بھارتی انتخابات ہوں یا وہاں کی فوج اور حکومت کے
سربراہوں کے بیانات ان کے پاکستان پر پڑتے ہیں براہ راست اثرات۔ جس کی ایک
چھوٹی سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کے لئے اپنی
کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب بھی اس سمت میں
کوئی پیش رفت ہونے لگتی ہے تو وہ طبقات جن کے مفادات آپس کی تلخیوں کی آگ
بھڑکائے رکھنے سے وابستہ ہیں وہ کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس
سے ا من کی سمت بڑھتے ہوئے قدم اچانک رک جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کنٹرول لائن
پر سرحد کے اس پار سے ہونے والی فائرنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کی سرحدی
عسکری قیادت نے اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کے اعادے کو روکنے پر اتفاق کیا
تو اس پر دونوں اطراف سے اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے
کہ ابھی اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی آرمی چیف کے
ایک ناروا اور بے وقت بیان نے پرانی آویزشوں کی آگ کو نیا ایندھن فراہم
کردیا جس پر وزارت خارجہ پاکستان کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دینا پڑا کیونکہ
اگر کوئی پتھر پھینکے گا تو اس پر پھول تو نہیں برسائے جائیں گے۔
بہرحال ذکر کررہی تھی بھارت کے آمدہ عام انتخابات کا جو کہ ہر پانچ سال بعد
مئی میں منعقد ہوتے ہیں۔ چین کے بعد بھارت سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔
بھارت کی 29ریاستوں میں سے 27ریاستوں کی اپنی اسمبلیاں ہیں ودھان سبھا کہا
جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں سے سب سے زیادہ آبادی اترپردیش کی ہے جہاں دو سو
ملین لوگ رہتے ہیں جبکہ سب سے کم آبادی والی ریاست سکم ہے جہاں آدھا ملین
لوگ رہتے ہیں۔ ان ریاستوں میں مختلف اوقات میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں
گزشتہ دنوں دلی، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور میزورام میں
انتخابات ہوئے۔ دہلی میں عام آدمی نامی پارٹی نے میدان مار لیا جبکہ دیگر
ریاستوں میں مجموعی طور پر بی جے پی کے ووٹ بنک میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس طرح مئی 2014ء میں سولہویں لوک سبھا کے عام انتخابات میں ایسے لگتا ہے
کہ بی جے پی بڑی حد تک میدان مار لے گی۔ ایسے لگتا ہے کہ لوک سبھا کی 543
سیٹوں میں سے کم و بیش 180نشستیں بی جے پی حاصل کرلے گی اور اُسے حکومت
بنانے کے لئے مزید 72سیٹیں درکار ہونگی۔ میرے اندازے کے مطابق مئی 2014ء کے
انتخابات میں انا ہزارے کی تحریک اور کرپشن کے خلاف اروند کجریوال کی
بیداری مہم کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگریس تقریباً 50نشستوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے گی۔ اس صورتحال میں بی جے پی دوسری پارٹیوں کی 100نشستوں کے ساتھ
مرکز میں مخلوط حکومت بنا لے گی۔ اروند کجریوال جنہوں نے سونیا گاندھی،
راہول گاندھی اور سونیا کے داماد رابرٹ وڈرا کے خلاف بدعنوانیوں کے کئی
کیسوں کی تحقیق کی۔ امکان ہے کہ بی جے پی برسراقتدار آنے کی صورت میں اروند
کجریوال کو کابینہ میں وزیر احتساب لے لے گی۔ جنہوں نے چند مواقع پر یہ
آواز بھی بلند کی ہے کہ بھارت میں گاندھی خاندان نے نواز شریف فیملی کے
ساتھ تجارتی شراکت داری بنا لی ہے۔ اس طرح اگلے چھ سے بارہ مہینوں میں
بھارتی انتخابات کے بی جے پی کی جیت کے صورت میں منفی اثرات پاکستان میں
شریف خاندان پر پڑیں گے جس کے نتیجے میں رواں سال گرمیوں میں اسلام آباد
اور نئی دلی کے درمیان تعلقات بدترین شکل اختیار کرلیں گے۔ بھارتی آرمی چیف
کی اشتعال انگیز بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام
بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک بار پھر کشمیرمیں کارگل جیسی
صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔ جو کہ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے لئے ایک
کٹھن امتحان ثابت ہوسکتی ہے۔ 2014ء کے آخری تین ماہ پاکستان کے لئے تشویش
کا باعث ہوسکتے ہیں کیونکہ بی جے پی کی جنگی سیاست اور پاکستان کے شمال اور
شمال مغرب میں طالبان کی واپسی ، سعودی عرب اور ایران میں بڑھتی ہوئی خلیج
اور نواز شریف میں پاکستان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے ضمن میں سیاسی عزم
کی کمی سوالیہ نشان ہے۔ |