گذشتہ چند روز سے ہمارے ہاں جماعت اسلامی
کے امیر سید منور حسن کا بیان اور آئی ایس پی آر کا جوابی ردعمل زیر بحث ہے۔
امیرِ جماعت نے حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر انہیں شہیدقرار دیا تھا۔ بعد
ازاں ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے نہ صرف اپنے اس موقف کی توثیق کی بلکہ
مزید تو سیع کرتے ہوئے کہاکہ امریکی جنگ کے دوران جاں بحق ہونے والے
پاکستانی فوجی شہید نہیں۔آئی ایس پی آر نے اس پر سخت مذمتی بیان جاری کیا
اوراس بیان کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہوئے امیرِ جماعت سے معافی اور بیان
کی واپسی کا مطالبہ کیا۔مزید پرآں جماعتِ اسلامی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے
کا کہا گیا۔ فریقین کے بیانات کی حمایت و مخالفت سے قطع نظر، غورطلب امر ہے
کہ عام آدمی کی تحریر و تقریر کے فن اور لفظ کی حرمت سے نا آشنا ئی قابلِ
فہم ہے ۔ مگر کیا اعلیٰ مناصب پر فائز ، قومی رہنماؤں اور دانشور وں میں
شمار ہوتے ، وسیع حلقہ اثر کے حامل افراد بھی اظہار اور گفتار کے قرینوں سے
بے بہرہ اورایسا طریقِ ابلاغ اختیار سے قاصر ہوتے ہیں جس سے تنازعات اور
تصادم سے بچا جا سکے۔در حقیقت الفاظ ہتھیار کی مانندہوتے ہیں۔ جو نہ صرف
تحریر و تقریر کی تشکیل بلکہ معنی اور تاثر کی صورت گری بھی کرتے ہیں۔ انکے
استعمال پر منحصر ہے کہ وہ اشتعال ، نفرت ، تصادم اوربار ود پاشی کا تاثر
دیں یا محبت ، خلوص ، مروت اور دوستی کا ۔ ہمارے سیاسی رہنما ہوں ، علمائے
دین، واعظین کرام، دانشور یا صحافی جو جس قدر وسیع حلقہ اثر کا حامل ہے ،
اس پر اسی قدر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ انہی افراد کا طرز فکر
اور طرز عمل سینکڑوں افراد کو متاثر کرتا اور سماجی رویوں اور ماحول کی
تشکیل کرتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیز اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر
گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم ہرگزکسی بھی قسم کے تصادم اور
انتشار کے متحمل نہیں۔ سو کشیدگی اور تنازعات سے گریزاں رہنا ہی صائب عمل
ہے۔ہماری سیاست میں بیان بازی اور تبریٰ اندازی ماضی میں بھی رائج رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ’’ادھر ہم ، ادھر تم‘‘ کا نعرہ جس نظریے اور سوچ کی
تشکیل کا باعث بنا ہم اس نے اسکے نتائج بھگتے۔کبھی ضیاء الحق نے آئین کو
کاغذکا ایک ٹکڑاقرار دیا تو کبھی زرداری صاحب نے مضحکہ اڑایا کہ معاہدے
قرآن و حدیث نہیں ہوتے ۔تاہم حالیہ حالات قومی رہنماؤں سے حکمت و دانش اور
تدبر و تحمل کے متقاضی ہیں۔ سید منور حسن فنِ تقریر و تحریر پر عبور کی
حامل قادر الکلام شخصیت ہیں۔ وہ مولانا مودودی جیسے شیریں کلام اور حکمت کا
ر کے جانشین ہیں۔سید منور حسن چاہتے تو باآسانی ٹی وی اینکر کے سوالات کو
نظر نداز کر سکتے تھے ۔ ایک ایسا شخص جو عبادت گاہوں،بازاروں اور تعلیمی
اداروں پرحملے کر کے معصوم و بے گناہ شہریوں اور فوجی جوانوں کی ہلاکت
کاباعث ہو، اسے شہید قرار دینے کے عمل کو انکی ذاتی رائے اور نقطہ نگاہ
سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے
والے فوجیوں کو غیر شہید کہہ کر انہوں نے اپنے استحقاق سے تجاوز کیا۔ اگر
یہ ان کا ذاتی خیال تھا بھی تو فساد فی الارض اور تصادم سے بچاؤ کی غرض سے
اسے ذاتی و نجی گفتگو اور مجالس تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔ اس معاملہ پر
جماعت کی جانب سے مفاہمانہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے افواج کے جوابی رد
عمل کو سیاست میں مداخلت قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کو خط لکھنا بھی غیر
دانشمند انہ اور غیر حکیمانہ طرز فکر کا غماز ہے۔جماعت نے اپنے امیر کی
تائید تو کی ہے مگردلیل کے بجائے تاویل کی راہ اپنائے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم
کو لکھا گیا خط بھی ٹھوس دلائل سے عاری ہے اور ٹی وی پروگراموں میں بھی
جماعت کے ترجمان اور عہدے دار صحافیوں کے سوالات کا جوابات دینے سے
قاصرجھنجلاہٹ کا شکار تلخ گوئی پر مجبور دکھائی دیتے ہیں جو قابل افسوس عمل
ہے۔بقول شاعر
ع تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اسقدر کی
جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
نظریاتی تناظر میں بھی دیکھا جائے تو جماعت کے بانی مولانا مودودی ریاست کی
اجازت کے بغیر شروع کیے گئے جہاد کے مخالف رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ یہ معاملہ
مناسب الفاظ اور بیان کا سہارا لیتے ہوئے ختم کر دیا جاتا ۔صورتحال یہ ہے
کہ ہماری فوج کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکارہے۔ گزشتہ اے پی
سی میں فوج نے اپنی افتاد طبع اور مزاج کے بر خلاف سیاسی قیادت کی وضع کردہ
مذاکراتی حکمت عملی پر عمل درآمد پر آمادگی کا عندیہ دیا۔ اسی حکمت ِ عملی
کے تناظر میں فوج جنرل ثناء اﷲ نیازی اور دیگر جوانوں کی شہادت پر بھی
اشتعال انگیزی سے گریزاں ، تحمل کا دامن تھامے رہی۔ ایسے میں امیرِ جماعت
اسلامی کا بیان نامطلوب اور افواج کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا ۔
بجا کہ آئی ایس پی آر کا جوابی بیان انتہائی تلخی سموئے ہوئے تھا اوراسے
واقعتا جواب طلبی کے تاثر سے ماوریٰ ہونا چاہیے تھا۔اب اسے سیاسی مداخلت
کہیے یا آئینی حدود سے تجاوز ، مگر بہر حال پہل کاری سید منور حسن کی جانب
سے ہوئی جس نے فوج کو تلخ و ترش رویے پر اکسایا۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نواز
شریف نے راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا اور عساکرِ پاکستان کو
خراج ِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بجا طور پر شہادت کی آرزو کو جوانوں اور
افسروں کی اصل قوت اور سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا۔ واقعتا ہمارے جوان اسی
جذبہ ایمانی اور آرزو شہادت کی بنا پر لڑتے ہیں نہ کہ ہتھیاروں کے بل بوتے
پر۔ سو شوقِ شہادت جیسے مطلوب و مقصود معاملے کو متنازعہ بنانا افواج کا
مورال گرانے کے مترادف ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے تھا۔ مذہبی جماعتوں
سمیت قریبا تمام حلقوں نے سید منور حسن کے اس طرزِ فکر کی مخالفت کی ہے۔
بعض جانب سے جماعت پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔
حالانکہ جماعت کی حب الوطنی کو نشانہ بنانا نا قابل تائید امر ہے۔ ماضی میں
جماعت کا طرز عمل افواج اور پاکستان سے محبت و عقیدت کا مظہر رہا ہے۔ آج
بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی وطن سے محبت کی سزا بھگت رہی ہے۔ مگر جماعت
کو اس معاملے پر تصادم گریز طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ شہید یا غیر شہید
کی بحث کو سیاسی رنگ دینا قطعا نا مناسب ہے۔آج جماعت امریکی معاونت کی بنا
پر جان دینے والے جوانوں کو شہید ماننے پر آمادہ نہیں۔ کل کو کوئی دوسرا
بھی ان ڈالرز کو حرام قرار دے سکتا ہے جو جماعت کی حکومت خیبر پختونخواہ
میں امریکہ سے وصول رہی ہے۔ تب جماعت کیا رد عمل اختیار کرے گی۔ اس حوالے
سے میڈیا کی اصلاح احوال اور خود احتسابی کی ضرورت سب سے ذیادہ ہے۔ جہاں
ایسے قضیوں کا قصداً اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لچکدار
طرزِ فکر اختیار کریں اور انتشار فکری سے گریزاں رہتے ہوئے حکومت اور افواج
کو یکسوئی سے ملک کے اصل مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور اصلاح احوال پر
گامزن رہنے پرمعاونت فراہم کریں۔ کیونکہ یہی طرزِ عمل میں ہم سب کی فلاح کا
ضامن ہے۔ |