ایک بار مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا لوگ بھوک کے ہاتھوں
مجبورہوکر فاقے کرنے لگے ایک روزبڑے میدان میں عوام الناس کو بہترین کھانا
دینے کااہتمام کیا گیاایک شخص نے کھانا تقسیم کرنے والے منتظم سے دو افراد
کے کھانے کا مطالبہ کیا۔۔۔ منتظم نے پو چھا سب اپنا اپنا کھانا لے رہے ہیں
تم دو افراد کیلئے کیوں مانگ رہے ہو۔۔۔
’’ایک اپنے لئے اور ایک اس کیلئے جو باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہا ہے
‘‘اس شخص نے دور بیٹھے بارریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا
’’تم اسے جانتے ہو؟‘‘ منتظم نے دریافت کیا
نہیں۔۔۔اس شخص نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہامیں جانتا تو نہیں لیکن اسے
باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا تے دیکھ کر بڑا ترس آیا کہ سب اچھا کھانا
کھا رہے ہیں وہ کیوں نہیں؟
وہ۔۔منتظم نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہمارے امیرالمومنین حضرت
ابو بکر صدیق ؓ ہیں آپ سب لوگوں کیلئے کھانے کااہتمام ان کی طرف سے ہی کیا
گیاہے وہ شخص یہ سن کر دنگ رہ گیا۔۔۔۔اسلامی تاریخ کا یہ درخشندہ واقعہ آج
بھی ہمیں دنگ کررہا ہے کہ دور ِ حاضر میں پوری اسلامی دنیا میں ایسا ایک
حکمران بھی نہیں جوکم ازکم ان ؓ جیسے کسی ایک اوصاف کا مالک بھی ہو۔۔۔ عرب
ممالک میں بیشتر میں تو بادشاہت ہے جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں رہا پاکستان
تو اس ملک میں ایک سابق صدر اور دو وزراء اعظم پر کرپشن کے کیس چل رہے ہیں
اس کے باوجودوہ اب بھی ہمارے قومی رہنما گردانے جاتے ہیں اس سے زیادہ
ڈھٹائی کی مثال دنیا ۔۔۔۔ پیش کرنے سے قاصر ہے۔۔جب وہ کرپشن کیسز میں
عدالتوں میں پیشی کیلئے جاتے ہیں تو زندہ باد۔۔ جیوے جیوے ۔۔۔آوے ای آوے کے
نعرے لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں شاید اس لئے کہ اس ملک میں آوے کا آوے
ہی بگڑا ہوا ہے۔۔۔بحث و مباحثے میں کچھ لوگ جب اپنے اسلاف کی مثالیں دیتے
ہیں تو جھٹ ان کو نظر انداز کرکے کہا جاتا ہے کہ چھوڑو یہ ماضی کے قصے ہیں
آج کی بات کرو ۔۔حالانکہ
خودی کو بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدابندے سے خود پوچھے تیری رضا کیا ہے
کبھی کبھی دل اپنے ملک کی حالت،لوگوں کی حالت ِ زار دیکھ کرملول ہو جاتاہے
جس ملک میں بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی پینے کو میسرنہ ہو۔۔ جہاں لوگ
محض دووقت کی روٹی کیلئے روز مرتے روز جیتے ہوں ۔۔ جہاں کی عوام اپنے
بنیادی حقوق کیلئے ترستی رہے۔۔جہاں تعلیم اور صحت منافع بخش کام بن جائے۔۔
جہاں غربت لوگوں کی بدنصیبی بن گئی ہو وہاں حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں
اور اس بے چارے عام آدمی کی شنوائی کیونکر ہو جہاں انصاف بکتاہے اور اس کے
حصول کے لئے خجل خوار ہونا نصیب بن جائے حیف ہے ان حکمرانوں پر جو غیرملکی
دوروں پرجا کربھی صرف اپنی بہتری کیلئے سوچیں اور عوام کی بہتری کیلئے کچھ
نہ کریں اور غریب کو اپنی بیمار ماں کے علاج ،بہن کی شادی یا اپنے بچوں
کودو وقت کی روٹی کھلانے، یا پھر کوئی کام کاج کیلئے اپنے گردے بیچنے پڑیں
یا اپنے لخت ِ جگر فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے پر مجبور ہو جائے گھٹ گھٹ کر
جینا مقدر بن جائے ۔قسطوں میں موت نصیب بن جائے تو ان کے دل میں وطن کی
محبت خاک ہو گی اور ہمارے حکمران ہیں کہ وہ عام آدمی کے بارے میں سو چنا
بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ ان کو یہ بات پیش ِ نظرر کھنی چاہیے کہ اب
دنیا کا منظر نامہ بدل رہا ہے۔ حالات یکسر چینج ہورہے ہیں۔حکمرانی کے انداز
تبدیل ہورہے ہیں اب عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف بنانا ممکن نہیں ہے۔۔۔ اب
حکمرانوں کو عوام کو کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنا پڑے گا۔۔۔ کچھ نہ کچھ ریلیف
دینا ہوگا۔۔۔کچھ نہ کچھ انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔۔۔مداری جیسا تماشہ
دکھانے کے دن گئے۔۔اب تو لگتاہے تماشہ دکھانے والے کہیں خود نہ تماشا بن
جائیں کیا ہمارے حکمرانوں کا اقتدار رضاشاہ پہلوی سے زیادہ مضبوط ہے؟۔۔۔کیا
کرنل قذافی کے ساتھ جو کچھ ہوا کسی اور کے ساتھ نہیں ہو سکتا؟۔۔۔کیا صدام
حسین کا انجام یادنہیں۔۔۔کیا حسنی مبارک بھی بھول گئے؟۔۔۔کیا لیبیا ۔تیونس
،مراکش،عراق ،ایران اور مصر میں پنپنے والی تحریکیں دنیا پر اثرات مرتب
نہیں کررہیں ؟۔۔ بناوٹی باتیں،بلند بانگ دعوے کرنے اورزمین و آسمان کے
قلابے ملانے سے عوام کی حالت اور ان کے حالا ت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے اس
کے لئے عملاً کچھ نہ کچھ کرنا پڑتاہے۔۔ جس روز عوام کو اپنی طاقت کااندازہ
ہوگیا دریا جھوم اٹھیں گے ۔۔غربت کو عوام کی بدنصیبی بنانے والوں کا حشر
نشر ہو جائے گا اور عوام کو قسطوں میں مرنے سے نجات مل جائے گی۔ |