مذاکرات کیا رنگ لائیں گے

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کمیٹی بااختیار ہے ۔اُن کے اس بیان کی تصدیق وزیرداخلہ چوہدری نثار کا بیان بھی کرتا ہے جس میں اُنہوں کہا کہ مذاکراتی کمیٹی جو فیصلے کریگی قبول کرلیں گے ۔لیکن تحریک طالبان پاکستان کی منتخب کمیٹی کے اہم رکن مولاناسمیع الحق کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بے بس ہیں تو کمیٹی کے پلے کیا ہوگا؟جس کے جواب میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی جو وزیراعظم پاکستان کے مشیر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ تمام خدشات دورکردیں گے ۔حالت جنگ میں دو فریقوں کے ایک دوسرے پر شک و شبہات اور خدشات فطری سی بات ہے لیکن مذاکرات کی کامیابی کیلئے دونوں کو اعتماد کی فضاقائم کرنا ہوگی ۔ بے بنیاد خبروں اور مشوروں پر کان دھرنے کی بجائے اگر قیام امن کے امکانات پر غور کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ایک اہم بات یہ کہ حکومت پاکستان آئین پاکستان کی محافظ اور اُس پر عمل درآمد کی ذمہ دار جبکہ بقول مولاناسمیع الحق طالبان آئین پاکستان کے نفاذ کی جنگ لڑرہے ہیں ۔اگر دونوں فریق ہی آئین پاکستان کی بات کرتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنگ کی کیا وجہ ہے؟عوام اس انتظار میں ہیں کہ جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہواور اُن کو جینے کا حق حاصل ہو۔پر امن پاکستان نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کیلئے فائدہ مند ہوگا اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ قیام امن میں حکومت پاکستان کا بھر پور ساتھ دے اور نہ صرف ڈرون بلکہ دہشتگردی کے خلاف جنگی پالیسی میں پاکستانی مشاورت کو بہتر انداز میں شامل کیا جائے ۔اخبارات کی بجائے امریکی انتظامیہ با اعتبار ذرائع سے اپنے موقف کے بارے میں دنیا کوآگاہ کرے ۔جیساکہ امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کے مطابق اُوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی درخواست کے بعد ،پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کو بہت حد تک محدود کردیا ہے ،واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان کی درخواست پر ایک امریکی اہلکار کا حوالے سے بتایا ہے کہ ۔اُنھوں (پاکستان)نے یہی مانگا اور ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا ۔امریکی انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سامنے آنے والے القائدہ سینئر رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرے گی اور امریکہ کسی بھی براہ راست خطرے کو ٹالنے کے لئے اقدام اُٹھائے گی ۔واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے گزشتہ سال دسمبر سے ڈرون حملوں میں وقفے کی وجہ پاکستان کے سیاسی خدشات ہیں ۔2011ء میں پاکستان کے سلالہ چیک پوسٹ پر فضائی حملے کے بعد ڈرون حملوں میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے وقفے کے بعد ڈرون حملوں میں یہ سب سے طویل وقفہ ہے ۔ڈرون حملوں میں کمی کی ایک وجہ نومبر میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت بتائی جاتی ہے ۔جبکہ اُس وقت پاکستان حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تھیں ۔اس ڈورن حملے کے بعد تحریک طالبان نے مذاکرات سے انکار کردیا اور پاکستان نے مذاکراتی عمل کو سبوتاز کرنے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی تھی ۔رپورٹ میں ایک سینئر امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ابھی امریکہ نے ڈرون حملوں کی پالیسی تبدیل کی ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ڈرون حملوں کو محدود کرنے کا کوئی غیر رسمی معاہدہ کیا گیا ہے،مزید یہ کہ طالبان کے ساتھ مذ اکرات کا معاملہ مکمل طور پر پاکستان کااندرونی مسئلہ ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے یہ اس خبر کوپاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔میڈیا میں بڑا مقام پانے والی خبر میں امریکی انتظامیہ کے کسی ذمہ دار عہدیدارکازکر ہے اور نہ ہی حکومتی موقف ظاہر کیا گیا ہے بلکہ موضوع کی نزاکت کی وجہ سے یہ ساری معلومات فراہم کرنے والے سینئر امریکی اہلکار کا نام بھی خبر میں شائع نہیں کیا گیا ۔اپنانام ظاہر نہ کرنے والے اہلکار نے بھی بڑے محتاط اندازمیں بات کرتے ہوئے صرف اتناکہا ہے کہ ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا ،جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے ڈرون حملوں میں کمی کا کوئی وعدہ کیا ہے اور نہ پالیسی تبدیل کی ہے ،جبکہ پاکستان ڈرون حملوں میں کمی نہیں بلکہ مکمل بندش کا مطالبہ کررہا ہے ۔آنے والے دنوں میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس خبر کے حوالے سے کئی طرح کے شک و شبہات جنم لیں گے ۔یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے جب امریکہ نے پاکستان کو ڈرون حملے نہ کرنے کا عندیہ دیا ہولیکن یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ماضی کی طرح اس عندیے کو یقین دہانی قرار نہیں دیابلکہ ڈورن حملوں میں کمی کی بجائے مکمل بندش کی بات کی ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ کی خبر میں یہ بات بہت واضع طورپرتحریر ہے کہ امریکہ افغانستان کے میدان جنگ اور اس کے اطراف میں متحرک دشمن کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل جاری رہے گا ۔خبر میں اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں قیام امن یا طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمائت میں اپنی پالیسی تبدیل کرلی یا کرنے پر کسی قسم کا غور کیا جارہا ۔ایک ایسی خبر جس میں امریکہ نے اپنی ڈرون پالیسی کو تبدیل نہ کرنے مضبوط ارادہ ظاہر کیا کو موضوع بناکر یہ شور برپا کرناکہ امریکہ نے حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے کم کرے گا،اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتناکہ صرف ایک ڈرون حملہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،اس لئے بہتر ہوگا اگر حکومت اور تحریک طالبان میڈیا مذاکرات کی بجائے جلد از جلدسنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی کوشش کریں ۔اب تک کی غیر یقینی صورتحال میں شروع ہونے والے مذاکرات کیا رنگ لاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن یہ بات بہت واضع ہوچکی ہے کہ پاکستان کے عوام مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے شدید حامی ہیں
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.