شخصی خاکہ
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یا ان سے ملاقات کرنے
کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے شعور کا حصہ بن جائیں۔پروفیسر ڈاکٹر
طاہر تونسوی سے میری ملاقات کو ابھی مختصر وقت ہی ہوا تھا ، ان کی شخصیت
میں مجھے ایسی جادوئی کشش محسوس ہوئی کہ وہ میرے شعورکا حصہ بن گئے۔ڈاکٹر
صاحب میرے پرانے واقف کار نہیں‘ ان کا شعبہ الگ ‘میرا شعبہ الگ۔ ان سے
دوستی کو سال بھی نہیں ہوا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم برسوں پرانے وقف
کار ہیں۔ہمارے مابین ملتان کی مقدس سر زمین قدر مشترک ہے۔ ان کی جنم بھومی’
تونسہ شریف، ‘میری جنم بھومی’ میلسی ،‘جن میں دو تین سوکلو میٹر کا ہی
فاصلہ ہوگا۔میں دنیا میں ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو آیا‘ وہ یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو وارد
ہوئے،اس طرح وہ مجھ سے ڈھائی ماہ آگے ہیں۔ انہوں نے کراچی کے ماری پور کے
ماڈل اسکول سے اپنی عملی زندگی کا آغازبہ حیثیت استاد کے کیا، میرا تعلق
بھی مسرور بیس سے رہا ، میَں نے سیکنڈری اسکول تک تعلیم اسی جگہ سے حاصل کی۔
وہ مکمل ادیب ‘میَں ادیبوں کا چاہنے والاَ، وہ شاعر‘ میں شاعروں کے خاندان
سے متعلق۔ وہ محقق، سوانح نگار اور خاکہ نگار‘ میں نے بھی اس موضوع پر
تھوڑا بہت لکھا اور شخصیات کو اپنا موضوع بنا یا، سوانحی مضامین اور خاکے
لکھے ۔اور سب سے اہم بات جو قربت سے سامنے آئی کہ ہمارے مزاج میں بڑی حد تک
مطابقت پائی جاتی ہے۔اسی مطابقت نے ہی ہمیں مختصر وقت میں قریب کردیا۔یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگوں میں اتنی خوبیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ اگر مجھ
جیسا شخص ان پر قلم اٹھانا چاہیے تو شخصیت کو قلم کی گرفت میں لانامشکل ہو
جاتا ہے۔ یہی صورت حال ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ساتھ بھی ہے، وہ اس قدر خوبیوں
اور صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ میرے لیے ان کی ان خوبیوں کو اور صلاحیتوں کو
سمیٹنا مشکل ہو گیا۔مجھے یقین ہے کہ میں ان کے ساتھ انصاف نہ کرسکوں
گا۔میرے موضوع کانام حفیظ الرحمٰن ، طاہر تخلص، تونسہ شریف سے نسبت نے
انہیں طاہر تونسوی بنا دیا۔تونسہ ڈیرہ غازی خان کی ایک مشہور تحصیل ہے۔ڈیرہ
غازی خان سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے، کوہ سلیمان
کے دامن میں واقع ہے۔یہاں معروف صوفی بزرگ خواجہ محمد سلیمان تونسوی ابدی
نیندسورہے ہیں۔جن کی تعظیم سے تونسہ ’تونسہ شریف ‘ کہلاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب
تونسہ میں یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو کاشانہ محمود میں پیدا ہوئے ۔ تونسہ کو اپنی
شناخت بنا لیا، اب لوگ ان کے اصل نام سے بھی واقف نہیں۔آپ اردو کے محقق،
نقاد،شاعر،سوانح وخاکہ نگار، سرائیکی ادب کا منفرد حوالہ، ا ستاد اور
مقررکی حیثیت سے معروف ہیں۔اپنے نام کے ساتھ تونسوی کے لاحقہ کا اضافہ کرنے
کی وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’ تونسہ میں تصوف کی روایت کے ساتھ ساتھ ادب کی
روایت بھی ہے، تونسہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات فکر تونسوی، سرور تونسوی
اور فدائے ادب تونسوی اپنے زمانے کے معروف ادیب و دانش ور تھے۔ فکر تونسوی
کی کتاب ’چھٹا دریا‘ بہت ہی معرکتہ الا آرا تصنیف ہے ۔ اپنی اس تصنیف میں
فکر تونسوی کا کہنا ہے کہ پانچ دریاؤں کی مقدس سرزمین میں چھٹے دریا کا
اضافہ ہو ا وہ خون کا دریا تھا‘ یعنی تقسیم ہند کے وقت انسانی جانوں کا جو
خون بہا یا گیا‘ اُسے انہوں نے خون کے چھٹے دریا سے تشبیہ دی۔
سرور تونسوی بنیادی طور پر صحافی تھے‘ساتھ ہی مشاعروں کی روداد لکھنے کے
ماہر بھی تھے، فدائے ادب تونسوی طنزو مزاح لکھتے تھے۔
۱۱مئی ۲۰۱۰ء کو میَں نے سر گودھا یونیورسٹی میں بہ حیثیت ایسو سی ایٹ
پروفیسر جوائن کیا ۔ رہائش یونیورسٹی کے ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر ۵میں
تھی‘ جہاں میَں بائیو لوجی کے ڈاکٹر ظفر اقبال کا روم پا ٹنر تھا۔ شہر نیا
، لوگ نئے، ماحول اجنبی‘ البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر
سے باہررہنے کا ‘وہ بھی ہاسٹل لائف۔اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل
لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔میَں شعبہ سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی
نماز کے لیے مسجدچلاجاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔
جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ‘ اس میں وسیع و
عریض سر سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے
اور شام کے اوقات میں ان میدانوں میں طلباء ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر
آتے۔ ان میدانوں کے چہار اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک جہاں
ہر عمر کے لوگ صبح و شام دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے ۔ میَں بھی اس
حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل کا رخ
کرتا تو باہر کھلی فضا میں کرسیاں رکھی ہوا کرتیں اور ایک کرسی پرعام طور
پر ایک صاحب کو مستقل بیٹھا ہوا دیکھا کرتا، میرے ہی ہم عمر تھے ۔میَں
انہیں دور ہی سے سلام کر دیا‘ کرتا وہ مجھے اسی طرح جواب دے دیا کرتے۔ اکثر
احباب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور چلے جاتے‘ لیکن یہ مستقل مزاجی سے اپنی
نششت پر براجمان رہتے۔ایک دن ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے تفصیلی تعارف
ہوا۔جب میَں نے انھیں یہ بتا یا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میَں ڈاکٹر
محمد فاضل کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے آیا ہوں، عمر تو کراچی میں گزری‘
لیکن پنجاب کا شہر میلسی میری جنم بھومی ہے۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا
کہ میرا نام طاہر تونسوی ہے شعبہ اردو کا چیر مین ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے
زیادہ قریب آگئے۔ دور دور کے سلام قربتوں کے سلاموں میں بد ل گے‘ ساتھ ہی
میَں باقاعدگی سے ان کی شام کی محفل کا مستقل حصہ بن گیااور گرمیوں کی
شامیں ایک ساتھ گزرنے لگیں‘ حتیٰ کہ گرم شامیں سرد شاموں میں تبدیل ہوگئیں
اور یہ بھی فرق ہوا کہ یہ محفل کھلی فضاکے بجائے میرے کمرے میں سجنے لگی ۔
اس محفل میں ہمارے شریک ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹرعبدالرشید رحمت بھی ہوتے،
ڈاکٹر ظفر بائیالوجی میں اور ڈاکٹرعبدالرشید رحمت ، ڈین فیکلٹی آف اسلامک
اینڈ اورینٹل لرنگ، ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار ڈاکٹر خالد ندیم بھی اس محفل کے
شریک ہوتے ۔ ڈاکٹر خالد ڈاکٹر صاحب کے قریبی ساتھی ہیں۔ کبھی کبھار ڈاکٹر
شاہد راجپوت ‘جو ہمارے ہا سٹل کے میس سیکریٹری تھے‘ شریک محفل ہو جا یا
کرتے۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے اس شخصیت سے قربت ہی
درست پس منظر مہیا کرتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے
ساتھ سفر کرنے یا ایک ساتھ وقت گزارنے سے ہوتی ہے ۔ماضی میں ایسی مثالیں
بھی ملتی ہیں کہ کسی بھی بڑی شخصیت کی سوانح قلم بند کرنے کے لیے قلم کار
کو اپنے موضوع کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا اس قربت کے نتیجے میں ہی قلم کار
اپنے موضوع کو جان سکا اور اس کی زندگی کے بارے میں لکھ سکا ۔ہیکٹر بولیتھو
ں نے قائد اعظم کی سوانح تحریر کرنے کی منصوبہ بندی کی تو اُسے قائد کی
قربت حاصل کرنا پڑی اور اس مقصد کے لیے وہ پاکستان آیا اور قائد کے روزو شب
کا ساتھی بنا۔ ستار طاہر نے شہید حکیم محمد سعید کی سوانح قلم بند کی تو
انہیں بھی حکیم صاحب کے ساتھ کچھ دن گزارنے پڑے۔ میں ڈاکٹر سلیم اختر صاحب
کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ’زیادہ قربت بھی اس تناظر سے محروم کر
دیتی ہیں‘جو شخصیت کو سمجھنے کے لیے مُحدب شیشے کا کام کرتاہے‘۔مجھے کچھ
عرصہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قربت کا شرف حاصل ہوا،یہ قربت جامعہ سرگودھا کے
ٹیچرز ہاسٹل نے فراہم کی ، جہاں پر وہ کمرہ نمبر۲ میَں اور میں کمرہ نمبر۵
کا مقیم تھا۔یہ تحریر اسی قرابت داری کا پیش خیمہ ہے۔ اس مختصر سے عرصہ میں
مجھے اپنے موضوع کو سمجھنے اور پرکھنے میں آسانی ہوئی، میَں نے اُنہیں قریب
سے دیکھا ، مختلف موضوعات پر کھل کر سیر حاصل گفتگو کی، سادہ طبیعت کے مالک
ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میَں اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ڈاکٹر طاہر
تونسوی پر آسانی سے کچھ لکھ لوں گا، جیسے جیسے میں ان کی شخصیت کو ٹٹولتا
گیا‘ میری مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب میَں نے ان کے کام کا مطالعہ
کیااور ان مضامین ، خاکوں ، ان پر لکھی گئی کتابوں اور رسائل کے خاص نمبروں
کا مطالعہ کیا تو ایک مرحلے پر میَں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنا قلم بس یہیں
روک لوں۔ ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس ارادے کا ذکر کرچکا تھا کہ سوانحی مضامین
یا خاکہ نویسی میرا مشغلہ ہے اور میَں آپ پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتا
ہوں۔ اس وجہ سے حوصلہ نہیں ہوا یہ کہنے کا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کام میرے بس کا
نہیں۔ آپ پر تو بے شمار قلم کار طبع آزمائی کرچکے۔ بعض تو اردو ادب کا بڑا
نام ہیں ، میَں کہاں؟ میرا مقام کہاں؟ لیکن ڈاکٹر صاحب کی صحبت نے مجھے
حوصلہ دیے رکھا اور میں اپنی منزل
کی جانب بڑھتا گیا۔
ڈاکٹرطاہرتونسوی حساس اور درد مند انسان ہیں، دوستوں کے دوست، خیال کرنے
والے اور کام آنے والوں میں سے ہیں۔ڈاکٹر صاحب منہ میں سونے کا چمچہ لے کر
پیدا نہیں ہوئے، ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والدملک خدا بخش
محمود محکمہ انہار میں ملازم تھے، ڈپٹی کلکٹر ریٹائرہوئے ۔ڈاکٹر صاحب نے
ابتدائی تعلیم تونسہ میں حاصل کی، ایم اے اور پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی سے
کیا ۔طاہر تونسوی کی تر بیت میں ان کی والدہ عائشہ بی بی کا زیادہ حصہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب تین بھائی( خلیل الرحمن، جمیل الرحمن) ہیں ، بہن کوئی نہیں۔
ابھی آپ چھوٹے ہی تھے کہ والدصاحب کی توجہ سے محروم ہوگئے، جس کی وجہ
والدصاحب کا دوسری شادی کرلیناتھا۔آپ کی والدہ اور چچاملک قادر بخش‘ جو بعد
میں آپ کے سسر بھی ہوئے ‘ نے پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔چو ں کہ آپ اپنے
بھائیوں میں بڑے تھے‘ اس وجہ سے ذمہ داریاں اور مشکلات بھی زیادہ اٹھانا
پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی والدہ مرحومہ سے بے انتہا محبت و عقیدت رکھتے ہیں ،
ایک دن گفتگو میں والدہ کا ذکر کرکے آب دیدہ ہوگئے۔آپ کا کہنا ہے کہ والدہ
کے انتقال کے بعد گھر سے برکت ہی اٹھ گئی۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں والدہ کی برسی
کے موقع پر آپ ملتان تو نہ جاسکے‘ لیکن برسی کے سلسلے میں آپ کئی دن مسلسل
متفکر رہے اور اپنے بیٹوں اور بہوؤں کو برسی کے سلسلے میں مسلسل ہدایت دیتے
رہے ، ان دنوں وہ خاصے رنجیدہ بھی رہے۔ اپنے بیٹوں (عامرحفیظ ،ناصرحفیظ )،
بہوؤں (گل رخ عامر، صباناصر)، پوتے محمد عبداﷲ، پوتیوں دل نشیں(عنیزہ)
،علیہا، طیبہ، فاطمہ اور سدرہ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو
سعادت مند بہوویں ملیں، دونوں کا معمول ہے کہ ہر روز شام سات بجے کے بعد
الگ الگ فون کرتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی خیریت دریافت کرتی ہیں، ڈاکٹر صاحب
اپنی پوتیوں اور پوتے محمد عبد اﷲسے بات ضرور کرتے ہیں۔ اپنی پوتیوں اور
پوتے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے چہرہ پر دیدنی خوشی ہوتی ہے۔شام ہوتے
ہی آپ کو فون کا انتظار رہتا ہے‘ اگر کسی وجہ سے فون نہ آئیں تو یہ ازخود
فون کرکے پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ’ ہاں بھئی کیا وجہ، خیریت تو ہے‘ فون
کیوں نہیں کیا‘۔ ان کا پوتا ابھی چھوٹا ہے اور ابھی بولنا شروع کررہاہے ،
یہ اُسے بھی فون پر بلاتے ہیں اور صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد عبد اﷲ جانی!
اپنے بوڑھے بابا کو ڈراؤتو سہی۔جواب میں یقینا وہ صرف ہنستا ہوگا یا کسی
بھی قسم کی آواز نکالتا ہوگا۔ اس کی اس ادا پر فریفتہ اور قربان ہوئے جاتے
ہیں۔ اگر کبھی کوئی پوتی فون پر نہ آئے اور ان کی بہویہ بتائے کہ وہ سوگئی
ہے تو یہ قدرِ متفکرانہ انداز سے دریافت کرتے ہیں ’کیوں بھئی! کیا بات ہے،
طبیعت تو ٹھیک ہے‘۔ آپ کا انداز ایک مشفق باب کا ہوتا ہے ۔ خاندان کے
سربراہ کو جن خوبیوں کا
مالک ہونا چاہیے‘ وہ تمام کی تمام خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر تونسوی کی علمی خدمات کوحکومت پا کستان نے سراہتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں
تمغہ امتیاز سے نوازا،مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی آپ کو
اعزازات سے نوازا گیا، اسی سال۲۰۱۱ء میں ادارہ نیاز و نگار کی جانب سے آپ
کو ’نشان نیاز ‘(نیاز فتح پوری ایوارڈ) سے نوازا گیا۔ ان کے چاہنے والوں نے
ان کی شخصیت سے متا ثر ہوکر ان کے خاکے اور سوانحی مضامین لکھے۔ آپ کی
تخلیقات کا اشاریہ رابعہ سرفراز نے مرتب کیا، ڈاکٹر عامر سہیل نے ڈاکٹر
طاہر تونسوی پر کتابیات مرتب کی۔ شہزاد بیگ نے’ ڈاکٹر طاہر تونسوی: ایک
مطالعہ ‘کے عنوان سے کتاب مرتب کی، ڈاکٹر اسد فیض نے اعتبار حرف کے عنوان
سے مجموعہ مرتب کیا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے تنقیدی مضامین کا انتخاب ’فن نعت
کی نئی جہت‘ کے عنوان سے محمد حیات چغتائی نے مرتب کیا۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی کاوشوں پر جامعہ الاازہر(قاہرہ )مصر میں ایمن
عبد الحلیم مصطفی احمد نے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کی نگرانی میں بہ
عنوان’ ڈاکٹر طاہر تونسوی بہ حیثیت تنقید نگار‘ پی ایچ ڈی کا مقالہ
تحریرکیا ، بھارت کی ونو بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ(جھاڑکھنڈ) میں محمد
عاشق خان نے ڈاکٹر جلیل اشرف کی نگرانی میں بہ عنوان ’ہم عصر اردو تنقید کے
فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی خدمات‘پرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، پاکستان
کی تقریباً تمام ہی جامعات میں آپ کی شخصیت اور علمی کاوشوں پر ایم فل
اورایم اے کی سطح پر مقالات لکھے جاچکے ہیں۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور
میں فاروق فیصل نے ڈاکٹرشفیق احمد کی نگرانی میں ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی
تحقیق و تنقید کا تجزیائی مطالعہ‘ کے عنوان سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی،سمیہ
ناز نے ڈاکٹر عقیلہ شاہین کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے اسلامیہ
یونیورسٹی ، بہاولپور میں’ ڈاکٹر طاہر تونسوی بحیثیت محقق و نقاد‘ مقالہ
تحریر کیا، صدف ناز نے پروفیسر فہمیدہ شیخ کی نگرانی میں ایم اے اردو کے
لیے جامعہ سندھ جامشورو میں ’ادبیات اردو کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کا
کردار‘ کے موضوع پرمقالہ تحریر کیا، صائمہ تبسم منصوری نے ڈاکٹر ہلال نقوی
کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں
’ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قلمی خدمات ‘کے موضوع پرمقالہ تحریر کیا ،یونیورسٹی
کالج آف ایجوکیشن ملتان میں طاہرہ بی بی نے ڈاکٹر شوکت مغل کی نگرانی میں
ایم اے اردو کے لیے ’ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تعلیمی خدمات ‘ کے موضوع پرمقالہ
تحریر کیا۔نسرین بتول نے ڈاکٹر عقیلہ جاوید کی نگرانی میں ایم اے اردو کے
لیے جامعہ بہاء الدین ملتان میں مقالہ تحریرکیا۔مختلف رسائل وجرائدنے ڈاکٹر
طاہر تونسوی کے حوالہ سے خصوصی نمبر بھی شائع کیے :ان میں ماہ نامہ ’وجدان
‘لاہور،’ ہم عصر ‘ملتان ، ’ا ہل قلم‘ ملتان، ماہ نامہ’ شام و سحر‘ اور
روزنامہ’ آفتاب‘ ملتان شامل ہیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کی شخصیت ایک کھلی کتاب کی سی ہے، انہوں نے دوسروں پر
اور دوسروں نے ان پر بہت کچھ لکھا، جو کتابوں اور رسائل میں محفوظ ہے۔پھر
بھی انسان کی شخصیت کے بعض پہلو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کروٹیں بدلتے
رہتے ہیں ۔ مجھے اب ڈاکٹر سلیم اختر والا وہ طاہرتونسوی نظر نہیں آیا‘ جو
ملتان میں بیٹھ کر لاہور کو سرکرنے کا ارادہ رکھتا تھا،نہ ہی چومکھی لڑتا
ہو ا ڈاکٹر طاہر تونسوی کہیں دکھائی دیا۔یہ تو صلح جو ہے، امن پسند ہے، ہر
ایک سے خوش ہوکر ملتا ہے،البتہ صاف گو، نڈر، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح
کہنا اس کے مزاج کا حصہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی ہے ۔یہ بے چین بگولہ
ضرور ہوگا‘کیونکہ اپنی عمر کے اس حصہ میں جب کہ اکثرلوگ گھر بیٹھ جایا کرتے
ہیں اور اﷲ اﷲ کرتے نظر آتے ہیں ، ڈاکٹر طاہر تونسوی ہے کہ اﷲاﷲکے ساتھ بہت
کچھ کر گزرنے کے بعد بھی بہت کچھ کرنے کی لگن اپنے دل میں لیے ہوئے ہے بلکہ
عملی طور پر میدان عمل میں دکھائی دیتا ہے، ہشاش بشاش گھر سے دور ہاسٹل
لائف گزار رہا ہے۔بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’ وہ طبعاً فعال شخصیت ہیں
اور جس کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اس کو ہر زاویے سے قابل توجہ بنا دیتے ہیں‘۔
عطاء الحق قاسمی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’روزنِ دیوار سے‘ میں تونسوی
صاحب کے بارے میں لکھا کہ’ ’یونیورسٹی کے شعبہ اردو (سرگودھا یونیورسٹی )
کی خو ش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسا ایک فعال سربراہ میسر ہوا۔
شوگر کا مرض انسان کو بے بس بنا کر رکھ دیتا ہے لیکن طاہر تونسوی نے شوگر
کو بے بس بنا کر رکھا ہوا
ہیـ‘‘۔
برصغیر میں کسی بھی جگہ اردو کے حوالہ سے منعقد ہونے والا کوئی سیمینار یا
کانفرنس ڈاکٹر طاہر تونسوی کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔سر گودھا جیسے شہر
میں عالمی اردو کانفرنس کروا ڈالی‘ جس میں پاکستان ہی نہیں ‘ ہندستان،
بنگلہ دیش ، مصر، امریکہ سے دانش وروں نے بھر پور شرکت کی۔سرگودھا کہنے کو
تو شاہینوں کا شہرہے ‘لیکن عوام الناس کے لیے ائر پورٹ کی سہولت سے محروم
ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد ، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی
مسافت طے کر نا پڑتی ہے۔اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین
نے بھر پور شرکت کی، کانفرنس کی کامیابی کا سہرا ڈاکٹر طاہر تونسوی ہی کو
جاتا ہے۔۲۰۱۱ء میں منعقد ہونے والا نیاز، نگارو فرمان سیمینا ر کراچی میں
منعقد ہوا، مجھے ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ساتھ اس سیمینا میں شرکت کا موقع
ملا۔ خوشی اس بات کی رہی کہ اس موقع پر طاہر تونسوی کراچی میں میرے مہمان
تھے۔تین دن مختلف شخصیات سے ملاقات بھی رہی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کے
گھر ان سے ملاقات کی، انجمن ترقی اردو کے دفتر میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان
صاحب سے بھی ملے، معراج جامی صاحب کے دفتر بھی گئے اور انہوں نے اپنے گھر
چائے پر بھی بلایا۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ انہی دنوں ایکسپو سینٹر میں
کتابوں کی عالمی نمائش کا افتتاح ہوا ، اکیڈمی ادبیات کراچی کے ڈائریکٹر
نور محمد پٹھان کی دعوت پر افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی ۔ڈاکٹر ظفر
اقبال، ڈین فیکلٹی آف آرٹس ، جامعہ کراچی ڈاکٹر طاہر تونسوی کے دیرینہ دوست
ہیں، انہوں نے ازراہ عنایت اپنے گھر واقع یونیورسٹی کیمپس دعوت پر بلا یا،
اس موقع پر ان کے ساتھ طویل نشست رہی۔انہوں نے ازراہ عنایت اپنی ذاتی
لائبریری کا ایک حصہ بھی دکھایا‘ جو ان کے کیمپس کے مکان کے گیراج میں قائم
ہے۔ کتابیں خوبصورت الماریوں میں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا
کہ ان کی ذاتی لائبریری مختلف جگہ بکھری ہوئی ہے ۔ان کی لائبریری دیکھ کر
محسوس ہواکہ یہ گھر واقعی کسی پروفیسر کا گھر ہے۔
ایک وقت تھا جب ڈاکٹر طاہر تونسوی ادبی معرکہ آرائیاں کر تے نظر آتے
تھے،یہی وجہ ہے کہ اس دور کے لکھنے والوں نے جب بھی ڈاکٹر طاہر تونسو ی پر
قلم اٹھا یاتو ان معرکوں کو بنیاد بنا یا،حالانکہ انہوں نے ہمیشہ اصولوں پر
اختلاف کیا۔ اس موقع پر وہ کبھی اپنے استاد وں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں‘
کبھی دوستوں کے لیے مخالفین کو جواب دیتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ اپنے اُن
معرکوں کے بارے میں اب ان کا کہنا ہے کہ’ مجھے ان سے نقصان ہی ہوا ، فائدہ
نہیں‘۔ طاہر تونسوی دوستوں کے دوست ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ ’ ’ میَں دوستوں
سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا شخص ہوں‘اپنے دوستوں کا دفاع کرنے سے میَں نے
کبھی گریز نہیں کیا‘‘۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی طبعاًشاعر اور تخلیقی فن کار ہیں، شعر کہنا ان کی جبلت
اور فطرت میں شامل ہے۔ان کے ادبی سفر کا آغاز شاعری ہی سے ہوا، ابتدا میں
استاد فیض تونسوی سے اصلاح لی،۔پہلا شعر ۱۳ سال کی عمر میں کہا‘جب وہ میٹرک
میں تھے۔ یہ نظم بچوں کے لیے تھی، اس نظم کا ایک مصرع‘ جو تونسوی صاحب کو
یاد ہے کچھ ایسے ہے
میں ڈاکٹر بنوں گا جب میَں جوان ہوں گا
ابا سے پیسے لے کر دوائی میَں مفت دوں گا
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے شاعر کی حیثیت سے ہی ادبی سفر کا آغاز کیا۔دورانِ
تعلیم ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر وحید قریشی اور خواجہ محمد زکریا جیسے اردو
کے اعلیٰ پائے کے اساتذہ کی سر پرستی حاصل ہوئی اور عرش صدیقی جیسے پائے کی
شخصیت نے ان کا حوصلہ بلند کیا۔تحقیق وتنقید کی جانب مائل ہونے کی وجوہ
بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر تونسوی نے بتا یا کہ ان کے محترم استاد ڈاکٹر سلیم
اختر کے کہنے پر کہ میَں دوکشتیوں میں پاؤں نہ رکھو ں اور شاعری کے بجائے
تحقیق و تنقید کو بنیاد بناؤں میَں نے شاعری کو ثانوی حیثیت دینا شروع
کردی‘ لیکن ختم نہیں کی اور اپنی تمام تر صلاحیتیں تحقیق و تنقید پر صرف
کیں ۔اور ایک تنقید نگار کے طور پر مقبول ہوئے۔طاہر تونسوی نے اپنے اندر کے
شاعر کو بھی جگائے رکھا، شعر کہتے رہے اور بہت خوب کہا۔ محسن نقوی نے طاہر
تونسوی کی شعری صلاحیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا کہ ’’طاہر تونسوی کم کم
شعر کہتا ہے‘ مگر سوچ سمجھ کر کہتا ہے‘‘۔شعر اور شاعر سے عقیدت طاہر تونسوی
کے مزاج کا حصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں جب پہلی مرتبہ ایم اے میں مقالہ
لکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے ملتان کے شعرا کو اپنا موضوع بنا یا۔کہا
جاتا ہے کہ وہ جناب احسان دانش پر کام کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ
احسان دانش کے ہمراہ اپنے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کے پاس گئے‘ لیکن ڈاکٹر
وحید قریشی نے احسان دانش کو جواب دیا کہ آپ پر کام کرنے والے تو بہت ہیں‘
ملتان کے شعرا پر کام طاہر تونسوی سے بہتر کوئی نہ کرسکے گا۔ احسان دانش نے
بھی اس بات سے اتفاق کیا اور تونسوی صاحب نے ڈاکٹر وحید قریشی کی زیر
نگرانی ’’ملتان کے شعرا‘‘ پر مقالہ قلم بند کیا۔یہ مقالہ کتابی صورت میں
شائع ہوا تو اسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اپنے موضوع پر پہلا اور منفرد کام
تھا، اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ڈاکٹر وحید قریشی نے لکھا ’حافظ
محمود شیرانی نے پنجاب میں اردو کو جہاں چھوڑا تھا ‘طاہر تونسوی نے اس کو
بہت آگے بڑھایا ہے‘۔اے بی اشرف نے اس کتاب کو ’ملتان کی شعری تاریخ ‘قرار
دیا، تاج سعید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرطاہر تونسوی محنت کرنا جانتا ہے‘ اپنی اس
تالیف سے ملتان کو زندہ جاوید تذکرہ بنا دیا ہے‘۔ ان کا شعری مجموعہ ’تو طے
ہوا نا‘ ہے۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کے پسندیدہ شعرا میں میرؔ ،اقبالؔ، غالبؔ، فیضؔ، ندیم
ؔاور فرازؔ ہیں۔ میر کو پسند کرنے کی وجہ میر ؔ کاسوز وگداز ، اقبالؔ کی
قومی شاعری، غالبؔ کا رنگ سخن، فیضؔکی انقلابی شاعری، ندیمؔ کا تہذیبی شعور
اور فرازؔ کا رومان اور انقلاب سے بھر پور لب و لہجہ پسند ہے تاہم ڈاکٹر
طاہر تونسوی کا کہنا ہے کہ فراز ؔ زمانہ طالب علمی سے پسند یدہ شاعر ہے،
میَں جب انٹر ویوز دیا کرتا تھاتو کسی نہ کسی طریقہ سے احمد فرازؔ کی شاعری
پر گفتگو کیا کرتا تھا۔اب جب کہ اﷲ کے فضل و کرم سے انٹر ویوز لینے کا موقع
ملتا ہے تو میں احمد فرازؔ کی شاعری کے بارے میں سوال ضرور پوچھتا ہوں اور
اس کے یہ دو شعر مجھے پسند ہیں:۔
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے
فاصلہ کچھ نہیں ترے در تک
زندگی راستے میں پڑتی ہے
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ادیبوں اور دانش و روں پر بھی قلم اٹھایا، آپ کی
تخلیقی صلاحیتوں کے حوالہ سے بھارت کے معروف دانش ور خلیق انجم نے کہا کہ
’ڈاکٹر طاہر تونسوی اعلا درجے کے لکھنے والوں میں ہیں۔ ادب میں ان کا صاف
ستھرمذاق ہے‘۔بھارت ہی ایک اور دانش ور ، محقق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے
ڈاکٹر طاہرتونسوی کو ’ایک نعل در آتش اور کار آگاہ محقق ‘ قرار دیا۔آپ کی
تخلیقات میں ’ہم سفر بگولوں کا‘،’مسعود حسن رضوی ادیب حیات اور کارنامے‘،’
فیضؔ کی تخلیقی شخصیت‘،’غالبؔ تب اور اب‘،’ڈاکٹر سلیم اخترشخصیت و تخلیقی
شخصیت‘، ’وہ میرا محسن وہ تیرا شاعر‘،’ڈاکٹر فرمان فتح پوری احوال و
آثار‘،’دنیائے ادب کا عرش‘،’سر سیدشناسی‘،’جہت ساز قلم کار ڈاکٹر سلیم
اختر‘،’جہت ساز دانش ور ڈاکٹر عرش صدیقی‘، ’جہت ساز تخلیقی شخصیت ع س
مسلم‘،’شجرسایہ دار سحراکا‘(کشفی ملتانی) شامل ہیں۔ ــــــــ
اقبالؔ سے ڈا کٹر طاہر تونسوی کو خاص عقیدت ہے ، اقبالؔ کے حوالہ سے آپ کی
متعدد کتب شائع ہوئیں ان میں ’حیات اقبال‘ ،’ اقبال اور پاکستانی ادب‘،
’اقبال اور مشاہیر‘،’اقبال اور سید سلیمان ندوی‘،’ اقبال اور عظیم
شخصیات‘،’ا قبال شناسی اور نخلستان‘، ’اقبال شناسی اور النخیل‘،’ اقبال
شناسی اور نیرنگ خیال‘،’اقبال شناسی اور نیاز و نگار‘شامل ہیں۔فیض احمد
فیضؔ سے ڈاکٹر صاحب کو خاص عقیدت ہے ۔’فیض کی تخلیقی شخصیت‘،’ فیض احمد فیض
:تنقیدی مطالعہ‘،’ شاعر خوش نوا ۔ فیض‘ؔ (بسلسلہ فیض صدی) اور’ مطالعہ فیض
کے ماخذات‘ (اشاریہ ) آپ کی تصانیف ہیں۔غالب ؔکے حوالہ سے آپ کی کتاب ’غالب
تب اور اب‘(مسعود حسن رضوی کے مضامین) منظرعام پر آچکی ہے جسے غالب انسٹی
ٹیوٹ نئی دلی نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹرطاہر تونسوی اردو تنقید میں معتبر حوالہ ہیں، ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے
انہیں’ سماجیاتی دبستان کا نقا‘د قرار دیا ہے، ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے
کہ ’تحقیق و تنقید اور اقبالیات میں ڈاکٹرطاہر تونسوی نے اپنے لیے جو نام
اور مقام بنا یا ہے‘ وہ اس کی محنت کا ثمر ہے‘، عرش صدیقی نے ڈاکٹر تونسوی
کی تنقید کے حوالے سے رائے دی کہ ڈاکٹرطاہر تونسوی کا تنقیدی اسلوب امتزاجی
ہے ‘۔ڈاکٹر وحید قریشی کاکہنا ہے کہ’ ڈاکٹرطاہر تونسوی اپنی تاریخی اہمیت
کی بدولت مستقبل کے محققوں اور نقادوں کے لیے دلیل راہ ثابت ہوگا‘۔بھارت کے
انیس اشفاق کا کہنا ہے کہ’ ڈاکٹرطاہر تونسوی کے تنقیدی تجزیوں کی خصوصیت یہ
ہے کہ ان کے مضامین میں لفظیات و اصطلاحات کی تکرار نظر نہیں آتی‘۔بھارت ہی
کے رام لعل کا کہنا ہے کہ’ ڈاکٹرطاہر تونسوی کی تنقید تجزیے اور تبصرے کی
حدود کو پار کرتی ہوئی ایک نئے انداز کے ادبی مطالعوں کا سالطف پیداکردیتی
ہے‘۔ تحقیق و تنقیدپر آپ کی تصانیف میں’تجزیے‘،’رجحانات‘،’ہم سخن فہم
ہیں‘،’ لمحہ موجود۔ ادب اور ادیب‘، ’افکار و تجزیات‘،’ تحقیق و تنقید منظر
و نامہ‘،’ طنز و مزاح ۔تاریخ تنقید انتخاب‘ اور’ تدکرہ کتابوں‘ کا شامل
ہیں۔
فریدیات ،تصوف اور صوفیائے کرام سے محبت اور عقیدت ڈاکٹرتونسوی کا خاندانی
ورثہ ہے، آپ نے صوفیائے کرم کو بھی خراج عقیدت پیش کیا اور تصانیف تحریر
کیں ان میں’لطیف شناسی‘،’ آئینہ خانہ شاہ لطیف‘،’ خواجہ غلام فرید :شخصیت و
فن‘،’ فرمودات فرید‘،’مطالعہ فرید کے دس سال‘،’عکس فرید‘،’ خواجہ محمد
ابراہیم یکپاسی اور ان کا خاندان‘ شامل ہیں۔
ڈاکٹرطاہر تونسوی سرائیکی کے بھی ادیب ہیں ، سرائیکی میں شعر بھی کہتے ہیں
۔سرائیکی ادب کی تخلیق کے حوالہ سے پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا کہ ’ڈاکٹر
طاہر تونسوی کے ادبی کمالات کا ایک رخ سرائیکی دنیا کی ادبی اور تہذیبی
شخصیت کی د لکش و دلنوازپیشکش بھی ہے۔ پاکستان کی تہذیبی زندگی کو ان کی یہ
ایسی عطا ہے ‘جسے اردو دنیا کبھی فراموش نہ کرسکے گی‘۔ سرائیکی ادب میں
ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تصانیف میں’چراغ اعوان دی ہیر‘،’ سرائیکی ادب:ریت تے
روایت‘،’سرائیکی وچ مزاحمتی شاعری ‘،’خوش دل۔حیات تے کلام‘،’ خیر شاہ‘،
’سرائیکی دے چونڑویں افسانے‘،’علامہ اقبال تے سرائیکی زبان و ادب ‘
اور’سرائیکی کتابیات ‘شامل ہیں۔ دیگر کتب میں ’اردو اور بہاالدین زکریہ
یونیورسٹی‘،’صنف نازک کی شاعری‘،’ صنف نازک کی کہانیاں‘،’نصاب تعلیم اور
اکیسویں صدی‘،’مسعو د حسن رضوی‘ (کتابیات)، ’عرش صدیقی کے سات مسترد
افسانے‘ قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر طاہر تونسوی کو اﷲ تعالیٰ نے خداداد صلاحیتوں
سے نوازا‘ وہ اپنے مضامین اور تصانیف کے عنوانات ایسے رکھتے ہیں کہ پڑھنے
والا ششدر رہ جاتاہے اور فوری اس جانب متوجہ ہوتا ہے۔کسی بھی موضوع پر اندا
ز سرسری نہیں‘بلکہ وہ اپنے موضوع سے پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔اپنے موضوع
کے بارے میں تحقیق کی غرض سے انہوں نے دور دراز کے سفر بھی کیے‘ تاکہ ذاتی
طور پر حقائق جان سکیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ملازمت کا آغازکراچی کے ایک اسکول سے استاد کی حیثیت
سے کیا۔ اردو میں ایم اے کرنے کے بعد ۹۷۴اء میں کالج لیکچرر ہوگئے۔ ابتدائی
تعیناتی گورنمنٹ کالج ، ڈیرہ غازی خان میں ہوئی، بعد ازاں ملتان، لاہور،
کہروڑ پکا، کبیروالا،اور میانوالی کے مختلف کالجوں میں پڑھاتے رہے، ترقی
پاکر اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر ہوئے، ۱۹۸۷ء میں پرنسپل ہوگئے اور مختلف
کالجوں میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔۱۹۹۳ء میں ڈائریکٹر کالجز،
ملتان ہوگئے، بعد ازآں ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ کے چیرمین ہوئے ، فیصل آباد
انٹر میڈیٹ و سیکنڈری بورڈ کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔مختلف
علمی و تہذیبی اداروں سے وابستہ رہے ،اسی دوران بہاء الدین زکریا
یونیورسٹی، ملتان میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔گورنمنٹ صادق ایجر ٹن
کالج بہاول پور کے پرنسپل کی حیثیت سے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء کو ریٹائرہوئے اور ۲۲
جنوری ۲۰۰۸ء کو سرگودھا یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو
کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا،شعبہ کی ترقی میں آپ نے جو کارہائے نمایاں
انجام دیے‘ وہ جامعہ سرگودھا کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں
گے۔شعبہ میں ایم فل کلاسز کا آغاز آپ ہی کی کوششوں سے ہوا۔تین سال جامعہ
سرگودھا میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ نے فیصل آباد یونیورسٹی میں خدمات
کا آغاز کیا، جہاں پر آپ صدر شعبہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ذاتی کتب خانوں کو منتخب ، نایاب اور قلمی نسخوں کے حوالہ سے ہمیشہ سے
انفرادیت حاصل رہی ہے۔ ماضی میں بے شمار علمی شخصیتیں ایسی رہی ہیں کہ جن
کے ذاتی ذخیرے قیمتی اورنایاب علمی ذخیرے سے مالا مال تھے۔ آج بھی علم سے
محبت کرنے والوں کے ذاتی علمی ذخیرے منتخب و نایاب کتابوں سے معمور نظر آتے
ہیں‘ان علم کے قدر دانوں میں ایک نام ڈاکٹرطاہرتونسوی کا بھی ہے۔ان کی ذاتی
لائبریری ہزاروں کتب و رسائل سے آراستہ ہے۔ آپ نے اپنے گھر واقع ملتان کی
بالائی منزل پر لائبریری بنوائی ‘جس میں بے شمار علمی سرمایہ محفوظ
ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذخیرے سے 2/3حصہ ملتان کے نزدیک واقع جھنڈیر
لائبریری کو دے دیا ہے، جس میں کتب و رسائل کے علاوہ کافی تعداد میں خطوط
بھی شامل ہیں۔جھنڈٖیر لائبریری میں ایک ہال ڈاکٹر طاہر تونسوی کے نام سے
معنون ہے، اس میں گوشہ عرش صدیقی بھی ہے۔غالبؔ سے ڈاکٹر صاحب کو خاص عقیدت
ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے ذاتی ذخیرے میں غالب پر خصوصی مواد محفوظ
کیا، گویا آپ کی لائبریری کی خصو صیت اس میں قائم ’گوشہ غالب ‘ ہے۔ آپ نے
غالب پر اشاریہ بھی بنا یا ہوا ہے ، جس سے تحقیق کرنے والوں کو بھی سہولت
ہوتی ہے۔ فرح ذبیح نے ڈاکٹر صاحب کی لائبریری میں قائم گوشہ غالب کی توضیحی
و تشریحی فہرست مرتب کی ‘جو ۳۰۱ اندراجات پر مشتمل ہے۔فرح ذبیح کا یہ مضمون
سہ ماہی ’ہم عصر‘میں شائع ہوچکا ہے۔ڈاکٹر طاہر تونسوی از خوداشاریہ کی
افادیت سے بخو بی آگاہ ہیں، آپ تحقیق و تنقید کے آدمی ہیں ، ادب کی یہ صنف
تلاش و جستجو کا تقاضا کرتی ہے اور یہ تلاش و جستجو اشاریہ اور کتابیات کے
ذریعہ ہی پوری ہوتی ہے، چناں چہ ڈاکٹر طاہر تونسو ی نے اشا ریہ اور کتابیات
کو بھی اپنا موضوع بنا یا۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں اشا ریہ اور کتابیات
بھی ملتی ہیں۔کتابیات میں ’مسعود حسن رضوی ‘(کتابیات) مقتدرہ قومی زبان نے
شائع کی،’ سرائیکی کتابیات‘ ، اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی،اشاریہ کے
حوالہ سے آپ کا مرتب کردہ اشاریہ ’مطالعہ فیضؔ کے ماخذات ‘کے عنوان سے
مقتدرہ قومی زبان شائع کررہی ہے، اس کے علاوہ آپ نے غالبؔ، ؔ، خواجہ فرید،
شاہ لطیف اور فراز پر اشاریہ مرتب کیے‘ جو مضامین کی صورت میں آپ کی تصانیف
اور رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ْْ
ڈاکٹرطاہرتونسوی ازخود ہی محقق نہیں‘بل کہ محقق گر بھی ہیں اور تحقیق کرنے
والوں کو تحقیق و جستجو میں دامے درمے سخنے کتابے معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس
معاونت کا سلسلہ باقاعدہ کسی بھی تحقیق کرنے والے کے سپر وائیزر کی صورت
میں ہی نہیں بلکہ وہ مضامین لکھنے والوں، کتاب لکھنے والوں کو بھی رہنما ئی
فراہم کرتے ہیں ۔اس رہنمائی کا کوئی وقت مقرر نہیں، ہر وقت اور ہر جگہ لوگ
ان سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ طالب کی داد رسی خوشی سے کرتے ہیں۔مجھے تو وہ
چلتا پھر تارہنما ئی کرنے والا بگولہ دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر لوگ موبائل پر
بھی ان سے رہنما ئی لیتے ہیں ، میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی سے
یہ کہا ہو کہ آپ کون ہیں ، میرے پاس وقت نہیں یا اس مقصد کے لیے از خود
حاضر ہوں۔
بلا تفریق ، ہر کس و نا کس کی رہنما ئی کرنا ڈاکٹر صاحب کا معمول ہے، جس نے
جس وقت جو معلومات مانگی ‘انہوں نے اسی وقت اسے فارغ کر دیا۔ اپنے شعبہ میں
بلند مقام پر پہنچنے کے بعد بھی سادگی کا یہ انداز ان کے بلند مرتبہ اور
حقیقی استاد ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔دوسری جانب وہ تحقیق کرنے والوں کے
باقاعدہ سپر وائیزر بھی ہیں، ان کی نگرانی میں ڈاکٹر مختار ظفر نے ’ملتان
کے نمائندہ شعرا‘ کے موضوع پر زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری
حاصل کی ،ملتان کے معروف شاعر ڈاکٹراسلم انصاری نے ’اردو شاعری میں المیہ
تصورات :میر سے فانی تک‘ کے موضوع پرزکریا یونیورسٹی ملتان سے پی ایچ ڈی کی
ڈگری حاصل کی۔رعنا محمد صفدر نے ’اردو آپ بیتی کی تاریخ :ابتدا سے ۱۹۴۷ء
تک‘ کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ،
پروفیسرمحمد خان نے ’لکھنوی غزل میں مبالغہ ‘ کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی،سجاد احمد پرویز نے ’اردو اور سرائیکی
کے باہمی تراجم‘ کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری
حاصل کی،چودھری بشیر احمد نے ’اقبا ل بحیثیت وکیل ‘ کے موضوع پر علامہ
اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ،فر ح ذبیح نے ’لطیف
الزماں کے کتب خانہ میں ذخیرہ غالبیات کی توضیحی و تشریحی فہرست‘ کے موضوع
پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ،تسنیم آصف نے
’الطاف فاطمہ کی ناول نگاری کا فکری و فنی جائزہ‘ کے موضوع پرعلامہ اقبال
اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ،حمید الفت ملغانی نے ’سرائیکی
کتابیات ‘ کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل
کی ، سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں نو طلباء و طالبات آپ کی نگرانی
میں ایم فل کررہے ہیں۔
گندمی رنگ ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کتابی چہرہ، درمیانہ قد، چوڑا
سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کلین
شیو، سناہے جوانی میں نواب آف کالا باغ کی طرز کی مونچھیں ہو ا کرتی تھیں،
سر پر مختصر بال جن میں چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا
خزانہ،ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، گفتگو میں بر محل خوبصورت
اشعار کا استعمال، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع
قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔
اﷲ تعالیٰ تونسہ شریف کے اس روشن ستا رہ کو شاد آباد رکھے ، علم و ادب کے
فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی خدمات ہمیشہ قائم دائم رہیں گی
اورانہیں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے گا کہ میں
نے جامعہ سرگودھامیں رہتے ہوئے کیا حاصل کیا تو میَں بڑے فخر سے یہ کہوں گا
کہ میَں نے داکٹر طاہر تونسوی کی دوستی حاصل کی‘ جو میری باقی ماندہ زندگی
کاقیمتی سرمایہ ہوگی۔چند اشعار ڈاکٹر طاہر
تونسوی کے شعری مجموعے ’تو طے ہو ا نا‘ سے:
توطے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رتوں کے عذاب لکھنا
یہ دور اہل قلم پہ بھاری کہ مصلحت کی سبیل جاری
اجاڑ موسم میں تپتے صحرا کو آب لکھنا حُباب لکھنا
جو ہو سکے تو مرے حق میں فیصلے لکھنا
گناہ کو بھی ثواب کہنا ببول کو بھی گلاب لکھنا
شکستگی کے معا نی مری لغت میں نہیں
مَیں ٹوٹ جاؤں تو اس کو بھی زاویے لکھنا
شائع شدہ: زرنگار، فیصل آباد، شمارہ ۷۔۸، جنوری ۔ جون ۲۰۱۱ء۔مصنف کے خاکوں
کے مجموعے ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘میں شامل) |