بدلتے موسموں کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست کے رنگ بھی
بدلتے رہتے ہیں ۔ اگر کچھ بدستور ہے تو یہ کہ اشرافیہ ہمیشہ ٹھنڈی چھاؤں کے
مزے لوٹتی ہے اور مجبوروں ، مقہوروں کا مقدر بدن کو جھلسادینے والی چلچلاتی
دھوپ ۔اس عالمِ بے قراری میں قوم اپنے رہنماؤں کو آزما آزما کے تھک چکی
لیکن گوہرِ مقصود سے محروم ہی رہی ۔قوم نے پیپلز پارٹی ، نواز لیگ ، ایم
ایم اے ، قاف لیگ اور تحریکِ انصاف سبھی کو آزما یا اور پینتیس سال آمروں
کو دے کر بھی دیکھ لیا لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا ۔زندگی جیسے تیسے گزر رہی
تھی لیکن جب سے طالبان کا عنصر زندگی میں شامل ہوا ہے، خوف کے سائے گہرے
ہوتے چلے جا رہے ہیں۔موت سے مفر ممکن نہیں کہ اِس کا مزہ تو ہر ذی روح کو
چکھنا ہے لیکن ’’طالبانی موت‘‘ کا خوف ہی انسان کو ادھ موا کر دینے کے لیے
کافی ہے ۔ہمارے پاس بلٹ پروف گاڑیاں ہیں نہ بم پروف گھر اور نہ ہی سینکڑوں
محافظ ۔ہمیں تو بہرحال تلاشِ رزق میں نکلنا ہی ہوتا ہے ۔ زندہ بچ رہے تو
’’بونَس‘‘ سمجھ کے خوش ہو رہے وگرنہ موت تو ہے ہی ۔ اِس غیر یقینی صورتِ
حال میں وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب نے جب مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا
تو قوم نے سُکھ کا سانس لیا۔ سبھی سیاسی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کا بھرپور
ساتھ دینے کا اعلان کیا البتہ اپنے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کچھ اُکھڑے
اُکھڑے سے نظر آئے۔پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید نصیبِ دشمناں طبیعت ناساز
ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔جب وزیرِ اعظم صاحب
پارلیمنٹ میں مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے نام بتا رہے تھے تَب مولانا صاحب
کے دل پر چھُریاں چل رہی تھیں کیونکہ میاں صاحب نے مولانا صاحب کے ازلی
دشمن عمران خاں صاحب کی سفارش پر اُن کے مشیر رُستم شاہ مہمند کو تو
مذاکراتی کمیٹی میں شامل کر لیا لیکن مولانا صاحب سے مشورہ تک کرنا بھی
گوارا نہ کیا ۔مولانا صاحب یقیناََ پارلیمنٹ میں گرجتے برستے لیکن پارلیمنٹ
کا ’’مُوڈ ‘‘ دیکھ کر غصّہ پی گئے لیکن چلتے چلتے یہ ضرور کہہ گئے کہ اگر
اُن سے ’’مفت مشورہ‘‘ کر لیا جاتا تو وہ اچھّا مشورہ ہی دیتے البتہ
پارلیمنٹ سے باہر نکل کر صحافیوں کے سامنے اُنہوں نے اپنے دل کا غبار خوب
نکالا ۔
2002ء میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کی مہربانی سے مولانا فضل
الرحمٰن کی ایم ایم اے کو غیر متوقع کامیابی نصیب ہوئی اور مولانا صاحب
خیبرپختونخواہ کے سیاہ و سفید کے مالک بنے اور مرکز میں قائدِ حزبِ اختلاف
کا مزہ چکھا۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ حکمرانی کا نشہ اتارے نہیں اترتا اور
’’چھٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی‘‘ کے مصداق مولانا صاحب کو بھی وہ
سنہرے دن بھلائے نہیں بھولتے۔ وہ دن آج بھی اُن کا سرمایۂ حیات ہیں جب وہ
خیبر پختونخواہ کے بِلا شرکتِ غیر مالک ہوا کرتے تھے ۔مولانا صاحب تو
وزارتِ عظمیٰ کے بھی اُمیدوار تھے لیکن قوم بال بال بچ گئی ۔خیبرپختونخواہ
کی حکومت چھِن جانے کے بعد بھی مولانا صاحب کا مطمعٔ نظرہمیشہ حکومت میں
شمولیت ہی رہا۔پیپلز پارٹی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کی
جماعت ہے لیکن مولانا صاحب عالمِ دیں اورکَٹر مذہبی ہونے کے باوجود بھی
جنابِ آصف زرداری کے پہلو میں جا بیٹھے۔ پھرجب نئے انتخابات کا ڈول ڈالا
جانے لگا تو مولانا صاحب کی عقابی نگاہوں نے بھانپ لیا کہ اب نواز لیگ کی
باری ہے اِ س لیے اُنہوں نے حکومتی اتحاد چھوڑ کر ’’جاتی عمرا‘‘کے درشن
شروع کر دیئے ۔اُدھر جَلا وطنی کی ’’بھٹی‘‘ میں تَپ کر کُندن بن جانے والے
میاں نواز شریف صاحب بھی آخر تک مولانا صاحب کو ’’لارے لَپّے‘‘ لگاتے رہے۔
بالآخر مایوس مولانا صاحب کو چار و ناچار اکیلے ہی انتخابی میدان میں کودنا
پڑا ۔انتخابات کے بعد اُنہوں نے میاں نواز شریف صاحب کی بہت منت سماجت کی
لیکن میاں صاحب تو عمران خاں صاحب کو خیبرپختونخواہ کی حکومت سونپ کر
’’مزے‘‘ لینے کے چکر میں تھے اِس لیے مولانا کی دال نہ گلی ۔
سیاسی جماعتوں سے مایوس مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان کا کچھ آسرا تھا لیکن
’’بے وفا‘‘طالبان نے بھی مولانا صاحب سے یہ سلوک کیا کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
طالبان نے جس ’’مذاقی کمیٹی‘‘ کا اعلان کیا ، اُس میں بھی مولانا صاحب سے
مشورہ کیے بغیر چوری چوری ، چُپکے چُپکے مفتی کفایت اﷲ کو کمیٹی کا رُکن
نامزد کر دیا ۔شاید مولانا صاحب یہ بھی برداشت کر لیتے لیکن طالبان نے تو
حد ہی کر دی اور مولانا صاحب کو ’’زہر‘‘ لگنے والے عمران خاں ہی نہیں
مولانا سمیع الحق اور امیرِ جماعتِ اسلامی خیبرپختونخواہ پروفیسر ابراہیم
کو بھی اُسی کمیٹی کا رُکن بنا دیا ۔مولانا صاحب مولانا سمیع الحق سے ہمیشہ
’’اَوازار‘‘رہتے ہیں، جماعتِ اسلامی کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ ایم ایم
اے کی پیٹھ میں چھُرا گھونپنے والی یہی جماعت ہے اورکپتان صاحب سے اُن کا
’’اِٹّ کھڑکا‘‘ تو جاری ہی رہتا ہے۔اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسا
طالبانی ’’خود کُش‘‘ حملہ تھا جس نے مولانا صاحب کے ضبط کے سارے بندھن توڑ
دیئے اورمفتی کفایت اﷲ جو بھاگم بھاگ مولانا سمیع الحق کے پاس پہنچنے ہی
والے تھے اُنہیں ’’عصائے فضل الرحمانوی‘‘ نے راستے میں ہی روک لیا ۔اُدھر
مولانا سمیع الحق پریس کانفرنس میں بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ مفتی کفایت
اﷲ اُن سے رابطے میں ہیں اور بس پہنچنے ہی والے ہیں لیکن اُس ’’بھولے
بادشاہ‘‘ کو کیا پتہ تھا کہ پنچھی کے پَر کاٹ دیئے گئے ہیں ۔مولانا فضل
الرحمٰن نے مجلسِ عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا کہ
اُن کا اِس مذاکراتی عمل سے کچھ لینا دینا نہیں اور مفتی کفایت اﷲ طالبان
کی مذاکراتی کمیٹی کا حصّہ نہیں ۔پریس کانفرنس میں بھی مولانا صاحب کا زور
اسی پر تھا کہ چونکہ اُن سے مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی فروری 2013ء میں
اُن کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کی متفقہ سفارشات کو تسلیم
کیاگیا اِس لیے وہ مذاکرات سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں ۔
اُدھر طالبان نے دوسری سیاسی چال یہ چلی کہ محترم عمران خاں صاحب کو بھی
اپنی پانچ رُکنی کمیٹی کا رُکن نامزد کر دیا ۔شاید اُن کے ذہن میں خیال ہو
کہ خاں صاحب اپنی ’’سونامی‘‘ کی ساری صلاحتیں ’’طالبانی شریعت ‘‘کے لیے
صَرف کر دیں گے لیکن خاں صاحب بھی اب تھوڑے تھوڑے ’’سیاسی‘‘ ہوتے جا رہے
ہیں ۔اُنہیں پتہ تھا کہ پہلے تو لوگ از راہِ تفنن اُنہیں ’’طالبان خاں‘‘
کہتے تھے لیکن اگر وہ طالبانی کمیٹی کے باقاعدہ رکن بن گئے تو پھر اُن کا
طالبان خاں ہونا نوشتۂ دیوار بَن جائے گا ۔وہ طالبان کو دو ٹوک جواب بھی
نہیں دے سکتے تھے کیونکہ یہ ’’رسمِ عاشقی‘‘ کے خلاف ہوتا اِس لیے اُنہوں نے
اپنی CEC کا سہارا لیا ۔طالبان یہ کہہ سکتے تھے کہ کپتان صاحب کے عشق کی
صداقتیں مشکوک ہیں لیکن بچت یوں ہو گئی کہ خاں صاحب کے مشیر رُستم شاہ
مہمند پہلے ہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رُکن تھے اِس لیے خاں صاحب نے
کمیٹی میں اپنی موجودگی ثابت کر دی اور یوں اُن کے’’ عشقِ طالبان‘‘ کا
بھانڈا ’’بیچ چوراہے ‘‘پھوٹتے پھوٹتے رہ گیا۔ |