ڈاکٹر صاحب کے فرمودات۔۔۔۔۔۔۔

بحیثیت قوم ہمیں ایسے مواقع کم کم ہی میسر آئے جب بطور پاکستانی ہم خود کو قابل فخر گردان سکیں۔ مگر ایٹمی قوت کا حصول ایک ایسا منفرد اعزاز تھا جس پر ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ایٹمی دھماکے کر کے ہم نا صرف اپنے ہمسایہ ملک کے جا رحانہ اقدامات سے محفوظ ہو گئے بلکہ اقوام عالم میں بھی معتبر ٹھہرے۔ قوم نے اس سر خرؤئی کاسہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر سجایا اور نہ صرف پاکستان بھر میں انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا بلکہ پوری مسلم امہ میں بھی انہیں بے حد پذیرائی ملی۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو جس طرح سراہا گیا ، وہ بجا طور پر ا س ستا ئش کے حقدارتھے۔ ۷۰ ء کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیرون ملک اعلیٰ ملازمت، بھاری بھر کم معاوضہ اور مراعات ٹھکرا کر اپنے ملک واپس آئے اور انتہائی کم مشاہرے پر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے سر گرداں رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پوری قوم کے ہیرو تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں سرکاری ٹی وی پر ان سے" اعتراف جرم "کروایا گیا تو پوری قوم نے جنرل مشرف اور ان کی حکومت کے خلاف غصے اور نفرت کا اظہار کیا۔ آج اتنے سال گزر کے با وجودعوام کے دل میں ڈاکٹر صاحب کے لیے وہی عقیدت اورمحبت بر قرار ہے۔ وہ کہیں بھی جائیں ، ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے۔ سیاستدان ہوں، بزنس مین، اساتذہ، طلباء یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، ڈاکٹر صاحب ہر ایک کے لیے یکساں طور پر قابل احترام ہیں اور ہر جگہ ان کی بات سنی جاتی ہے۔

کچھ عرصہ سے ڈا کٹر عبدالقدیر خان کو میدان سیاست میں قدم رکھنے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے۔ ماضی قریب میں عمران خان بھی ڈاکٹر صاحب سے تحریک انصاف میں شمولیت کی درخواست کر چکے ہیں۔تب بھی غیر جانبدار حلقوں کا خیال تھا کہ پوری قوم کا ہیرو ہونے کے ناطے ڈاکٹر صاحب کا کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہو جانا مثبت فیصلہ نہ ہو گا۔ چند روز قبل ڈاکٹر قدیر نے’’ تحریک تحفظ پاکستان‘‘ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب ہمارے لئے قابل احترام ہیں ،تا ہم سچ یہ ہے کہ ان کا میدان سیاست میں قدم رکھنا اور باقاعدہ سیاسی جماعت بنانا دانشمندانہ اقدام نہیں گردانا جا سکتا۔ پوری قوم کی پسندیدہ شخصیت کا کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہو کر اپنی پسندیدگی اور حلقہ اثر کو محدود کر لینا کہاں کی دانش ہے ۔ عوامی خدمت اور مفاد عامہ کے تناظر میں سیاست ایک مقدس پیشہ سہی۔مگر ہمارے ہاں رائج سیاست حصول اقتدار کی جنگ کا نام ہے۔ خار زار سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے عمران خان بھی قومی ہیرو کی حیثیت سے تمام طبقات فکر میں یکساں طور پر مقبول تھے ۔ مگر بطور سیاست دان ان کی مقبولیت اور پسندیدگی بے حد محدود ہو گئی ہے۔ عمران خان تو فقط میدان کرکٹ کے ہیرو تھے ۔ جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ صرف پورے پاکستان بلکہ عالم اسلام کے ہیرو بن کے ابھرے۔ پوری مسلم امہ کی پسندیدہ شخصیت کی پسندیدگی اور حمایت کو مخصوص افراد تک محدود کرنے کا غیر دانشمندانہ مشورہ نجانے ڈاکٹر صاحب کو کس نے دیا۔ ڈاکٹر قدیر کا سیاست میں قدم رکھنا کچھ دیر کے لیے درست مان بھی لیا جائے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک نیا انداز سیاست متعارف کرواتے اور تحمل، بردباری، اخلاقیات، غیر جانبداری اور حق گوئی جیسی کمیاب روایات کو رواج دیتے۔ مگر سیاست میں قدم رکھتے ہی انہوں نے اپنی دیرینہ وضع داری اور نرم خوئی ترک کر کے روائیتی سیاسی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا اورتمام سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سب سے بڑی حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہو ، اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہو یا مقبولیت حاصل کرتی تحریک انصاف،بہر حال اپنا اپنا حلقہ اثررکھتی ہیں ۔ ان جماعتوں کی پالیسیوں کی بجائے براہ راست ان کے قائدین کو ہدف تنقید بنا کر ڈاکٹر صاحب نے ان جماعتوں کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں میں خود کو متنازعہ بنانے کا اہتمام کر لیا ہے۔ جو کہ افسوسناک ہے۔

سیاست میں شمولیت اور دوسروں پر تنقید کو ڈاکٹر صاحب کاحق مان بھی لیا جائے مگر ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ان کے تشویشناک بیانات کو ہر گز درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی علامت تصور ہوتے ہیں۔ ان کے بیانات کے اثرات براہ راست پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا فرمانا ہے کہ دو ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی انہوں نے اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے احکامات کی تعمیل میں کی۔ یہ بیان اس قدر تشویشناک ہے کہ تقریباتمام حلقوں کی جانب سے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔محترمہ کے نقاد بھی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حوالے سے ان کے اقدامات اور کردار کے معترف ہیں۔ اول تو اصولا ڈاکٹر صاحب کویہ قصہ چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس واقعہ کی صحت کی تصدیق یا تردید کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں۔ دوسرامحترمہ کو اس معاملے میں ملوث کرنافقط کسی ایک جماعت یا حکمران کا معاملہ ہر گز نہیں۔ ان کے اس بیان نے ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کو ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث مجرم بنا کرمغرب کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تنقید کرنے اور حکومت پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مغرب کی آنکھوں میں ہمارا ایٹمی پروگرام کس بری طرح کھٹکتا ہے اور وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے درپے ہیں۔بقول ڈاکٹر صاحب مشرف دور میں انہوں نے پاکستان کو بچانے کے کیلیے ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث ہونے کااعتراف کیا تھا۔ نجانے محترمہ کے متعلق یہ بیان دیتے وقت کیوں انہوں نے ملکی مفاد کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔انکے دیگر بیابات میں بھی توازن دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف وہ فرماتے ہیں کہ وہ" وزیر اعظم "کے احکامات کے پابند تھے لہٰذا مجبورا انہوں نے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی۔ دوسری طرف ان کا فرمانا ہے کہ "وزیر اعظم" نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے اانہوں نے مجبور کیا ورنہ وہ کسی طور پر تیار نہ تھے۔ اس کارنامے کا سو فیصد کریڈٹ لینے کے کے لئے انکی کاوشیں مضحکہ خیز ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو صاحب ہوں یا ضیا الحق ، صدر اسحاق ہوں یا بے نظیراور نوازشریف ، سب نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ میاں صاحب نے اس حوالے سے جس طرح عالمی دباؤ کا سامنا کیا ، اس سے ان کے مخالفین کو بھی انکار نہیں۔ پاکستانی مصنفین، مغربی میڈیا ، امریکن سینٹرل کمانڈ کے سابق جنرل انتھونی زینی اور بل کلنٹن کی کتابوں میں میاں صاحب کے اس جراتمندانہ کردار کا ذکر ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو ڈاکٹر صاحب اس تعریفی خط کی کیا وضاحت کریں گے جو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کے بعدانکی ستائش میں لکھا۔ جو آج بھی انٹر نیٹ کی زینت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنے بیانات کی تردید جاری کرنی چاہیے۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مقام کسی بھی سیاسی عہدے اور سیاسی جماعت کی سر براہی سے کہیں اونچا ہے ۔ خود کو فقط سیاست تک محدود کر کے وہ نہ صرف پوری قوم کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ بھی زیادتی کے مرتکب ہوں گے۔ انکا کہنا ہے کہ وہ کسی سیاسی عہدے کے خواہشمند نہیں بلکہ وفاقی سطح پر کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔تو وہ یہ کردارکسی سیاسی چھاپ کے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں ۔ تعلیم اور صحت کے علاوہ پاکستان اس وقت توانائی کے جس شدید بحران سے دوچار ہے ڈاکٹر قدیر اس حوالے سے کردار ادا کر کے ایک بار پھر پوری قوم کے ہیرو بن سکتے ہیں۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.