مئی 2013ء میں عام انتخابات ہوئے اس سے
پہلے پیپلز پارٹی اور خصوصاًصدر پاکستان آصف علی زرداری نے یہ اعزاز اپنے
نام کیا کہ وہ پہلے پاکستانی صدر ہیں جنہوں نے اپنا دور حکومت پورا کیا اور
اعزاز کے ساتھ ایوان ہائے حکومت سے رخصت ہوئے ۔ اس وقت تک آصف علی زرداری
کو پاکستان کے عوامی حلقوں میں انتہائی زیرک سیاستدان تصور کیا جا رہا تھا
کہ اس ملک میں پانچ سال تک اتحادیوں کو ساتھ بٹھا کر حکومت کرنا آصف علی
زرداری کا ہی کام ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نےحکومتی اتحادیوں کے ساتھ مل کر
سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کی دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں کو آگے
بڑھایا ، طالبان کے خلاف مختلف علاقوں میں سخت فوجی آپریشن کیے گئے جس کی
وجہ سے بہت سارے طالبان رہنما ہلاک ہوئے اور بہت سارے گرفتار بھی ہوئے جو
بعد میں انہی کی حکومت میں جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور جو
بچے تھے وہ بعد کی حکومت میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے باآسانی فرار ہو
جانے میں کامیاب ہوئے۔دہشت گردی کے خلاف مختلف علاقوں میں آپریشن بھی چلتا
رہا اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں
کامیاب ہوتے رہے ،پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی دہشت گردوں نے ایسی
سنگین کاروائیاں کیں جو آج تک سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
ہیں ۔
عام انتخابات کا اعلان ہوا ، ہر پارٹی نے ملک میں انقلاب لانے کا نعرہ بلند
کیا ، کئی ایک انقلابی باہر سے بھی بھرپور تیاری کے ساتھ تشریف لائے اور
ایسا لگتا تھا کہ ہر پارٹی کے پاس ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کا چھو
منتر فارمولاہے بس دیر ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کی میاں نواز
شریف ہوں یا عمران خان دونوں نے عوام سے بہت سے وعدے کئے لیکن اقتدار میں
آنے کے بعد پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں پاکستان میں امن کے قیام میں ناکام
رہیں اور اس ناکامی کی وجہ ان دونوں پارٹیوں کے رہنماوں کا طالبا ن سے نرم
گوشہ تھا میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان دونوں طالبان کی غیر انسانی
کاروایئوں پر ہمیشہ ان درندوں سے مذاکرات کا راگ الاپتے رہے جس پر طالبان
کو مزید شہہ ملی اور انہوں نے اپنی وحشیانہ کاروایئوں میں مزید اضافہ کر
دیا۔
دونوں پارٹیوں نے ملک کی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو پورے ملک میں دہشت
گردی کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا، طالبان کو اس بات کا یقین تھا کہ نواز حکومت
ان کے خلاف سخت ایکشن نہیں لے گی بلکہ نواز حکومت صرف مذاکرات کی بات کر کے
اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گی۔
زرداری توزرداری میاں نواز شریف دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں جناب زرداری
سے کئی ہاتھ آگے نکل گئے ، میاںصاحب ایوان اقتدار میں آئے اور پے در پے
کئی ممالک کا سفر کیا ،آئے روز کسی نہ کسی ملک کے دورے پر رہے۔وہ جب بھی
کسی ملک کے دورے سے واپس آتے تو چند لوگ ان سے فوراً رابطہ کرتے اور کہتے
کہ جناب میرا طالبان سے رابطہ ہو گیا ہے ، انہوں نے میرے جرگے پر اعتماد کا
اظہار کیا ہے ، میں نے تقریباً تمام پیپر ورک کر لیا ہے ،آپ اجازت دیں
توکام شروع کریں، نواز شریف نے ان صاحب کی بات کو غور سے سنا اور چل دئیے
اگلے ملک کے دورے پر،پھر جب واپس آئے تو ایک اور صاحب قریب ہوئے اور کہا
میاں صاحب آپ تو جانتے ہیں طالبان کے ساتھ میرے جو تعلقات ہیں ، آپ کیوں
خواہ مخواہ کسی کو درمیان میں لارہے ہیں میں ہوں ناں۔
پورے ملک میں مذاکرات کا ڈھندوڑا پیٹا جاتا رہا ، حکومتی وزیر گاہے بگاہے
امن کا راگ الاپتے رہے اور اسی دوران طالبان بھی سنگین سے سنگین حملے کرتے
رہے ۔پھر ایک اور صاحب نواز شریف کے قریب ہوئے اور انہوں نے بھی طالبان سے
اپنے تعلقات کا بتایا کہ جناب میں ہی ہوں وہ جوافغانستان کی جیلوں سے انہیں
چھڑا کر لاتا رہا ہوں ۔
میاں نواز شریف کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ تین ہی ہیں جو طالبان سے
مذاکرات کے حوالے سے کچھ کر سکتے ہیں، لہٰذا انہوں نے اپنے غیر ملکی دوروں
کو مؤخر کیا اور آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں طے پایا کہ امن کو ایک
چانس دیاچاہیےاور طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دینی جائے۔وزیر
داخلہ میڈیا کے سامنے آئے اور بتایا کہ تین رکنی وفد جلد ہی طالبان سے
مذاکرات کیلئے روانہ ہونے والاہے، وہ یہ بات کہہ کر خاموش ہو ئے تو بس اب
یہ سسپنس شروع ہوا کہ وہ تین کون ہیں ؟یہاں پر پھر ان تینوں سے تاریخی غلطی
سرزد ہوئی اور ان سے صبر نہ ہو سکا ، خود ہی میڈیا پر آئے اور کہنے لگے کہ
آپ ہمیں بتائیں یا نہ بتائیں ان تین میں سے ایک میں ہوں، ایک میں ہوں، ایک
میں ہوں۔
یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ دہشت گردی میں جب بھی کوئی ہاتھ استعمال ہوئے وہ
ہمارے اپنے تھے ، وہ لوگ جو خود کش حملے کرتے تھے ، وہ ہمارے درمیان ہی
رہتے ہیں، ہمارے درمیان سے ہی نکلتے ہیں ، ہمیں مارتے ہیں اور پھر امن کا
ڈھندورا بھی پیٹتے ہیں۔میاں صاحب آپ کی فہم و فراست کو سلام آپ نے ان
تینوں کو سامنے لاکھڑا کیا ،ان تین میں سے ایک کا ذکر کر دیتا ہوں۔
سال 2014ء شروع ہوا۔ان تین میں سے ایک صاحب نے اپنے روحانی بچوں سے بات چیت
کا سلسلہ شروع کیا ،ظاہر ہے وہ بچے تھے اتنی جلدی تھوڑی مان جاتے، وہ صاحب
بچوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ، سال 2014ء شروع ہوا،وہ بچوں کوبہت پیار
سے سمجھاتے رہے ، شرارتی بچے کانوں سے اپنے روحانی باپ کی باتوں کو سنتے
رہے اور ساتھ ساتھ اپنے اہداف کو بخوبی نشانہ بناتے رہے ، پے درپے سنگین سے
سنگین حملے کرتے رہے، حکومت خاموش دیکھتی رہی کہ وہ صاحب اپنے بچوں سے بات
کر رہے ہیں تو اب ہمیں ہی صبر کرنا چاہیے۔شرارتی بچے بابا جی کو بھی جی جی
کرتے رہے اور ملکی سلامتی سے بھی کھیلتے رہے ۔ غرض یہ کہ 2014ء کا کیلنڈر
21 کے عدد کو پہنچا اور ان روحانی بیٹوں کے سنگین حملوں کی تعداد 27 ہو گئی
۔ اس بارروحانی بیٹوں نے جو سب سے بڑا حملہ کیا وہ پاک فوج پر تھا جس میں
پاک فوج کے تقریباً 25 جوان شہید جبکہ 40 کے قریب شدید زخمی ہئے۔
اب کیونکہ بات ملکی دفاع کی ذمہ دار پاک فوج پر حملےکی تھی تو انہوں نے پلٹ
کر ان شرارتی بچوں پر ایسا وار کیا کہ بس وہ بابا جی جو اپنے روحانی بیٹوں
سے مذاکرات کرر ہے تھے شور مچا دیا کہ میاں نواز شریف یہ دیکھو تم نے کیا
کر دیا میں تمہارے کہنے پر بچوں سے بات کر رہا تھا اور تم نے میرے بیٹوں پر
حملہ کروادیا، بس تم مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔
طالبان کو اپنے بچے اور اپنے فرمانبردا ر سمھنے والے یہ تینوں طالبانی بابے
اپنے سیاسی مفادات اور ایک دوسرے پر برتری کے دنگل سے باہر نکل آیئں تو
طالبان میں موجود سنجیدہ لوگوں کو مذاکرت کی میز پر لا انہیں بے گناہوں کے
خون سے ہاتھ رنگنے سے باز رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ تینوں طالبانی بابے اس
حقیقت کو جانتے ہیں کہ طالبان ظالمان بن چکے ہیں ان کے منہ کو خون لگ چکا
ہے اور یہ لوگ صرف درندگی کی زبان جانتے ہیں ان کو مذاکرت کی میز پر لانا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لیے یہ تینوں بابے اپنے مفادات کے لیے
طالبان سے اپنے قریبی تعلق کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک طرف حکومت سے اپنے مفادات
حاصل کرتے ہیں تو دوسری طرف طالبان سے اپنی ہمدردی ظاہر کر کے ان کو درندگی
کا حوصلہ دیتے ہیں۔ |