتاب کے ابتدائی میں بجیا نے ’’محفوظ ہیں سب یادیں ، اور یاد ہیں سب باتیں‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔پروفیسر سحر انصاری نے کتاب کے بارے میں رائے دی ہے۔ مصنفہ کا تعارف جناب عارف الحق عارف، ڈایریکٹر شعبہ مذہبی امور، سینسر بورڈ ، جیو ٹی وی نے کرایا ہے۔ قاسم جلالی کی تحریربہ عنوان ’’ایک چراغ تین رخ‘‘ کے عنوان سے ہے۔مصنفہ نے ’’حرف آغاز‘‘ کے عنوان سے کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔کتاب کا سرِ ورق خوبصورت اور جاذب نظر ہے۔ طباعت بھی عمدہ ، کاغذ اچھا استعمال کیا گیا۔ قیمت ۳۹۵ روپے ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438177 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More