ملتِ ابراہیم

کفر سے ٹوٹنا اور اسلام کے لیے الگ تھلگ ایک جہان بسانا خواہ وہ چند نفوس پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو.. ملتِ شرک سے بیزاری دکھانا.. نہ صرف بتوں سے بلکہ بتوں کی عبادت کرنے والوں سے نہ صرف عداوت کرنا بلکہ اِس عداوت کو باقاعدہ ریکارڈ پر لے کر آنا اور اس کے مقابلے میں صرف اہل توحید سے اپنی وفاداری اور وابستگی کو ہی اپنی پہچان اور اپنی اجتماعیت کی بنیاد ماننا۔۔۔ یہی ملتِ ابراہیم ؑ ہے؛ یعنی ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ کے اس طریقے سے جو اُس ؑ نے خدا کی فرماں برداری میں ملتِ شرک کے مدمقابل اختیار کیا تھا بے رغبتی برتنے والے ’نیکوکار‘ جو خدا کو محض ایک ’مجموعۂ عقائد‘ اور ایک ’مجموعۂ اَخلاق‘ اور ایک ’مجموعۂ عبادات‘ کے ذریعہ سے ہی راضی کرلینے پر مصر ہوں، اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں۔
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ (البقرة: ۱۳۰)
’’اور کون ہے جو ملت ابرہیم ؑ سے اعراض کرے، سوائے یہ کہ اپنے آپ ہی کو بے وقوف بنائے‘‘
قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (الشعراء: ۷۵ ۔ ۸۲)
ابراہیم نے کہا: دیکھو یہ جن کو تم پوجتے آئے ہو، تم بھی اور تمہارے بڑے بھی.. یہ سب میرے دشمن ہوئے۔ سوائے ایک رب العالمین کے جو میرا پیدا کرنے والا ہے اور مجھے ہدایت دینے والا۔ جو مجھ کو کھلانے اور پلانے والا ہے اور جب بیمار پڑوں تو مجھ کو شفایاب کرنے والا۔ اور جو مجھ کو مارنے اور جِلانے والا ہے۔ اور جس سے میری یہ طمع وابستہ ہے کہ روزِ جزا وہ میری خطائیں بخش دے۔
إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الزخرف: 26-28)
جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا: میں بیزار ہوا ان تمام ہسیتوں سے جنہیں تم پوجتے ہو، سوائے اُس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے۔ اِسی چیز کو ابراہیم ؑ اپنے پیچھے باقی رہنے والا کلمہ بناگیا، تاکہ وہ (بعد والے) اس کی طرف لوٹ آتے رہیں۔
وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا (مریم:۴۸)
میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اُنہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا (ترجمہ جوناگڑھی)
قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ (الانعام: ۷۸۔۸۰)
ابراہیم ؑ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! میں بیزار ہوا ان سب چیزوں سے جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں اپنا رخ سونپتا ہوں اُس ہستی کو جس نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دیا، ایک اُسی کا ہو کر، اور اب میں مشرکوں کا حصہ نہیں۔ یہاں؛ اُس کی قوم اُس سے الجھ پڑی۔ ابراہیم ؑ نے کہا: کیا تم مجھ سے الجھتے ہو اللہ رب العزت (کے حق) کے بارے میں؟ حالانکہ اُس نے مجھے راہِ راست دکھلا دی ہے۔۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنة: ۴)
تمہارے لیے لائق اتباع مثال ہے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں کی؛ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا: ہم بیزار ہوئے تم سے اور جن ہستیوں کو تم اللہ کے ماسوا پوجتے ہو اُن سے۔ کفر کیا ہم نے تم سے۔ کھلی عداوت اور بیر ہوا ہمارے اور تمہارے درمیان جب تک کہ تم ایک اللہ پر ہی ایمان نہ لے آؤ
بہت کم حجاجِ کرام ہوں گے جو پورے شعور کے ساتھ خدا کے اُس ’’گھر‘‘ کا طواف کر کے آتے ہوں جس کی تعمیر کی کہانی میں ایک ’’بت خانے‘‘ کے ڈھائے جانے کا ذکر اِس گھر کی تعمیر سے پہلے آتا ہے! وہ حجاجِ کرام جو ہزاروں میل کا سفر توحید کے اُس قدیم ترین مرکز کی زیارت کے لیے اختیار کرتے ہوں اور اس میں پائی جانے والی ایک ایک یادگار (مشاعر) پر مناسک ادا کرکے آتے ہوں جو شرک کی ایک دنیا کو خیرباد کہہ دینے کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا.. اور جوکہ ’’تَبَرَّأتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ ‘‘ ایسے کچھ کلمات کا ہی ایک زندہ اور جیتا جاگتا ترجمہ تھا۔ اور پھر اس سے تین سو میل کے فاصلے پر ایک اور مقدس شہر: جس کی تاسیس کا کوئی اور سبب بیان ہونے میں نہیں آتا سوائے توحید اور شرک کی اُس لڑائی کے جو سید البشر ا کے اپنی قوم، قبیلہ، ملک اور دھرتی سے ناطہ توڑ لینے.. اور اُس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ایک پردیس کو ہی اپنا دیس قرار دے لینے.. نیز اِسی ’’پردیس‘‘ کو اپنے ملکی وقومی رشتہ داروں کے خلاف جہاد کا بیس کیمپ بنا لینے کا موجب ہوئی تھی۔۔۔؛ وہ زائرین جو اِس شہر سے جس کو ’یثرب‘ کہنا متروک ہوچکا، ’’مدینہ‘‘ اور ’’تمدن‘‘ اور ’’اجتماع و عمران‘‘ کے کچھ برگزیدہ آسمانی مفہومات لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہوں!
بشکریہ۔ حامد کمال الدین

Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 49992 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.