1970ء کے پہلے عام انتخابات کے وقت ہم لاہور کالج برائے
خواتین میں پڑھا کرتے تھے ۔سیاسی جرثومے تو ہمارے خون میں پہلے ہی موجود
تھے لیکن کالج کی زندگی میں ہمارا خونِ گرم ہر وقت کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی
اُمنگ جوان رکھتا۔اُنہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے روحانی ’’ڈیڈی‘‘
ایوب خاں سے ناراض ہو کر سیاسی اکھاڑے میں کود ے اور ہم نے اُن کی قصیدہ
گوئی اپنا شعار بنا لیا ۔ہمارے ساتھ کالج کی اور بھی بہت سی ’’جیالیاں‘‘
ایشیا کو ’’سُرخ‘‘ کرنے کی فکر میں غلطاں رہتیں۔پھر الیکشن ہوئے اور بھٹو
مرحوم کے ’’روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ نے ایسا جھاڑو پھیرا کہ کوئی کلاہ و
دستار سلامت نہ رہی ۔پھر’’اصلی‘‘ سیاست شروع ہوئی جس سے ہمارا مشرقی بازو
الگ ہو گیا اور ہم پیپلز پارٹی سے الگ۔تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی
بھٹو ، شیخ مجیب الرحمٰن اور اندراگاندھی سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار تھے لیکن
ہم اِس کا فیصلہ اﷲ اور تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔
بھٹو مرحوم کے بعد اُن کی ہونہار بیٹی بینظیر نے دو دفعہ عنانِ اقتدار
سنبھالی ۔تیسری دفعہ جنابِ آصف زرداری پیپلز پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک
بنے لیکن چوتھی دفعہ پیپلز پارٹی سُکڑ سمٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی اور اب
پارٹی کے تَنِ مُردہ میں جان ڈالنے کے لیے بلاول زرداری سامنے آئے ہیں اور
اُس نوجوان نے ہم جیسوں کو بھی یہ سکھا دیا ہے کہ ’’ٹویٹر‘‘ کا درست
استعمال کسے کہتے ہیں ۔ بلاول نے طالبان کے بارے میں جو دلیرانہ موقف
اختیار کیا ہے ، اُس پر بعد میں بات ہو گی پہلے دہشت گردی کی نئی لہر پر
محترم عمران خاں صاحب کے ردِ عمل پر بات ہو جائے ۔ مذاکرات کے جذباتی حامی
جنابِ عمران خاں نے فرمایا ’’ہم اپنی فوج کے ساتھ ہیں ۔اگر آپریشن کا فیصلہ
کر لیا گیا ہے تو سیاسی قیادت کو ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے ‘‘۔خاں صاحب
ایک بڑی سیاسی جماعت کے سَربراہ ہیں اِس لیے یہ اُن کا حق بنتا ہے کہ
اُنہیں اعتماد میں لیا جائے ۔ویسے بھی یہ زیادتی ہے کہ حکومت اور فوج خاں
صاحب کو بتلائے بِنا ’’چوری چوری ، چُپکے چُپکے‘‘ طالبان کو ’’پھَڑکانے‘‘
کا پروگرام بنا لے اور خاں صاحب مذاکرات کے ڈھنڈورچی بنے گلی گلی ’’اَمن کی
آشا‘‘ کے گیت گاتے پھریں ۔کہاں تو یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف
سے خاں صاحب کی ملاقاتیں کروائی جارہی تھیں اور کہاں یہ کہ وزیرِ داخلہ بھی
’’مُکھ‘‘ موڑ بیٹھے ہیں ۔کیا یہ ’کھُلا تضادنہیں‘‘ ؟۔پہلے تو وزیرِ داخلہ
چوہدری نثار احمد صاحب ہی خاں صاحب کو چھوٹی موٹی ’’سچّی جھوٹی‘‘خبر دے کر
اُن کا دل بہلا دیا کرتے تھے لیکن اب اُنہوں نے بھی لفٹ کروانی بند کر دی
ہے۔ شایدخاں صاحب کے تکرار اور اصرار نے ہمارے وزیرِ داخلہ کو تھکا دیا ہو
۔ویسے تو وہ جوان آدمی ہیں اوراتنی جلدی تھکنے والے بھی نہیں لیکن آجکل پتہ
نہیں کیوں کچھ لوگ اُن کی جوانی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ہمارے ایک
محترم لکھاری مظہر برلاس صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں ’’ وزیرِ داخلہ کو
سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں ۔اُنہیں چاہیے کہ وہ پرانے زمانوں کی طرح
رُوپ بدل کر سامنے آئیں بلکہ اُنہیں ایسا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ، وہ صرف
وِگ اُتار کر اپنا اصل ’’چہرہ‘‘ سامنے لے آئیں ۔دہشت گردوں کو ’’وِگ‘‘ کا
پتہ نہیں ‘‘۔مجھے برلاس صاحب بھی طالبان کے کچھ حامی ہی لگتے ہیں ۔وہ چاہتے
ہیں کہ ہمارے جوان بلکہ نوجوان وزیرِ داخلہ صاحب ’’وِگ‘‘ کے بغیر بوڑھے ،
لاغر اور بیمار بَن کرسامنے آئیں تاکہ طالبان اُن پر چھا جائیں ، لیکن ہم
ایسا ہر گز نہیں چاہتے کیونکہ دُشمن کے سامنے ’’تَکڑا‘‘ بَن کر جانا بھی
جنگی حکمت عملی کا حصّہ ہوتا ہے ۔ویسے بھی ’’وِگ‘‘ کی بدولت ہمارے کم از کم
دو لیڈر تا دمِ مَرگ بوڑھے نہیں ہو سکتے ایک چوہدری نثار احمد اور دوسرے
اپنے شیخ رشید ۔تحقیق کہ قوم کو اُن کی ’’با بَرکت وِگوں‘‘ سے پیار ہے۔
بلاول زرداری نے انٹرنیٹ میں گھُس کر پرویز مشرف کو’’بزدل‘‘تو کہہ دیا ،
اگر وہ احمد رضا قصوری کے سامنے مشرف کو بزدل کہتے تو پھر اُنہیں’’ لَگ پتہ
جاتا‘‘ ۔انتہائی محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ
گورنمنٹ کالج لاہور میں احمد رضا قصوری بے فکرے طلباء کو محظوظ کرنے کے لیے
کندھے پر بندریا بٹھا کر گول دائرے میں سائیکل چلایا کرتے تھے ، جس کے وہ
عینی شاہد ہیں ۔اپنے کالم کے آخر میں وہ لکھتے ہیں ’’میں نے قصوری صاحب کو
جنرل مشر ف کے وکیل کی حیثیت سے صحافیوں پر برستے دیکھا تو مجھے یوں لگا
جیسے آج بھی اُس کے کندھے پر بندریا بیٹھی ہوئی ہے ۔بھلا وہ بندریا کون تھی
؟ سہمی ہوئی بندریا؟ ‘‘ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بڑھتی عمر کے ساتھ
انتہائی محترم ڈاکٹر صفدر محمود کی بینائی کچھ کمزور ہو گئی ہے کیونکہ آجکل
قصوری صاحب کے کندھے پر بندریا نہیں بلکہ سہما ہوا بندر بیٹھا ہے جس کے
بارے میں شنید ہے کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے ۔
کچھ لوگ پرویز مشرف صاحب کے خلاف کہی گئی باتوں کو افواجِ پاکستان کی توہین
قرار دیتے ہیں جو سِرے سے غلط ہے کیونکہ افواجِ پاکستان کی عظمتوں سے انکار
ممکن ہی نہیں۔ اگر لاکھوں فوجی بھائیوں میں ایک مشرف جیسا بھی پیدا ہو جائے
تویہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ اگر الفت و محبت اور عزت و احترام کا یہی
معیار مقرر کر لیا جائے جیسا کی مشرف صاحب کے حامی کہتے ہیں تو پھر حضرت
لوط علیہ اسلام کی بیوی ، حضرت نوح علیہ اسلام کی بیوی اور بیٹے اور حضرت
ابراہیم علیہ اسلام کے باپ کو بھی انتہائی عزت و احترام دینا ہر اہلِ کتاب
پر واجب ہو گا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔مشرف صاحب کا تو افواجِ پاکستان کے ساتھ
محض اتنا سا رشتہ ہے کہ وہ اِس محترم ادارے کا ایک ایسا فرد تھا جس نے اپنے
ہی ادارے کو اپنی ’’کَرتوتوں‘‘ کی بنا پر بدنام کرنے میں کوئی کسر اُٹھا
نہیں رکھی ۔اِس لیے اگر انگلیوں پر گِنے چند ’’عاشقانِ مشرف ‘‘اپنے ہیرو
لیکن’’ قومی زیرو‘‘ کو محض بچانے کی خاطرافواجِ پاکستان کی بدنامی کا جواز
تراش رہے ہیں تو یہ بالکل لغوا ور بے بنیاد ہے اور پاک فوج بھی خوب جانتی
ہے کہ اِس ’’ٹولے‘‘ کا مقصد کیا ہے ۔ویسے بھی اب تو مشرف صاحب نے اپنے ہی
ادارے AFIC پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کے ماہر ترین ڈاکٹرز سے
انجیوگرافی کروانے سے انکار کر دیا ہے اگرہمارے ’’بہادر کمانڈو‘‘ پاکستان
سے کھِسک لینے کے لیے بہانے تراش رہے ہوں تو الگ بات ہے ورنہ جہاں تک ہم
جانتے ہیں ،انجیوگرافی ایک عام سا ٹیسٹ ہے جو بیشمار پرائیویٹ ہسپتالوں میں
بھی ہو رہا ہے اوراِس وقت پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں کم و بیش
150انجیوگرافی مشینیں کام کر رہی ہیں ۔ اپنے آمرانہ دَورِ حکومت میں مشرف
صاحب متواتر یہ رَٹ لگاتے رہتے تھے کہ اُن کی جان و مال سب کچھ پاکستان کے
لیے ہے اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اُن کے لبوں سے پھسلتا رہتا تھا لیکن آج
اُسی پاکستان میں وہ ایک معمولی سا ٹیسٹ کروانے کے لیے بھی تیار نہیں ۔
میں لکھنے بیٹھی تھی نو نہالِ صحنِ چمنِ زرداری عزیزم بلاول کی سیاست میں
آمد پر لیکن بات کہیں کی کہیں نکل گئی اور کالم کا پیٹ پھولنے لگا ۔اِس لیے
بلاول پر پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گی ۔فی الحال صرف اتنا ہی کہ بلاول
زرداری کی سیاست میں آمدبڑی دھماکے دارثابت ہو رہی ہے ۔ پہلے وہ اپنے
’’سیاسی اَنکلوں‘‘ کے پیچھے ایسے پڑے کہ سبھی کانوں کو ہاتھ لگانے لگے پھر
پلٹے تو آمر مشرف کو رَگڑے پہ رَگڑا دیتے چلے گئے اور یہاں تک کہہ دیا
’’لگتا نہیں کہ بُزدل مشرف نے کبھی فوجی وردی بھی پہنی ہو ‘‘۔آجکل طالبان
کے پیچھے لَٹھ لے کر دوڑ رہے ہیں۔یہ سب کچھ وہ کبھی دبئی اور کبھی اپنے
محفوظ ترین گھر میں بیٹھ کر کہہ رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
مستقبل بعید میں بھی اُن کا باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔وہ اپنے گھر
میں ہی وزیرِ اعظم بن کر قوم سے خطاب کرتے تونظر آتے ہیں لیکن گلیوں میں
نکل کر بے کَسوں کے آنسو پونچھنے کو ہر گز تیار نہیں ۔بی بی شہید جب قوم سے
خطاب کرتیں تو ساتھ بھٹو مرحوم کی تصویر ہوتی ، آصف زرداری بھٹو مرحوم اور
بی بی شہید دونوں کی تصاویر کے جَلو میں خطاب کیا کرتے تھے جبکہ بلاول
زرداری کے ’’وزیرِ اعظمی‘‘ خطاب میں دونوں کی بجائے با بائے قوم کی تصویر
نظرآتی ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیپلز پارٹی کو بھی ادراک ہو
گیا ہے کہ اب لوگ بھٹو مرحوم اور بی بی شہید کی قبروں کو ووٹ نہیں دیں گے
۔ویسے پیپلز پارٹی نے بلاول زرداری کو ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کا ’’بہروپ‘‘
دے کر ڈرامہ خوب کیا ہے ۔ |