پاکستان کے محافظوں کی بدعنوانیاں

پاکستان میں جہاں معیشت دیوالیہ پن کا شکارہو اور نظام انہدام کی جانب تیزی سے بڑھ رہاہو وہاں نظریات سے عاری سیاست کا اخلاقی اور سماجی گراوٹ کی انتہاؤں کو چھونا غیر معمولی نہیں ۔قبضہ گروپوں،بھتہ مافیا،پولیس تشدد اور بدعنوانی کی سرپرستی کرنے والے سیاست دان آج کھلم کھلا سیاست کے نام پر بر بریت پھیلارہے ہیں۔اگر چہ میڈیا میں غضب ناک سیاسی لفاظی اوربحثوں کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کا سیاسی شوروغوغہ عروج پر ہے لیکن عام عوام سیاست سے بالکل لاتعلق ہیں ۔اس ہنگامے میں عوام گہرے سکوت میں ہیں۔اور ایسابے سبب نہیں۔حل تودرکنار،سماج پر مسلط شدہ سیاسی بحثوں میں عوام کو درپیش مسائل ،ان پر ڈھائے جانے والے مصائب اور ان کی تکالیف کی کوئی آواز ہی نہیں۔ان کے متعلق کو ئی گفتگو ہی نہیں ۔لیکن حکمران اس وقتی جمودکوابدی سمجھ بیٹھے ہیں اور سطح کے نیچے اضطراب بڑھتا جارہاہے۔سرمایہ دارنہ نظام کے بچاری منصوبہ سازوں کے پاس اس بحران سے جنم لینے والے معاشی زوال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔درحقیقت انہوں نے اس معاشی تنزلی کو اس کے حال پر چھوڑدیا ہے ۔وہ دن گئے جب معاشی ماہرین معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے کی راہ پر لانے اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کم از کم کوشش ضرورکیا کرتے تھے لیکن اس مایوسی کے عالم میں وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تباہ کن نسخوں کو آنکھیں بند کیے لاگو کرہے ہیں ۔درحقیقت نکاری ،ڈی ریگولیشن،ری سٹرکچرنگ، لبرلائی زیشن اور کٹوتیوں کی پالیسیاں سماج کو برباد کرنے والی معاشی ابتری کو حل کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کررہی ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں کے مطابق حکومت پنجاب نے پولیس کے لیے ساڑھے ستر ارب روپے سے زائد کے بجٹ کی منظوری دی گئی۔ نو کروڑ سے زائد آبادی والے اس صوبے کے ایک شہری کی سکیورٹی پر سالانہ چھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں،جو ایک شہری کے تحفظ کیلئے ماہانہ ستاون سے اٹھاون روپے بنتے ہیں۔ پولیس افسران کا کہناہے کہ اتنے کم بجٹ میں تھانہ کلچر کی تبدیلی بہت مشکل ہے۔پنجاب پولیس کو بجٹ میں دیئے جانے والے ساڑھے ستر ارب روپے میں سے اکسٹھ ارب روپے سے زائد ملازمین کی تنخواہوں کے بنتے ہیں،باقی ساڑھے نو ارب میں ملازمین کی یونیفارم پر اکتیس کروڑ اکہتر لاکھ چھ ہزار روپے ، اسٹیشنری کے لیے چودہ کروڑ چونسٹھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے،گیس،پانی اور بجلی کے بلوں کے لیے ایک کروڑ باسٹھ لاکھ بارہ ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں،امن وامان کی صورتحال یا پھر پولیس اسٹیشنوں کی خستہ حالی کو بہتر بنانے کے لیے صرف چار کروڑ دس لاکھ پینتیس ہزار روپے خرچ ہونگے۔صوبے میں آئی ٹی کا جال بچھانے کا دعویٰ کرنیوالے وزیر اعلیٰ نے محکمہ پولیس میں کمپیوٹر اور اس کے آلات خریدنے کے لیے صرف تین لاکھ تیرہ ہزار روپے مختص کیے ہیں۔

دوسری جانب تھانہ کلچر کی تبدیلی تقریروں اور بلند بانگ دعوؤں کے باوجود پنجاب پولیس کی کاردگردکی کچھ یو ں رہی ہے۔ محکمہ پولیس کی پھرتیاں کھربوں روپے کا آتشیں خودکاراسلحہ ،ہینڈ گرنیڈ اوردیگر اسلحہ، منشیات اور برآمد کی گئی 1کھرب 91ارب 8کروڑروپے نقدرقم کا تاحال اندراج نہ ہوسکا اور نہ ہی مال خانہ میں جمع کروائے ۔خردبرد چھپانے کے لئے محکمہ داخلہ کی ملکیت مال خانہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے بغیرہدایات کے ازخودسیل کردیا محکمہ داخلہ کو رسائی نہیں دی جارہی۔پنجاب حکومت نے رپورٹ تیارکرلی۔تیارکی گئی رپورٹ کے مطابق 2011ء سے تاحال مختلف گینگز،دہشت گردوں سے اور سمگلنگ کے دوران اربوں روپے کا آتشیں، آٹومیٹک اور دیگر اسلحہ ضبط کیا گیا لیکن ابھی تک اس کا نہ تو اندراج کیا گیا ہے اور نہ ہی مال خانہ میں جمع کروایاگیاہے۔اس اسلحہ میں ہینڈ گرنیڈ تعداد3ہزار 543 ،کلاشنکوف تعداد5ہزار281،رائفلز تعداد48ہزار47 ،گنز73ہزار 693 ،ریوالور/پسٹلز تعداد3لاکھ52ہزار487،کاربین تعداد53ہزار739 ، کارتوس تعداد31ہزار527 اورشارپ ایج وپین تعداد18ہزار965،ازی طر ح نارکوٹیکس کی ضبط کی گئی منشیات کا بھی اندراج نہیں ہو اجس ہیروین7ہزار912کلوگرام ،افیون7ہزار340کلوگرام، چرس1لاکھ39ہزار908کلوگرام،شراب کی26 لاکھ68ہزار 885بوتلیں،لاہن سیزڈ،15لاکھ43ہزار826لیٹر،مارفین سیزڈ،3لاکھ 21ہزار342لیٹر شامل ہیں۔محکمہ داخلہ کی اس خفیہ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ مختلف گینگ پکڑنے پر ان سے برآمد کی گئی 1لا کھ 91ہزار80ملین روپے رقم کا بھی ابھی تک اندراج نہیں کیا گیا۔

لینن نے کہا تھاکہ ’’سیاست معیشت کا نچوڑہوتی ہے‘‘ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اس کی معاشی بنیادوں کا عکس ہے ۔معاشی بنیادوں کے پر انتشار اور مہلک کردار کا نتیجہ بے قاعدگی سے باقاعدہ سیاسی ہیجانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے جن میں زیادہ تر دائیں بازو کے نعرہ باز پیٹی بورژوازی اور سماج کی پسماندہ پرتوں کے کچھ حصوں کو وقتی طور پر متحرک کرنے کے بعد گوشہ گمنامی میں کھوجاتے ہیں ۔حکومت میں شامل اتحادی اوراپوزیشن ایک دوسرے پر بے سروپاالزامات لگا کر موجودہ کیفیت کو برقرارکھنے کی کو شش میں ہیں جس میں وہ بے پناہ دولت کمارہے ہیں ان کے ہاتھوں مجبور عوام پر لگنے والے زخموں سے پرواہ ہیں ۔وہ بہت تنزی سے مال لوٹنے میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں اپنے معاشی نظام کے مستقبل پر کوئی بھروسہ نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم محافظوں کی بدعنوانیاں کا احتساب کو ن کریگا۔جب تمام سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہو تو اختلافات وہی ہو سکتے ہیں جو آج کل نظرآتے ہیں ۔کراچی میں مختلف سیاسی قوتوں کا اختلاف بھتہ اکٹھا کرنے،زمینوں پرناجائزقبضے،اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں حصے کی وصولی اور سرکاری عقم کی بندربانٹ پر ہے ریاست کے تمام ادارے اتنے کمزوراور آپس میں ٹکراؤکی کیفیت میں کہ وہ خود اس تما م لڑائی کا حصہ بن چکے ہیں کوئی ایسا فریق نہیں کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس لڑائی کوکسی ایک یا دوسری جماعت کے حق میں ختم کرسکے۔دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں کا کردار عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے ۔
 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.