اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃاللہ علی

۱۰ شوال۱۲۷۲ھ ؁ بمطابق 14جون 185ء ؁ 18 جیٹھ سدی 1913 ؁سمبت کو جب حقیقی سورج اپنے عروج پر تھااِدھر غیر مسلم مذاہب و ادیان کی اسلام مخالف پروان چڑھ رہیں تھیں بعینہ اُسی وقت ہر فرعون کے مقابلے میں موسوی، ہر نمرود کے مقابلے میں ابراہیمی اور ہر یزیدکے مقابلے میں حسینی کردار کے وارث اپنے وقت کے علامہ ابن علامہ مولانا نقی علی خان ابن علامہ رضا علی خان کے گھر ایک ایسا سورج طلوع ہوا جسکو عروج ہی عروج تھا اور جس نے غیر مسلم لٹریچر کے سورج کو گہن لگا دیا آپ کا سن ولادت اس آیتہ کریمۃ سے واضح ہے ۔
او لٰئک کتب فی قلوب ھم الایمان واید ھم بروح منھم
(یہ وہ لوگ ہیں جنکے دلوں میں اللہ تعالٰٰی نے ایمان نقش فرما دیااور اپنی طرف سے روح القدس کے ساتھ ان کی مدد فرما ئی)

نام:
آپکے دادا نے آپ کا نام احمد رکھا جبکہ آپ نے اپنا تاریخی نام المختار پسندکیا ۔

کنیت:
آپ نے اپنی کنیت عبدالمصطفٰے رکھی۔

حسب و نسب :
آپ کی والدہ محترمہ کا نام حسینی خانم ہے آپکی دو بہنیں اور دو بھا ئی ہیں ۱:حسن رضا ۲:محمدر ضا
آپ کے آباؤ اجداد سعید الدین،نادر شاہ کے ساتھ مغلیہ دور میں افغا نستا ن سے دہلی منتقل ہوئے اور یہاں شش ہزاری منصب (فوج میں وہ عہدیدار جس کے تحت چھ ہزار جوان ہوں)پر فائز ہوئے لاہور کا شیش محل بھی آپ ہی کی جاگیر تھابعد میں دہلی سے ہجرت کر کے بریلی تشریف لے گئے جہاں اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان (رحمتہ اللہ علیہ) کی ولادت ہوئی۔

تعلیم و تربیت:
آپ کی خداداد علمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے علمی سوالات کی بناء پر آپ کے استاذ محترم نے ایک بار پوچھ ہی لیا کہ’’ او بابا جن ہو یا انسان‘‘

آپ کی خداداد ذہنیت کہ چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مکمل کر لیا چھ سال کی عمر میں بریلی میں منعقدہ محفل میلاد مصطفی ﷺ کے سلسلہ میں پروگرام کے اندر میلاد مصطفی ﷺکے موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا پھر ۱۴ شعبان المعظم کو ۱۳ سال دس ماہ ۴سال کی عمر میں آپ نے علومِ عقلیہ و نقلیہ سیکھ کر اپنے زنوائے تلمذ کے دؤر کو ختم کیا جسکے بارے میں آپکی والدہ مرحومہ فرماتی ہیں کہ آپ نے کوئی بھی کتاب ربع سے زیادہ کسی بھی استاذ کے پاس نہ پڑھی بلکہ باقی خود حل کر کے سنائی۔

فتویٰ نویسی:
اسی دن پہلا فتویٰ ددے کر فتاویٰ نویسی کا آغاز کر دیا اور جو پہلا فتویٰ دیا وہ مسئلہ یہ ہے۔
سوال: اگر بچے کے ناک میں کسی طرح دودھ چڑھ جائے اور حلق میں پہنچ گیا تو کیا حکم ہو گا؟
جواب: منہ یا ناک سے جو دودھ حلق میں اترے گا حرمت رضاعت لائے گا ۔
اس علمی و تحقیقی جواب پر آپکو آپکے والد محترم نے شرینی کھانے کے لیے ایک روپیہ دیا ۔

اساتذہ:
آپ (رحمۃاللہ علیہ )نے دور طالب علمی میں پانچ اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذبچھائے۔
۱ : پیر طریقت سید آل رسول مارہروی ۲: والد ماجد علامہ مولانا نقی علی خان
۳: مولانا شاہ ابو الحسن احمد نوری ۴: مولانا عبدالعلی رامپوری
۵: مولانا غلام قادر بیگ (رحمۃاللہ علیہم)

رشتہ ازدواج واولاد:
۱۲۹۱ھ ؁ بمطابق۱۸۷۲ء ؁کو ۱۹ سال کی عمر میں آپ کا رشتہ ازدواج ارشاد بیگم کے ساتھ ہواآپکے دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں جنکی ترتیبِ ولادت یہ ہے۔
۱: مولانا حامد رضا خان ملقب بلقب حجۃالاسلام
۲: کنیز حسن المعروف منجھلی بیگم
۳: محترمہ مصطفائی بیگم
۴: محترمہ کنیز حسن المعروف چھوٹی بیگم
۵: محترمہ کنیز حسنین المعروف سنبھلی بیگم
۶: مولانا مصطفی رضا خان ملقب بلقب مفتی اعظم
۷: محترمہ مرتضائی بیگم المعروف چھو ٹی بنو

سلسلہ ارادت و طریقت :
۱۲۹۴ھ ؁بمطابق ۱۸۷۵ء ؁کو بغرض بیعت آپ اپنے والد محترم کے ہمراہ کاشانۂِ مرشد میں حاضر ہوئے اور وہاں کے سجادہ نشین حضرت آلِ رسول مارہروی (علیہ رحمۃالرحمن )کے دستِ حق پرست پر نہ صرف بیعت کی بلکہ مندرکہ ذیل ۱۳ سلاسل میں اجازت لیکر لوٹے۔
۱: سلسلہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ ۲: سلسلہ قادریہ آبائیہ قدیمہ
۳: سلسلہ قادریہ الھدیہ ۴: سلسلہ قادریہ رزاقیہ
۴: سلسلہ قادریہ منوریہ ۶: سلسلہ چشتیہ محبوبہ جدیدہ
۷: سلسلہ چشتیہ نظامیہ قدیمہ ۸: سلسلہ سہروردیہ واحدیہ
۹: سلسلہ سہروردیہ فضلیہ ۱۰: سلسلہ علویہ منائیہ
۱۱: سلسلہ بدیعیہ مداریہ ۱۲: سلسلہ نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ
۱۳: سلسلہ نقشبندیہ علائیہ علویہ

زیارت حرمین شریفین:
آپ ۱۲۹۵ھ ؁میں اپنے والد محترم کیساتھ زیارت حرمین شریفین ،طواف کعبہ اور حج وعمرہ کے لیے حجازمقدس کی طرف سفر کیا ایک دن حرم مکہ میں مغرب کے بعد حاضر تھے کہ امام شافعیہ حسین ابن صالح بغیر کسی سابقہ تعارف کے آپکی انگلی پکڑی اور گھر لے گئے پھر کافی دیر پیشانی پر ہاتھ رکھنے کے بعد فرمایا’’انی لااجدنوراللہ من ھٰذاالجبین ‘‘(بیشک میں اس پیشانی سے اللہ کا نور پاتا ہوں) چنانچہ سلسلہ قادریہ کی سند اپنے دستخط خاص کے ساتھ عطا فرمائی نیز صحاح ستہ کی بھی سند مرحمت فرمائی اس سند کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ اس سند میں امام بخاری تک صرف گیارہ واسطے تھے۔

مجددِ ماءۃِ حاضرۃ:
۱۳۱۸ھ ؁ بمطابق ۱۹۰۰ء ؁ کو پٹنہ کے مقام پر عظیم الشان فقید المثال جلسہ عام میں آپکو علماء برصغیرہند کی موجودگی میں’’ مجددِ ماءۃِ حاضرۃ‘‘ کا لقب دیا گیا جسکی تائید ہندوستان کے تمام علماء نے متفقہ طور پر کی۔

زیارت حرمین شریفین با رِدوم:
۱۳۲۳ھ ؁بمطابق ۱۹۰۵ء ؁ کو آپ نے دوسری مرتبہ بغرض حجِ بیعت اللہ وزیارتِ گنبدِ خضراء حرمین شریفین کی طرف سفر کیا اس مرتبہ تین (۳) اہم کارنامے منظرعام پر آئے ۔
۱: بحالت بیداری آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔
۲: ۲۵ ذی الحجہ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علماء نجد کی طرف سے آقا علیہ الصلوٰۃو السلام کے علمِ غیب کے متعلق پانچ سوالات کے جواب میں شدتِ بخار کے باوجود بغیر کسی محاضر کتب کے صرف آٹھ (۸) گھنٹوں میں عربی زبان کے اندر ایک کتاب موسوم بہ الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ لکھی جس پر علماء عرب نے نہ صرف داد سے نوازا بلکہ شریفِ مکہ نے وہ کتاب سطر بسطر لفظ بلفظ سماعت کی۔
۳: علماء عرب نے آپ کو ’’مجددِ ماءۃِ حاضرۃ‘‘ کے لقب سے نوازا۔

نعتیہ کلام:
۱۳۲۵ھ ؁ بمطابق ۱۹۰۶ء ؁کو اعلیٰحضرت (رحمۃاللہ علیہ)نے ایک عظیم الشان نعتیہ مجموعہ موسوم بہ ’’حدائق بخشش‘‘ تحریر فرمائی جسکے فنی کمالات کو آج تک کوئی بھی شاعر نہ پہنچ سکا۔

ترجمۃ القرآن:
۱۳۳۰ھ ؁ بمطابق ۱۹۱۲ء ؁کو اعلیٰحضرت نے عشق و محبت میں ڈو ب کر قرآن مجید کا تاریخی ترجمہ کیا جسکا نام ’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ رکھا جس میں صرفی ، نحوی ، اور لغوی قوانین کو مد نظر رکھا گیا اسکی املاء صاحب بہار شریعت مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ)نے کی ، فرماتے ہیں کہ آپ رحمۃاللہ علیہ یوں لکھواتے جیسے شاید کسی کتاب سے پڑھ رہے ہوں یا کسی سے سن رہے ہوں۔

خبرِ وصال:
اعلیٰحضرت مجددِدین و ملت (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے وصال باکمال پرملال سے ۴ماہ ۲۲ دن قبل ہی اس آیۃِ کریمۃ سے اپنے وصال کی خبر دی۔
یطاف علیہم باٰ نیۃمن فضۃواکواب

وصال پر ملال:
پھر یوں ہی ہوا کہ ۲۵ صفر المظفر ۱۳۳۰ھ ؁بمطابق ۱۹۲۱ء ؁کو بروز جمعۃ المبارک ۲ بجکر ۳۷ منٹ پر جب مؤذن نے کہا حی علیٰ الفلاح ’’آؤ کامیابی کی طرف ‘‘تو ادہراعلیٰحضرت عظیم البرکت کی روح اقدس مسلسل کئی سال تک محنت کرنے کے بعد کامیابی کی طرف بڑھنے لگی اور اس آیۃِ کریمۃ کا مصداق بن گئی۔
یا ایھا النفس المطمئنہ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ

القابات:
آپ کی حیاتِ مبارکہ میں علماء عرب وعجم نے جن القابات سے آپ کو نوازا ان میں سے کچھ قرأتِ قارئین کے لیے درج ذیل ہے۔
عالمِِِِ اہلسنت ،امام و پیشوا، استاذِ معظم،سیدنا،مرشد ،یکتائے زمانہ ، اپنے وقت کا یگانہ، ان فتنوں کے زمانے میں دینِ متین کو زندہ کرنے والا،آفتابِ معرفت ،علمِ کلام و فقہ و فرائض پہ حاوی ،عربیت و حساب کا ماہر، منطق کا دریا ،مسلمانون کا یاور،بے دینوں کی زبانیں کاٹنے والا، ایمان کے روشن ستون کو بلند کرنے والا ، مجاہد و بے نظیر ، محقق ومدقق ، مجددِ ماءۃِحاضرۃ

تصانیف:
آپ (رحمۃاللہ علیہ) کی ویسے تو ایک ہزار(۱۰۰۰) سے بھی زائد تصانیف ہیں لیکن عربی ،فارسی،اردو ، ہندی میں مختلف فنون پر آپ کی ۵۵۰ سے زائد کتب کے نام منظر عام پر آچکے ہیں۔

خلفا ء و تلامذہ:
حرمین شریفین میں آپ کے ۳۵ خلفاء و تلامذہ ہیں اور برصغیر میں آپکے ۶۶ خلفاء ہیں جبکہ تلامذہ کی تعداد غیر متناہی ہے۔

علوم:
ویسے تو اعلیٰحضرت کو جاری تحقیق کے مطابق ۲۶۵ سے زائد علوم پر دسترسِ کاملہ حاصل تھی لیکن یہاں ان میں سے کچھ قارئین کرام کے لیے پیش ہیں۔
(۱)تفسیر(۲)اصولِ تفسیر (۳)حدیث(۴)اصولِ حدیث(۵)فقہ(۶)اصولِ فقہ (۷)کلام (۸)تصوف (۹)سیرت (۱۰)تاریخ(۱۱)سوانح(۱۲)معانی(۱۳)بیان(۱۴)بدیع (۱۵)عروض (۱۶)ریاضی(۱۷)توقیت(۱۸) منطق (۱۹)فلسفہ (۲۰)طب ( ۲۱)علمِ جفر (۲۲)تکسیر (۲۳)رنجانی (۲۴)جبرو مقابلہ (۲۵)لوگارتھم(۲۶)جیو میٹری(۲۷)مثلث کردی(۲۸)سائنس (۲۹)کیمسٹری (۳۰)بائیولوجی(۳۱)فزکس (۳۲) مربع (۳۳)ہیئت(۳۴)جد(۳۵)مناظرہ (۳۶)صرف (۳۷) نحو (۳۸)تجوید (۳۹)قرأت (۴۰)اخلاق (۴۱)اسماء الرجال(۴۲)نعت (۴۳)ادب (۴۴)ارثما طبقی(۴۵)مرایا (۴۶) علم الاکر (۴۷)زیجات (۴۸) مثلث مسطح (۴۹)زائجہ (۵۰)علم الفرائض (۵۱) اوفاق (۵۲) نظم و نثر عربی (۵۳) نظم و نثر فارسی (۵۴)نظم و نثر اردو(۵۵)نظم و نثر ہندی (۵۶)خط نستعلیق(۵۷)خط نسخ (۵۸)طبیعات (۵۹)ارضیات(۶۰)صوتیات (۶۱)ترغیب وترہیب (۶۲)فضائل (۶۳)کیمیاء (۶۴) حرکت (۶۵)اکسیر (۶۶)اقلیدس (۶۷) علم الاعداد (۶۸) حیوانات (۶۹) معد نیات (۷۰)سلوک (۷۱)رمل (۷۲)جنسیات (۷۳) حشریات (۷۴)موسمیات ( ۷۵)وبائیات
M Husnain Raza
About the Author: M Husnain Raza Read More Articles by M Husnain Raza: 5 Articles with 15828 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.