معمولی نزلہ زکام میں مبتلا بچے کو ڈاکٹر
کے پاس لے جایا جائے اور معائنہ کر کے ڈاکٹر سند جاری کر دے کہ بچے کے دل
میں سوراخ ہے، تو تصور کیجیے کہ اس کے ماں باپ کے دل پر کیا گزرے گی، جب کہ
بچہ ہنستا کھیلتا بھاگتا دوڑتا ہے اور جسمانی طور پر بہ ظاہر مکمل صحت مند
اور چست و توانا نظر آتا ہے۔ عموماً دل میں سوراخ ہونے کی صورت میں بچے کا
وزن عمر کے مقابلے میں کم ہو جاتا ہے اور وہ کھیل کود میں زیادہ حصہ نہیں
لے سکتا۔ لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہمارے عزیز کراچی کے ایک بہت بڑے
اسپتال میں موسمی بخار کی دوا لینے اپنی بچی کو لے کر گئے تھے۔ ڈاکٹر کی
فیس بھی بہت تھی اور وہ کراچی کے ایک مشہور ڈاکٹر تھے۔ بچی کا معائنہ کرتے
ہی کہا گیا کہ ہمیں ڈر ہے کہ اس کے دل میں سوراخ ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ تشخیص
کرنے والے ڈاکٹر نے ایک اسپتال اور ایک دوسرے ڈاکٹر کا نام لکھ کر پرچہ
ہاتھ میں تھما دیا کہ ان کے پاس جائیے اور وہاں یہ پرچہ دیجیے گا۔ پرچے پر
بچی کے سینے کے ایکسرے، ECHO اور ECG کے ٹیسٹ لکھے گئے تھے۔
ہمارے عزیز روتے پیٹتے ماتم کرتے گھر پہنچے تو سارا گھر سوگوار ہو گیا۔
ٹیسٹ کروانے کے لیے سوچا گیا کہ گھر کے قریب موجود لیب سے رجوع کیا جائے۔
وہاں جا کر معلومات کیں تو پتہ چلا کہ یہ ٹیسٹ ان کی اس برانچ میں نہیں
ہوتے دوسری برانچ میں ہوتے ہیں۔ جب وہاں پہنچے تو لیبارٹری کے اہل کار نے
بچی کی عمر چار سال ٹائپ کرتے ہی کہا کہ بچے کا ECHO ہم نہیں کر سکتے۔ یہ
سہولت یا تو جناح اسپتال میں میسّر ہے یا اس اسپتال جائیے جس کی پرچی آپ
کے ڈاکٹر نے بنا کر دی ہے۔
غم زدہ اور پریشان حال ماں باپ بچی کو لے کر جناح اسپتال پہنچے، وہاں لگی
لمبی قطار میں بیٹھنا ان کے لیے ایک تکلیف دہ عمل تھا، لہٰذا انھوں نے اس
اسپتال کا رخ کیا جس کا نام ڈاکٹر نے اپنے دستخط شدہ پرچے پر لکھ کر دیا
تھا۔ اس اسپتال میں ٹیسٹ کروایا گیا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ کے ساتھ بچی کے والدین
کے ہاتھ میں تشخیص کرنے والے ڈاکٹر کے نام ایک خط بھی تھما دیا گیا۔ رپورٹ
میں کیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں ECHO کرنے والے ڈاکٹر نے اطمینان سے جواب
دیا She is all right، آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہے۔
اپنی بیٹی کی صحت یابی کی اطلاع پر ہمارے عزیز اور ان کی اہلیہ نے سجدۂ
شکر ادا کیا۔ لیکن انھیں ڈاکٹر کے بلاوجہ ڈرانے اور اس کی وجہ سے پریشانی
اٹھانے پر غصہ بھی آ رہا تھا۔ لہٰذا اخلاقی اقدار کو ایک طرف رکھتے ہوئے
اسپتال سے ڈاکٹر کو بھیجے جانے والا خط کھول لیا گیا۔ خط پڑھتے ہی یہ حیران
کُن حقیقت سامنے آئی کہ نہایت پُرخلوص جذبات پر مبنی کلمات کے ساتھ مریض
کو مذکورہ اسپتال ریفر کرنے پر ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ یعنی یہ
سارا کھیل اس کمیشن کا تھا جو ٹیسٹ کروانے پر اس اسپتال سے ڈاکٹر کو ملنا
تھا۔ کمیشن دینے اور لینے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کمیشن کی
خاطر کسی فرد یا خاندان کو کس حد تک ذہنی کرنا پڑا، کسے فکر ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دو مزید ایسے کیسز ہمارے سامنے آئے کہ بچے کے دل
میں سوراخ تشخیص یا ایسا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا، مگر پھر حقیقت کھلی
کہ سارا چکر کمیشن کا تھا۔
میں نے اس سلسلے میں تحقیق کرنے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتی ہوں صاحب کہ
تحقیق کی تو ضرورت ہی نہیں سارے کھاتے سامنے ہی ہیں۔ درونِ خانہ معاملات کی
کھوج کیا لگائی جائے، یہاں تو لیبارٹریز، اسپتال، میڈیکل اسٹورز، ڈاکٹر۔۔۔۔
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
عباسی شہید اسپتال ناظم آباد کے اطراف میں کئی لیبارٹریز کام کر رہی ہیں۔
ان میں سے ایک لیب میں جا کر میں نے پوچھا، ’’بھائی! یہاں کی رپورٹس قابل
اعتبار ہوتی ہیں نا؟‘‘ تو وہاں موجود عملے میں سے ایک لڑکے نے اس انداز میں
جواب دیا جیسے میں لان کا سوٹ خریدنے کسی دکان پر آئی ہوں اور وہ سیلز مین
ہے، ’’باجی! آپ فکر ہی نہ کریں۔ ہمارے یہاں ٹیسٹ کے لیے دوسری بہترین
کوالٹی کا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم گھٹیا کوالٹی کا کیمیکل استعمال
نہیں کرتے۔‘‘
میرے لیے یہ حیران کُن بات تھی۔ جانچ کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل تو
کیمیکل ہوتا ہے۔ یہ پہلا، دوسرا اور تیسرا کیا ہوا؟
بہرحال جس طرح کی بھی لیبارٹری ہو اس میں رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس
لیب میں، میں موجود تھی اس کا بھی یہی حال تھا۔ لوگ دور دور سے مطلوبہ لیب
کو ڈھونڈتے وہاں پہنچے تھے۔ وجہ وہی ہے کہ ان کے ڈاکٹر ان سے اس لیب ہی سے
ٹیسٹ کروانے کو کہا تھا، کسی اور لیب کا ٹیسٹ وہ قبول ہی نہیں کرتے۔ وہی
کمیشن یہاں بھی کارفرما نظر آیا۔
کراچی سمیت پورے سندھ میں سیکڑوں غیرقانونی لیبارٹریز کام کر رہی ہیں، جو
بیماریوں کی درست تشخیص کی اہم نہیں۔ اس سلسلے میں کوئی مناسب قانون بنایا
ہی نہیں گیا تو ناقص سامان پر مبنی یا غیرقانونی لیبارٹریز کو قائم ہونے سے
کیسے روکا جا سکتا ہے۔ سندھ بھر میں بیماریوں کو تشخیص کرنے کی رجسٹریشن کا
کوئی قانون موجود نہیں، جب کہ صرف کراچی میں قائم ایک ہزار سے زاید
لیبارٹریز کا معیار جانچنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں۔
شہر کے گلی محلوں میں قائم چھوٹی لیبارٹریز کو چلانے والے بیشتر افراد
پیتھالوجسٹ نہیں۔ بیشتر لیبارٹریز کو ٹیکنیشنز چلا رہے ہیں اور ان کا عملہ
بھی غیر تربیت یافتہ ہے۔ اور پھر ان میں موجود تجزیاتی سامان اور کیمیکلز
وغیرہ کا غیرمعیاری ہونا، اس صورت حال نے غلط ٹیسٹ رپورٹس کی صورت میں
مریضوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ کون سی لیبارٹری کس معیار کی ہے اور قانونی ہے یا
غیرقانونی، ہر لیب مختلف ٹیسٹس کے لیے مختلف رقوم وصول کرتی ہے اور ایسا
کوئی ذریعے، اصول اور ضابطہ نہیں جس سے شہری یہ جان سکیں کہ کسی مخصوص ٹیسٹ
کے لیے جو رقم دینا پڑ رہی ہے وہ کس بنا پر دینا پڑ رہی ہے۔ یعنی ٹیسٹس کے
معاوضوں میں جو فرق ہے اس کی وجہ کیا ہے، کیوں ایک ٹیسٹ پانچ سو میں ہوتا
ہے اور دوسرا کئی ہزار میں؟
دوسری طرف ڈاکٹر بلاضرورت ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں، کیوں کہ انھیں اس کا کمیشن
ملتا ہے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ وہ شعبہ جس کا کام مسیحائی ہے، زندگی بچانا
اور صحت کا تحفظ ہے، وہی ہماری آپ کی جان کا دشمن ٹھہرا۔ اس شعبے سے کیا
گلہ کریں کہ جس سماج میں پیسہ ہی سب سے بڑی قدر بن چکا ہو وہاں انسانیت اور
اخلاقی اقدار کی کون سنتا ہے، مگر عوام کے جان و مال کی محافظ حکومت کیا کر
رہی ہے۔ لیبارٹریوں کا معیار مقرر کرنے، انھیں اس معیار کا پابند بنانے اور
کمیشن کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے حکومت کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟ یہ
اہم مسئلہ قانون بنانے والوں اور متعلقہ اداروں کی توجہ کا طلب گار ہے۔ |