حالی ؔ!غالبؔ کے حقیقی شاگرد جن کے ذریعے غالبؔ شناسی کی ابتداء ہوئی

غالبؔ کی شاعری میں ماضی،حال اور مستقبل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں
از:عطاء الرحمن،مالیگائوں
غالبؔ ہمارے دور کے ہردل عزیز شاعر ہے۔غالبؔ کی شاعری بڑی پہلوداراور تہہ دار ہے۔اس میں بیک وقت دل ودماغ دونوں کوآسودہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ماضی،حال اور مستقبل ہرزمانے کی دھڑکنیں اس میں سنائی دیتی ہیں۔مرزااسداللہ خان غالب المعروف بہ مرزانوشہ،المخاطب بہ نجم الدولہ دبیرالملک اسداللہ خاں بہادر نظام جنگ،المتخلص بہ غالب درفارسی واسددرریختہ،شب ہشتم ماہ رجب 1212؍ہجری کو شہرآگرہ میں پیداہوئے۔گزرتے لمحوں نے ان کے فن کوگرآلود کرنے کے بجائے اسے اور بھی نکھاردیاہے اور اس نکھری ہوئی غالبیات کومرزاکے شاگردرشید مولا نا الطاف حسین حالیؔنے مزیدتابندگی اور بقائے دوام عطاکیاہے۔کسی بھی شخصیت کااندازہ ان کے شاگردوں کے ذریعے لگایا جاتاہے اورحقیقی شاگرد وہی ہوتاہے جو اپنے استادمحترم کی حیات کے درخشاں پہلوؤں سے دنیاکوروشناس کرائے۔یوں توغالب کے شاگردوں کی کمی نہیں ہے مگر غالب شناسی کی ابتداء حالیؔ کے ذریعے شروع ہوئی۔ حالیؔ،غالبؔ کے عزیز ترین شاگرد تھے۔جب انہوں نے 1853ء میں پہلی بار اپنے گھر والوں سے روپوش ہوکر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی میں قیام کیاتو اولین فرصت میں مرزااسداللہ غالبؔ سے ملاقات کی۔یہ وہ زمانہ تھاجب کہ دہلی میں مومنؔ،ذوقؔ،بہادرشاہ ظفرؔ،مرزاغالبؔ، صہبائی اور شیفتہ جیسے بلند پایہ شعرا،دادِ سخنوری دے رہے تھے اور حالیؔ نے مرزاغالبؔ جیسے روشن دماغ،نکتہ شناس اور یکتائے روزگار استادِ سخن کے آگے زانوے ادب تہ کیا۔حالیؔ نے غالبؔ کی خدمت میں باریابی کاتذکرہ ان الفاظ میں کیاہے۔

’’جس زمانے میں میرادلّی جاناہواتھا،مرزااسداللہ غالبؔ مرحوم کی خدمت میں اکثرجانے کااتفاق ہوتاتھا،اور اکثر ان کے اردواور فارسی دیوان کے جواشعار سمجھ میں نہ آتے تھے ان کے معنی ان سے پوچھاکرتاتھااور چندفارسی قصیدے انہوں نے مجھے پڑھائی بھی تھے۔‘‘

حالیؔ نے غالبؔ سے ان کااردواور فارسی کاکلام پڑھا۔ان کے کمال فن اور فارسی دانی کے معترف ہوئے اور غالبؔ میں انہوں نے وہ تمام خوبیاں پائیں جوان کے ادبی ذوق کی تشفی کرسکتی تھیں۔غالبؔ سے ان کے مشکل اشعار کے معانی ومطلب سمجھتے سمجھتے حالیؔ نے خوداپنے اشعار بھی اصلاح کے لئے پیش کئے۔غالبؔ عام طور پر لوگوں کوشاعری کامشورہ کم دیاکرتے تھے۔لیکن حالیؔ کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے۔

’’اگرچہ میں کسی کوفکر شعر کی اصلاح نہیں دیاکرتالیکن تمہاری نسبت میرایہ خیال ہے کہ اگرتم شعرنہ کہوگے تواپنی طبیعت پرسخت ظلم کروگے۔‘‘

حالیؔ کوئی ڈیڑھ برس تک دلی میں قیام کرنے کے بعد گھروالوں کے اصرار پر 1855ء میں پانی پت واپس چلے آئے۔بظاہر وہ غالبؔ سے دور رہے لیکن تعلقِ خاطربرابر رہا،بعد میں وہ جہانگیر آباد میں شیفتہؔ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے اور وہیں رہنے لگے لیکن غالبؔ سے عقیدت اور محبت کی وجہ سے ان سے ملاقات کی غرض سے دلی جایاکرتے تھے۔

٭یادگارِ غالب:غالبؔ سے حالیؔ کاتعلق کوئی دس بارہ برس رہا۔اس عرصہ میں انہوں نے غالبؔ سے بہت کچھ استفادہ کیا۔بعد میں انہوں نے ’’یادگارِ غالب‘‘کے نام سے ایک سوانح عمری لکھ کرغالبؔ کی شخصیت اور ان کی شاعری کوادبی حلقوں میں اس طرح روشناس کروایا کہ ایک دنیا،غالبؔ کی معترف ہوگئی۔یادگارِ غالبؔ کو اردوکی پہلی باقاعدہ سوانحی کتاب قراردیاجاتاہے۔یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جوغالبؔ کواچھی طرح جانتاتھا اور اس زمانے کے دہلی کے ادبی،تہذیبی اور تاریخی حالات سے بخوبی واقف تھا۔حالیؔ کو مرزاغالبؔ سے شاگردی کی نسبت حاصل تھی اور اس طرح تعلقِ خاطراور ہمدردی کاوہ جذبہ بھی موجودتھا جس کے بغیر اچھی سوانحی عمری نہیں لکھی جاسکتی اور مختلف حالات کوصحیح پس منظرمیں نہیں دیکھا جاسکتا۔یہ کتاب سوانحی تذکرے اور عملی تنقیدکا ایک مرکب ہے،اس میں حالیؔ نے غالبؔ کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی شعری وادبی خوبیوں کوبھی اجاگرکیاہے۔حالیؔ نے سوانحی موادیکجاکرنے اور انہیں توازن کے ساتھ پیش کرنے میں سائنسی نقطۂ نظراپنایاہے۔اس سلسلے میں غالبؔ کے خطوط اور ان کے قریبی دوستوں سے مدد لی ہے۔یادگار غالب کاتنقیدی حصہ کافی اہم ہے۔اس کتاب سے غالب شناسی کی ابتداء ہوئی۔اس طرح یہ غالب کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں حالیؔ جیساشاگردنصیب ہوا۔جس نے ان کے خطوط کی ادبی اہمیت اور ان کی شعری صلاحیت کوپرکھ کر ان کی شعری وادبی شخصیت کودنیاکے سامنے بہترین انداز میں پیش کیا۔(شعوروفن،ص؍278)

٭مرثیہ غالبؔ:1869ء میں جب غالبؔ کاانتقال ہواتواس وقت حالیؔ دلی میں موجود تھے۔انہیں غالبؔ سے بے انتہا محبت اور عقیدت تھی۔وہ غالبؔ کے فکروفن اور ان کی شخصیت کے گرویدہ تھے۔اس لیے غالبؔ کی موت فطری طورپران کے لیے ایک بڑاشخصی صدمہ تھی۔غالبؔ کی وفات پرکہاہوامرثیہ ان کے قلبی واردات کی ترجمانی کرتاہے اور حقیقت نگاری اور اثرانگیزی کے اعتبار سے یہ اردوکے منتخب شخصی مرثیوں میں شمارکیاجاتاہے۔چنانچہ ڈاکٹرفخرالاسلام اعظمی لکھتے ہیں:
’’حالیؔ نے یہ مرثیہ لکھ کر مرثیہ نگاری کی بہترین مثال قائم کی ہے اور اردوشاعری میں شخصی مرثیہ نگاری کورواج دیاہے۔اس مرثیہ میں حالیؔ کا فن اپنے عروج پرہے۔یہ مرثیہ پاکیزہ لب ولہجہ،زبان کی شیرینی اور پُرخلوص جذبۂ عقیدت کے اظہار کابہترین نمونہ ہے۔اس مرثیہ میں حالیؔ کے سماجی شعور اور قومی درد کی جھلک نمایاںہے۔حالیؔ نے غالبؔ کی موت پر اپنے ذاتی غم سے زیادہ اس قومی نقصان پر اپنے غم کااظہارکیاہے جوقوم کوغالب جیسے نکتہ رس شاعر،فلسفی،دانشور اور شریف انسان کی موت کی وجہ سے اٹھانا پڑا ہے ۔اس مرثیہ میں انہوں نے غالبؔ کی شخصیت کویوں ابھاراہے کہ ہندوستان کاادبی،سماجی اور تہذیبی پس منظر روشن ہوجاتاہے‘‘۔(ادب نما،ص؍119)

مرثیہ غالب کے متعلق شائستہ نوشیں لکھتی ہیں:
’’حالیؔنے کل پانچ مرثیے لکھے۔جس میں مرثیہ غالب ان کا سب سے کامیاب اور ہردل عزیز شخصی مرثیہ ہے۔غالبؔ جوحالیؔ کے استاد تھے۔حالیؔ کوغالبؔ کوقریب سے دیکھنے کاموقع ملا تھا۔حالیؔ کواپنے استاد سے لگائوتھا۔غالبؔ کی موت سے حالیؔ کے دل پر بہت اثرہوااور اب سچے جذبات کی ترجمانی انہوں نے مرثیہ لکھ کرکی۔دل پر بیتے ہوئے دردکوحالیؔ نے شعروں میں ڈھال دیا۔اس مرثیہ میں کل دس بند ہے۔حالیؔ نے اپنے استاد غالب ؔ کے اخلاق،کرادر اور اوصاف کی تعریف کی ہے۔ان کی خوبیوں کاذکر اور ان سب کے چھن جانے کابین کیاہے۔حالیؔ کے مطابق غالبؔ سے دلی میں رونق تھی کیونکہ غالب کی شاعری ان کی زندگی اور ان کے شہر کاآئینہ تھی۔
کس کوجاکر سنائیں شعروغزل
کس سے دادِ سخن وری پائیں
لائیں گے پھرکہاں سے غالب کو
سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731640 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More