ابا جان ٹھیک ہی تو کہتے تھے

میں نے پورا فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کباڑکو ٹھکانے لگا کر ہی دم لوں گا۔بھلا آج کے سائنسی دور میں اس پرانی اور زنگ آلود چیز کو سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہی کیاتھی۔ کئی سالوں سے میں اسے ایسے ہی ایک کونے میں پڑا ہوا دیکھ رہا تھا۔مجھے نہیں یاد کہ اس کو کبھی استعمال بھی کیا گیا ہو۔ البتہ ابا جان اسے کبھی کبھار جھاڑ پونچھ کر صاف ضرور کر دیا کرتے تھے۔ میرے پوچھنے پر وہ اتنا کہتے کہ ایسی چیزیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ میں ابا جان کی اس بات پر ہنس پڑتا اور اُنہیں یہ یاد دلاتا کہ آپ جس دور میں سانس لے رہے ہیں وہ ایک ترقی یافتہ اور جدید دور ہے۔ہم پتھروں، غاروں اور جنگلوں کی زندگی سے کب کے نکل چکے ہیں۔ اب ہم ایک مہذب اور جمہوری ملک کے باسی ہیں۔ جہاں ہمیں بہت ساری سہولتیں میسر ہیں۔زیادہ نہ سہی لیکن پھر بھی ہم بڑی حد تک ترقی کر چکے ہیں۔ ہم نے ہواؤں میں اُڑنا سیکھ لیا ہے۔ سمندروں کے سینے چاک کرنے کا ہنر جان چکے ہیں۔ زمین پر سڑکوں کے جال بچھا دیئے ہیں۔ پہاڑوں کو چیر کر نئے راستے بنا ئے ہیں۔ صحت، تعلیم، آمدورفت اور انصاف کے مسائل پر قابو پا چکے ہیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ پوری دنیا ہمیں جان چکی ہے۔اور یہ پوری دنیا ہمارے کمپیوٹروں میں بند ہو کر رہ گئی۔

ابا جان میری باتیں بڑے غور سے سنتے اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر دھیمے سے لہجے میں کہتے۔ ''کب تک خود کو دھوکہ دیتے روہو گے۔ ہم جنگلوں اور غاروں سے تو نکل آئے ہیں لیکن شہروں کو جنگلوں سے بھی بد تر بنا دیا ہے۔ ہم نے مہذب قوموں کے نام ہی سنے ہیں اور جمہوریت کے صرف خواب ہی دیکھے ہیں۔ ہم نے ہواؤں میں اُڑنا تو سیکھ لیا ہے لیکن ہمارے پر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ہم نے سمندروں کے سینے تو چاک کر دیے ہیں لیکن خود زخموں سے چور ہو چکے ہیں۔زمین پر سڑکوں کے جال بچھانے کا کیا فائدہ جب اُن پر رواں دواں نظر آنے والی گاڑیوں کے لیے ایندھن ہی پہنچ سے باہر ہو جائے۔ پہاڑوں کو ہم نے چیرا ضرور ہے لیکن اُن کے اندر چھپے ہوئے خزانوں تک نہیں پہنچ پائے۔جس صحت ، تعلیم اور انصاف کی تم بات کر رہے ہووہ ایک خاص طبقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ غریب کی پہنچ سے یہ سب چیزیں دور ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ اور یہ جو تم نے ایٹمی طاقت کی بات کی ہے ۔۔۔ میرا تو سر شرم سے جھک جاتا ہے جب ہم دوسرے ملکوں کے دباؤ کو بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ہیں۔اگر شیر کتوں سے ڈر جائے تو اُسے شیر نہیں کہتے"۔

ابا جان کی یہ بات میرے دل کو لگی اور مجھے وہ وقت یاد آیا جب ہم نے بڑھ چڑھ کر شیر کی حمایت کی تھی ۔ جو بھی ہمارے شیر کے خلاف کوئی بات کرتا تو ہم اُس سے جھگڑ پڑتے تھے اور اُسے قائل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے تھے۔ہماری یہ کوشش اکثر کامیاب بھی ہو جاتی تھی۔کامیابی کا راز یہ تھا کہ ہم نے شیر کے علاواہ تمام انتخابی نشان رکھنے والی پارٹیوں کو یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندؤں کا ایجینٹ قرار دے دیا تھا۔تبھی تو اسلامی نظریات رکھنے والے لوگوں نے آنکھیں بند کر کے شیر پر ٹھپے لگائے جو بعد میں کافی تعداد میں جعلی بھی ثابت ہوئے تھے۔لیکن اس کے باوجود ہم نے انتخابی نتائج کو سر خم تسلیم کیا ۔ یہ سوچ کر کہ شیر آخر شیر ہوتا ہے ۔ جنگل میں ہو، چڑیا گھر میں ہو یا کسی سرکس میں ۔لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ تو کاغذی شیر ہے۔جو پہلی ہی بارش میں بھیگ کر اپنا وجود کھو دے گا۔

دنیا آگے کو جا رہی ہے اور ہم پیچھے کو۔جو بھی حکومت تشریف لاتی ہے اُس کا کوئی نہ کوئی الگ ہی ریکارڈ ہوتا ہے۔کسی کا ظلم میں، کسی کا کرپشن میں تو کسی کا مہنگائی میں۔مہنگائی کی بات کریں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے یا آمدنی گھٹ رہی ہے۔تنخواہ دار طبقہ اپنی تنخواہ کے کم ہونے کا رونا روتا ہے تو کاروباری لوگ اپنے کاروبار کی تباہی پر پریشان ۔ظاہر ہے جب کاروبار ہی ترقی نہیں کریں گے تو ملازمین کی تنخواہیں کیسے بڑھیں گی۔کاروبار کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ بے تحاشہ لوڈ شیڈنگ ہے۔ماشااﷲ صرف چار گھنٹے جاتی ہے اور الحمداﷲ پورا ایک گھنٹہ آتی ہے۔۔میں بجلی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں لوڈ شیڈنگ کے دوران تو مینار پاکستان کے سائے تلے ٹینٹ بھی سجا کرتے تھے ۔۔ میں شہباز شریف کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ہم اقتدار میں آکر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔ ۔ میں نواز شریف کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔۔لوڈشیڈنگ پر اتنی جلدی قابو پانا ہمارے بس کی بات نہیں ۔۔ میں خواجہ سرا کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے میں ناکامی پر کسی نے اپنا نام بدلنے کی بات بھی کی تھی۔۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔

باتوں باتوں میں ایک گھنٹہ گذر چکا تھا اور یوپی ایس اپنی موت سے چند لمحے پہلے والی چیخیں مار کر خاموش ہو چکا تھا ۔ کمرے میں مکمل اندھیرا اور خاموشی چھا ئی ہوئی تھی۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو تھی ہی گیس بھی سردی بڑھ جانے کی وجہ سے آنا بند ہو چکی تھی۔جنریٹر تو غریب آدمی کے بس کی بات ہی نہیں۔ میں اندھیرے میں اپنے اور اس ملک کے تاریک مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد کمرے سے باہر ایک روشنی سی لہراتی ہوئی دکھائی دی جو آہستہ آہستہ میرے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔غور سے دیکھا تو وہ میرے ابا جان تھے جن کے ہاتھ میں وہ جلتی ہوئی روشنی تھی۔وہ اُسے لے کر کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن کے داخل ہوتے ہی پورا کمرہ اُس روشنی سے نہا گیا تھا۔ انہوں نے اُس روشنی کو درمیان میں رکھے ہوئے ٹیبل پر رکھ دیا اور اطمینان سے میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں کبھی اُن کے روشن چہرے کو دیکھ رہا تھا اور کبھی اُس جلتی ہوئی لالٹین کو جسے انہوں نے کئی سالوں سے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.