میں نے دو کالم لکھے
ہیں۔جن میں لکھا تھا کہ جنرل مشرف کے معاملے پر سعودی شہزادے کو ایک ڈیل دی
گئی ہے۔اور ایک میں لکھا ہے کہ جنرل مشرف کے حامی ،دوست ،حواری ایک جگہ جمع
ہو رہے ہیں۔
ابھی اطلاعات آ رہی ہیں کہ امریکی سفیر نے سابق صدر آصف علی زرداری سے
ملاقات کی ہے۔اور بقول میرے ’’تلقین شاہ‘‘ امریکی سفیر نے ان سے مشرف کے
معامے پر بات کی ہے ۔اور ان سے درخواست کی ہے کہ ’’وہ مشرف کے معاملے پر
ہاتھ ہولا رکھیں‘‘ میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان جیسے دوسرے
احباب کو بھی انکے اس سوال کا اب تک جواب مل گیا ہوگا کہ’’ زرداری نے مشرف
کو ایوان صدر سے کیونکرباعزت رخصت کیا تھا۔زرداری کے ناقدین کو یہ بھی
معلوم ہوگیا ہوگا کہ ’’ زرداری نے پانچ سال فوج کے آگے کیوں لیٹے رہے ؟
عدالتوں کی ہاں میں ہاں کیوں ملاتے رہے۔
پرویز رشید سے لیکر خواجہ سعد رفیق تک وفاقی وزرا جو مرضی کہتے رہیں کہ
’’ان پر سابق صدر کے حوالے سے کسی قسم کا دباو نہیں ہے‘‘ لیکن حقیقت حال سب
پر عیاں ہو چکی ہے۔اور جنرل مشرف کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینے
کے باوجود امریکی چینلز انہیں بچانے اور بھگا کر لیجانے کے لیے حرکت میں آ
چکے ہیں۔سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا۔امریکی
سفیر بہت جلد پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں سے بھی ملاقاتیں کرنے کا ارادہ
رکھتے ہیں۔وفاقی حکومت امریکی اعلی حکام کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔
ایک امریکی ڈاکٹر کی جانب سے بھی جنرل مشرف کی پاکستان سے جلد بیرون ملک
روانگی ’’لازمی‘‘ قرار دیدی گئی ہے۔ہماری حکومت ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر
یہی کہتی رہی کہ وہ اس حساس معاملے پر امریکہ سے کوئی ڈیل شیل نہیں
کریگی۔جوکچھ ہوگا عدالت میں ہی ہوگا……پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی بات ہی
کچھ اور تھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری غیرت مند پنجاب حکومت کے غیرت
مند وزیر اعلی ریمنڈ ڈیوس جیسے حساس ایشو کو چھڑ کر لندن پہنچ گے تھے ۔تاکہ
عوام کو یہتاثر دیا جائے کہ ہم امریکی جاسوس کی رہائی میں ملوث نہیں
ہیں۔جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس تھے۔وزیر اعلی پنجاب رانا ثنا اﷲ جو اس
وقت وزیر داخلہ کے فرائض بھی سرانجام دے رہے تھے کو مکمل با اختیار بنا کر
گے تھے۔اور جیل جو پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع تھی کو رانا ثنا ء
اﷲ کی ہدایات پر رات گے کھولا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کو پنجاب حکومت کی زیر
نگرانی اور ضلعی انتظامیہ کی قیادت اور سکیورٹی میں لاہور ائیرپورٹ پر
پہنچایا گیا تھا۔
جنرل مشرف نے تو پاکستان کی سرزمین انکے حوالے کردی تھی۔ ائیربیس انکی
دسترس میں دیدیے تھے۔کیا مشرف کی یہ خدمات شکیل افریدی سے کم ہیں۔کہ وہ
اپنے اس بندے کے لیے ہاتھے پر ہاتھ درے بیٹھا رہے گا۔اگر آج وہ جنرل مشرف
کے لیے کچھ نہیں کرے گا تو کل اسے اپنی خدمات کون پیش کرے گا؟ ہے ناں سوچنے
والی بات بظاہر امریکی حکام اور پاکستانی حکومت کے وزرا اور دفتر خارجہ
امریکی دباو یا سفارش کی بڑی دھوم دھام سے تردیدیں کرتے دکھائی دیں گے لیکن
اندرون خانہ معاملہ اپنی منزل پر پہنچنے کے صحیح سمت آگے بڑھ رہا
ہوگا۔امریکہ سمیت برطانیہ،فرانس ،جرمنی،سعودی عرب سب اس امر سے آگاہ
ہیں۔اگر کوٗی اس ساری صورت حال سے بے خبر ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں۔جن
سے سب کچھ چھپایا جا رہا ہے۔ووٹ لینے ہو تو عوام کو مائی باپ بھی ماننے کے
لیے تیار ہوتے ہیں ۔ھکومت میں آتے ہی انکی نظروں سے عوام گر جاتے ہیں اور
حقیر ہو جاتے ہیں۔میرا تو اب بھی وزیر اعظم سے لیکر شہباز شریف تک کو یہی
مشورہ ہے کہ جو کچھ اندرون خانہ چل رہا ہے یا جو کچھڑی پک رہی ہے ۔اس سے
عوام کو آگاہ کیجیے ورنہ عوام کی نظروں میں بے توقیرے ہو جاو گے۔اور عزت
اور توقیر جتنی مشکل کمائی جاتی ہے وہ آپ بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔
اگر میں غلط ہوں تو حکومتی ارباب اختیار اور عقل و دانش بتائیں کہ امریکی
سفیر نے وزیر اعظم اور دیگر وزرا سے ملاقاتوں میں کونسا انگریزی گانا سنا
ہے ۔انگریزی نہ سہی نصیبو لعل کے کس گانے پر لٹو ہوتے رہے ہیں؟امریکی سفیر
اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ملاقات میں کیا راز و نیاز ہوئے ہیں۔
حکومتی ایجنسیوں کو تو معلومات ہوں گی دونوں کے مابین باہمی دلچسپی کے کن
امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ہے۔حضور اگر آپکو اور آپکی ایجنسیاں اس سے
لاعلم ہیں تو میرے بابا جی ’’ تلقین شاہ ‘‘ صاحب سے رابطہ کر لیں وہ شائد
کچھ بتا دیں
ویسے جس برق رفتاری سے جنرل پرویز مشرف کے لیے امریکی امداد پاکستان پہنچی
ہے ۔اتنی 1970-71پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لیے ساتواں امریکی
بیڑا نہیں پہنچا تھا۔اس امر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ مشرف
میں کس قدر دلچسپی لے رہا ہے۔مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس ہو رہی
کہ جنرل مشرف میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی کے پیچھے بھی کوئی امریکی نقطہ
نظر میں حکمت عملی پنہاں ہے۔جو پاکستان کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے - |