ملک کی سب سے اہم، سب سے بڑا شہر
کراچی کی صورتحال اب بھی دھماکہ خیزی اختیار کیئے ہوئے ہے۔ پورے شہر میں
ایک ایسی ہیجانی کیفیت پائی جا رہی ہے جویہاں کے رہائشیوں کے لیئے بہت ہی
تشویشناک اور فکر انگیز ہے۔ سیاسی اُفق پر آئے دن سرخ و سیاہ اٹھتے دھواں
اور دھووؤں کی گھٹائیں اگر امن پسند لوگوں کی نیندیں چھین رہی ہیں تو
روزانہ کے اُٹھتے ہیبت ناک بگولوں نے ان کے دن کا چین بھی چھین لیا ہے۔
لیکن افسوس کہ انسانیت کے چودھریوں، سیکولر ازم کے دعوے داروں اور امن قائم
کرنے والے سپر طاقتوں کا دبدبہ رکھنے والوں کے لیئے یہ صورتحال دل پسند
تماشے کا منظر کشی کر رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے لوگ کس مٹی کے بنے
ہوئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے دل معصوم لوگوں کے خون سے گوندھ کر تیار
کیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایسے خوں آمیز حالات میں توانائی اور لذت
دہن حاصل ہوتی رہتی ہے، بیان برائے بیان اور مذمت برائے مذمت کا کھیل جاری
ہے اور امن ہے کہ قائم ہوتا نظر نہیں آ رہا، یوں روزانہ کئی کئی افراد لقمۂ
اجل بن رہے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ سالوں سے یہ خونی کھیل جاری ہے اور
ہماری طاقتیں اس پر اب تک کسی طرح کی بندش یا روک لگانے میں آج تک ناکام و
نا مراد ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ یہ طاقتیں شہر بھر میں موجود ہونے
کے باوجود امن ناپید ہے۔ اور خونی کھیل کھیلنے والے جب چاہتے ہیں جہاں
چاہتے ہیں خونی ماحول گرم کر دیتے ہیں اور حکمراں تماشائی بنی رہتی ہے۔
آج پورا شہر بلکہ پورا ملک مشرق سے مغرب تک خونی کھیل کا اکھاڑہ بنتی نظر آ
رہی ہے۔ فسطائیت کے پہلوان ملک کے کسی بھی خطے میں من مانی کرتے پھرتے ہیں
اور جب چاہتے ہیں ہلّہ بول دیتے ہیں، ان کی حیوانی ہیئت دیکھتے ہی لوگوں کے
دل کانپنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کے علاقے آگ و خون کی نذر
ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی ہماری حکومت ہے ، کیسے سیاستداں ہیں
اور کیسے ارباب ہیں جو عرصہ سے چل رہے اس خونی کھیل پر کنٹرول کرنے سے قاصر
ہیں۔یہی نہیں بلکہ جس طرح کے حالات پیدا ہو چکے ہیں اور بھی بہت سے سوالات
لوگوں کے ذہنوں میں اُبھرنے لگے ہیں، بالخصوص شہریوں میں اپنے حال و مستقبل
کے تئیں مایوسیوں اور محرومیوں کے گھٹا ٹوپ ایسے اندھیرے پھیلنے لگے ہیں جو
صرف شہریوں کے لیئے ہی نہیں بلکہ قوم و ملک سبھی کے لیئے ناقابلِ تلافی
نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ دھماکوں اور نشانہ وار قتل کے تعلق سے جس طرح کی
خبریں آئے دن میڈیا اور اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں انہیں پڑھ کر دل
دہلنے لگتا ہے۔ روح کانپنے لگتی ہے، آنکھیں بھر آتی ہیں، ہاتھ بے سکت اور
بے جان ہو جاتے ہیں، قلم منجمد ہو جاتا ہے ہ صیبت زدگان کی مصیبتوں پر
غیروں سے کہیں زیادہ اپنے سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے،
زبان اﷲ سے دعا کرنے لگتی ہے کہ اے اﷲ ان بھیڑیا صفت افراد سے اپنے محبوب
اور آخری رسول ﷺ کی اُمت کو بچا لے، اے اﷲ تو رحیم و کریم ہے اس اُمت پر
رحم و کرم فرما، اے اﷲ ان علماء سے بھی اس ملت کو بچا جو ہر روز ان کی
روحوں کا سودا کرتے ہیں۔ اے اﷲ ان منافقوں سے بھی بچا جو ملکی و غیر ملکی
کرتا دھرتاؤں سے ساز باز کیئے ہوئے ہیں اور ہر روز لوگوں کے خلاف نت نئی
سازشیں کرتے رہتے ہیں، اے اﷲ اس قوم یہود جو اسلام اور پاکستان کے غیور
باسیوں کی ازلی دشمن ہے اس کے سائے سے بھی بچا، اے اﷲ اس قوم کو اپنے اور
غیروں میں تمیز کرنے اور اپنے دین پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا
فرما۔ ذرا غور کیجئے! یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو لوگ ایک معمولی جھگڑے کو
بھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں وہ اس غیور قوم سے کہتی ہے کہ سب کچھ بھول
جاؤ، جن لوگوں کے ماں باپ، بھائی بہن ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چھین لیئے گئے ،
اب ان سے اس طرح کا بہیمانہ مذاق کیا جا رہا ہے، یہ ایسا شیطانی طرزِ عمل
ہے کہ جس کی توقع صرف یہودیوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ یا پھر اُن کے ایجنٹوں
سے۔ کوئی بھی با شعور اور باضمیر و مہذب شخص اس قوم اور ان پر گزرتے حالات
کے حوالے سے اس طرح کی بات نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی کہہ سکتا ہے۔ جو لوگ
سیاسی منظر اور پس منظر میں اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں یا کر رہے
ہیں وہ کسی بھی طرح ملک سے وفادار نہیں ہو سکتے۔ایسے لوگوں کو یہ بات یاد
رکھنی چاہیئے کہ ان کی حیثیت دشمن کے نزدیک اس ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں جس
سے ہاتھ منھ صاف کر کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
صرف یہی نہیں ہمارے ملک میں تو اور بھی ڈھیر سارے مسائل ہیں مگر تاحال کوئی
بھی حل کی طرف جاتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ نئی حکومت آنے سے پہلے معاشی
فلسفہ کی وضاحت کا بڑا چرچا تھا لیکن حکومت بن گئی ، مگر پھر بھی بے
روزگاری دور کرنے، بھوکوں کا پیٹ بھرنے، مہنگائی سے نجات حاصل کرنے اور
کرپشن پر وار کرنے کے بنیادی مسائل کا عملاً کوئی تدبیر نہیں کیا گیا۔ ابھی
گرمیوں کا آنا باقی ہے ، مگر جب سردی اپنے جوبن پر موجود ہے تب بھی لوڈ
شیڈنگ کئی کئی روزانہ کی بنیاد پر جاری و ساری ہے۔ پانی کی شدید قلت کا آئے
دن ٹی وی اور اخبارات میں ذکر چلتا ہے کہ آنے والے سالوں میں پانی کی قلت
ہوگی مگر افسوس کہ اس کے حل کے لیئے کوئی نیا ڈیم نہیں بن رہا، شاید اس پر
بھی کام جبھی ہوگا جب یہ قلت کا طوفان سر پر آن پہنچے گا۔ بلدیاتی اداروں
کے نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی شاہراہیں اور گلیاں گٹروں کے گندے پانی سے تہہ
و بالا ہو رہی ہیں، مگر بلدیاتی الیکشن ہے کہ ہو کر ہی نہیں دے رہے۔ ماہرین
معاشیات اور منڈی کے ماہرین یہ بتائیں کہ مہنگائی کو دور کرنے کے لیئے کیا
اقدامات کیئے جا رہے ہیں۔ آج مرغی کا گوشت 330روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، ان
تمام صورتحال کی وجہ سے لوگوں کی ذہنیت کا حال بُرا ہے، لوگ ذہنی تناؤ سے
زندگی کی کشمکس کا شکار ہیں ، ظاہر ہے انہیں بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے مگر
وہ اس سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں ۔ بیچارے ملک کے عوام تو بھولے بھالے ہیں
لیکن ایسے بھی نہیں کہ وہ الفاظ اور ریٹوں (نرخوں)کی بازیگری کو نہ سمجھ
سکیں۔
ملک بھر میں تخریبی سرگرمیوں میں جو بھی مماثلت ہے وہ ہم سب کی آنکھیں کھول
دینے کے لیئے کافی ہے۔ مگر افسوس کہ نہ مسلم ملکوں کے حکمراں ہی اس بات کو
سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے حکمراں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہمارے
سربراہوں سے تو اﷲ نے فہم و فراست چھین ہی لی ہے اس لیئے ان کے بارے میں
مچھ کہنا ہی بے سود ہے۔مگر اُمید پر دنیا قائم ہے اور اسی اُمید کے سہارے
یہ عوام آس لگائے بیٹھی ہے کہ کبھی تو امن و امان بھی اس ملک کا مقدر بنے
گا۔ کبھی تو یہاں کے غیور عوام بھی سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو سکیں گے۔
اﷲ رب العزت سب کو ہدایت کی روشنی سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔ |