لی کو آن یو جدید سنگا پور کے بانی وزیر
اعظم اور بیسویں صدی کے عظیم لیڈر ہیں‘ انھوں نے جون 1959ء میں سنگا پور کی
عنان اقتدار سنبھالی‘ سنگا پور اس وقت محض ایک بدبودار جزیرہ تھا مگر یہ لی
کو آن یو کی شبانہ روز محنت سے دنیا کے جدید ترین ممالک میں شمار ہونے لگا‘
یہ پاکستان سے خصوصی محبت رکھتے ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پاکستان
تشریف لاتے رہتے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین سید
ان کے فین ہیں‘ یہ 1998ء میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر تھے‘ یہ میاں
نواز شریف اور لی کو آن یو کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنے‘ میاں نواز شریف
نے سنگا پور کا دورہ کیا‘ اس وقت لی کو آن یو کابینہ میں سینئر وزیر کی
حیثیت سے کام کر رہے تھے‘ لی کوآن یو نے1999ء میں پاکستان کا دورہ بھی کیا‘
کراچی پورٹ پر انھیں استقبالیہ دیا گیا‘ ان دنوں سنگا پور ائیر پورٹ کو
دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈے کا اس دیا گیا تھا جب کہ سنگا پور پورٹ دنیا
کی چند بڑی بندر گاہوں میں شمار ہوتی تھی‘ استقبالیہ کے دوران ایک وفاقی
وزیر نے مہمان سے پوچھا ’’ جناب ہم کراچی پورٹ کو سنگا پور پورٹ کی طرح
کیسے ڈیویلپ کر سکتے ہیں‘‘ یہ سوال سن کر لی کو آن یو نے ایک طویل قہقہہ
لگایا‘ وہ بڑی دیر تک ہنستے رہے‘ یہ قہقہہ پروٹوکول اور آداب مہمانی دونوں
کے خلاف تھا لیکن مہمان قہقہے لگاتا رہا اور میزبان ادب کی وجہ سے خاموش
بیٹھے رہے‘ لی کوآن یو نے طویل قہقہے کے بعد ٹشو سے آنکھیں صاف کیں اور پھر
ایک حیران کن انکشاف کیا‘ انھوں نے بتایا ’’ہمیں سنگا پور پورٹ پاکستانی
نیوی کے ایک سابق افسر ایڈمرل سعید نے ڈیویلپ کر کے دی تھی‘ ہم ان کی
صلاحیتوں کی وجہ سے تمام پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں لیکن آج جب آپ نے
مجھ سے کراچی پورٹ کو سنگاپور پورٹ بنانے کا نسخہ پوچھا تو میں اپنی ہنسی
ضبط نہ کر سکا کیونکہ میں سمجھتا ہوں‘ یہ سوال مجھے آپ لوگوں سے پوچھنا
چاہیے تھا‘‘۔ لی کو آن یو کے جواب نے سننے والوں پر گھڑوں پانی ڈال دیا۔
یہ واقعہ مجھے جمعہ کے روز صدر پاکستان ممنون حسین نے سنایا‘ صدر صاحب نے
مجھے لنچ کی دعوت دی تھی‘ میرے لیے یہ دعوت حیران کن تھی‘ صدر پاکستان کی
طرف سے ایک عام صحافی کو لنچ کی ’’ون ٹو ون‘‘ دعوت حیران کن ہونی بھی چاہیے
تھی چنانچہ مجھے جب یہ دعوت دی گئی تو میں نے دعوت دینے والے سے دوبار
پوچھا ’’کیا میں اس لنچ پر صدر کے ساتھ اکیلا ہوں گا‘‘ دعوت دینے والے نے
پورے یقین سے جواب دیا ’’جی ہاں‘ آپ اکیلے ہی ہوں گے‘‘ میں نے اس کی بات
مان لی لیکن مجھے یقین نہ آیا‘ میں بہرحال جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد
ایوان صدر پہنچ گیا‘ ہم کھانے کی میز پر واقعی صرف دو لوگ تھے‘ صدر صاحب
اور میں۔ ممنون حسین ایک منکسرالمزاج‘ متحمل اور صابر انسان ہیں‘ مجھے ان
میں اضطراب یا بے چینی نظر نہیں آئی‘ ان کا لباس انتہائی سادہ اور گفتگو
بناوٹ سے پاک تھی۔
یہ گفتگو کے دوران بتانے لگے ’’میرے والد نے آگرہ میں بڑے چاؤ سے ایک
خوبصورت گھر بنایا تھا‘ یہ گھر مکمل ہوا تو پاکستان بن گیا اور میرے والد
کو خاندان کے ساتھ آگرہ سے ہجرت کرنا پڑ گئی‘ یہ اپنا بنایا ہوا گھر نہیں
چھوڑنا چاہتے تھے مگر گھر چھوڑنا مجبوری تھی‘ میرے والد کا دل ٹوٹ گیا
چنانچہ انھوں نے پھر زندگی میں کبھی کوئی زمین‘ جائیداد اور گھر نہیں
بنایا‘ ہم کراچی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں پروان چڑھے‘ یہ فلیٹ میرے والدین
کا ٹھکانہ بھی تھا اور میں نے بھی بڑے ہو کر اسی فلیٹ کو اپنا گھر بنا لیا
لیکن ہم نے جب اپنے دوسرے بیٹے کی شادی کی تو یہ فلیٹ ہمارے لیے تنگ پڑ
گیا‘ یہ 2003ء کی بات ہے‘ ہم لوگ مجبوراً زمین کے ٹکڑے کی تلاش میں نکلے‘
کراچی ڈیفنس میں ان دنوں پلاٹ نسبتاً سستے تھے‘ ہم نے مل ملا کر ایک کنال
کا پلاٹ خرید لیا‘ مکان بنانے کی باری آئی تو میں نے پلاٹ کو دو حصوں میں
تقسیم کر دیا‘ ایک حصہ بنا لیا‘ دوسرا حصہ خوشحالی کے انتظار میں چھوڑ دیا‘
ڈیفنس اتھارٹی سے کمپلیشن لینے کے لیے گیا تو انھوں نے بتایا‘ آپ پلاٹ کا
کوئی حصہ چھوڑ نہیں سکتے‘ آپ نے اگر آج یہ حصہ نہ بنایا تو آپ کبھی نہیں
بنا سکیں گے‘ میں پریشان ہو گیا کیونکہ میرے پاس رقم نہیں تھی‘ میرے ایک
دوست اس وقت میرے کام آئے‘ انھوں نے مجھے قرض دے دیا‘ میں نے اس قرض سے گھر
کا دوسرا حصہ بنایا‘ پھر یہ قرضہ ادا کرنے کے لیے وہ پورشن فروخت کر دیا۔
صدر صاحب نے بڑی سادگی اور محبت کے ساتھ یہ قصہ سنایا‘ میں بھی دلچسپی کے
ساتھ یہ دلچسپ واقعہ سنتا رہا‘ صدر صاحب نے بتایا ’’ میں نے وہ پورشن 47
لاکھ روپے میں فروخت کیا تھا‘ میرے بیٹے کو بعد ازاں سٹی بینک میں نوکری مل
گئی‘ وہ ترقی کر گیا‘ بینک نے اسے لون کی سہولت دے دی اور ہم نے اپنے گھر
کا وہ پورشن سوا کروڑ روپے میں دوبارہ خرید لیا‘‘۔ صدر صاحب کا کہنا تھا
’’میں اپنے دوستوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتا ہوں‘ آپ میرے گھر جیسا گھر
بنائیں‘ ہمارے ایک پورشن کی بالائی منزل پر تین بیڈ رومز ہیں‘ وہ ہم نے ایک
بیٹے کو دے دیئے ہیں‘ دوسرے پورشن کی بالائی منزل پر بھی تین بیڈ رومز ہیں‘
وہ دوسرے بیٹے کے زیر استعمال ہیں جب کہ نچلی منزل کے ایک پورشن میں تیسرا
بیٹا رہتا ہے اور ایک پورشن ہمارے استعمال میں ہے‘ یوں ہم سب الگ الگ
پورشنز میں اکٹھے رہتے ہیں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ کی فیملی بڑی ہے‘
آپ کو ایک کنال کا گھر چھوٹا محسوس نہیں ہوتا‘‘ صدر صاحب نے مسکرا کر جواب
دیا ’’ میرے والد کو جب آگرہ کا گھر چھوڑنا پڑا تو میری عمر اس وقت قریباً
دس سال تھی‘ میں نے اس وقت یہ حقیقت جان لی‘ انسان کو گھر چھوڑنے پڑ جاتے
ہیں چنانچہ ہمیں کبھی ایسا گھر نہیں بنانا چاہیے جسے چھوڑتے ہوئے تکلیف
ہو‘‘۔
میں نے ان کی توجہ ایوان صدر کے سناٹے کی طرف مبذول کروائی‘ میں نے ان سے
عرض کیا‘ میں اس عمارت میں بے شمار مرتبہ آیا ہوں‘ میں صدر غلام اسحاق خان
کے دور میں بھی یہاں آیا تھا‘ میں نے صدر فاروق احمد لغاری کا ایوان صدر
بھی دیکھا‘ میں صدر رفیق احمد تارڑ کے زمانے میں بھی یہاں آیا‘ میں نے اس
عمارت میں جنرل پرویز مشرف کا کروفر بھی دیکھا اور میں نے یہاں صدر آصف علی
زرداری کی رونقیں بھی دیکھیں‘ میں جب بھی یہاں آیا‘ اس عمارت کا رنگ الگ
تھا‘ صدر رفیق احمد تارڑ کے زمانے میں بھی یہاں سناٹا تھا اور آج کا ایوان
صدر بھی بہت پرسکون دکھائی دے رہا ہے‘ آپ اس سناٹے میں بور نہیں ہو جاتے؟
صدر صاحب نے ہنس کر جواب دیا‘ یہ جمہوری دور ہے‘ اس دور میں صدر کا عہدہ
’’سیریمونیئل‘‘ ہے‘ ہم نے اس ایوان سے سیاست کو رخصت کر دیا ہے‘ میں نے
آئینی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنا وقت تعلیم‘ صحت اور آرٹ اینڈ کلچر پر صرف
کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے کام کروں گا‘
عوام کو صحت کی بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کروں گا اور آرٹسٹس‘ فنکاروں
اور لکھاریوں سے ملاقاتیں کروں گا۔
میں نے ان سے عرض کیا ’’امریکی ایوان صدر (وائیٹ ہاؤس) کی بعض روایات بہت
دلچسپ ہیں‘ امریکی صدر امریکا کی مختلف ریاستوں میں فلاح و بہبود کا کام
کرنے والے لوگوں کو وائیٹ ہاؤس بلاتا ہے اور ان کے ساتھ ڈنر کرتا ہے‘ یہ
روایت بل کلنٹن کے دور میں بھی جاری رہی‘ کلنٹن نے اپنے آٹھ برسوں میں جتنے
چیریٹی ورکرز سے ملاقاتیں کیں‘ اس نے ان پر ایک بہت خوبصورت کتاب لکھی‘ اس
کتاب کا نام ’’گیونگ‘‘ ہے‘ اس کتاب میں امریکا کے چیریٹی ورکرز کی انتہائی
شاندار کہانیاں ہیں‘ ان کہانیوں میں ایک سیاہ فام دھوبن کی کہانی بھی شامل
ہے‘ یہ دھوبن پوری زندگی لوگوں کے کپڑے دھوتی رہی اور اس مزدوری سے حاصل
ہونے والی آمدن خیرات کرتی رہی‘ اس نے پوری زندگی شادی کی‘ گھر بنایا اور
نہ ہی ذاتی استعمال کی کوئی چیز خریدی‘ یہ کپڑے تک دوسروں کے دیئے ہوئے
پہنتی تھی‘ امریکی صدر اس سے ملا تو اس کی وسعت قلبی پر حیران رہ گیا‘ میں
نے صدر صاحب سے عرض کیا‘ آپ بھی ملک کے ایسے سوشل ورکرز سے ملاقاتیں شروع
کر دیں‘ جنہوں نے اپنی زندگیاں لوگوں کے لیے وقف کر دی ہیں‘ آپ ایک نیا
پاکستان دیکھیں گے۔
صدر صاحب نے جواب میں کراچی کے چند بڑے سوشل ورکرز کا ذکر کیا۔ صدر صاحب نے
یہ بتا کر حیران کردیا ’’میں عام لوگوں کو روٹ کی زحمت سے بچانے کے لیے
ایوان صدر سے باہر نہیں نکلتا‘ میں کراچی جاؤں تو میں ائیرپورٹ سے ہیلی
کاپٹر کے ذریعے سفر کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں‘ جب بھی کوئی وی وی آئی
پی گاڑی کے ذریعے سفر کرتا ہے تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے اور ٹریفک کی اس
بندش کی وجہ سے عام لوگوں کو بہت کوفت ہوتی ہے‘‘ میں نے ان سے دہشت گردوں
کے خلاف آپریشن کے بارے میں پوچھا‘ صدر صاحب کا کہنا تھا ’’ حکومت نے
مذاکرات کی کوشش کی‘ اس کوشش کے نتائج برآمد نہیں ہوئے‘ اتمام حجت ہو گیا
چنانچہ اب عام لوگوں کی جان بچانے کے لیے آپریشن ہونا چاہیے‘ یہ آپریشن
ریاست کی ساکھ اور ہماری زندگیوں کے لیے ضروری ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ
افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں‘ کیا فوج اس آپریشن کے لیے تیار
ہے‘‘ صدر صاحب نے فوراً جواب دیا ’’جی ہاں‘ فوج مکمل طور پر تیار ہے‘ یہ‘
بس حکم کا انتظار کر رہی ہے‘ فوج کو جس دن اشارہ ملے گا‘ یہ آپریشن شروع کر
دے گی۔
لنچ ختم ہو گیا‘ صدر کی اگلی مصروفیت شروع ہو گئی‘ یہ گلے ملے اور مجھے لفٹ
تک چھوڑ کر گئے‘ صدر صاحب سادہ بھی ہیں‘ وضع دار بھی اور معصوم بھی۔ یہ
بناوٹ اور تصنع سے بھی پاک ہیں‘ اللہ تعالیٰ انھیں ایوان صدر کی دیواروں
میں رچے بسے تکبر سے محفوظ رکھے۔
جاوید چوہدری اتوار 26 جنوری 2014 |