طالبان سے مذاکرات رازداری کے متقاضی

شاہین کوثر ڈار

طالبان کی نامزد کمیٹی کے ساتھ حکومتی کی چار رکنی ٹیم کے مذاکرات کا سلسلہ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے امن کو موقع دینے والے نئی امیدوں اور توقعات کے ساتھ دعا گو ہیں۔ دوسری شروع سے ہی مذاکرات کی مخالف کئی اندرونی اور بیرونی قوتیں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کی ناکامی کیلئے بعض میڈیا کے عناصر کے میڈیا ڈورون حملے بھی جاری ہیں جن کا مقصد مذاکراتی فضاء کو اندیشوں، وسوسوں، خدشات اور مایوسی میں تبدیل کردینا ہے۔ انہی مذاکرات پر امریکہ یورپ ، سعودی عرب، ایران، بھارت اور افغانستان کی بھی گہری نظر اور دلچسپی ہے۔ مکالمے کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا مقصد حاصل کرنے کے لئے افواج پاکستان اور حکومت پاکستان ایک صفحے پر نظر آ رہی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے سلامتی اور راز داری کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ مذاکرات غیر معمولی حالات میں جاری ہیں جن کو ناکام بنانے کے لئے اپنے مذموم ایجنڈے کے ساتھ پاکستان دشمن طاقتیں اور میڈیا کے کچھ عناصر مصروف عمل ہیں۔ مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے رازداری کو سلامتی جانتے ہوئے مذاکراتی عمل کی میڈیا کی لیکج بند کرنا ہوگی۔ پاکستان کے میڈیا کا بڑا حصہ محب وطن ہے جسے ان مذاکرات کی کامیابی کے لئے اپنا بھرپور کردار اور محتاط رویہ اپنانا ہوگا۔ مذاکراتی عمل کی ہر تفصیل کی میڈیا کے ذریعے کوریج کرانا یا کرنا ضروری نہیں۔ قوم کی اصل دلچسپی اس بات سے ہے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ بریکنگ نیوز کے چکر میں ریٹنگ بڑھانے کے لئے بعض میڈیا عناصر مذاکراتی عمل کی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھ کے معاملات کو سلجھانے کی بجائے متنازع چیزوں کو تلاش کرنے اور اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے مذاکراتی عمل سے ایسے میڈیا کو دور رکھا جائے تاکہ وہ اپنے کسی مخصوص اور کسی اور کے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ مذاکراتی ٹیم کو بھی ہر بات اور مذاکرات کا مقام اور موقع محل سکیورٹی کے نقطہ نظر سے پوشیدہ رکھنا چاہئے۔ اسی طرح مذاکرات کی لائیو کوریج سے بھی اجتناب کرنا چاہئے تاکہ مذاکراتی ٹیم کے مذاکراتی مقام پر نہ تو ڈورون حملہ ہو اور نہ ہی مذاکراتی عمل کو کسی میڈیا ڈورون کے ذریعے سبوتاژ کیا جاسکے۔
ایک طرف حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیمیں امن بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے ابتدائی تیاریاں مکمل کرچکی ہیں اور امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ مطلوب وضاحتوں پر تبادلہ خیال کے بعد فریقین میں جنگ بندی کا فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔ دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں میں دھماکوں اور تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بدھ کے روز بڈھ بیر میں امن لشکر کے سربراہ کے گھر پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ اور بم دھماکے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 9افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ اس سے ایک روز قبل پشاور کے ایک سینما گھر میں دستی بموں کے یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے جن کے نتجے میں 13افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اسی روز ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کولاچی میں دہشت گردی کی ایک کوشش ناکام ہوگئی اور سڑک کے کنارے بم نصب کرنے والے تین افراد اچانک دھماکے سے خود ہی نشانہ بن گئے۔ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کے اعلان سے اب تک 15دہشت گرد حملے خیبرپختونخوا میں اور تین کراچی میں ہوچکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان حالیہ حملوں کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ کچھ عناصر مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملوں کے واقعات کا ذکر بے محل نہیں ہوگا جبکہ سب ہی جانتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششوں کو پہلا موقع دینے کے حکومتی فیصلے کو تمام سیاسی حلقوں اور ریاستی اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ مذاکرات کی کامیابی اور افہام و تفہیم کی کوششوں کو بارآور بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے ذریعے انہیں سبوتاژ کرنے میں خواہ کوئی تیسری قوت ملوث ہو خواہ کچھ گروپ اس کے لئے کوشاں ہوں طالبان قیادت ان کو بے نقاب کرے اور ان کا ہاتھ روکنے میں مدد دے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے منگل کے روز طالبان کمیٹی کے ساتھ اجلاس میں شرکت کے بعد رپورٹ پیش کرنے کے لئے ایوان وزیراعظم آنے والی حکومتی ٹیم سے گفتگو کے دوران اس امر کی خاص طور پر نشاندہی کی کہ امن مذاکرات شروع ہونے کے بعد دہشت گردی ختم ہونی چاہئے۔

 

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 105091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.