حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اخلاق نبیِ رحمت،
نورِ مجسم ا کے حسنِ اخلاق کے مظہر ہیں، آپ کی ذاتِ گرامی میں خلقِ عظیم کے
تمام محاسن موجود تھے، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ خوبیاں عطا فرمائیں، آپ
بڑے عالی مرتبت تھے، آپ کا جاہ و جلال قابلِ رشک تھا، عزت اور وسعتِ علم کے
لحاظ سے آپ بڑے عالی شان کے مالک تھے، آپ کی عظمت و رفعت کے چار سو ڈنکے
بجتے رہے، آپ کے پاس جو بھی آتا آپ کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ جمیلہ سے
متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ حضرت شیخ معمر جرادہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں
نے شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی سے بڑھ کر عمدہ اخلاق والا، بڑے وسیع
سینے والا، کریم النفس، مہربان دل، حافظ عہد و محبت نہیں دیکھا۔ آپ باوجود
عالی مرتبہ، وسیع علم کے چھوٹوں کی تعظیم کرتے تھے، خود سلام پہلے کہتے،
ضعیفوں کے ساتھ بیٹھتے، فقراء سے تواضع کے ساتھ پیش آتے، کسی بڑے دنیا دار
آدمی کے لئے کھڑے نہ ہوتے اور کسی وزیر و سلطان کے دروازہ پر کبھی نہ جاتے۔
(بہجۃ الاسرار)شیخ عبداﷲ جیائی بیان کرتے ہیں کہ حضرت غوثِ پاک نے مجھ سے
ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق افضل و اکمل ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے
پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک دینار بھی نہ بچے، غریبوں،
محتاجوں میں تقسیم کر دوں اور لوگوں کو کھانا کھلاؤں۔(قلائد الجوائر)
عاجزی وانکساری:
غوثِ پاک کی طبیعت میں عاجزی و انکساری کے اوصاف کمالِ حد تک موجود تھے، آپ
بڑے منکسر المزاج بزرگ تھے، آپ کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ ولایت و بزرگی
کے بلند مرتبہ پرفائز ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بڑے کا کام خود انجام
دیتے، خود بازار جا کر سودا خریدتے، گھر میں اگر آپ کی بیویوں میں سے کسی
کی طبیعت خراب ہو جاتی تو گھر کے سارے کام خود اپنے دستِ مبارک سے انجام
دیتے، عام معمولاتِ زندگی میں آپ کی عجز و انکساری کا یہ عالم تھا کہ کوئی
بچہ بھی آپ سے مخاطب ہو کر بات کرتا تو آپ ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ ایک دفعہ
گلی میں چند بچے کھیل رہے تھے، آپ کا گزر ادھر سے ہوا، ایک بچے نے آپ کو
روک لیا اور کہا میرے لئے ایک پیسہ کی مٹھائی بازار سے خرید کر لائیے، آپ
کے جبینِ مبارک پر شکن تک نہ آئی اور فوراً بازار جا کر ایک پیسہ کی مٹھائی
لا کر بچے کو دی۔ اسی طرح کئی بچوں نے آپ سے مٹھائی لانے کی گزارش کی ، آپ
نے ہر ایک کی خواہش پوری کی۔(سیرتِ غوثِ اعظم)
عفوودرگزر:
سیدناغوثِ پاک رضی اﷲ عنہ عفوو در گزر کے پیکرِ جمیل تھے، اگر کسی سے
زیادتی ہوجاتی توآپ درگزر فرماتے، جس زمانے میں آپ مدرسہ نظامیہ میں پڑھاتے
تھے اس دور میں خصوصی طور پر آپ نے طلبہ کی غلطیوں کو در گزر فرمایا، کسی
پر ظلم ہوتا دیکھتے تو آپ کو جلال آجاتا مگر اپنے معاملے میں کبھی غصہ نہ
آتا، اگر بتقاضۂ بشری غصہ آجاتا تو ’’خدا تم پر رحم کرے‘‘ سے زیادہ کچھ نہ
فرماتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے تو یہ
دنیا خونخوار درندوں کا گھر بن جائے۔
مخلوقِ خدا کی بھلائی:
آپ نے ہمیشہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کی، اپنے پاس آنے والوں کی راہِ ہدایت کی
طرف رہنمائی فرمائی، بے شمار مخلوقِ خدا کو دعاؤں کے ذریعہ نجات کے راستے
پر گامزن کیا، اگر کوئی پریشان حال آیا تو اس کی بات سُن کر ہر ممکن مدد
کی، مخلوقِ خدا آپ کو غمخوار جانتے ہوئے جوق در جوق آتی تھی اور آپ کی صحبت
سے سکون حاصل کر کے جاتی۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایامیری تمنا ہے کہ ابتدائے
حال کی طرح جنگلوں اور ویرانوں میں رہوں جہاں نہ میں کسی کو دیکھوں اور نہ
ہی مجھے کوئی دیکھے، پھر فرمایا اﷲ تعالیٰ نے میرے ذریعہ مخلوق کی منفعت کا
ارادہ فرمایا، چنانچہ یہود و نصاریٰ میں سے ۵۰۰۰ سے زیادہ آدمی میرے ہاتھ
پر مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زائد ڈاکو اور ٹھگ میرے ہاتھ پر تائب ہوئے
اور ایک عظیم فائدہ ہے۔ حضور غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب
میں نے اپنے تمام اعمال کی چھان بین کی اور جستجوکی تو مجھے معلوم ہوا کہ
سب سے بہتر عمل کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا ہے اگر میرے ہاتھ
میں پوری دنیا کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اسے بھوکوں کو کھانا کھلانے
میں صرف کر دوں کیوں کہ میرے ہاتھ میں سوراخ ہے جن میں کوئی چیز نہیں ٹھہر
سکتی، اگر میرے پاس ہزاروں دینار آجائیں تو میں رات گزرنے سے قبل ہی خرچ کر
ڈالوں۔
ہمدردی اور شفقت:
غوثِ پاک کا رویہ بڑا ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا، مجلس میں آنے والوں کے لئے
ہر وقت ہمدردی کا اظہار فرماتے، اگر کوئی ملنے والا چند روز نہ آئے تو
دوسرے سے اس کی خیر و عافیت دریافت فرماتے اور بعض اوقات یوں بھی کرتے کہ
خادم سے کہتے کہ جا کر معلوم کرو کہ فلاں شخص کہیں کوئی پریشانی میں تو
مبتلا نہیں ہو گیا؟ طبیعت تو نہیں خراب ہو گئی ہے؟ جب تک اس کی خیریت نہ
معلوم کر لیتے مطمئن نہ ہوتے، اگر وہ شخص بیمار ہوتا اور اس کی علالت کی
خبر آپ کو ملتی تو اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اس کے بہت قریب جا
کر بیٹھتے دیر تک اطمینان و تسلی بخش باتیں کرتے اور ہمدردی کا اظہار
فرماتے تھے، احباب میں سے ایک شخص بغداد مقدس سے کافی فاصلے پر ایک گاؤں
میں رہتے تھے، ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے، آپ کو ان کی علالت کی خبر ملی تو آپ
سفر کی تمام دشواریاں برداشت کر کے اس گاؤں میں ان کی عیادت فرمانے تشریف
لے گئے۔ (ایضاً صفحہ:۱۲۶)
سیدناغوث اعظم کااندازِتبلیغ اورعصرِحاضر:
آج جس قدر حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کرامت کو بیان کیا جاتا ہے
اور ہمارے خطبا حضرات اپنے خطبوں میں زورِبیانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں اس سے
وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ اگر عوام کے سامنے آپ کے ان اقدامات
ومساعیِ مشکورہ کو جو احیائے دین کے لیے آپ نے کی ہیں ،پیش کیا جائے تو اس
سے دو فائدے ہوں گے اول تو وہ حضرات جو صرف اور صرف آپ کو کرامت تک ہی
محدود جانتے ہیں ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا دوم ہماری عوام اور خواص کے
اندر جذبۂ تبلیغ بھی پیدا ہوگا جس سے آج بھی گمراہ انسانوں کو راہِ ہدایت
نصیب ہوسکتی ہے بشرطیکہ آج کے مبلغین اور داعیانِ اسلام کی تبلیغ کا طرز
وانداز سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ کی طرح ہو۔ حضرت غوث
اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شریعت کے تنِ بے جان میں دوبارہ جان ڈال دی اور
آپ کی دعوت وتبلیغ نے ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزلِ مقصود سے ہم کنار
کردیا جس کی وجہ سے آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ مشہور ومعروف ہوگیا۔ آپ کے
اسلوبِ دعوت وتبلیغ اور خطبات سے زمانہ آج بھی فیض یاب ہورہا ہے اور قیامت
تک ان شاء اﷲ ہوتا رہے گا۔الغرض! حضور غوث الثقلین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
مقدس زندگی خلقِ خدا کی مدد، پریشان و مجبور لوگوں کے تعاون اور ان کی
فریاد رسی کے سلسلے میں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ
غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے سچی عقیدت و محبت کا دم بھرنے والے آپ کے
فرمودات پر عمل کریں، ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے جو بھی طریقے ممکن ہوں
اس پر عمل پیرا ہوں۔ |