نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بنسری

عشق قاتل سے بھی،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کہ کس سے محبت کی جزا مانگے گا۔؟
سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا۔؟
قارئین ۔۔!! تلخ سہی مگر حقیقت پسندی کا اظہار کر دیا جائے تو کم از کم ضمیر پر بوجھ نہیں رہتا،گذشتہ کالموں میں’’عام آدمی‘‘کے بارے کچھ نادیدہ حالات کی منظر کشی کی جس کا سلسلہ جاری ر کھتے ہوئے آج کی’’ کلاس ‘‘عام آدمی سے لینے کا ارادہ ہے ۔جہاں دس سالہ بچے ’’چائلڈ لیبر‘‘ سے تشدد کا شکار ہو رہے ہوں ،جیسا کہ ملتان میں ٹریفک وارڈن نے اپنے دس سالہ ملازم بچے کو تشدد کر کے اس کی ز ندگی کے ارمان خاک میں ملائے ،کراچی میں ایک ڈاکٹر کے گھر میں ملازم بچے نے تشدد کے خوف سے بلند و بالا رہائشی عمارت سے چھلانگ مار کر زندگی بھر کیلئے معذوری کو گلے لگادیا ،کتنے صد افسوس واقعات ہیں کہ پولیس کے خوف سے شہری خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ،بے روزگاری کے تُند و تیز جھونکوں میں روزگار کے حصول کیلئے ’’نذرانہ‘‘ پہلی شرط جہاں رواج بن جائے،اراضی کی ملکیت کو خود ساختہ قواعد کی روشنی میں شہریوں سے چھیننے والے مخصوص مافیا کی کرتب سازی سے پٹوارخانہ کی ظالمانہ قلم جہاں قانون بن جائے، علاج معالجہ کیلئے عام آدمی سفارش کا متمنی رہے اور اس بے بس کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا کروڑوں روپے قومی خزانے سے لیکر دنیا کے بڑے بڑے طبی اداروں تک علاج کا استحقاق رکھتا ہو ، صد حیف ہے کہ جس ملک کے نمائندے ’’سفارت کار‘‘ بن کر خود تو سب آرام و آسائش حاصل کرتے ہوں مگر اپنے ملک کے محنت کش تارکین وطن باشندوں کو دوسرے درجے کے شہریوں سے بھی بد تر سلوک روا رکھیں تو کیا عالمی سطح پر ہمارا امیج بن سکتا ہے ،معمولی تنازعہ کو ہیجانی صورت حال میں بدلنے والے سیاست کے چمپیئن جرگہ دار بن جائیں ،تبادلوں کے لئے منتخب نمائندوں کے بھتہ خور جماعتی دباؤ سے نظام مملکت کو ہائی جیک کرنے سے ذرا بھر رعایت نہ کرتے ہوں ،ظالم کی محض اس لئے حمایت فرض سمجھی جائے کہ وہ کسی سیاسی کھڑپینچ کا پالشی ہونا لازم ہو تو پھر ’’عام آدمی‘‘کی دال کہیں نہیں گل سکتی ہے۔جب تک کوئی قوت ان عوام دوست بہروپیؤں ،جمہوریت کے لبادے میں پروردہ مافیا اور عوام کی جان و مال کے بھیڑیا نما محافظوں کے خلاف طاقت کو مجتمع نہیں کر لیتی تب تک تبدیلی یا انقلاب کی راگنی کرنے والے ناکام و نا مراد رہیں گے۔

بلاشبہ پی پی پی کا قیام بھی عام آدمی کی قوت پر رکھا گیا تھا جو اب روایتی سیاست کاری کی شکار ہو چکی ہے ۔اسی طرح ن لیگ بھی مقابلہ کی سیاسی جماعت بن گئی ہے ،تحریک انصاف کے بارے اتنا کافی ہوگا کہ ان بے چاروں کا حشر ’’ایم ایم اے ‘‘کی ماند دکھائی دے رہا ہے ،مذہبی جماعتیں اپنا اثر و رسوخ دن بدن کھو ر ہی ہیں ،مذہبی جماعتیں اب مایوسی میں یہ کہہ رہی ہیں کہ اسلام کے خلاف مغربیت پسندوں نے اتحاد کر لیا ہے،حالانکہ مذہبی جماعتوں کو از خود مرتب شدہ پالیسی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ،ڈاکٹر طاہر القادری کی بات ذرا سمجھنے کے لائق ضرور ہے لیکن ان کی ٹیم میں بہت کمزوریاں موجود ہیں ، یہ اس مثل کام کر رہے ہیں کہ’’ بلی کی گلے میں کون گھنٹی باندھے گا‘‘۔

آج کل پرویز مشرف غداری کیس نے اعصابی طور پر حکومت کو مفلوج کر رکھا ہے ،عوام ایک طرف مہنگائی ،بے روزگاری ،بد امنی اور بے شمار مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے مگر ان ’’جانوروں ‘‘کیلئے چارہ گری کہیں نہیں ،احساس ذمہ داری کا ایسا فقدان ہے کہ کوئی بھی اقدام کرنے میں ہزاروں رکاوٹیں ڈالنا معمول کا حصہ ہیں ،جب ملک میں بد نظمی اس تناسب سے ہو تو پھر اس کا علاج کسی سپیشلسٹ سے ہی ممکن ہے جس کے ظہور کیلئے کسی ’’قائد اعظم ،قائد عوام ،نیلسن منڈیلا،امام خیمینی،چواین لائی،موؤزے تنگ،کارل مارکس اور دور حاضر کے ’’ا نا ہزارے ،اروند کیجریوال جیسے عوام دوست رہنما کی ضرورت ہے ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جہاں ہمیں بطور قوم بے شمار محرومیوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے وہیں ہمیں ’’لیڈ ر شپ‘‘سے بھی محرو می باعث تشویش ہے ۔ایک راستہ نظر آتا ہے کہ دور حاضر کی سیاسی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کر کے آگے بڑھے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کے خوش بخت حالات عوام کا مقدر بن جائیں ۔لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ جب نیتوں میں فتور ہو تو کہاں عوام کی آواز کارگر ہو سکتی ہے ،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کے آؤٹ ہونے کے بعد ’’ایک بار پھر زرداری‘‘وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ،اب زرداری نہیں ’’ضرب کاری‘‘ کی باری نظر آ رہی ہے ۔عوام کو جتنا بیوقوف سمجھا جارہا ہے ،جس قدر عوام کے ووٹوں پر عیاشی ہو رہی ہے یہ سب کچھ عوام دیکھ رہے ہیں،بس ’’گلے میں گھنٹی‘‘باندھنے کی ہمت مطلوب ودرکار ہے ۔مایوسی گناہ ہے البتہ صاحب اختیار و اقتدار کیلئے ’’آزمائش ‘‘کی گھڑی آگے بڑھ رہی ہے ،تاریخ و حالات سے سبق نہ سکھینے والوں کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے ،بہر حال جتنا وقت طویل ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی ’’کُندن‘‘ تیار ہو رہا ہے۔ووٹوں کے بیپاریوں کیلئے کولڈ سٹوریج مرحلہ وار تیار ہو رہا ہے ۔کسی بھی طرف سے آگ کا شعلہ بلند ہوتے ہی انہیں بھاگنے کی فرصت نصیب ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی وقت بتائے گا۔ایک نازک بات کرتے ہوئے پہلے عدلیہ سے جان کی ا مان چاہوں گا کہ ’’اگر مشرف غداری کیس‘‘ ایمانداری سے آگے بڑھا تو یہ ’’گند ‘‘ خود اپنے بچھائے جال میں آسکتا ہے ،’’پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بنسری‘‘۔ممکن ہے کہ اسی ڈراپ سین میں سے کوئی ’’ نجات دہندہ‘‘آ دھمکے اور یاروں کا کام ہو جائے۔

Bashir Meer
About the Author: Bashir Meer Read More Articles by Bashir Meer: 32 Articles with 25517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.