کرپشن ، مہنگائی ، بے روزگاری،توانائی کا بُحران اور دہشت گردی ایسے مسائل
ہیں جن پر خواہ مخواہ مغز ماری کرکے ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے رہتے ہیں
۔ کرپشن ایک فَن ہے اور اِس فن کے اُستادوں کی ’’اُستادی‘‘ اور ذہنی
استعداد پر بے ساختہ واہ واہ کرنے کو جی کرتا ہے لیکن ہم ایسے نا معقول ہیں
کہ اُن کے پیچھے لَٹھ لے کر پڑے ہیں ۔ اِس فَن میں طاق ہونے کے لیے بہت
محنت کرنا پڑتی ہے جو ہم جیسے کاہل الوجود اور ناقص العقل لوگوں کے بَس کا
روگ نہیں اور بجائے اِس کے کہ اِس فَن میں طاق ہونے کے لیے خود بھی کچھ تَگ
و دَو کریں ہم اُلٹا فنکاروں پرلعن طعن شروع کر دیتے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ
کرپشن اشرافیہ کا مشغلہ ہے جو نسل در نسل چلتا رہتا ہے اور ہم ٹھہرے
اشرافیہ کے ازلی ابدی دشمن اِس لیے مارے حسد کے جلتے کُڑھتے رہتے ہیں اوریہ
جو میڈیا والے ’’غضب کرپشن کی عجب کہانیاں ‘‘ سناتے رہتے ہیں ، یہ بھی محض
ہمارا جی جلانے کے لیے ہی ہوتی ہیں لیکن ’’جلے ہماری جوتی‘‘۔
ہمارے افلاطونی تجزیہ نگار مہنگائی کا تعلق کرپشن سے جوڑتے ہوئے کالموں کی
بھرمار کیے ہوئے ہیں ۔جسے اور کوئی موضوع نہ ملے وہ کرپشن اور مہنگائی کا
رونا رونے بیٹھ جاتا ہے حالانکہ مہنگائی کا تعلق خالصتاََ ہماری اپنی ذات
سے ہوتا ہے ۔جب ہر شادی شُدہ جوڑا اپنے گھر کی ’’کرکٹ ٹیم‘‘ بنانے پر تُل
جائے تو پھر ’’اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں‘‘۔ ایمان لگتی
کہیے کہ کیا کوئی حکومت اتنے ’’کھلاڑیوں‘‘ کو روز گار مہیا کرنے کی سکت
رکھتی ہے ؟۔جب بھٹو مرحوم جیسے ’’نباضِ وقت ‘‘ بھی ’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘
جیسے نعرے سے ’’تائب‘‘ ہو گئے تو پھر نواز لیگ کِس کھیت کی مولی گاجر ہے ؟۔یہ
بھی مدِ نظر رہے کہ ہماری ہر دَور کی ’’بھوکوں مرتی‘‘ حاکم اشرافیہ تو خود
بینکوں سے قرضے لے لے کر اپنا پیٹ پالتی اور ’’دیوالیہ‘‘ ہو کر قرضے معاف
کرواتی رہتی ہے ، وہ بھلا اِن بھوکے ننگوں کو کہاں سے روزگار مہیا کرے ؟۔
مہربانوں سے مایوس اِس قوم کی ساری اُمیدیں اب کپتان صاحب سے وابستہ ہو گئی
ہیں اور ہر کوئی یہ سوچنے لگا ہے کہ اُس کی ’’کرکٹ ٹیم‘‘ کو کپتان صاحب کی
’’سونامی‘‘ پناہ دے تو دے اور کوئی اِس قابل نہیں ہے ۔لیکن خود خاں صاحب کا
تو یہ عالم ہے کہ ’’کَلّی کَلّی جِند ، دُکھ لَکھ تے ہزار وے‘‘ ۔ایک طرف
اُن کی سونامی ’’نیٹو کنٹینرز‘‘ روکے کھڑی ہے تو دوسری طرف وہ ’’غمِ طالبان‘‘
میں گھُلی جا رہی ہے ۔پنجاب میں نواز لیگ سے ’’مَتھا‘‘ لگا ہوا ہے تو خیبر
پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمٰن دھاڑ رہے ہیں ۔اُن کے اپنے پرویز خٹک
صاحب بھی جب جی چاہے مَن مانی کر جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی بقدرِ
جُثہ کپتان مخالفت میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی ہیں ۔اِس لیے کہا جا سکتا ہے
کہ خاں صاحب بھی ایسے ہی ناکام ہونگے جیسے خصوصی عدالت پرویز مشرف صاحب کو
بُلانے میں ناکام ہو رہی ہے۔
توانائی بحران پر ہمارانقطہ ٔ نظر دوسروں سے ذرا مختلف ہے ۔ہم سمجھتے ہیں
کہ قوم کے لیے بجلی ، گیس اور ڈیزل پٹرول کی وافر موجودگی سرا سَر گھاٹے کا
سَودا ہے کیونکہ اِن سہولیات نے ایک تو ہماری جیبوں میں ’’کَکھ‘‘ نہیں رہنے
دیا اور دوسرا ہمیں مجبورِ محض بنا کے رکھ دیا ہے ۔کتنا اچھّا تھا وہ دَور
جب دیہات کی صحت افزاء فضاؤں میں مٹی کی ہنڈیا کے نیچے لکڑیاں جلائی جاتیں
اور بُجھتی آگ کو ’’پھونکنی‘‘ سے دہکانے کے مزے لُوٹے جاتے لیکن جب سے اِس
’’ ٹُٹ پَینی‘‘ گیس کا رواج ہوا ہے ، زندگی کی ساری ہلچل ہی ختم ہو کے رہ
گئی ہے ۔گیس آتی نہیں اور چولہا جَلتا نہیں ۔ویسے تو گیس نہ ہونے کا ہمیں
فائدہ بھی ہے کہ گھر میں کھانا پکانے کے ’’وَخت‘‘ سے آزاد ہو گئے ہیں لیکن
مسلہ یہ آن پڑا ہے کہ ہمارا گیزر بھی بند ہو گیا ہے ۔اب اِس لہو جماتی سردی
میں بھَلا گیزر کے بغیرنہانے کا رِسک کون لے ۔دیہاتوں کی راتیں بھی سحر
انگیز ہوا کرتی تھیں ۔ رات کے وقت ، گرمیوں میں گھروں کے کَچّے کھُلے صحنوں
میں پانی کا چھڑکاؤ کرکے چار پائیاں ڈالنا، مٹی کی سوندھی سوندھی نَشہ آور
خوشبو اور لالٹین کی مَدھم لَومیں نیند کی پریوں کا جھولا جھُلانا اپنا ہی
مزہ دیتا تھا ۔سچ تو یہی ہے کہ گھروں میں لگے اے سی ٹھنڈک ضرور دیتے ہیں
لیکن لوریاں دے کر سلاتے نہیں کیونکہ بجلی کے بِل کا خوف ہی بے چین رکھتا
ہے ۔مجھے تو ابھی سے ہَول اُٹھنے لگے ہیں کہ جب اِس کَڑکڑاتی سردی میں بھی
بجلی کا بِل پانچ ہزار سے کم نہیں آتا تو اُس وقت کتنا بِل آئے گا جب اے سی
اور پنکھے چلنے لگیں گے ۔
دہشت گردی کا مسلہ بھی حل ہوا ہی سمجھیں کیونکہ حکومت اور طالبان کی
کمیٹیوں کا پہلا اجلاس ہو چکا ہے اور میڈیا بریفنگ میں ہمارے کو آرڈینیٹر
محترم عرفان صدیقی کی خوشی دیدنی تھی ۔اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
اجلاس میں افہام و تفہیم کی ایسی فضاء قائم تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ
جیسے ایک ہی کمیٹی ہو ۔ کمیٹی تو ویسے ایک ہی تھی کیونکہ دونوں طرف ہی
’’اپنے لوگ‘‘ بیٹھے ہوئے تھے اور طالبان فی الحال ’’پردے‘‘میں ہیں۔ لیکن
اُمید ہے کہ جلد ہی یہ پردہ چاک ہو جائے گا اور ہم بھی ’’دیدارِ طالبان‘‘
سے مستفید ہو سکیں گے ۔ہمارے وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید صاحب تو اتنے
بے تاب ہیں کہ جب طالبان نے یہ تقاضہ کیا کہ کمیٹی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے
شمالی وزیرستان بھیجا جائے تو اُنہوں نے کہا ’’ہیلی کاپٹر تو کیا کمیٹی کو
اپنے کندھوں پر لے جانے کو تیار ہوں ‘‘۔جب سے جنابِ پرویز رشید کا یہ بیان
آیا ہے تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر ہمارے وزیرِ اطلاعات واقعی جنابِ عرفان
صدیقی کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر جانبِ منزل رواں دواں ہو جائیں تو وہ کتنے
سالوں میں شمالی وزیرستان پہنچ سکیں گے؟۔پرویز رشید صاحب کو ایسا کرنے سے
پہلے جنابِ نواز شریف سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ اُنہیں اِس کا
تجربہ ہے اور وہ ایک دفعہ مولانا طاہر القادری کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر
غارِ حرا تک لے جا چکے ہیں ۔
طالبان سے معاملات تو افہام و تفہیم سے آگے بڑھ ہی رہے تھے لیکن لال مسجد
کے مولانا عبد العزیز کو بیٹھے بٹھائے جوش آ گیا اور اُنہوں نے یہ دھماکہ
کر دیا کہ وہ نفاذِ شریعت کی یقین دہانی تک مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے
۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں بلکہ قُرآن و سُنعت
کو مانتے ہیں اور آئینی حدود کی شرط سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گا
۔مولانا صاحب کی دیکھا دیکھی طالبان ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے بھی یہ کہہ دیا
’’ مذاکرات قُرآن و سُنعت کے تحت ہوں گے ، وہ کوئی اور قانون نہیں مانتے
۔طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی اور قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے ۔
ہماری جنگ نفاذِ شریعت کے لیے ہے ‘‘۔ہم سمجھتے ہیں کہ نفاذِ شریعت ہر
مسلمان کی آرزو ہے اور ہمارا آئین بھی اِس کی تصدیق کرتا ہے اوراسلامی
نظریاتی کونسل بھی تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہی بنائی
گئی تھی ۔ اِس لیے طالبان کا یہ مطالبہ ناجائز نہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ
پاکستان میں شریعت ِ محمدی ﷺکا نفاذ اُس کی اصل روح کے مطابق کیا جائے یا
اُن ’’شریعتوں‘‘ کے مطابق جو ہمیں علمائے اکرام کے ہاں وافر مقدار میں ملتی
ہیں ؟۔بہرحال اگر نیت میں خلوص ہو تو یہ مسلہ بھی حل ہو سکتا ہے کیونکہ
ہمارا اﷲ ، رسول ﷺ اور قُرآن ایک ہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو ’’خلوص‘‘ نامی
جِنس نایاب ہے شاید اسی لیے لوگ مذاکرات کی کامیابی سے مایوس ہیں البتہ ہم
رَبّ کی رحمت سے مایوس نہیں اور ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں تو کل صحنِ چمن
میں بہار ضرور آئے گی۔
|