حضرت خواجہ محمد فضل علی
شاہ قریشی نقشبندی قدس سرہ
تصوف، طریقت، حقیقت، احسان اور وصول الیٰ اﷲ تمام الفاظ اصحابِ تصوف کے ہاں
ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں،
گویا مقاصد میں سب متحد ہیں ،صرف تعبیرات کا فرق ہے۔ بقول شاعر:
عباراتنا شتیٰ و حسنک واحد
اے محبوب! آپ کا حسن تو ایک ہے مگر ہم عاشقوں کی تعبیرات اور اندازِ بیان
جداجدا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہر دور میں مختلف مقامات پر بہت سے نیک بختوں کو روحانی
مقامات پر فائز کرنے اور ان سے خدمت خلق اور رشد و ہدایت کا وسیع کام لینے
کے لئے چنا ہے، اس پہلو سے خطۂ پنجاب بھی بڑا خوش بخت ہے، جہاں ہزاروں
اولیاء اﷲ کی تشریف آوری ہوی اور اُن سے انسانیت فیض یاب ہو کر راہ ہدایت
پر گامزن ہوئی۔
انہی اولیا اﷲ میں سلسلہ عالیہ نقش بندیہ کے عظیم پیشواشیخ المشائخ،عمدۃ
السالکین، قدوۃ العارفین حضرت غریب نواز خواجہ محمد فضل علی قریشی ہاشمی
قدس سرہ بھی شامل ہیں ، جن کا فیضِ نسبت علاقائی سرحدوں کو پار کرتا ہوا،
عرب و عجم کے دور دراز علاقوں تک پھیلا۔
آپ کے آباء واجداد عباسی سلطنت کے وقت عرب سے سندھ میں اور وہاں سے ضلع
میانوالی میں آکر آباد ہوئے، ہاشمی عباسی ہونے کی وجہ سے آپ کا خاندان عوام
میں قریشی کی نسبت سے مشہور تھا، آپ کی ولادت باسعادت میانوالی کے علاقہ
داؤد خیل میں ۱۲۷۰ھ میں ہوئی، آپ کا پورا سلسلہ نسب کتب سوانح میں محفوظ
ہے، ابتدائی تعلیم و تربیت کالا باغ کے علاقے میں حاصل کی اوروہیں رہتے
ہوئے اردو، فارسی اور عربی پر اچھی دسترس حاصل کی، بعد ازاں مولانا
قمرالدین صاحب وغیرہ سے درس کتب لیااور دورۂ حدیث ہندوستان کے نامور محدث
حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری کے ہاں پڑھا،آپ کی پہلی بیعت حضرت سید لعل
شاہ ہمدانی قدس سرہ سے ہوئی ،جومشہور نقشبندی شیخ طریقت خواجہ محمد عثمان
دامانی موسیٰ زئی شریف ،آف ڈیرہ اسماعیل خان کے خلیفہ مجاز تھے، ابھی آپ کا
سلوک انہی کی تربیت میں جاری تھا کہ سید لعل شاہ قدس سرہ کا سایۂ عاطفت سر
سے اُٹھ گیا، بعدازاں آپ نے موسیٰ زئی شریف حاضر ہو کروہاں کے جانشین حضرت
خواجہ سراج الدین علیہ الرحمۃ سے دوسری بیعت فرمائی، انہوں نے آپ کو
ازسرِنو ذکر کی تلقین کی اور تمام سلوک طے کرایا اور پھر دہلی کے سفر میں
خانقاہِ مظہریہ دہلی میں جہاں حضرت مرزا مظہر جانجاں، حضرت شاہ غلام علی
اور حضرت شاہ ابو سعید قدس اﷲ اسرارہم کے مزارات ہیں، اس متبرک مقام پر آپ
کو خلافت کی عظیم ذمہ داری سے سرفراز فرمایا، ابتداء میں پچاس آدمیوں کی
بیعت تک خلافت محدود تھی، جب یہ تعداد پوری ہوگئی تو اجازت عامہ عنایت
فرمائی، اپنے شیخ کی معیت میں ہونے والے اس متبرک سفر سے واپس تشریف لائے
تو لوگ جوق درجوق آپ سے فیض پانے کیلئے رجوع کرنے لگی اور بہت قلیل مدت میں
آپ کا حلقہ ارادت پھیلنے لگا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتیآپ کے مریدین کا حلقہ
وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
آپ پر ابتدائے سلوک میں ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور آپ کا دل حرمین شریفیں
کی زیارت کے لئے بے چین ہو گیا، چنانچہ آپ اور خاندان کے کچھ دیگر افراد
تمام مال و اسباب ساتھ لیکر ہجرت کے ارادہ سے چل پڑے ،مگر درمیان سفر میں
ایسے حادثات پیش آئے کہ آپ کا قیام راستہ میں ہوگیا،تمام تفصیلات کا خلاصہ
یہ ہے کہ علاقہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں سب سے پہلے آپ کا قیام جھلاء مولوی
غوث بخش پر ہوا، اس کے بعد بستی مدوانی میں، پھر فقیر پور میں جو کہ موضع
کوٹلہ رحم علی شاہ کے متصل ہے، پھر مسکین پور شریف میں آخر عمر تک قیام
رہا، حتی کہ وہیں موفون ہوئے۔آپ نے بظاہر تو کاشتکاری یازمینداری کا پیش
اختیار کیا ہوا تھا مگر حقیقت میں یہ کام تزکیہ نفس اور تعلیم سلوک کا
مدرسہ تھا جس میں سالکین کو مسکنت کے ساتھ علوّہمتی اور ریاضت و نفس کشی کی
عملی تربیت دی جاتی تھی، حضرت خود بنفس نفیس کاموں میں شریک رہتے ،لنگر
کیلئے لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر اٹھا کر لاتے، کاشتکاری کیلئے، اپنے ہاتھ
سے ہل چلاتے، آمدنی کا کچھ حصہ بقدر ضرورت اہل وعیال کے لئے نکال کر باقی
سب خانقاہ کے فقراء اوردرویشوں پر خرچ کر دیتے اور اسی نسبت سے’’ غریب
نواز‘‘ کہلائے۔
حضرت خواجہ غریب نوازقدس سرہ نے تین نکاح فرمائے ، پہلی اہلیہ محترمہ سے
تین لڑکے اور آٹھ لڑکیاں پیدا ہوئیں، دوسری اہلیہ سے پانچ بیٹے اور تین
بیٹیاں پیدا ہوئیں، جبکہ تیسری اہلیہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، آپ کو اپنی
اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا بہت اہتمام تھا اور اپنے متلعقین کو بھی ان
کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وصیت فرمایا کرتے تھے۔
آپ کی تمام عمر ارشاد و تلقین، دین اسلام کی ترویج اور سلسلۂ عالیہ نقش
بندیہ کی تبلیغ و اشاعت میں گزری، اخیر عمر میں اگرچہ بڑھاپے کا اثر اس
درجہ غالب ہوچکا تھا کہ سہارا دیکراٹھایا جاتا اور چندقدم چلنے سے سانس
پھول جاتا تھا لیکن اس سب کے باوجود کبھی ہمت نہ ہاری اور تبلیغی دورے اخیر
عمر تک جاری رہے، دہلی کے آخری تبلیغی دورے میں آپ کی طبیعت بہت ناساز ہوئی
اور واپس مسکین پور تشریف لے آئے جہاں نصف ماہ بیمار رہ کر جمعرات کے دن
رمضان المبارک کی چاند رات ۲۸ نومبر ۱۹۳۵ء کو سلسلۂ عالیہ نقش بندیہ کے
سالانہ اجتماع کے موقع پر اس جہان فانی سے عالَم جاودانی کی طرف انتقال
فرمایا،رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ
آپ کے اجازت یافتہ خلفاء عظام کی تعداد ۶۶ تک منقول ہے، جبکہ مریدین کاحلقہ
عرب و عجم میں پھیلا ہوا ہے، آپ کے ایک نامور خلیفہ مولانا عبدالغفور عباسی
مدنیؒ نے مدینہ منورہ میں کئی سال بیٹھ کر اس سلسلے کووہ عروج بخشا جو آپ
کے معاصرین میں بہت کم کسی کو نصیب ہوا ہوگا۔آپ کے ارشادات و فرمودات میں
بہت سی قیمتی باتیں ہیں، چندایک درج کی جاتی ہیں:
۱……عروج (روحانی ترقی)چار چیزوں سے حاصل ہوتا ہے:(۱)کثرت ذکر( ۲)اتباع
شریعت(۳) تقوی و احتیاط (۴) رابطۂ شیخ
۲……تصوف کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں:(۱) کم بولنا(۲)کم سونا(۳)کم کھانا( ۴)
کم میل جول رکھنا۔
۳……دین کی اشاعت میں ملامت سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ کفار، سردارِ دوجہاں ﷺ
کو شاعر اور جادو گروغیرہ کہتے تھے اور پتھر مارتے تھے مگر حضورانور علیہ
الصلوۃ والسلام تبلیغ و ہدایت کو ترک نہیں فرماتے تھے۔
۴……قرآن شریف،حدیث پاک اور فقہ پڑھا اور پڑھایا کرو اور یہی سنا اور سنایا
کرو۔ |