نیا سال 2014شروع ہو تو دنیا ایک بدترین قید خانے
گوانتانامو کے قیام کو بھی بارہ سال مکمل ہو گئے۔امریکہ نے اب یہاں نئے
قیدی نہ لانے کا فیصلہ سنا دیا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس کی بندش کا بھی کام
شروع کر دیا گیا ہے۔امریکہ کے اس قید خانے میں آنے والے کسی قیدی کا امریکہ
حوصلہ توڑ سکا نہ اس سے اپنی مرضی کا کوئی بیان لے سکا۔یوں اس قید خانے کے
معاملے میں بھی امریکہ شکست خوردہ ہی نظر آتا ہے۔14جنوری کو یہا ں قید خالد
شیخ محمد نے اپنے ایک خط میں اپنے مقدمے سے وابسطہ اور دیگر امریکیوں کو
اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو ساتھ ہی لکھا کہ وہ اس جزیرے میں قید ہو کر
پریشان نہیں بلکہ خوش ہے۔
گوانتانامو کے قیام بارہ سال بعد جب اس کے قیدیوں کی کہانیاں اور داستانیں
دیکھیں تویک دم ـ’’کالا پانی‘‘ یا د آیا۔کالا پانی…… برصغیر کے مسلمانوں کی
عظیم جہادی تاریخ میں ایک ایسا انمٹ نام ہے جس کا تذکرہ آج بھی پوری شدومد
سے ہوتا ہے…… کالا پانی دراصل بحرہند میں پھیلے ان جزائر کے مجموعے کا نام
ہے جو انڈونیشیا کے صوبہ آچے سے 150کلومیٹر پر واقع ہیں لیکن انگریز نے اس
خطے سے جاتے ہوئے یہ جزائر بھارت کو دے دیئے تھے۔ ان جزائر کو دو حصوں میں
تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک کا نام جزائر انڈیمان اور دوسرے کا نام جزائر
نکوبار ہے۔ جزائر کے سارے مجموعے کا مرکزی مقام پورٹ بلیئر کہلاتا ہے۔ پورٹ
بلیئر کا نام برصغیر پر انگریزوں کی جانب سے قبضہ کرنے کے لئے سب سے پہلے
آنے والے کاروباری ادارے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اہم فوجی عہدیدار
لیفٹیننٹ آرکیبالڈ بلیئر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ آج اس چھوٹے سے شہر کی
آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔سارے جزائر کا مجموعی رقبہ 8ہزار 75مربع
کلومیٹر جبکہ مجموعی آبادی 3لاکھ80ہزار کے لگ بھگ ہے اور علاقے کا گورنر
لیفٹیننٹ جنرل اے کے سنگھ ہے۔ یہاں انگریزوں نے قبضے کے بعد 1789ء میں اپنی
فوجی چھاؤنی قائم کی۔ پھر جب برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جہادی تحریک آگے
بڑھتی گئی تو انگریزوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے،
جن میں سے ایک حربہ یہ بھی تھا کہ انگریز کے خلاف مزاحمت کرنے اور لڑنے
والوں کو برصغیر کے مختلف کونوں سے گرفتار کر کے یہاں بھیج دیا جاتا تھا
تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے علاقے اور خطے سے دور ہو جائیں اور نہ ان
تک کوئی پہنچ سکے اور نہ وہ کسی تک پہنچ سکیں۔ یہاں ان قیدیوں پر بے پناہ
مظالم بھی ڈھائے جاتے تھے۔ بے شمار کو پھانسیاں بھی دی گئیں اور بہت سے
یہیں وفات پا گئے۔ تحریک مجاہدین سے تعلق رکھنے والے اور 1864ء کے مقدمہ
انبالہ میں ملوث مولانا جعفرتھانیسری کو بھی پابہ جولاں دریائے سندھ اور
کراچی کے راستے کالا پانی لے جا کر وہاں قید رکھا گیا اور تقریباً 25 سال
بعد وہ رہا ہو کر آئے تو انہوں نے کالا پانی کے نام سے اسیری کی داستان
لکھی لیکن خدائی شان دیکھئے کہ برصغیر پر قابض انگریزوں کا جو واحد
وائسرائے حکمران مارا گیا، وہ یہیں انہی جزائر میں 8فروری 1872ء کو مارا
گیا تھا جس کا نام لارڈ رچرڈ میو تھا جسے خیبرایجنسی کے علاقے تیراہ سے
تعلق رکھنے والے ایک بہادر جواں شیر علی آفریدی نے سبزی کاٹنے والی چھری سے
حملہ کر کے واصل جہنم کر دیا تھا۔ انگریز تو 1947ء میں یہاں سے چلے گئے
لیکن کالا پانی کی تاریخ اور کہانیاں آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔ کالا پانی
کی پورٹ بلیئر پر واقع سیلولر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیاں، پھانسی گھاٹ،
ٹکٹکیاں، تاریخ کا حصہ ہیں۔
دوسری طرف آج کا گوانتا نومو ہے جو امریکہ کی بغل میں واقع کیوبا کے ملک کا
ایک کنارا ہے جس پر امریکہ کا جنگی اڈہ قائم ہے۔ امریکہ نے اسے 1898ء میں
جنگ کے بعد سپین سے چھینا تھا۔جولائی 1903ء میں امریکہ نے کیوبا کے ساتھ
ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کئے تھے، جسے ’’کیوبن امریکن ٹریٹی‘‘ کہا جاتا
ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ کیوبا کو یہاں رہنے کے لئے سالانہ دو ہزار
ڈالر ادا کرنے کا پابند ہے تو ساتھ اس پر بھی پابندی ہے کہ وہ یہاں فوجی
تنصیبات کے علاوہ دیگر کچھ نہیں بنا سکتا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نے سینکڑوں کی
تعداد میں ایسے مسلم نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا جو امریکہ کے بقول اس کے
خلاف برسرپیکار، اس کے وجود کے لئے خطرہ یا نائن الیون کے واقعہ سے کسی نہ
کسی طرح تعلق رکھتے تھے۔
یہاں امریکہ نے ان مسلم نوجوان قیدیوں پر وہ کون سے مظالم ہیں جو نہیں
ڈھائے تھے۔ قیدیوں کو تنہا پنجروں میں بند رکھا جاتا، سونے کیلئے ایک سخت
شیٹ، دو باریک کمبل، پہننے کو مخصوص لال یونیفارم اور انتہائی ہلکے چپل۔
ایک خوفناک سزا یہ تھی کہ انہیں رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء جانے کی اجازت
نہ تھی بلکہ پنجرے میں پلاسٹک کی دو چھوٹی بالٹیاں دی جاتیں کہ جن میں کھلے
عام، انہوں نے الگ الگ رفع حاجت کر کے وہیں اپنے پاس رکھنا ہوتی تھی۔ پھر
امریکیوں کا جب جی چاہتا تو قیدیوں سے ہی یہ بالٹیاں صاف کروائی جاتی تھیں۔
گرمی ہو یا سردی رہنا انہی پنجروں میں ہوتا تھا۔ تفتیش کے دوران بے تحاشا
مار دھاڑ کے ساتھ ساتھ کرنٹ لگانا، سانس بند کرنا، برف کے بلاکوں پر لٹانا
تو عام سی بات تھی۔ پھر دنیا نے یہ مناظر بھی دیکھے کہ قیدیوں کو الف ننگا
کر کے اور پھر انہیں ہاتھ پاؤں سے باندھ کر ان پر شکاری کتے چھوڑے جاتے۔ جب
اس سے بھی بات نہ بنی تو پھر امریکیوں نے آخری حربے کے طور پر قرآن کریم کے
نسخوں کی انتہائی برے سے برے طریقے اختیار کر کے توہین شروع کر دی۔ نبی آخر
الزماں محمد کریمﷺ کی شان میں خوفناک گستاخیاں کیں ۔پھر بھی بات نہ بنی تو
قیدیوں کو جان سے مارنے کے پروگرام بنے اور آج بھی امریکہ کہتا ہے کہ
گوانتانامو میں 26 قیدیوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی جن میں 6 جان کی بازی
ہار گئے تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ یہیں متعین کتنے امریکی فوجی اس سارے
ماحول کو دیکھنے کے بعد مسلمان ہو گئے۔ قید خانے کھلنے اور قیدی آزاد ہونا
شروع ہوئے تو دنیا کی حیرت دیکھی نہ جاتی تھی کہ کوئی ایک قیدی بھی اسلام
سے برگشتہ نہ ہوا بلکہ بیشتر حافظ قرآن بن کر نکلے۔ پھر امریکہ کے ذرائع
ابلاغ میں یہ رپورٹیں آئیں کہ گوانتانامو سے نکلنے والے کتنے ہی قیدی
دوبارہ افغانستان میں ایک بار پھر سے برسرپیکار ہو گئے۔ امریکہ یہاں آنے
والے کسی ایک قیدی کے حوصلے نہ توڑ سکا۔ امریکہ نے قیدیوں کیلئے یہاں کیمپ
ڈیلٹا، کیمپ ایگوانا (لفظی معنی ’’سانڈا‘‘) اور کیمپ ایکس رے بنائے تھے، جو
اب ویران پڑے ہیں۔ یہاں بارہ سال میں مجموعی طور پر دنیا کے درجنوں ممالک
بشمول چین، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا وغیرہ کے 779قیدی لائے گئے لیکن کسی
ایک سے امریکہ ایسی کوئی بات نہ اگلوا سکا کہ جس کی بنیاد پر وہ دعویٰ کر
سکتا کہ اسے اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی ہے۔ 12سال گزرے، امریکہ اب خود ہی
جھکنے پر مجبور ہے۔ اس کے پاس اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا کہ
وہ سارے قیدیوں کو رہا کرے اور اس قید خانے کو برطانیہ کے کالے پانی کی
جیلوں کی طرز پر بند ہی کرے۔
کالے پانی کے قید خانوں اور گوانتانامو کے زندانوں میں اتنا فرق ہے کہ کالے
پانی میں انگریز کے خلاف میدان میں آنے والے چند حریت پسند غیر مسلم بھی
تھے جبکہ گوانتانامو کے سبھی باسی صرف اور صرف مسلمان ہیں اور وہ جب اپنے
ہادی و رہبر و، نبی و پیغمبر محمد رسول اﷲﷺ کی یہ حدیث مبارکہ دل و دماغ
میں لاتے اور بساتے ہیں کہ ’’عجب اﷲ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل‘‘
(البخاری) ’’اﷲ تعالیٰ اس قوم کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے کہ جو جنت
میں اس حالت میں داخل ہوتی ہے کہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوتے ہیں‘‘۔
گوانتانامو کی ان خبروں کے ساتھ یہ خبر تھی کہ امریکہ کے ان نوجوان فوجیوں
میں بھی خودکشیوں کی شرح ہر روز بڑھ رہی ہے جو افغانستان یا عراق میں جنگ
کا سامنا کر کے لوٹے ہیں۔ انہوں نے جنگ میں سامنا انہی کا تو کیا تھا کہ جو
گوانتانامو پہنچے یا پھر وہاں سے لوٹے……
امریکہ کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ نوشتہء دیوار پڑھ لے اور برطانیہ اور
کالے پانی کی تاریخ کے بعد اپنے گوانتانامو کو بھی دیکھ لے کہ کہتے ہیں کہ
تاریخ اپنے آپ کو دہرایا کرتی ہے۔ |