ملک کے عوام ان دنوں مہنگائی سے
شدید پریشان ہیں، ساتھ ہی بدعنوانی ، کرپشن اور لوڈ شیڈنگ سے بھی نالاں
ہیں۔ جب بد عنوانی ، کرپشن ، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے مظالم بڑھ جاتے
ہیں تو انقلاب آہی جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ فرانس کی ملکہ نے بہت
معصومیت میں جو جملہ کہہ دیا تھا وہ ، فرانس کے انقلاب کی وجہ بن گیا تھا،
یعنی کہ: ’’ڈبل روٹی نہیں ہے، تو عوام کیک پیسٹری کیوں نہیں کھا
لیتے؟‘‘بہرحال ان کا ملک تو ترقی کر گیا مگر ہمارے یہاں آج بھی ملک کا امیر
طبقہ تو ترقی کر رہا ہے مگر ملک کے غریب عوام روٹی کو ترس رہے ہیں، اس کی
بڑی مثال تو یہ ہے کہ جب نوجوانوں میں لیپ ٹیپ تقسیم کیئے گئے تو ان میں سے
کئی ایک تو اسے فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے، (یہ خبر بھی میڈیا کے ذریعے ہی
آشکار ہوئی تھی) اس کی بڑی وجہ بھی یہ کم بخت مہنگائی ہی ہے۔ اور ظاہر ہے
کہ لیپ ٹاپ بیچنے کی وجہ بھی اناج ہی ہو سکتا ہے ، کیونکہ پیٹ کے بھرنے کے
لیئے بھی اناج کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ملک کے عوام روٹی کے بارے میں سوچتے
ہوں، وہ لیپ ٹاپ سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ لیپ ٹاپ دینا یقینا حکومت
کا ایک بہت ہی اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ غریبوں کے لیئے روٹی اور
روزی کے لیئے بھی سوچنا چاہیئے، سب کچھ ہو رہا ہے یہاں، مگر نوکری دستیاب
نہیں، روزگار کے لالے پڑے ہیں، لوڈ شیڈنگ سردیوں میں بھی عروج پر ہے،
مہنگائی اپنے جوبن پر بُرا جمان ہے، امن و امان ناپید ہے، پھر بھی بے حسی
کا یہ عالم ہے کہ ہمارے یہاں انقلاب نہیں آتا۔ زلزلہ، سیلاب اور سوکھا تو
قدرتی آفتیں ہیں مگر ملک میں ہونے والے فسادات سے بھی عوام کچھ کم پریشان
نہیں ہیں۔ ویسے بھی کسی بھی وقت ایمرجنسی کی حالت سے نمٹنے کے لیئے کوئی
انتظام نہیں ۔ چند مہینوں پیچھے چلے جائیں تو آپ کو ایک واقعہ یاد ہوگا کہ
ایک نوجوان نوکری کے لیئے انٹرویو دینے گیا اور بلڈنگ میں آگ لگنے کی وجہ
سے وہ اپنے بچاؤ کے لیئے اوپری منزل پر چڑھ گیا ، چیخ چیخ کر اس نے مدد
مانگی مگر اسے بچانے کوئی نہیں آیا،اور آگ نے وہاں بھی اسے بچنے نہ دیا اور
بالآخر وہ بے چارہ بلڈنگ سے نیچے گر کر اپنی جان ، جانِ آفریں کے سپرد کر
گیا۔ یعنی اُسے نوکری تو نہیں ملی مگر موت ضرور مل گئی۔
ہمارا تو خاصہ صرف یہ رہا ہے کہ ایک حکومت ختم ہوتی ہے تو دوسری آنے والی
نئی حکومت پچھلی حکومت کے کیئے گئے کاموں پر یا پھر ان کے لوگوں پر الزامات
کی بوچھاڑ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں ، اور یہی سلسلہ پورے پانچ سال تک
چلتا رہتا ہے پھر دوسروں کی باری آ تی ہے، گویا تمام سالوں میں عوام کے
لیئے کچھ کیا گیا ہو یا نہیں ایک دوسرے کے کاموں اور ایک دوسرے کے لوگوں کے
لیئے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس ملک کی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں انہیں
سلاخوں کے پیچھے ڈال کر موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہ کسی ایک پر
الزام نہیں بلکہ اکثر لیڈر یہی کچھ کر رہا ہے۔ یعنی کہ’’ جس کی لاٹھی اُس
کی بھینس‘‘ایسے میں ملک بھلا کیا خاک ترقی کرے گا جب ہم آپس میں ہی دست و
گریباں ہوں ۔ اور دنیا کو اپنے حال پر ہنسنے کا موقع بھی فراہم کریں ، ہم
سب کا مدتوں سے یہی شیوہ رہا ہے ، آج دیکھیئے ہم سب کہاں کھڑے ہیں۔ وہ کہتے
ہیں نا کہ اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم نے
کیا کھویا اور کیا پایا۔
یہ سوچ بھی عوام میں پروان چڑھ رہا ہے کہ جیسے ہمیشہ سے انگریزوں کا اصول
رہا تھا’’ لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ جسے ہمارے سیاستدانوں نے اپنے سینے سے لگا
لیا۔ چنانچہ اپنے پیشرؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوم و ملک کو لڑاؤ اور
حکومت کرو کی حکمت عملی پر عمل پیرا لگتے ہیں۔ان اصولوں کا مظاہرہ تو آئے
دن ہوتا رہتا ہے لیکن خصوصی طور پر کسی Eventsکے موقع پر جو منظر سامنے آتا
ہے وہ یقینا ہر خاص و عام کے لیئے دیدۂ عبرت ہوتا ہے۔ فساد ہی فساد برپا
نظر آتا ہے۔ کہیں کچھ ہو گیا تو اس کے خلاف یا حمایت میں پورے ملک میں
احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر فساد کے علاوہ نیا
فساد جنم لے لیتا ہے اور اس میں بھی ہلاکتیں منظرِ عام پر ہوتی ہیں۔ان
کاموں کو کرنے میں یہ لوگ اتنے ماہر ہوتے ہی کہ اچھے سے اچھا تجزیہ کار بھی
ان کے پکائے ہوئے پلاؤ کی نذر ہوکر رہ جاتا ہے۔ آج بھی سانحہ مستونگ کے
ورثا اپنے اپنے لواحقین کی میتوں سمیت کوئٹہ میں اور ان کی حمایت میں ملک
کے ہر بڑے شہروں میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ ایک سال دس دن پہلے بھی اسی طرح
کا سانحہ رونما ہوا تھا اور اسی طرح دلاسے اور وعدے وعید بھی کیئے گئے تھے
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اور زندگی پھر سے رواں
دواں تھی کہ ایک نیا سانحہ مستونگ رونما ہو گیا۔ آج پھر وعدے کیئے جا رہے
ہیں، اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ اس موقعے پر بجائے کچھ لکھنے کے راقم اس شعر
پر اکتفا کرنے کا خواہاں ہے:
ہم مسلمان اس زمانے میں
سب سے پیچھے ہیں ایکتا میں
قوم کا اپنی ایسا عالم ہے
جیسے طوطی نقار خانے میں
پاکستان اس وقت انتہائی پُر آشوب حالات سے گزر رہا ہے یہاں سیاسی رنگ ایسا
بدل گیا ہے کہ کسی کو کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ انسان کی قدر و قیمت ختم ہو
چکی ہے، جو رات دن گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ ایسے تمام حالات کو
خراب کرنے والے وہ گروپ ہیں جو طبقاتی سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ ملک
میں جو بھی افرا تفری کا رنگ نظر آ رہا ہے وہ سب ملک میں کوئی نہ کوئی
انجام دے رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکومت ملک کے عوام کو دکھ دینے کے لیئے نہیں
ہوتی ہے ، حکومت اپنی جد و جہد سے ملک کو اس راہ پر لاتی ہے جس سے ہر شخص
فیضیاب ہو سکے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان ایسا طرزِ عمل نظر آنا
چاہیئے جس سے عوام کو یہ معلوم ہو سکے کہ ہم بھی ملک و قوم کا ایک حصہ ہیں۔
آج وقت ہے کہ حکمران اور تمام جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جائیں، ایک ہو
جائیں ، اور جو بھی فیصلہ کیا جائے مل کر کیا جائے تاکہ ملک کو امن و امان
نصیب ہو۔ شہری آزادانہ طریقے سے ایک شہر سے دوسرے شہروں میں نقل و حرکت
کرسکیں۔ حالات کو لیکر بجائے دردِ سر پالنے سے بہتر ہے کہ اس پر متفقہ
فیصلہ کرکے عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔
ہر شخص یہ بھی جانتا ہے کہ وہ خواہ گھر میں رہے یا گھر سے باہر محفوظ نہیں
ہے، پچھلے چند سالوں سے جاری دہشت گردی سے لوگ تو کُجا اب تو سپاہی بھی
مارے جا رہے ہیں۔ مگر ایکشن ہے کہ دیکھنے میں ہی نہیں آ رہا ، پتہ نہیں کب
ارباب کی آنکھ کھلے گی۔ چاہے قدرتی آفات ہوں یا پھر کوئی دہشت گردی یا پھر
ٹارگٹ کلنگ، ہر روز ہمارے یہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے ، مگر قوم کے ساتھ
ساتھ ہمارے ارباب بھی اتنے بے حس ہیں کہ کچھ دنوں بعد سب کچھ بھول جاتے
ہیں، اور پھر لوگ معمول پر آجاتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام
کی پہلی ضرورت روٹی ہے، جب تک یہ روٹی میں الجھے رہیں گے، انہیں دوسری
ضرورتوں کا احساس نہیں ہوگا اور نہ ہی انقلاب کی دستک سنائی دے گی۔ |