یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ ’’کشمیر ‘‘ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے؟ اور اس بات میں
بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جنت صرف مسلمانوں کے لیئے تخلیق کی گئی ہے۔
دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کشمیر جنت نظیر ہے،پھر جنت نظیر ہند کا اٹوٹ انگ
کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہندوستان کی سراسر ہٹ دھرمی ہی ہے جو وہ اپنے اس
نعرے کو بلا وجہ پروان چڑھا رہا ہے۔ جبکہ وہ خوب جانتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر
میں اس کے چاہنے والے آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ صرف فوجی بوٹوں کے بل
بوتے پر وہ اپنا یہ خونی کھیل ، کھیل رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قوانین کے
مطابق بھارت کو اب اپنا ’’اٹوٹ انگ ‘‘ کا نعرہ تلف کر دینا چاہیئے۔بقول
ہندی زبان کے ’’ رام رام جپنا۔ پرایا مال اپنا‘‘ کی زبانی جنگ جاری نہیں
رکھی جا سکتی۔ بھارت کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیر میں کوئی پھول
کھلتا ہے تو اس کی خوشبو پاکستان میں ہوتی ہے، کشمیر کے آبشاروں کی لمبی
اُڑان پاکستان میں بہتی ہے۔ یعنی کہ کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکنیں پاکستان
والوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ وہاں بھارت کی یومِ آزادی پر یوم سیاہ منایا
جاتا ہے جبکہ پاکستان کے یومِ آزادی پر وہاں بے شمار پروگرامز ترتیب دیئے
جاتے ہیں۔کشمیر دنیا میں زرخیزی کے لیئے مشہور ہے جہاں قدرتی وسائل کی
بہتات ہے ، جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی تھی مگر آج خونِ ناحق سے
لالہ زار بن چکی ہے۔ آج ۵؍فروری ہے اور آج کے دن ہم اپنے کشمیری بہن
بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن ’’کشمیر ڈے ‘‘ کے نام سے ہر سال ولوے کے ساتھ
مناتے ہیں ۔ ہندوستان یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ قائد اعظم محمد
علی جناح ؒ نے کہا تھا ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ تو پھر کشمیر بھارت
کا اٹوٹ انگ کیسے ہو سکتا ہے؟
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں
5؍فروری کو ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو
منانے کا آغاز 1990میں ہوا۔ پاکستان میں 5؍فروری 1990ء سے لے کر اب تک
کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری
تعطیل ہوتی ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے
صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کر جد و جہد آزادی کی حمایت کا
اعلان کرتے ہیں۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لیئے دعائیں مانگی
جاتی ہیں، ہندوستان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو آزادی دے دو۔
ہمارے کشمیری لوگ صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے
شکار رہے ہیں لیکن اہوں نے کبھی بھی ہمت نہ ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا
بھی سامنا کرنا پڑا لیکن تحریکِ آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔1990ء
کے بعد تقریباً ساٹھ ہزار مہاجرین آزاد کشمیر کے مختلف کیمپوں میں رہائش
پذیر ہیں۔ مظفر آباد میں کامسر اور راڑہ دومشی سمیت متعدد کیمپ 2005ء کے
زلزلہ میں مکمل طور پر تباہ ہوگئے ان کی زمین لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہوگئی۔
جبکہ دیگر کیمپوں میں بھی مکانات گر گئے۔ایسے میں ہم تو مختصرا صرف اتنا ہی
کہیں گے کہ مہاجرین کشمیر کا تشخص برقرار رہنا ضروری ہے۔اور کشمیری بھائیوں
کے لیئے ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ ’’ اک ذرا صبر کہ جَبر کے دن تھوڑے ہیں‘‘۔
حقِ خود ارادیت کشمیریوں کا وہ حق ہے جسے اقوامِ عالم 1948/49میں اقوامِ
متحدہ اور سلامتی کونسل کے فورم پر تسلیم کر چکی ہیں۔ اور جس کے لیئے آزادی
و حریت کا جذبہ سے اہلِ کشمیر نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ اہلِ پاکستان ایک
بار پھر کشمیری بھائیوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے
ہوئے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور کشمیری عوام کی قربانیوں پر انہیں دل
کی اتاہ گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔عالمی ارباب کو صرف اس شعر
کے ذریعے مخاطب کرنا چاہوں گا کہ:
اے دنیا کے منصفو! سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو
جیسے کہ اوپر کے سطروں میں ملاحظہ کیا جا چکا ہے کہ ہر سال پانچ فروری کو
یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اس دن دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یہ
عہد بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک ان کی جد و جہد جاری رہے گی اور
مسئلہ کشمیر کے حل تک وہ نہ جھکیں گے نہ بکیں گے اور نہ ہی اپنے منزل پر
پہنچے بغیر رُکیں گے۔ کشمیر پانچ سو سال تک مسلسل مسلمان حکمرانوں کے زیرِ
نگیں رہا ۔ اس کا ایک حکمران ریچن تھا جو بدھ مت کا پیرو کار تھا اور اس نے
مسلمان صوفی بزرگ حضرت سید مشرف الدین المعروف بلبل شاہ کے ہاتھوں اسلام
قبول کیا۔ اور پھر سلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر پر حکومت کی۔ پاکستان
بننے کے بعد اس تنازعہ کو بھارت اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا اور پھر خود ہی
اس کی قرار دادوں سے مگر گیا اور اب یہ تنازعہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان
ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے حل کے لیئے کوششیں عالمی سطح
پر بھی کی جا رہی ہیں۔
قائد اعظم ؒ نے 1946میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں
قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی‘ دفاعی ‘ اقتصادی اور جغرافیائی حقائق
کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ’’شہ رگ ‘‘ قرار دیا۔ مسلم
کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19؍جولائی 1947ء کو
سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر ’’ قرار داد الحاق
پاکستان ‘‘ منظور کی۔ لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو
مولانا فضل الہٰی وزیر آباد کی قیادت میں 23؍اگست 1947ء کو نیلا بٹ کے مقام
سے مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 15ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ
آزاد کشمیر آزاد ہوا۔اب مقبوضہ کشمیر کے عوام آزادی کے لیئے بے دریغ
قربانیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، انشاء اﷲ وہ دن بھی آئے گا جب
پاکستان کی شہ رگ کشمیر میں پاکستانی سورج بھی طلوع ہوگا۔ اس موقعے پر
لفاظی نہیں بلکہ تہہ دل سے کشمیری عوام کی جد و جہد کو سلام پیش کرنا ہم سب
کا فرضِ اوّلین ہے۔ ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کرنے والے
لوگوں کو سلام ، عزم و ہمت کے کوہِ گراں اور ان کی مختلف قیادت میں مزاحمت
کرنے والے لاکھوں کشمیریوں کو سلام، پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے
مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کریں اور سازشوں کو بے نقاب کرکے
کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کریں۔ عالمی برادری کو چاہیئے کہ بھارت
پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کرتے ہوئے کشمیریوں کو آزادی
سے جینے کا حق دے، انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب کشمیر میں بھی آزادی کا سورج
طلوع ہوگا۔ہماری دعا ہے کہ اے اﷲ کشمیریوں کو جلد آزادی نصیب فرما! آمین
٭٭٭ |