پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر

پاکستان لائبریر ین شپ کے معروف استاد و محقق

۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں سے کوئی دن، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی کے کتب خا نے (یہ اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے) کی پانچویں منزل پر واقع تھا ۔ تمام کمروں کے چارو ں اطراف کھلی ہوئی جگہ نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کردیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔کلاس روم میں کل۷۷ طلبہ جن میں ۴۴ طلبہ اور ۳۳ طالبات تھیں۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شو ق میں کالے رنگ کے گاؤن زیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا سونے پر سہاگہ یہ کہ پروفیسر صاحب کے خشک اور دو ٹوک لہجے نے طلبہ کو دم بہ خود کر دیا تھا ۔ پروفیسر صاحب کلاس میں تشریف لائے تمہیدی گفتگو کے بعد بتا یا کہ وہ کیٹلاگ سازی پڑھائیں گے ۔ لفظ کیٹلاگ آج پہلی بار سنا تھا اُس وقت تو ایسامحسو س ہوا کہ یہ کسی جنگلی جانور کا نام ہے جو وادیِ کیلاش سے تعلق رکھتا ہو گا۔ رفتہ رفتہ عُقدہ کھلا کہ یہ تو لائبریری سائنس کا ایک بنیادی مضمون ہے۔ پروفیسر صاحب کا نصیحت آمیز لیکچر ختم ہوا ان کے کلاس روم سے جاتے ہی ایک جانب سے آواز آئی’’اف توبہ بڑا ہی مشکل مضمون ہے ‘ خدا خیر کرے‘‘ اس پر ایک اور قہقہ لگا، یہ آواز کلاس کے ایک زیادہ عمرکے طالب علم منظورا لکریم کی تھی جو اپنے مزاج میں بھر پور مزاح لیے ہو ئے تھے ان کے ساتھ ان کے ایک اور دوست جبار نے ٹھیکہ لگا یا ’بچ کے رہنا بھائیوں اور بہنو‘ ۔ لیکن چند ہی دنوں میں پروفیسر صاحب کی سختی نر می اور پیا ر و محبت میں بدل گئی ۔ یہ تھے سید جلال الدین حیدر(جو اب پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر ہیں)

سید اعجاز حسین مرحوم کے بیٹے، آپ کے علاوہ آپ کی تین بہنیں ہیں جن میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔، ۸ جولائی ۱۹۳۸ء کو ہندوستان کے شہر جُون پور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم جُون پور ہی میں حاصل کی، الہٰ آباد بورڈ سے جسٹرڈ شیعہ انٹر کالج ، جُو ن پور سے ۱۹۵۳ء میں میٹرک اور ۱۹۵۵ء میں انٹر پاس کیا ، ۱۹۵۶ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور ناظم آباد نمبر ۱ میں سکونت اختیار کی بعد ازاں نارتھ ناظم آباد میں سکونت اختیار کی اور آج بھی وہیں مقیم ہیں۔ اردو کالج سے ۱۹۵۹ء میں بی اے ، جامعہ کراچی سے ۱۹۶۱ء میں لائبریری سائنس میں ڈپلومہ، ۱۹۶۴ء میں مریکہ سے ایم ایل آئی ایس کرکے وطن واپس آئے ایک سال بعد ۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ء کو سیدہ ریاض زہرہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے آپ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک انسان کو زندگی میں سب کچھ مل جائے۔ آپ کا ثابت قدم رہنا اﷲ کی ذات پر پختہ ایمان کامظہر ہے۔ ۱۹۶۰ میں جامعہ کراچی کے کتب خانے سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغازکیا۔ ۱۹۷۰ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس میں استاد کی حیثیت سے تقررہوا،صدر شعبہ کی حیثیت سے ۱۹۹۸ء میں ریٹائر ہوئے۔

لانبا قد، بھاری جسم (جو اب نہیں رہا)، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال (جن میں اب سفیدی نمایاں ہے)، داڑھی مونچھیں صاف یعنی کلین شیو، ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی اور کسیِ قدر اندر کی جانب،مضبوط ہاتھ پیر، زیادہ تر پینٹ شرٹ اور کوٹ پتلون لیکن کبھی کبھی شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کے پیجامے میں بھی ہوا کرتے تھے اب تو اکثر تقاریب میں اسی لباس میں نظرآتے ہیں۔ جوانی میں وضع دار تھے تمام زندگی اسی وضع داری میں گزاردی، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔ کلاس میں کبھی دیر سے نہیں پہنچے کلاس میں آئے راسٹرم کے پیچھے کھڑے ہوکرمخصو ص انداز سے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر کلائی کی جانب وقت دیکھا ساتھ ہی کلاس پر ایک معنی خیز نظر دوڑائی انداز بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں با لکل وقت پر کلاس میں آگیا ہوں۔ جو کچھ پڑھاتے حد درجہ عالمانہ اور فنی انداز سے پڑھاتے البتہ لہجہ میں قدرِ کرختگی ضرور تھی۔

اس زمانے میں جامعہ کراچی میں سیمسٹر نظام رائج نہیں ہوا تھا اورہر مضمون میں انٹر نل ایویولیشن (Internal Evaluation)کے طور پر ۲۵ مارکس ہوا کرتے تھے جس کی تفویض کا کل اختیار متعلقہ استاد کے پاس ہوتا تھا جلا ل صاحب دوران لیکچر ان ۲۵ نمبروں کا خوف بہت زیادہ دلایا کرتے تھے آپ کی یہ بات طلبہ میں اس قدر عام ہوئی کہ اکثر طلبہ آپ کو ’سر ۲۵ نمبر ‘کہنے لگے تھے۔ ایک بار شعبہ سال اول و دوم کے تمام طلبہ پکنک منانے کسی ساحلی مقام پر گئے شعبہ کے اساتذہ میں ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزوری (اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے)،ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر(اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے)، اختر حنیف، اظہار الحق ضیاء اور ممتاز بیگم بھی تھیں۔چند طلبہ جن میں افتخار خواجہ( اب ڈاکٹر افتخار الدین خواجہ ہیں)بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس کے بانی صدر شعبہ ہوئے بعد از اں شعبہ تعلیم سے ریٹائرہوئے، رموز احمد خان(اس وقت شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس ، اسلامیہ یونیورسٹی ، بہاولپور کے صدر شعبہ ہیں)، عبدالجبار اور منظور الکریم (مر حوم) اس تماشے کے بنیادی کردار تھے۔ رموز احمد خان کو سر سے پیر تک سفید چادر ڈا ل کر زمیں پر لٹا دیا گیااور افتخار خواجہ نے ان سے سوالات دریافت کر نا شروع کیے۔ان کے چاروں جانب طلبہ اور اساتذہ کھڑے تھے۔ پہلے ڈاکٹر عبد المعید کی جانب اشارہ کیااور پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر عبد المعید ، پوچھا کہ یہ اِس وقتکہا ں ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں جواب دیا گیا کہ یہ اس وقت آشور بنی پال کے کتب خانے میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ میں اس کتب خانے کی کتابیں جو مٹی کی تختیاں ہیں کس طرح اپنے ساتھ لے جاؤں۔(زور دار قہقہ اور تالیاں)، پھر سبزواری صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دیا کہ یہ سر اکرم ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ پکنک پر آئے ہوئے جن طلبہ نے چندہ نہیں دیا ان سے کیسے وصول کیا جائے (واضح رہے کہ سبزواری صاحب اس وقت مشیر طلبہ تھے اور تمام تر طلبہ سرگرمیاں ان ہی کی مر حون منت تھیں)، اس کے بعد تماشہ گر نے جلال صاحب کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دیا یہ سر جلا ل ہیں اور اس وقت سوچ رہے ہیں کہ ۲۵ نمبر میں سے کس کس کو زیرو نمبر دوں اس جواب پر تمام لوگوں نے زور دار قہقہ لگایا ۔

۱۹۷۲ء میں جلال صاحب ایران چلے گئے اور تبریز یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے ۔ ۱۹۷۵ء میں واپس آکر دوبارہ شعبہ سے منسلک ہوئے ڈاکٹر حیدر سے راقم کا تعلق استادو شاگرد کے علاوہ ہم پیشہ و ہم مشرف کا بھی تھا چنانچہ اکثر شعبہ میں ان سے ملاقاتیں رہتیں لیکن کم کم اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم باقاعدہ طور پر اپنے استادغنی الا کر م سبزواری صاحب کے قائم کر دہ ادارے لائبریری پروموشن بیورو اور اس کے تحت جاری رسالے ’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ (نیا نام پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جر نل ) سے منسلک ہو چکے تھے اور’ عثمانی و سبزواری‘ کے حلقے میں داخل تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا جلال صاحب اور ہم قریب آتے گئے اور تعلق استاد شاگرد سے بڑھ کر ددستانہ ہو گیا اب ہر موضوع اور ہر مسئلہ پر ادب و لحاظ کے دائرہ میں رہتے ہوئے گفتگو ہو نے لگی۔راقم پہلی مر تبہ ۱۹۹۵ء میں اس وقت جب کہ جلا ل صاحب شعبہ کے سر براہ تھے بورڈ آف اسٹڈیز برائے لائبریری و انفارمیشن سائنس جامعہ کراچی کا رکن مقرر ہوااور مسلسل ۹ سال یہ فرائض انجام دیتا رہا ۔جلال صاحب کے بعد ڈاکٹر نعیم قریشی اور ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے بھی میرے انتخاب کو بر قرار رکھا ۔مجھے پہلی مر تبہ یہ اعزازجلال صاحب ہی کی وجہ سے ملا تھا۔ راقم ۱۹۹۵ء ،۱۹۹۷ء میں جزوقتی استاد بھی رہا ۔

ڈاکٹر حیدر پاکستان میں لائبریرین شپ کے استاد الااساتذہ میں سے ہیں ۔آپ نے پاکستان لائبریرین شپ کو بہت کچھ دیا۔ آپ کے شاگردجو ہزاروں میں ہیں پاکستان کے کونے کونے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔بیرونی دنیا میں میں بھی آپ کے شاگروں کی بڑی تعداد ہے۔ آپ ایک علمی ا نسان اور بزرگ اسکالرہیں۔ آپ کی علمی خدمات بہت وقیع اور محترم سمجھی جاتی ہیں۔ لائبریرین شپ کا شایدہی کوئی موضوع ایسا ہو جو آپ کے قلم کی گرفت میں نہ آسکا ہو۔ آپ کی تحریر کا زیادہ حصہ انگریزی زبان میں ہے جو پاکستان اوربیرون ملک کے پیشہ ورانہ جرائد میں شائع ہوا، آپ نے اردو زبان میں بھی لکھا ۔ ڈاکٹر خالد محمود کے ایک سروے کے مطابق بیرونی دنیاکے رسائل و جرائد میں ڈاکٹر حیدر کے تحریر کر دہ مضامین تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں لائبریرین شپ کے کسی بھی لکھنے والے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں ۔وہ مسلسل لکھ رہے ہیں جو کام کیا بہت ہی محنت، لگن ، جذبے اور انہماک سے کیا ان کی تحریر لائبریرین شپ میں معتبر اور محترم سمجھی جاتی ہے۔ ان کے شاگرد اور رفقامحبت اور احترام سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر حیدر کی زیر نگرانی حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے اساتذہ خالد محمود اور کنول امین نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت بھی آپ کے زیر نگرانی چند طالب علم لائبریری سائنس میں تحقیق میں مصروف ہیں۔

ڈاکٹر حیدر نے اپنے ریٹائرمنٹ (جولائی ۱۹۹۸ء)کے بعد اِستِغناکو اپنا شعار بنا یا، آپ نوکری بعد از نوکری کے قائل نہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ کو ریٹائر ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں آپ نے کوئی نوکری نہیں کی ، ا لبتہ آپ تین سیمسٹر کے لیے جزوقتی استاد ضرور رہے جسے آپ اپنی زندگی کی ایک غلطی تصور کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو کل وقتی تصنیف و تالیف سے منسلک کیا ہوا ہے ۔ قناعت پسند ہیں۔ تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں۔ آپ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کیا کہ حصول علم کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں اور ہنر زندگی کے کسی بھی حصہ میں سیکھا جاسکتا ہے ۔آپ نے ۵۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۴ء میں لفبرویونیورسٹی ، برطانیہ (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد کمپیوٹر میں دسترس حاصل کر نے کے لیے باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیااور اپنے آپ کو اس قابل کیا کہ انٹر نیٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے مضامین از خود کمپوز کر سکیں اور وہ اب ایسا ہی کر تے ہیں ساتھ ہی انٹر نیٹ کی دنیا سے بھی مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔جلال صاحب کے قریبی دوستوں کا حلقہ محدود نظر آتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کو پاکستان لائبریرین شپ کا واحد بانی تصور کرتے ہیں ان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں اور ان کا ذکر اکثر کیا کرتے ہیں اور ان کی علم فہمی کے بڑے قائل ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمعید پرایک تفصیلی مضمون تحریر کرچکے ہیں ۔ اختر حنیف مرحوم آپ کے قریبی دوست تھے۔آپ کے جامعہ کراچی کے بعض پروفیسر حضرات سے بھی دوستانہ مراسم اور قربت ہے ان میں ڈاکٹر محمد صابر جو آپ کے پڑوسی بھی ہیں قریبی دوستی ہے ۔ اکثر محبت سے ان کا ذکر کیا کرتے ہیں۔راقم کو بھی ڈاکٹر صابر کے شاگرد ہو نے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی میں ایم ایل ایس کے دوران تر کی زبان کا سر ٹیفیکیت کورس کیا ڈاکٹر صاحب ہی استاد تھے۔

انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کر نے سے بھی ہوتی ہے مجھے جلال صاحب کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد اور واپسی کا ہوائی سفر کر نے اور ہوٹل میں ایک ساتھ قیام کا اتفاق ہوا۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی سولھویں (۱۶) کانفرنس منعقدہ ۲۵۔۲۶ جون ۱۹۹۷ء بمقام نیشنل لائبریری آف پاکستان میں شرکت کا پروگرام ہم نے ساتھ بنایا ۔اس وقت میرا گھر جلال صاحب کے گھراور ائر پورٹ کے درمیان میں تھا چنانچہ آپ نے مجھے میرے گھر سے لے لیا میں نے ائر پورٹ پر کرایہ دینے کی کوشش کی مگر جلال صاحب کہاں یہ برداشت کرنے والے ، سفر اچھا گزرا راستہ میں مختلف پیشہ ورانہ اور دیگر موضوعات پر گفتگو ہو تی رہی۔ فلائٹ رات کی تھی اس وجہ سے شاید صبح تین بجے اسلام آباد پہنچے ، برسات نے سر دی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا کراچی والوں کے لیے تو یہ اچھی خاصی سر دی تھی ظفر جاوید نقوی ائر پورٹ پر موجود تھے انہوں نے ہوٹل پہنچایا ، ہم دونوں نے کچھ دیر آرام کیا صبح ہوتے ہی نیشنل لائبریری پہنچا دیے گئے۔ جلال صاحب نے ایک سیشن کی صدارت بھی کی مجھے بھی ایک پیپر پڑھنا تھا ۔ رات میں جلال صاحب کے شاگردآجاتے اور رات گئے محفل جمی رہتی۔ جلال صاحب ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہو ا کرتے تھے۔ دوسرے روز ہم جلدی فارغ ہوگئے فلائٹ رات کی تھی ہم دونوں ہوٹل کے آس پاس گھومنے نکل گئے مرغن کھانے کھا کر دونوں کی طبعیت بوجھل ہوگئی تھی چنانچہ ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جہاں پر بہت ہی ہلکی چیز کھانے کو مل جائے آخر کارہم اس میں کامیاب ہوگئے۔ واپسی نائٹ کوچ سے تھی ائر پورٹ پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ جہاز ابھی کراچی ہی سے نہیں آیا ہمیں انتظار کر نا ہوگا اس طرح ہم نے رات کے کئی پہر لاؤنج میں گزارے، اس دوران مختلف موضوعات کے علاوہ کبھی ڈاکٹر عبدالمعید، کبھی ڈاکٹر انیس خورشید، کبھی اختر حنیف اور کبھی شعبہ کے حالات زیر بحث آتے رہے۔ جلال صاحب اور اکرم صاحب کا امریکہ جانا ، اکرم صاحب سے دوستی اور کلسا کے حوالے سے اختلافات غرض قسم قسم کے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ شاید رات دو بجے فلائٹ چلی اور ہم چار بجے کراچی ائر پورٹ پہنچے۔ جلال صاحب بہت ہی محتاط واقع ہوئے ہیں کہنے لگے کہ ہمیں صبح کا انتظار کرنا چاہیے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان دنوں کراچی کے حالات اچھے نہیں تھے اس وجہ سے ان کی رائے مناسب تھی میں نے کوئی جواب نہ دیا رات بھر کی نیند اور بے آرامی کے باعث حال بہت ہی بر ا ہورہا تھا ایسی کیفیت میں تو فوراً گھر پہنچنے کو جی چاہتا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے یہ رائے دی کہ وہ میرے گھر چلیں وہاں پر صبح کی سفیدی ہوتے ہی اپنے گھر چلے جائیں شاید جلال صاحب میری کیفیت کا اندازہ کر چکے تھے وہ اس پر تیار ہوگئے۔ ہم نے ٹیکسی کی اور چل دئے میں ان دنوں دستگیر سوسائٹی میں رہتا تھا جب ٹیکسی یاسین آباد کے پل پر پہنچی توجھٹکے لیتی ہوئی رک گئی اب ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جلال صاحب کا چہرہ بتا رہا تھا کہ دیکھا میں اسی لیے کہہ رہا تھا کہ صبح کا انتظار کر لیا جائے۔ایک لمحہ کو یہ خیال بھی آیاکہ کہیں یہ ڈرائیور کی چال تو نہیں، میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ جلال صاحب درست کہہ رہے تھے واقعی ہمیں ائر پورٹ پر صبح کا انتظا ر کرلینا چا ہیے تھا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔دونوں ہی حالات کا مقابلہ کر نے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر نے لگے ۔عام طور پر سڑکوں پرتین بجے سے صبح ہونے تک کا وقت بہت ہی خوف ناک ہوتا ہے ٹریفک نہ ہونے کے برابر ، رات کا اندھیرا ، آدم نا آدم ذات، دور سے اگرکسی گاڑی کی لائٹ نظر آئے تو خوف کی کیفیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ میں نے تو دل ہی دل میں جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں پڑھ ڈالیں شاید جلال صاحب نے بھی یہی کچھ کیا ہوگا۔میں اس وجہ سے اور بھی خوف زدہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ کچھ ہوگیا تو تمام تر قصور میرا ہی ہو گا کیوں کہ جلال صاحب تو ائر پورٹ پر وقت گزارنا چا ہتے تھے میرے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔ جب یہ یقین ہو گیا کہ ٹیکسی والا قصداً یہ حرکت نہیں کر رہا اور واقعی ٹیکسی خراب ہوگئی ہے ہم نے ٹیکسی کو فارغ کیا میراگھر کچھ ہی دور تھا ، ہم دونوں کے پاس جو بھی سامان تھا اسے اٹھا کر پیدل چلنا مشکل تھا ساتھ ہی سامان کے ساتھ سڑک پرزیادہ دیر ٹہرنا خطرے سے باہر نہیں تھا چنانچہ ہم دونوں نے جیسے تیسے سامان اٹھایا اور گھر کی جانب چل دیے ، گھر پہنچ کر خدا کا شکر ادا کیا ۔ صبح ہو تے ہی جلال صاحب کو ان کے گھر کے لیے رخصت کیا ۔جلال صاحب کے ساتھ یہ سفر یادگار رہا وہ ہم سفر کو بور ہو نے نہیں دیتے وقت ، حالات اور ہم سفر کی مناسبت سے بات سے بات نکالتے ہیں اس میں سنجیدگی بھی ہو تی ہے ، ہنسی مذاق بھی ، کچھ آب بیتی ہو تی ہے اور کچھ جگ بیتی لیکن تمام تر گفتگو ادب آداب اور شائستگی کے دائرے میں کر تے ہیں۔

مارچ(۲۶۔۲۸) ۲۰۰۷ء میں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی ستھرویں کانفرنس پاکستان کی قومی لائبریری اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس بار بھی ہم نے ایک ساتھ سفر کیا لیکن اس بار ہمارے ہمراہ جہاز میں عبدالصمد انصاری، مختار اشرف، آمنہ خاتون، فرحت حسین اور رفعت پروین بھی تھیں۔ آمنہ خاتون کے صاحبزادے سلمان غزالی جو ایرو ایشیاء میں ملازم ہیں نے ہمیں نہ صرف رعایت سے ہوائی ٹکٹ دلوائے بلکہ فلائٹ پر آکر اپنی والدہ کے ہمراہ مجھے، جلال صاحب ، صمدصاحب اور مختار اشرف کو بزنس کلا س میں بٹھا دیا ، ہم پیچھے سیٹ پر بیٹھ کر اکثر پردے کے آگے بزنس کلاس میں بیٹھے مسافروں کو دیکھا کرتے تھے لیکن کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا، عزیزم سلمان نے آج یہ راز بھی فاش کرادیا کہ بزنس کلاس کیسی ہوتی ہے۔ سفر خوش گوار گزرا۔ اﷲ تعالیٰ اُسے جزادے۔ اسلام آباد کے ہوٹل ’’چیک ان ‘‘ میں ہم نے ساتھ ہی قیام کیا ، میرے کمرے میں مختار اور جلال صاحب کے ہمراہ صمد صاحب تھے ، مختار کی طبیعت کچھ نرم گرم ہوگئی وہ اپنے کمرے میں آرام کیا کرتا اورمیں ، صمد اور جلال صاحب رات گئے مختلف موضوعات پر باتیں کیا کرتے ، تین دن اسی طرح گزرگئے، دن بھر کانفرنس میں مصروف رہتے رات میں ہم دن بھر کی مصروفیات کا تجزیہ کرتے اور دیگر موضوعات جن میں ہر طرح کی باتیں شامل تھیں کیا کرتے۔ جلال صاحب کے سو جانے کے بعد میں اور صمد اپنے اپنے کمرے سے باہر آکر ہوٹل کے کامن روم میں بیٹھ جاتے جہاں پر مدھم روشنی ہوا کرتی تھی، ایک ایک سیگریٹ کا کش لگاتے اور کراچی کے جھمیلوں سے آزاد رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔(سیگریٹ نوشی میری عادت نہیں اکثر اس قسم کے ماحول میں بد پرہیزی ہوجاتی ہے) ، اس بار بھی جلا ل صاحب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ مجلسی آدمی ہے، محفل کو اپنی باتوں سے پر رونق رکھتے ہیں۔پی ایل اے کی کانفرنس میں انہوں نے بھر پور حصہ لیا، اپنے مضمون کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی حصہ لیتے رہے۔

آدمی کی پرکھ معاملات سے بھی ہو تی ہے جلال صاحب معاملات کے بہت کھرے ہیں۔خالد محمود( اب ڈاکٹر خالد محمود ہیں) کراچی آئے اور میرے گھر قیام کیا ، ان دنوں وہ جلال صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ چنانچہ ان سے ملاقات مقدم تھی ہم دونوں جلال صاحب کے گھر پہنچے بہت ہی اچھی طرح ملے اور گفتگو ہو نے لگی تھوڑی دیر بعد جلال صاحب اندر گئے اور کچھ پیسے غالباً تین سو روپے تھے لاکر خالد کی طرف بڑھائے خالد نے پوچھا کہ سر یہ کیا ہے میں بھی قدرے حیران تھا کہنے لگے کہ تم نے فلاں کتاب مجھے فوٹو اسٹیٹ کر اکے بھیجی تھی یہ اس کے پیسے ہیں اب خالد نے بہت چاہا کہ وہ ان سے یہ رقم نہ لے لیکن جلال صاحب کہا ں ماننے والے ، جب خالد نے زیادہ زور دیکر کہا کہ سر شاگرد ہو نے کے ناتے اگر میں نے ایسا کر ہی دیا تو یہ میرا فرض بنتا ہے لیکن جلال صاحب نے ایک نہ سنی جلال میں آگئے اور وہ رقم اسے دیکر ہی دم لیا۔

ڈاکٹر حیدر کا ذاتی ذخیرہ لائبریرین شپ کے حوالے سے نایاب اورقیمتی (Rich)ہے ۔مجھے جب کسی کتاب ، مقالے یا مضمون کی ضرورت ہوتی ہے جلال صاحب کی عنایت سے مجھے مل جاتی ہے لیکن واپسی کے و عدے کے ساتھ۔ ایک مر تبہ ایک پی ایچ ڈی کامقالہ جو بکھرے ہوئے اوراق پر مشتمل تھا مجھے اس کی ضرورت ہوئی میں نے اپنے لیے فوٹو کاپی کرائی ساتھ ہی اصل کاپی کی جلد بھی بنوادی اس خیال سے کہ یہ مزید خراب نہ ہو ، میں نے جب یہ کتاب انہیں واپس کی تو خوش تو ہو ئے لیکن اس کی جلد بندی کے پیسے
جو صرف بیس روپے تھے مجھے جبراً ادا کر کے سکون میں آئے۔

ڈاکٹر حیدر تہذیب کے ایک یاد گار نمائندے ہیں ایسے پر وقار نمائندے اب معدوم ہو تے جارہے ہیں۔ آپ کی گفتگومیں شائستگی، دھیما پن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔در حقیقت وہ ’میاں آدمی ہیں‘۔ سادہ طبعیت پائی ہے، رہن سہن سادہ ہے، دکھاوے اور بناوٹ کے قائل نہیں ،آپ نے کئی ۱۹۸۵ء میں جو کار (سوزوکی ایف ایکس) خریدی تھی آج بھی اسی پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ ا ن کے گھر کے ڈرائنگ روم میں جو صوفہ سیٹ آج سے ۲۰ سال قبل تھا آج بھی وہی ہے لیکن صاف ستھرا دیکھنے میں ایک پروفیسر کا ڈرائنگ روم لگتا ہے ۔اگر کسی چیز کا اضافہ ہوا تو وہ کتابیں اور اب کمپیوٹر ہے۔ صفائی پسند ہیں ۔لباس ہمیشہ صاف ستھرا زیب تن کیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ گھر بھی صاف ستھرا ہ رکھتے ہیں۔ رکھ رکھا ؤ،گھر آنے والے کی خاطر تواضُع کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے، بڑے مہمان نواز ہیں با وجود اس کے کہ تمام کام آپ کو از خود کرنا ہوتے ہیں میں نے بار ہا کہا کہ سر میرے آنے پر تکلفات نہ کیا کریں میرے لیے وہ لمحات بہت تکلیف دہ ہو تے ہیں جب وہ از خود چائے کی پیالیاں یا کولد ڈرنک لے کر آتے ہیں لیکن جلال صاحب اپنی روایات سے ایک انچ ہٹنے کو
تیار نہیں ہوتے ۔بقول غالب ؔ :
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھو ڑی
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی حق پسندی اور محتاط انداز فکر ہے۔ جلال صاحب سچ کہتے اور سچ سننا پسند کرتے ہیں۔ زندگی کے معاملات میں زیادہ محتاط ہیں آپ کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو فائدہ پہنچانے میں میرا نقصان نہیں ہو رہا تو ایسا کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔ محتاط انداز فکر آپ کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ نظر آتا ہے۔ کئی سال قبل آپ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے اورچند روز کارڈیو ویسکلر میں بھی داخل رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹروں نے آپ کی رپورٹس کی روشنی میں اس بات کی نفی کی کہ آپ کو دل کا عارضہ ہے لیکن آپ نے احتیاط کے پیش نظر زندگی کے معمولات پر نظر ثانی کی، خوراک اور پرہیز کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیا اس پر آج تک سختی سے کاربند ہیں ۔ عیشؔ بر نی کے بقول :
قدم قدم پہ یہاں احتیاط لازم ہے
کہ منتظرہے یہ دنیا کسی بہا نے کی

آج سے کوئی دس سال قبل میں نے جلال صاحب پر لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس مقصد سے ان سے باقاعدہ انٹر ویو( ۷ جولائی ۱۹۹۶ء)کو کیا، وقت کس تیزی سے گزرا معلوم ہی نہ ہو سکادیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال گزرگئے اور میں اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ دوسری بار باقاعدہ ملاقات آٹھ سال بعد ۱۲مارچ ۲۰۰۴ء کو کی ، یہ ملاقات اپنی تحقیق کے حوالے سے تھی ۔اب دس سال بعد میں اپنے اس ارادے میں کامیاب ہو سکا کہتے ہیں دیر آید درست آید۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان دس سالوں میں انہیں زیادہ نذدیک سے دیکھنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا ساتھ ہی استاد و شاگرد کا تعلق بڑھ کر دوستا نہ ہو گیا اس کام کو اِس وقت ہی مکمل ہو نا تھا۔ میں اس مضمون میں ڈاکٹر حیدر کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کا احا طہ نہیں کرسکا بس جو بھی صلاحیت ہے اس کے مطابق کوشش کی کہ آپ کی شخصیت کے مخصو ص پہلوؤ ں کو اجا گرکر سکوں استاد جو کچھ اپنے شاگرد کو دیتا ہے اس کا حق تو ایک شاگرد کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا یہ تو ایک معمولی سا نذرانہ ہے شاگرد کا اپنے استاد کے لیے۔
(مصنف کی کتاب یادوں کی مالا میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285702 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More