عام انتخابات اور میڈیا کی ماحول سازی

سال2014میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حالانکہ ابھی کم و بیش 3مہینے باقی ہیں مگر الیکٹرونک میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ ماحول ایسا بنا رکھا ہے جیسے کل ہی انتخابات ہونے والے ہوں ۔ہر دن ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز میں یہی چرچا ہے ۔اسی پر بحشوں کادو ر چل رہا ہے ۔مندوبین باری باری ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے اپنے خیالات پیش کررہے ہیں ۔ اینکر چیخ رہے اور رپورٹر اچھل اچھل کرعوام کے رجحانوں کی خبریں دے رہے ہیں ۔الیکشن نہ ہوا اعلان جنگ ہوا جس کے بگل زورو شور سے بجائے جارہے ہیں ۔
الیکٹرونک میڈیا کی یہ دھماچوکڑیاں تو ایک طرف اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ چہروں لیپ پوتھ کرکو زبردستی عوام پر تھونپاجارہا ہے اور زبردستی یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہندوستانی عوام اپنے وزیر اعظم کے طورپر ان کاہی انتخاب کر یں ۔ان سے’KBPیعنی کون بنے گا پردھان منتری‘ نامی ٹی و ی شوزمیں یہی بات پوچھی جارہی ہے اور ان کی خوبیوں کے گن گان کیے جارہے ہیں ۔کسی چینل پرراہل گاندھی کی مد ح سرائی ہو رہی ہے تو کوئی نر یندر مودی کی شان میں قصیدے پڑھ رہا ہے ۔ کسی پر کسی کا چر چا ہے تو کسی پر کسی کا۔ واضح ہو کہ عوام سے عموماً جن لوگوں کے بارے میں پوچھاجارہاہے ان میں نریندری مودی ، راہل گا ند ھی ، ا ر و ند کجریو ا ل،ملائم سنگھ،جے للتا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میڈیا اس طرح کی حماقت کیوں کررہا ہے جب کہ اس ملک کا بچہ بچہ اور سیاست کی ذرا بھی شد بُدرکھنے والا شخص اتنی بات بخوبی جانتا ہے کہ ہندوستان میں امریکہ یا ان ممالک کی طرح جہاں صدارتی راج نافذ ہے ،وزیر اعظم یا صدر کا انتخاب عوام نہیں کرتے بلکہ وہ پارٹی کر تی ہے جس کے ممبران زیادہ تعداد میں لوک سبھا الیکشن جیت کر آتے ہیں ۔․․․․یہ بات وہ لوگ بھی جانتے ہیں جومودی ،راہل یا دویگر لوگوں کا نام لے کر پرو پیگنڈہ کر رہے ہیں مگر ان کی منشا عوام کو گمراہی میں مبتلا کر نا ہے اور ان کے جذبات سے کھلواڑ کر نا ہے اسی طرح ان کا مقصد فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا بھی ہے۔اپنی پسندید ہ شخصیات کی نامنظوری پر انتہا پسند مرنی مارنی پر آجائیں گے اور ملک شعلوں کی نذر ہو جا ئے گا ۔ الیکٹرونک میڈیا کی اس گمراہی پر ماہرین سیاست باربار اس سے کہہ رہے ہیں کہ’ اسے اس طرح کے سوالات نہیں کر نے چاہئیں ۔ اگر وہ پوچھنا ہی چاہ رہا ہے تو اسے اس طرح کے سوالات کے بجائے یہ پوچھنا چاہیے کہ ملک میں اقتدا رکس پارٹی کے ہاتھوں میں آئے گا اور کس کی اکثریت ہوگی ۔‘لیکن میڈیا اس طرح کے سوالات نہیں کر تا ۔حالانکہ اس طرح کے رجحانات جمہوری ہندوستان کے حق میں سم قاتل ہیں اور نقصان دہ بھی مگر وہ ان باتوں کو کیا سمجھے ۔اس کے کارکنان کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھاری رقومات مل رہی ہیں اور غلط سلط پرو پیگنڈے کر نے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔
کبھی میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا تھا اس لیے کہ ملک کے بنیادی مسائل کو اجاگر کر کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولتا تھا ۔انھیں عوام کی فلاح و بہبود پر مجبور کر تا تھا ہے ۔عدالتوں میں ہونے والی کارروائیوں سے باشندگان ملک کو واقف کراتا تھا ۔لیکن آج کے وقت میں میڈیا ٖپوری طرح سیاسی پارٹیوں کا غلام بن گیا ہے اورعوام کی ہمدردی کرنے کے بجائے نیتاؤں کی چاپلوسی میں مصروف ہے۔ اس طرح وہ جمہوریت کے ستون کے بجائے بی جے پی،کانگریس اور دیگرسیاسی پارٹیوں کا ستون بن گیا ہے۔ اس طرح عوام کا اس پر سے بھرو سہ کم ہوتا جارہا ہے نیز دونوں طبقو ں کے درمیان ایک خلیج بنتی جارہی ہے۔
میڈیا کا موجودہ رخ اور اپنی تمام تر توجہ مخصوص چہروں اور پارٹیوں پرمرکوز کر نا اس کے زوال کی علامت ہے ۔یہ بات آزمائی ہوئی ہے کہ پارٹیاں میڈیا کی نوازش اس وقت تک کرتی ہیں جب تک وہ اقتدار میں ہوتی ہیں ۔ پھر جیسے ہی ان سے تخت چھنتا ہے وہ سب کچھ بھول جاتی ہیں۔نہ انھیں اپنوں کا خیال رہتا ہے اور نہ میڈیا کی فکر ۔ہاں !عوام کبھی کسی کو نہیں بھولتے ، وہ جس درسے وابستہ ہوتے ہیں یا جس کو خود سے وابستہ کرتے ہیں جیتے جی اسے اپنا بنا کر رکھتے ہیں ۔اس سے وفا اور دوستی قائم رکھنے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کر نے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔میڈیا چڑھتے سورج کی تابانی کے بجائے ان چراغوں کی لوؤں کی طرف دیکھے جو راتوں میں بھی جلتے ہیں اور دن میں سورج کو روشنی بخشتے ہیں ۔انھیں عوام کہا جاتا ہے۔

ایک بات تو بہت واضح ہے کہ وہ مودی ہو یا راہل گاندھی ۔یا کوئی بھی وزارت عظمیٰ کی کر سی کا متمنی ۔اگر اس کی نیت صاف ہے اور وہ سچے دل سے ملک کی خدمت کر نا چاہتا ہے ۔ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کرناچاہتا ہے نیز عوام کے مسائل حل کر نا چاہتا ہے تو پھر اسے کوئی بھی اس کے مقصد سے نہیں رو ک سکتا اور اگر اس کی نیت میں فتور ہے نیزشرپسندی کا خیال اس کے ذہن میں ہے تو وہ میڈیا کا کتنا بڑا ہی لاؤ لشکر کیوں نہ لے آئے کسی بھی طرح اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا ۔یہ بات میڈیا بھی نوٹ کر لے اورخود اپنی بیٹھ ٹھونکنے والے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی! یہ وقت کا لکھا ہے جسے کوئی نہیں مٹا سکتا ۔

آج کے ہندوستان کا میڈیا اپنی قدریں اور نیک مقاصد بھلا کر غلط راہ پر چل پڑا ہے ۔میڈیا اور جرنلزم کی کتابوں میں سیاسی پارٹیوں کی جی حضوری اور چاپلوسی کے اسبا ق نہیں ہوتے ۔ان میں تو ہمیشہ سچائی ،ایمانداری اور حقیقت بیانی کا سبق پڑھایا جاتا ہے ۔نیز مظلوموں کی حمایت اور غریبوں کی دادرسی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میڈیا سے وابستہ ہونے والے افراد کو سکھا یا جاتا ہے کہ انھیں کسی سے مرعوب نہیں ہونا ہے اور نہ ہی سچائی کے مسئلے میں کسی قیمت پرسمجھوتا کر نا ہے۔جتنا حق ہے اتنا ہی بیان کر نا ہے اور جو غلط ہے اسے بھی اس کی مقدار تک بتانا ہے ․․․․․․لیکن افسو س!جب میڈیا کے طلبا میدان عمل میں آتے ہیں وہ ان تمام تعلیمات و ہدایات کو فراموش کرکے چاپلوس بن جاتے ہیں ۔اس کا مظاہرہ آج سب دیکھ رہے ہیں جومیڈیا کے تئیں عمومی بدظنی کا باعث بنتا جارہا ہے۔

الیکٹرونک میڈیاکے ذریعے لوک سبھا انتخابات کی قبل ازوقت ماحول سازی اورغیر جمہوری طریقے ثابت کررہے ہیں کہ آج کے وقت میں وہ پوری طرح کرپٹ ہو چکاہے۔اس کے شہر میں سچائی اور حقیقت کاگلا گھونٹ دیا گیا۔آج وہاں سے وہی نشر کیا جارہا ہے جو راہل یا مودی کہہ رہے یا ان کی جماعتیں کہلوا رہی ہیں ۔مظفر نگر ،راجستھان ،مہاراشٹرا اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی فرقہ وارانہ جھڑپوں اورفسادات کی میڈیا کو کوئی خبر نہیں ہے اسی طرح ان لیڈران کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے جو ریاستوں کے خزانوں کو چونا لگا کر بر باد کررہے ہیں ۔میڈیا ان سے لاعلم ہے جو عوام کے ارمانوں کا خون کر کے انھیں مہنگائی ،بھکمری ،قرض اور افلاس کے مسائل کی نذر کررہے ہیں ۔

میڈیا کی اپنے فرائض سے غفلت اور سیاسی جماعتوں یا کارپوریٹ گھرانوں کی چاپلوسی کا خمیاز ہ ایک دن اسے ضروربھگتنا ہے اور اس طرح بھگتنا ہوگاکہ اس کے مالکان اور کارکنان تک گر وی رکھ دیے جائیں گے۔چو نکہ ’نیا نغمہ ہے اور نئی آواز ‘ہے اس لیے میری یہ فغاں ابھی کسی کے سمجھ میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی میرے احساس سے متفق ہوگا مگر بہت جلد وقت اس طرح کے نمونے دکھا ئے گا ۔ دیمک زدہ لکڑی بھی ایک دفعہ میں نہیں گر تی دھیرے دھیرے اندر سے کھوکھلی ہوتی رہتی ہے۔ پھراچانک گر جاتی ہے۔ بعینہٖ یہی حال ہندوستانی میڈیاکا بھی ہوتا جارہا ہے۔اس میں بھی دیمک لگ چکی ہے جو اسے دن بدن کمزور کرتی جارہی ہے ۔

احسـاس
کبھی میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا تھا اس لیے کہ ملک کے بنیادی مسائل کو اجاگر کر کے حکمرانوں کی آنکھیں کھولتا تھا ۔انھیں عوام کی فلاح و بہبود پر مجبور کر تا تھا ہے ۔عدالتوں میں ہونے والی کارروائیوں سے باشندگان ملک کو واقف کراتا تھا ۔لیکن آج کے وقت میں میڈیا ٖپوری طرح سیاسی پارٹیوں کا غلام بن گیا ہے اورعوام کی ہمدردی کرنے کے بجائے نیتاؤں کی چاپلوسی میں مصروف اس طرح وہ جمہوریت کے ستون کے بجائے بی جے پی،کانگریس اور دیگرسیاسی پارٹیوں کا ستون بن گیا ہے۔ اس طرح عوام کا اس پر سے بھرو سہ کم ہوتا جارہا ہے نیز دونوں طبقو ں کے درمیان ایک خلیج بنتی جارہی ہے۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56420 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More