۴۰۰ھ یا ۴۰۱ھ بمطابق ۱۰۰۹ء میں برصغیر پاک وہند کی
کایا پلٹنے والے مستقبل کے قطب الاقطاب اپنے وقت کے علمی گھرانہ میں پیدا
ہوئے۔
ٓ آپ کے والد محترم افغانستان کے شہر غزنی کے محلہ جلاب میں رہتے تھے جہاں
آپ کی پیدائش ہوئی پھر والد محترم کی وفات کے بعدآپ اپنی والدہ محترمہ کے
ہمراہ اپنے ننھیا ل محلہ ہجویر میں منتقل ہو گئے
آپ کا نام علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن ہے آپ حنفی المذہب اور حسنی سید
ہیںآپ کا شجرہ نسب نو واسطوں سے امام حسن(رضی اللہ عنہ) سے جا ملتا ہے۔
آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے علی بن عثمان بن علی بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن
ابوالحسن علی بن حسن بن زید شہید بن امام حسن بن علی المرتضی(رحمۃاللہ
علیہم)
آپ کا سلسلہ بیعت جنیدیہ ہے جو کہ آپ سے نو واسطوں میں حضرت علی (رضی اللہ
تعالی )تک پہنچتا ہےآپ کا شجرہ طریقت کچھ یوں ہے علی بن عثمان مرید ہیں
خواجہ ابوالفضل بن حسن ختُلی کے وہ مرید ہیں شیخ علی کے وہ مرید ہیں وہ
ابوبکر شبلی کے وہ جنید بغدادی کے وہ سری سقطی کے وہ معرو کر خی کے وہ داؤد
طائی کے وہ حبیب عجمی کے وہ حسن بصری کے اور وہ حضرت علی المرتضٰیٰ(رضی
اللہ عنہ) کے مرید ہیں۔
آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیئے مختلف جگہ کا سفر کیا جن میں
شام،عراق،بغداد،مدائن، فارس،آزر بائیجان،خراسان سر فہرست ہیں ایک روایت کے
مطابق آپ نے صرف خراسان میں 300علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے آپنے ابو
سعید، ابو الخیر، ابوالقاسم قشیری سے بھی اکتساب فیض کیاآپ نے شادی بھی کی
لیکن جلد ہی مفارقت ہو گئی۔
آپ شب وروز اپنے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مشغول رہتے حتیٰ کہ جب آپ کے
پیر صاحب کا وصال ہوا تو اُنکا سر آپ کی گود میں تھا۔
۱۹ صفر المظفر ۴۳۲ھ بمطابق۱۰۳۹ء کو آپ کے پیر ومرشد نے آپکو لاہور آنے
کا حکم دیا تو آپ نے عرض کی کہ وہاں میرے پیر بھائی محمد حسین زنجانی موجود
ہیں تو آپ کے پیر صاحب نے فرمایا کہ حکم جو دے دیا ہے تو بغیر چو ن وچراں
کے وہا ں چلے جاؤبالآخر آپ وہاں سے چلے اور سفر طے کرنے کے بعد شام کے وقت
لاہور میں بھاٹی دروازے پہنچے اس وقت لاہور میں دروازے بند ہوچکے تھے۔
آپ نے رات بھاٹی دروازے کے باہر قیام فرمایا اور علیٰ الصبح جب دروازہ کھلا
اور آپ اندر داخل ہو نے لگے آگے ایک جنازہ آ رہا تھا پوچھنے پر پتا چلا کہ
یہ جنازہ تو آم کے پیر بھائی کا ہے جن کی آپ سے پہلے ڈیوٹی لگائی گئی تھی
پھر آپ سمجھے پیر صاحب کے یہاں بھیجنے کا راز،آپ اپنے پیر بھائی کی تکفین و
تدفین کے اختتام تک ساتھ رہے اُن کا مزار چاہ میراں میں ہے۔
آپ نے بھاٹی گیٹ کے باہر اُنچے ٹیلے پر پڑاؤ ڈالاپھر اپنے پیسوں سے ایک
مسجد بنائی جسکا محراب بظاہر قبلہ سے مائل بجنوب تھاتو علماء اعتراضات کرنے
لگے آپ نے فرمایا مسجد تعمیر تو ہو لینے دو جب مسجد تعمیر ہوئی تو آپ نے
علماء کو اپنی مسجد میں نماز عصر کی دعوت دی تمام علماء نے عصر کی نماز آپ
کی اقتداء میں اداء کی نماز کے اختتام میں آپ نے فرمایا کہ سبھی قبلہ کی
طرف دیکھیں جب علماء نے قبلہ کی طرف دیکھا تو درمیان سے تمام پردے ختم ہو
گئے اورسامنے کعبۃاللہ نظر آنے لگا جس پر تمام علماء نے اپنے اقوال سے رجوع
کیا۔
جس دور میں آپ لاہور تشریف لائے اُس وقت سلطان مسعود ابن سلطان محمود کی
سلطنت تھی اورلاہور کا گورنر رائے راجو ہندو تھا جو کہ بعد میں آپ کے دست
حق پرست پر تائب ہوا۔
مسلسل 34 سال ن متین کی خدمت کرنے ک بعد 65سال کی عمر میں ۴۶۵ھ بمطابق
1072ء واصل بحق ہوئے اُسی چوٹی پر آپ کا مزار پر انوار بنایا گیا جہاں آپ
نے 34سال دین مستقیم کی خدمت کی تھی وہ مزار آج بھی لاہور میں داتا دربار
کے نام سے مشہور اور مرجع الخلائق ہے ایک محتاط اندازہ کے مطابق یہاں عام
دنوں میں ہزاروں اور عرس شریف کے موقع پر لاکھوں لوگ حاضری دیتے ہیں نیز دن
رات میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں جب یہاں قرآن مجید کی تلاوت نہ ہو رہی ہو
آپ کے وسیلہ سے دعا نہ کی جا رہی ہو نوافل نہ پڑھے جا رہے ہوں۔
آپکی سخت محنت و ریا ضت اور مجاہدات کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کے بعد سے لیکر
آج تک ہر باطنی حکمران آپ ہی کی اجازت سے اپنے عہدہ پر فائز ہوتا ہے کوئی
بھی مسلمان چالیس روز تک یہاں حاضرہو صدق دل سے اپنی جائز مراد پیش کرے وہ
ضرور اپنی مراد کو پہنچتا ہے الحمد للہ راقم کا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جب
بھی حاضر ہو کر سورۃ یٰسین کی تلاوت کے بعد دعا میں صاحب مزار کے وسیلہ سے
جو کچھ بھی طلب کیا اگر وہ میرے لیئے نفع بخش تھا تو ضرور ملا ورنہ اُسکا
نقصان جلد ہی عیاں ہو گیا ۔
یہ مزار سب سے پہلے سلطان محمود غزنوی کے پوتے اور سلطان مسعود غزنوی کے
بیٹے سلطان ابراہیم غزنوی نے تعمیر کر وایا پھر فرش اور ڈیوڑھی اکبر بادشاہ
نے تعمیر کروائی اسکے بعد پھر تقریباً ہر اسلامی سلطنت کے والی نے اِس مزار
کی تزئین و آرئش میں اپنا حصہ ڈالا حتیٰ کہ پاکستان بننے کے بعد یہ مزار
صدر ایوب کے دور میں محکمہ اوقاف کی تحویل میں آگیا اُس کے بعد وزیر اعظم
میاں نواز شریف کے دور میں اِس مزار کو تا ریخی وسعت دی گئی موجودہ مسجد
میں پچاس ہزار لوگ بآسانی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان التمش نے خود اپنے ہاتھ سے قرآن مجید لکھ کر
آپکی خانقاہ پر رکھوائے اور راجہ رانجیت سنگھ کو بھی قرآن مجید کا نسخہ
ہاتھ لگ جاتا تو وہ اُسکو آپ کے مزار کی نذر کر دیتا
آپ کے سرہانے والی سائیڈ پر پانی کی سبیل ہے جو کہ پہلے حوض تھا ہر وقت
پانی سے بھرا رہتا ، زائرین یہاں سے پانی آنکھوں پہ لگاتے ،پیتے ، اور
گھروں میں بطور تبرک لے جاتے ہیں۔
آپکی عظمت کا اندازہ اِس بات سے لگانا مشکل نہیں کہ مؤثر ترین نگاہ ،مقبول
اِلٰی اللہ حضرت خواجہ معین الدین چشیے اجمیری ،ذاکر خدا حضرت بابا فرید
گنج شکر ،مستجاب الدعوات حضرت میاں میر ، درویش منش حضرت بہلول
دریائی(رحمۃاللہ علیھم)جیسی ہستیوں نے اپنے اپنے دور میں یہاں چلہ کشی کی
سعادت حاصل کی۔
آپکی تصانیف میں کشف المحجوب اور کشف الاسرار کے نام منظر عام پر موجود ہیں
لیکن انکے علاوہ نو کتابیں اور بھی آپ نے تصنیف فرمائیں جن کے اسماء درج
ذیل ہیں۔
:1دیوان شعر :2کتاب فناء وبقاء :3نحو القلوب
:4اسرارالخلق والمؤفات :5 الرعایۃ بحقوق اللہ تعالٰی :6کتاب البیان لاھل
العیان
:7منہاج الدین :8 ایمان :9فرق الفرق
ویسے تو آپ (رحمۃاللہ علیہ) کے ملفو ظات بے شمار ہیں لیکن یہاں قرات قارئین
کے لیئے کچھ پیش ہیں۔
:1نفس کی مخالفت سب عبادتوں سے بہتر ہے۔
:2بندے کیلئے سب چیزوں سے مشکل خدا کی پہچان ہے۔
:3دس چیزیں دس چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔
توبہ گناہ کو جھوٹ رزق کو غیبت نیکی کو غم عمر کو صدقہ بلاؤں کو
غصہ عقل کو پشیمانی سخاوت کو تکبر علم کو نیکی بدی کو عدل ظلم کو |