موت و زیست کے درمیان ۸ سالوں تک
لٹکا رہنے کے بعد بالآخر ایرئیل شیرون نے ۱۱ جنوری کو دم توڑ دیا۔ اسرائیل
کے ناجائز قیام کے بعد جب نوجوان شیرون کی ملاقات اولین وزیراعظم بین گورین
سے ہوئی تو اس نے کہا تھا ’’ایرئیل! ضرورت نہیں ہے کہ تم زیادہ پڑھو تم
لوگوں کے قتل عام کے لیے مفید ہو ہمیں پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ قاتلوں کی
ضرورت ہے‘‘ایرئیل شیرون نے اپنی سفاکی و درندگی سے ثابت کردیا کہ اسرائیلی
وزیر اعظم نے اس کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ اس کے ساتھ وابستہ
کی جانے والی توقعات درست تھیں ۔ گورین کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئےشیرون
نے ۱۹۶۵ میں جنرل اوزی مرحام سے کہا تھا’’میں اس چیز کے بارے میں جسے لوگ
’’بین الاقوامی قوانین‘‘ کہتے ہیں کچھ نہیں جانتا میں صرف اتنا جانتا ہوں
کہ فلسطین کا جو بچہ پیدا ہو اسے زندہ جلا دو۔ فلسطین کی عورتیں اور بچے ان
کے مردوں سے زیادہ خطرناک ہیں اس لیے کہ فلسطین کا ایک بچہ یعنی فلسطینوں
کی نسل کا دوام‘‘۔ملعون شیرون کی نسل کشی سےبچ نکلنے والے بچوں نےاس کی موت
پرخوشی منائی اور اس کے جنازے کی جانب راکٹ چھوڑے جو آئرن ڈوم میزائیل شکن
نظام کو توڑ کر ۴ کلومیٹر کے فاصلے پر گرے۔
اس کے برعکس گزشتہ ماہ ۵ دسمبر کو جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کا انتقال
ہواتھا ۔دنیا بھرسے۵۰ ممالک کے سربراہ نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات میں
شرکت کیلئے آئے تھے جن اوبامہ کے علاوہ امریکہ دو سابق صدور بھی شامل تھے
۔نیلسن منڈیلا کو ملنے والے اس غیر معمولی خراجِ عقیدت کے پیچھے عالم ِ
انسانیت کیلئے ان کی بے لوث جدوجہد کا رفرما ہے ۔ ۱۸ جولائي ۱۹۱۸کو جنوبی
افریقہ کے علاقے ترانسکی میں کوسا زبان بولنے والے تھیمبو قبیلے میں پیدا
ہونے اس بچے کا قبائلی نام رولیہلا ہلا تھا۔ اس کےا سکول کے استاد نے اس کا
انگریزی نام ’نیلسن‘ رکھا مگر جنوبی افریقہ کے باشندےاحترام سے انہیں
خاندانی نام ’مادیبا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
نیلسن کی زندگي بڑے نشیب وفراز میں گزری ۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
۱۹۴۴میں منڈیلا نے افریقی نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرکے نسل پرستی
کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس وقتجنوبی افریقہ پر ہالینڈ
نژاد سفید فام بوئیر سامراج کی ساڑھے تین سو سالہ حکومت قائم تھی ۔ نو
آبادیاتی نظام کے تحت سیاہ فام اکثریت کے ملک میں ، سفید فام اقلیت کی
حکمرانی تھی اورسیاہ فام عوام پرمظالم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ۔ انسانی
بنیادی حقوق سے وہ یکسر محروم تھے۔ ۱۹۴۸ میں جنوبی افریقہ کے اندر جمہوریت
بحال ہوگئی لیکن انتخاب کے ذریعہ اقلیتی سفید فاموں کی نیشنل پارٹی برسر
اقتدار آگئی اور سرکاری طور پر نسل پرستانہ نظام کی بنیاد رکھ دی۔منڈیلا
سمت ۱۵۵ کارکنوں پر اس دھاندلی کے خلاف الم بغاوت بلند کرنے کے جرم میں
۱۹۵۶کے اندر غداری کا مقدمہ چار سال چلا اور اس کے بعد یہ الزامات خارج کر
دیے گئےلیکن اس دوران نیلسن کی والدہ کا انتقال ہوا اور ان کا بڑا بیٹا کار
حادثے میں ہلاک ہوگیا مگر انہیں آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
۱۹۶۳میں شارپ ویل کے مقام پر ۶۷افریقیوں کے قتل کرنے کے بعد ، نسل پرست
حکومت نے ملک ميں ایمرجنسی کے نافذ کردی اور افریقی نیشنل کانگریس پر
پابندی لگا دی ۔ اس کے جواب میں پر امن طریقۂ کارکو خیرباد کہہ کر اے این
سی نے مسلح جدوجہد شروع کردی اور منڈیلا کو جنہوں نے الجزائر اور اتھیوپیا
میں فوجی ٹریننگ حاصل کی تھی افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی شاخ " نیزۂ ملت
" کا قائد بنا یا گیا ۔۱۹۶۴ میں منڈیلا دوسری بار گرفتار ہوئے اور اس بار
انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔ پریٹوریا کی حکمراں نسل پرست حکومت
کوعالمی سیاسی دباؤ کے تحت ۱۹۹۰ میں نیلسن منڈیلا کو رہائی پر رضا مندہونا
پڑا۔
اس کے بعد مذاکرات کا آغاز ہوادوسالہ گفت و شنیدکے نتیجےمیں سیاہ فاموں کے
حق رائے دہی کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گيا اس طرح نیلسن منڈیلا۱۰ مئي
۱۹۹۴ کو جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے ۔ نیلسن منڈیلا کو
جس چیز نے میدانِ سیاستمیں جاوداں بنا دیا ہے ، وہ عوام ميں زبردست مقبولیت
کے باوجود ۱۹۹۹ میںاپنے عہد کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے عملی سیاست سے کنارہ
کشی اختیارکرکے اقتدار نوجوان نسل کے حوالے کردینے کا جرأتمندانہ اقدام
تھا ۔۲۰۰۴ تک وہ مختلف سماجی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہے لیکن اس کے
بعدعوامی زندگی کو خیرباد کہہ کر اپنے اہل خانہ اور دوست و احباب تک محدود
ہوگئے۔ اس کے باوجد ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ۲۰۰۹کے انتخابات میں
جب حکمراں پارٹی بے روزگاری ، غربت اور بدعنوانی کے سبب مشکلات سے دوچار
تھی اور اس کے نامزد امیدوار جیکب زوما کی کامیابی کی امید کم تھی منڈیلا
کی حمایت سے زوما کیلئے اقتدار کا راستہ ہموار کردیا۔ ۱۹۹۳ میں منڈیلا
کوامن کے نوبل انعام سے نوازہ گیا۔ منڈيلا اپنی موت کے بعد بھی جنوبی
افریقہ میں سیاہ فام و سفید فام اور ریڈ انڈین مہاجرین کے درمیان قومی آشتی
اور پرامن بقائے باہمی کیلئے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے ۔
نیلسن منڈیلا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے دنیا بھرکے ۸۰ سے زیادہ
سربراہانِ مملکت حاضرہوئے لیکن اسرائیل نےاس عظیم افریقی ہیرو کی آخری
رسومات میں شرکت سے اپنے وزیر اعظم کو خرچ کا بہانہ بنا کر روک دیا جبکہ
نیتن یاہو نے نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔بعد
ازاںجنوبی افریقہ کےسفری اور حفاظتی اخراجات کا تخمینہ بیس لاکھ ڈالر لگانے
کے بعد نیتن یاہو کو منع کردیا گیا۔ نتن یا ہو کس قدر کفایت شعار اس کا
اندازہ لگانے یہ جان لینا کافی ہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم کے گھر میں بنے
سوئمنگ پول میں صرف پانی بھرنے پر ۲۳۰۰۰ ڈالرخرچ کئے گئے تھے نیزپچھلےسال
ان کے تین گھروںکے اخراجات دس لاکھ ڈالر کے قریب تھے ۔ اصل بات یہ ہے
ائیریل شیرون جیسے سفاک لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے والا یاہو ایک حریت پسند
اور نسلی امتیازکی مخالف عالمی شخصیت کی آخری رسومات میںکیا منہ لے کر
جاتا اس لیے اخراجات کو جواز بنا کردورہ منسوخ کیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کے برعکس ائیریل شیرون کا معاملہ ہے ۔ ۱۹۲۸ میں جرمن پولش
باپ اورروسی ماں کے یہاں جنم لینے والے اس جنگی مجرم کوصابرہ وشتیلا کے
قصائی کے خطاب سے نوازہ گیا۔قیام ِاسرائیل کے وقت ایریل شیرون الیگزینڈ یا
بریگیڈ میں پلاٹون کمانڈر کے طور پر کام کرتا تھا۔ ۱۹۵۱ میں اسے میجر بنا
کر اسرائیلی اسپیشل فورسز کے یونٹ ۱۰۱میں تعینات کردیاگیا۔اس یونٹ نے نہ
صرف فلسطینیوں کے خلاف زبردست اور بے رحمانہ کارروائیاں کیں بلکہ پڑوسی
ممالک مثلاً مصر اور اردن کے خلاف بھی جارحیت میں حصہ لیا ۔اس یونٹ کی سب
سے زیادہ شرانگیز اور ظالمانہ کارروائی میں مغربی کنارے کے گاؤں قبیہ میں
بسنے والے۶۰غیر مسلح فلسطینیوںکاقتل عام بھی شامل ہے۔ ۱۹۵۶ کی سوئز جنگ کے
دوران اور بعد میں اس کے کئیساتھیوں نے اس پر دشمن کے خلاف جنونی کارروائی
کرنے کا الزام عائد کیا۔ متلاپوسٹ کا واقعہ جس میں ۴۰ یہودی فوجی ایریل
شیرون کی حماقت سے ہلاک ہوئے اس کے با وجود ۱۹۶۲میں اسےچیف آف اسٹاف آئزک
رابن نے میجر جنرل بنادیا۔
فوجی وردی اتارنےکے بعد ایریل شیرون نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور
مختلف سیاسی جماعتوں میں قسمت آزمائی کرنے کے بعد ۱۹۷۵ میں وزیر اعظم
آئزک رابن کا سیکورٹی مشیر بن گیا۔ اس کے بعدترقی کرتے ہوئے ۱۹۷۷ میں وزیر
زراعت اور ۱۹۸۱وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوگیا۔۱۹۸۲میں جب
ایریلشیرونوزیر دفاع تھاتواسکے ایماء پرصابرہ اور شتیلاکےفلسطینی مہاجر
کیمپوں پر شب خون مارا گیا ۔صابرہ میں ۴۶۰اور شتیلا میں تقریباً ۳۵۰۰فلسطینی
مہاجرین کو جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی شیرون کی براہِ راست
نگرانی میں لبنانی عیسائی ملیشیانے شہید کردیا۔
صابرہ اور شتیلا کیمپوں میں قتل عام کی تحقیقات کرنے سے والے "کاہان" کمیشن
نے اپنی تحقیقات کے اختتام پر طورپر وزیر دفاع ایریل شیرون کو برطرف کرنے
کی سفارش کی ۔ کمیشن کی رپورٹ میں درج تھا ’’ہم نے یہی محسوس کیا کہ اس قتل
عام کی ذمہ داری براہ راست اور ذاتی طور پر ایریل شیرون پر عائد ہوتی ہے۔اس
سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کابینہ کے اجلاس
میں اس معاملہ کو اٹھائیں اور ایریل شیرون کو ان کے عہدے سےہٹادیں‘‘ اس
واضح الزام کے بعد شیرون کو وزیر دفاع عہدے سے تو ہٹادیا گیا مگر اگلے دو
سال وہ بغیر کسی قلمدان وزیر بنا عیش کرتا رہا اور اس کے بعد ۶ سالوں وزیر
صنعت و تجارت اور ۲سال وزیر ہاوسنگ و تعمیرات کےطور پر اقتدار سے چپکا
رہا۔شیرون کے جارحانہ مظالم کا اسرائیلی عوام نے یہ انعام دیا کہ ۲۰۰۱ کے
انتخاب میں اسے کامیابی سے نواز کراسرائیل کا وزیر اعظم بنا دیا۔ حالانکہ
بیلجیم کے سپریم کورٹ میں صابرہ اور شتیلاکیمپوں پر حملے میں شیرون کے
کردار کو ثابت کیا جا چکاتھااور عدالت اسے جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے
چکی تھی ۔لندن کے میئر یونگ اسٹوں نے اسے ویزا دینے سے انکار کردیا
تھا۔فرانس کے سابق صدر یاک شیراک نے بھی شیرون کو مشورہ دیاکہ وہ جنگی
جرائم کے الزامات کاسامنا کرے لیکن بھلا ہو جمہوریت کی دیوی کا جس نے اس کے
سر پر تاج رکھ دیا ۔ ۔
ائیریل شیرون نے مارچ ۲۰۰۶ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر
اچانک اپنے سخت گیر رویہ میں زبردست تبدیلی کرڈالی اور غزہ پٹی سے ۸ ہزار
یہودیوں کو نکال کریکطرفہفوجی انخلا کا اعلان کردیا ۔ اس طرح غزہ میں ۳۸
برس پرانے اسرائیلی تسلط کا خاتمہ ہوگیا۔ائیریل شیرون کے اس لچکداررویہ سے
پارٹی میں اختلافات ہوگئے۔ ایسے میں ایک اور پینترہ بازی دکھلاتے ہوئے اس
نے سخت گیرلیکوڈ سے علیحدگی اختیار کرکے اعتدال پسندکادیمہ پارٹی بنا ڈالی
اور پھر ایک بار وزیراعظم بننے کےلیے ہاتھ پیر مارنے لگا لیکن مشیت کو کچھ
اور ہی منظور تھا۴ جنوری ۲۰۰۶کو جبکہ شیرون کی سیاسی زندگی عروج پر تھی اس
پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ کومہمیں چلا گیا جس سے بظاہر اس کی نوزائیدہ
پارٹی کا اسقاطِ حمل ہو گیا۔ اس وقت تقریباً تمام ہی سیاسی مبصرین کا اس پر
اتفاق تھا کہ اب کا دیمہ اقتدار میں نہیں آسکتی لیکن سارے اندازے غلط ثابت
ہوئے ۔ شیرون کے بجائے اس کانائب یہود اولمرٹ انتخابات جیت کرلیبر پارٹی
سےالحاق کرکےوزیراعظم بن گیا۔
یہود اولمرٹ نے ۲۰۱۱ انتخاب جیتنے کی خاطر غزہ پر بمباری شروع کردی مگر وہ
حربہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ اولمرٹاسی نتن یاہو کے ہاتھوں رسوا کن شکست سے
دوچار ہوا جسے ہرا کر شیرون وزیر اعظم بنا تھا ۔گردشِ زمانہ نے اپنے محور
کا ایک چکر مکمل کرلیا لیکن اس سیاسی اتھل پتھل کے دوران بے حس و حرکتشیرون
زندہ لاش بناپڑا رہا ۔ اسرائیلی حکومت ہر سال اس کےعلاج پر ۴۴۰ ملین ڈالر
خرچ کرتی رہیبالآخر۸ سالوں تک نشانِ عبرت بنے رہنے کے بعد ایک اورفرعونِ
وقت واصلِ جہنم ہوا۔ائیریل شیرون کی آخری رسومات میں شریک ہونے کیلئے
امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن ، جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر
اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلئیرکے علاوہ کوئی قابلِ ذکر رہنما
نہیں آیا۔ اس کے لئے بھیجے جانے والےچندتعزیتی پیغامات میں مغرب کے
حکمرانوں نے صرف اور صرف غزہ سے فوجی انخلاء کا ذکر کیا اس لئے کہ اس کے
علاوہ ساری زندگی اس نے خون خرابے کے علاوہ کیا ہی کیا تھا؟
۸ سال قبل جب ایریل شیرون کومہ میں گیا تھا تو اس وقت فلسطینی وزیراعظم
احمد قریع نے اپنے ایک خط میں اسرائیلی حکام سے کہاتھا کہ اسرائیلی عوام
شیرون کو تادیر یاد رکھیں گے کیونکہ وہ ایک فیصلہ ساز شخصیت کا حامل تھا
۔فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات نے کہا تھا شیرون کی موت سے فلسطین کے
ساتھ اسرائیلی مذکراتکے ضابطے اور نکات سب ہی تبدیل ہوجائیں گے۔انہوں نے
کہاتھا کہ اسرائیلی سیاست میں سب کچھ تہہ و بالا ہوجائے گا۔ لیکن بعد میں
غزہ کے اندر حماس کے اقتدار میں آجانے سے الفتح کو بھی اپنا لب ولہجہ
بدلنا پڑا۔ شیرون کی موت کے بعد ايک معمر فلسطينی اہلکار نے شيرون کو’مجرم‘
قرار ديتے ہوئے ۲۰۰۴ ميں سابق فلسطينی رہنما ياسر عرفات کی پراسرار موت کی
ذمہ داری بھی اسی پر عائد کی۔ فلسطين کی فتح پارٹی کے ايک سينئر رکن جبريل
رجوب کے بقول وہ شيرون کو بين الاقوامی فوجداری عدالت ميں پيش ہوتا ہوا
ديکھنا چاہتے تھے۔دريں اثناء غزہ پٹی سے حماس نے شيرون کے انتقال کو ايک
تاريخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم کے ہاتھ
فلسطينيوں کے خون سے رنگے ہوئے ہيں۔
نیلسن منڈیلا اور ائیریل شیرون دونوں فوجی تربیت سے آراستہ سیاسی رہنما
تھے ۔ دونوں کو اقتدار حاصل ہوا لیکن چونکہ ان کے مقاصد ، اہداف اور طریقۂ
کار میں زمین آسمان کا فرق تھا اس لئے ایک کے حصے میں نیک نامی آئی اور
دوسرا بدنامی کے گھڑے میں جاگرا۔ ایک نے خود بھی چین و سکون کی زندگی گزاری
اور دوسروں کیلئے امن و آشتی کا پیغامبر بنا رہا اور دوسرےنےظلم و طغیان
کا راستہ اختیا ر کیا اس لئے خود بھی خوف و دہشت کا شکار رہا اور دوسروں کو
بھی اپنی بربریت و سفاکی کا نشانہ بناتا رہا۔ان دونوں کی زندگی میں اقتدار
سے وابستہ لوگوں میں عبرت کا پیغام ہے ان پرحکیم الامت علامہ اقبال کا
مندرجہ ذیل شعر صادق آتا ہے ؎
عمل سے زندگی بنتیہے جنت بھیجہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے |