پاکستان میں طالبان کے حوالے سے جاری صورتحال نے ایک نیا
موڑ لیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش نے
منظرنامہ مکمل طور پربدل کر رکھ دیا ہے۔ امن کو ایک بار پھر موقعہ دینے کا
فیصلہ ہوا ۔وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ شدت پسندوں کے
خلاف کارروائی کے لئے قوم ان کے ساتھ ہے، لیکن وہ ماضی کے تلخ تجربات کو پس
پشت ڈال کر مذاکرات کو آخری موقعہ دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے امن
کی خاطرمذاکرات کے لئے سات ماہ تک لاشیں اٹھائی ہیں،لیکن یہ سلسلہ اب بند
ہونا چاہیے۔وزیراعظم کے بقول مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے،
ہم اپنی قوم کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے،دہشت گردی
اور قتل وغارت اب مزید برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا
تھا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی پیش کش خلوص دل اور نیک نیتی سے کر رہے ہیں
اور اسی طرح کے ردعمل کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آگ اور
بارود کا کھیل اب ختم ہونا چاہیے۔ انہوںنے ایک چار رکنی مذاکراتی کمیٹی کا
اعلان بھی کیا۔ وزیراعظم کے مطابق وہ خود اس عمل کی نگرانی کریں گے۔میاں
نواز شریف نے مذاکرات کی پیش کش کے ساتھ ماضی کے تلخ تجربات کو ذکر بھی
کیا، انہوں نے بتایا کہ پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے اے پی سی نے حکومت
کو یہ اختیار دیا کہ وہ ہتھیار بند لوگوں سے مذاکرات کرے، ہم نے مذاکرات کی
دعوت دی، مگر ہمیں اس کا مثبت ردعمل نہ ملا۔ انہوں نے فوج اور پولیو ورکروں
پر حملوں اور دیگر کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صبر کا
دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا شکار ہر فرد کا دکھ
ان کا ذاتی دکھ ہے۔ دو دن پہلے تک اس طرح کے اشاریے مل رہے تھے کہ شائد
حکومت پرطالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا دبائو بڑھتا جارہا ہے اور
انہیں اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے جس انداز
میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے انہوں نے نفسیاتی طور پر لوگوں میں آپریشن کی
حمایت بڑھادی ۔ اس کا اعتراف خود وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمانی پارٹی
کے اجلاس میں کیا ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جو لوگ ملک میں طالبان کے
خلاف آپریشن کی حمایت کررہے ہیں ان کی سیاسی پذیرائی بڑھ رہی ہے ۔ وزیر
اعظم نے اس وقت دو ٹوک انداز میں کہا کہ مذاکرات صرف انہی قوتوں سے ہونگے
جو ریاست کی رٹ قبول کریں گے جبکہ وہ عناصر جو ریاست کی رٹ قبول کرنے کی
بجائے جنگ چاہتے ہیں ان سے اب کھلی جنگ ہوگی ۔مسلم لیگ )ن(کی پارلیمانی
پارٹی کے اجلاس میں بھی اکثریت نے وزیر اعظم کو طالبان کیخلاف آپریشن کی
حمایت کا یقین دلایا ۔ یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر کہیں نہ
کہیں آپریشن کی حمایت کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا، تاہم اس دبائو کے باوجود
امن کو ایک بار پھر موقعہ دیا گیا۔ طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کر گیند
طالبان کی کورٹ میں پھینک دی گئی ہے۔ اس بار حکومت نے اپنی سنجیدگی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔بعض سیاسی حلقے
مسلسل فوجی آپریشن کے لئے آگے بڑھنے کی بات کر رہے تھے ، تاہم حکومت کے
لئے یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ چودھری نثاریہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کے بعض
علمائے کرام سے رابطے ہوئے ہیں اور کچھ طالبان گروپ حکومت سے مذاکرات کے
لیے بھی تیار ہیں ۔ایسی صورت میں حکومت کس طرح سب طالبان کو ایک ہی کشتی
میں ڈال کر آپریشن کرنے کا اعلان کرسکتی تھی؟فوجی آپریشن تو بہرحال فوج نے
ہی کرنا ہے لیکن اس کی حمایت تو سیاسی حکومت کو ہی کرنی ہوگی۔ کیونکہ اگر
فوجی آپریشن ہونا ہے تو اس کے لیے اصل امتحان سیاسی قیادت اور بالخصوص وزیر
اعظم نواز شریف کا ہوگا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا اصل امتحان یہ ہی ہوگا کہ
وہ آنے والے دنوں میں پوری قوم اور بالخصوص سیاسی قیادت کو کیسے لے کر
چلتے ہیں ۔اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں،تب آپریشن کی طرف معاملہ چلا جائے
گا۔ وہ بڑا اہم مرحلہ ہوگا۔ اس وقت سیاسی جماعتیں منقسم ہیں ۔مذہبی جماعتیں
حکومت کو باور کروارہی ہیں کہ وہ فوجی آپریشن کی غلطی نہ کرے وگرنہ اسے
سنگین نتائج برداشت کرنے ہونگے ۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ جنگ قبائلی
علاقوں سے نکل کر ملک کے شہری علاقوں میں داخل ہوگی جو حکومت کے لیے نئی
مصیبت کھڑی کرسکتی ہے ۔مذہبی جماعتیں اگرچہ ووٹ بینک کی سیاست میں کمز ور
ہیں لیکن وہ عوام کو جمع کرکے فوجی آپریشن کے خلاف باہر لاسکتی ہیں ۔ عمران
خان بھی آپریشن کے مخالف ہیں۔ عمران خان بنیادی طور پر حکومت پر کڑی تنقید
کررہے ہیں کہ اس کی سست روی سے بات چیت کا عمل سبوتاژ ہوا ۔اگر خدانخواستہ
مذاکرات ناکام ہوئے تو آپریشن کی حمایت میں رائے عامہ کو تیار کرنا ہوگا ۔
یہ کام حکومت کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا ۔ اگر عوام میں آپریشن کی
حمایت کی بڑی مہم سامنے نہیں آئی تو اس سے حکومت کی پوزیشن مزید خراب ہوگی
۔مذاکرات ہوں یا آپریشن کی آپشن کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ فوج اور
سیاسی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ تاثر کہ دونوں کی حکمت عملی
میں فرق ہے کامیابی میں رکاوٹ ہوگا۔ امریکہ میں تین برس کے بعد پاک، امریکہ
تعلقات کے حوالے سے جو مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے اس کے کیا نتائج نکلتے
ہیں ۔ امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے امریکہ کو انگیج رکھنا بھی ایک اہم
کام ہے۔ پہلے ہی حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنا کر امریکہ مذاکرات کا پورا
عمل سبوتاژ کر دیا۔ اب امریکیوں کو حکومت پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ وہ
خود چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں ان کو سپورٹ کرے اور افغان طالبان
کے ساتھ مذاکرات کرانے میں کردار ادا کرے۔ انہیں خود بھی پاکستان کو ہر
معاملے میں سپورٹ کرنا چاہیے۔ اگرچہ پچھلے چند ماہ میں مذاکرات کا عمل
ناکام ہونے کی بڑی ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے، مگرکچھ خرابی حکومتی
سطح پر بھی ہوئی ہے ۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جو تاخیر کی گئی اس سے
حکومت اور طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں بداعتمادی
بڑھی۔ایک غلطی تو حکومتی سطح سے ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ جب اے پی سی میں طالبان
کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ ہوا تو اس پر حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ تمام
جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بناتی اوراس کمیٹی میں ان جماعتوں کو خاص طو پر
موقع دیا جاتا جو مذاکرات کی حامی تھیں اور ان کی مدد سے فائدہ اٹھایا جانا
چاہیے تھا لیکن ایسا نہیںہوسکا ۔ اس لیے اب جب مذاکرات کی حامی جماعتیں
حکومت پر تنقید کرتی ہیں تو اس کا انہیں سیاسی جواز مل جاتا ہے کہ حکومت نے
انہیں کسی بھی موقع پر اے پی سی کے بعد اعتماد میں نہیں لیا۔ اب دوبارہ سے
مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے تواس بار بڑی احتیاط اور دانش سے آگے بڑھنا
ہوگا۔ اب اصل امتحان وزیر اعظم نواز شریف کا ہے ۔ وزیر اعظم کو ایک ہی وقت
میں سب فریقین کو لے کر آگے بڑھنا ہے ، کیا وہ ایسا کرسکیں گے یا کامیاب
ہونگے یہ اہم سوال ہے ۔ ٭…٭…٭ |