خوف کے منڈلاتے بادل

پچھلے چند روز سے ملک میں خصوصا خیبر پختونخواہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات نے پہلے سے مو جود خوف میں اضافہ کردیا ہے ۔اتوار کے دن بنوں میں سیکیو ریٹی فورسز پر حملہ ہوا، پیر کے دن راولپنڈی کے آر اے بازار میں سیکیو ریٹی فو رسز کو پھر نشانہ بنایا گیا، منگل کو چاروں صوبوں میں پولیو ٹیموں پر حملے کئے گئے،اگلے دن بلو چستان کے ضلع مستونگ میں ایران سے کو ئٹہ آنے والی بس خود کش حملہ ہوا، چارسدہ کے سر ڈھیری بازار میں پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا، کوہاٹ روڈ پر سکیم چوک کے قریب ایک ورک شاپ میں بم دھماکہ کیا گیا،صرف پانچ روز میں سو سے زیادہ لوگ راہی عدم کئے گئے ،گویا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پاک فوج نے ان پر ہو نے والے حملوں کے ردِ عمل کے نتیجہ میں شمالی وزیرستان میں کاروائی کی ، جس کے نتیجہ میں فاٹا سے لوگوں کا انخلاء بھی جاری ہے اور خواتین، بچے،بوڑھے سر چھپانے کی جگہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

ان تمام واقعات کا ہمارے حکمرانوں کے پاس ایک ہی علاج موجود ہے اور وہ یہ کہ ہر واقعہ کے بعد وہ ایک مذمتی بیان جاری کر دیتے ہیں اور پھر اپنے دلچسپی کے معا ملات میں مگن ہو جاتے ہیں ۔ خود وہ سینکڑوں محا فظوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں لیکن جن لو گوں کی حفاظت کی ذمہٌ داری اﷲ تعالیٰ نے ان کی سپرد کی ہے، ان کی زندگی کی شمع بجھنے کی انہیں پرواہ نہیں۔انہیں یہ احساس تک نہیں کہ ان کی نا اہلی اور کمزوری کی وجہ سے کتنے لو گ روزانہ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ گز شتہ دس سالوں کے دوران پچاس ہزار سے زیادہ اکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر ہمارے قائدین نے تاحال کو ئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جو اس بلا مقصد جنگ کو ختم کرا سکے۔تھوڑی بہت اگر کہیں کا روائی ہو ئی بھی یا کو ئی قدم اٹھایا بھی گیا، تو نیم دلی اور تذبذب کے ساتھ۔مگر مو ثر پالیسی نہ بنا سکے۔اب صورتِ حال وز بروزگمبھیر ہو تی جا رہی ہے۔پاک فوج پر، قانون نا فذ کرنے والے دیگر اداروں پر، عبادت گاہوں اور مزاروں پر، گنجان بازاروں اور چھاونیوں پر اند ر ہی سے حملے ہو رہے ہیں۔مظلوم اور زخم خوردہ پاکستانی اپنے ہی ملک میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک ہجرت کرنے پر مجبو ر ہیں ۔کراچی میں الگ نا حق خون بہایا جا رہا ہے۔اندریں حالات پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خلفشار سے بچانے کے لئے فوری اور جامع حکمتِ عملی بنانے کی اشدّ ضرورت ہے۔موجودہ حکمران یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ دہشت گردی کا سلسلہ تو پچھلے ایک عشرہ سے جاری ہے مگر گذ شتہ حکومتوں نے اس سلسلے میں کو ئی جامع پالیسی نہیں بنائی۔اگر گذشتہ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا تو مو جودہ حکو مت کی اب تک کارکردگی بھی تسلّی بخش نہیں ،وہ طالبان سے مذاکرات کی رّٹ بھی لگاتے رہے اور آل پا ٹیز کانفرنس بلا کرتمام سیاسی جماعتون نے انہیں مذاکرات کا اختیار بھی دے دیا مگر وہ گو مگو کی کیفیّت سے آج تک نہ نکل سکے۔حالانکہ اگرحکو مت دانشمندی اور معاملہ فہمی کے ساتھ طالبان سے مذکرات کرتے یا آج بھی کرلیں تو ماضی میں جو کچھ ہوا ،وہ تو ہوا مگر مستقبل میں انسانی خون کو بہانے سے روکا جا سکتا ہے۔بشر طِ یہ کہ موجودہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا بغور مطالعہ کیا جائے،مثلا طالبان میں کون کونسے گروپ اور کس کس کے حمایت یافتہ گروپ شامل ہیں، مسلمان ہو نے کے باوجود ان کا نقطہٗ نظر عام مسلمانوں سے مختلف کیوں ہے ؟ ان کے مطا لبات کیا ہیں؟معاشرے میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی حمایت کیوں کرتی ہے وغیرہ وغیرہ؟اس وقت تمام سیاسی جما عتیں طالبان کے خلاف اپریشن کے حق میں نہیں ہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین  عمران خان ،جماعتِ اسلامی کے سیّد منور حسن، جمیّت ا لعلماء کے مولانا فضل ا لرحمن مذاکرات کے حق میں ہیں۔صرف ایم کیو ایم کے الطاف حسین اور پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری بھٹو سخت اقدام اٹھانے یعنی جنگ کے حق میں ہیں۔ان حالات میں جبکہ ملکی قائدین ہی ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے نہ ہوں ، لڑنے سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔لہذا مناسب ہو گا کہ پہلے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے۔پچھلے چند دنوں سے محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کی کہانی ختم ہونے جا رہی ہے اوردہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن اپریشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں اگر ایسا ہی ہوا تو اس کے نتائج کیا ہو نگے ؟ یہ تو اﷲ ہی بہتر جا نتا ہے مگر ایک بات جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہو گا،کثیر تعداد میں لو گوں کو نقل مکا نی کر نی ہو گی، بو جہ ازیں عام لوگ ابھی سے خوف زدہ ہیں خوف کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہیں۔حکومت یا سیاسی قیادت کو جس تدّبر، معاملہ فہمی اور ذکاوت سے اس مسئلہ کو ہینڈل کرنا چا ہئے تھا اس طرح حکومت نے اسے ہینڈل نہیں کیا ،یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے کو نے کو نے میں انسانی لا شیں بکھری پڑی ہیں۔عام اور بے گناہ انسان مارے جا رہے ہیں جبکہ حکمران سینکڑوں ، ہزاروں محافظوں کے جھر مٹ میں گھروں کے اندر یا گھروں سے باہر بیٹھے بیانات جاری کر رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے اگر حکومت اور سیاسی قیادت خلوصِ نیّت کے ساتھ موجودہ حالات سے نکلنے کی کو شش کرے تو مذاکرات کا راستہ اپنا کر اس گھمبیر صورتِ حال سے نکلنے کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے اور عام لوگوں خصوصا خیبر پختونخواہ پر خطرات اور خوف کے منڈلاتے بادلوں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284813 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More