خدا خدا کرکے پاکستان اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ شروع
ہواہے۔ پاکستان اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی جو کوششیں کی جاری ہیں
ان پر ہر پاکستانی کی دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں اور پاکستان ایک بار پھر امن
کا گہوارا بنے۔ حکومتی اور طالبان کی سطح پر شاید پہلی باراتنی منظم اور
جامع کوشش کی گئی ہیں۔مذاکرات کو شروع ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے ہیں مگر
اس کو سبوتاز کرنے والے شاطر ذہنوں نے اپنی چال چلنا شروع کردی ہیں۔ وہ
نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے ۔امن مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے جہاں
بیرونی طاقتیں سرگرم ہیں ادھر ہمارے اپنے ملک کے مٹھی بھر ملک دشمن لوگ بھی
ان قوتوں کے آلہ کاربن رہے ہیں۔فلمی سینوں کی طرح اپنے ہی ملک کے لوگ پیسے
کی خاطر اپنے ملک کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی مذاکراتی ٹیم نے
پہلا قدم اٹھایا نہیں ہے اور مذاکرات ناکام ہونے کی بازگشت پہلے ہی شروع
ہوگئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مایوسی کوکفر قراردیا ہے ۔
جہاں تک امن کمیٹیوں کا ذکر ہے ہماری نظرمیں تو دونوں کمیٹیاں خودمختار
نہیں ہیں کیونکہ وہ خود فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ انہوں نے مذاکرات کرکے
اپنے اپنے ہیڈکو بتانا ہے اور پھر ان سے ایڈوائس لیکر آگے بات چلائیں گے۔
بہتر ہوتا کہ حکومتی کی طرف سے ایک بااختیار وفاقی وزیر اور طالبان کی طرف
سے طالبان کا بااختیار ممبر ہوتا تو اس امن مذاکرات کے جلد اور دور رس
نتائج برآمد ہوسکتے ؟ جتنا وقت یہ کمیٹیاں اپنے ہیڈز سے مشاورت میں لگائیں
گی اتنے میں امن مذاکرات کو سبورتازکرنے والے اپنے مشن میں کامیاب ہوتے
جائیں گے کیونکہ نیکی کے راہ پر آتے آتے وقت لگتا ہے جبکہ بدی کارستہ
بآسانی سے نزدیک آجاتا ہے۔
یہ بات بعدکی ہے کہ ان مذاکرات کا رزلٹ منفی ہوتا ہے یا مثبت مگر ہمیں اپنی
مثبت سوچ کے ساتھ اس امن مذاکرات میں دونوں فریقوں کا ساتھ دینا چاہیے مگر
افسوس جب ہمارے ملک کے حکمران خود ہی مایوسی کا شکار ہوجائیں تو پھر عوام
تو ان سے زیادہ ناامید ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سب
سے زیادہ طالبان سے مذاکرات کے حامی تھے اور اب نہ جانے انہوں نے مذاکرات
سے ناامیدی کی توقع کیوں لگا لی ہے۔ سب سے پہلے تو خانصاحب خود طالبان کی
کمیٹی میں شامل نہیں ہوئے اور اب بجائے اس کے کہ وہ ان مذاکرات کے لیے اچھے
الفاظ منہ سے نکالیں وہ پہلے ہی عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ آپ تو بقول آپ کے
مخالفوں کے کہ عمران خان ’’بزدل خان‘‘ بن گئے ۔اگر آپ طالبان کمیٹی میں
نہیں ہیں تو چلو حکومتی پارٹی میں تو ہونگے پھر بھی خانصاحب اگر اﷲ نہ کرے
مذاکرات ناکام ہوئے تو آپ بھی ان کی ناکامی کے برابر کے ذمہ دار ہونگے۔ اب
ان مذاکرات کی ناکامی پر دھرنے یا جلسیاں نہیں ہونگی۔
مذاکراتی ٹیم کو اب ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا کیونکہ ان کے حرکات و
سکنات پر پوری دنیا کی نظر ہے۔ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ معنی خیز ہوگا۔
کسی بھی مقام پر ان کے منہ سے نکلا لفظ مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا
ہے۔جیسا حال ہی میں مولانا عبدالعزیز کابیان تھاجس میں امہوں نے بلاسوچے
سمجھے فرمادیا کہ وہ اس آئین کو نہیں مانتے ۔مولانا صاحب آئین پاکستان
اسلام کے مطابق ہے اور اگر آپ اس کو آئین اسلام کے منافی سمجھتے ہیں تو پھر
آپ نے اپنی زندگی کا اتنا عرصہ اس ملک میں خاموشی سے کیوں گزاردیا۔ آپ نے
علم آئین بغاوت بلند کیوں نہیں کیا؟ کیا مولانا صاحب بتا سکتے ہیں کہ اسلام
میں کہا لکھا ہے کہ مرد برقع پہن کر باہر نکلے اور اگر اسلام میں جان بچانے
کے لیے کچھ بھی جائز ہے تو اگر مشرف اسوقت یہ اعلان کردیتا کہ جو غیر مسلم
ہے وہ مسجد حفصہ سے باہر آجائیں تو کیا مولانا اپنی جان بچانے کے لیے دائرہ
اسلام سے بھی نکل سکتے تھے۔ مولانا صاحب آپ نہ طالبان ہیں اور نہ حکومتی
حصہ۔آپ پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہو۔آپ ایسا قدم اٹھاؤ جس سے ہمارے ملک
میں استحکام پیدا ہو، جذبہ ایمانی پیدا ہو،محبت و اخوت اور امن کا دوردورہ
ہو۔
حکومت پاکستان اور طالبان کو چاہیے کہ وہ نیک نیتی سے اس مشن کو کامیاب
بنائیں۔ممکن ہوتو ان مذاکرات کو الیکٹراناک میڈیا سے دوررکھا جائے کیونکہ
جوباتیں ہمارے ملک دشمنتوں سے چھپنی چاہیے وہ ان تک آسانی سے پہنچ جاتی ہیں۔
وہ باتیں نہ صرف ان تک پہنچتی ہیں بلکہ پھر ان پر ٹیبل ٹاک کرکے عوام کو
بھی گمراہ کیا جاتاہے۔ ملکی سلامتی اور امن کی خاطر اگر ایسی باتیں میڈیا
سے دوررکھنامقصود ہوتو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔میڈیا کوخودبھی اپنے ملک کی
سلامتی کے لیے ایسی خبروں سے گریز کرنا چاہیے۔
میرے سمیت تمام پاکستانیوں کی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو
اپنے ملک اور اسلام کی خاطر ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی توفیق دے۔ |