پاکستان میں عام انتخابات اب محض چند ہفتوں کی دوری پر
ہیں۔ ملکی وبین الاقوامی حالات کے تناظر میں یہ انتخابات انتہائی اہمیت کے
حامل ہیں ۔ خوش آئند امر ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کی تکمیل کے بعد ،
دوسری حکومت کی تشکیل کی غرض سے تمام مراحل حسب آئین وضع کردہ طریقہ کار کے
مطابق طے کیے جا رہے ہیں ۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی وقت معین پر تحلیل،
نگران و زیر اعظم اور وزرائے اعٰلی کا تقرر ، صدر مملکت کی جانب سے
انتخابات کی تاریخ کا اعلان جیسے خوش کن مناظر ہماری سیاسی اور انتخابی
تاریخ میں شاذ ہی دیکھنے میں آئے ۔ بروقت انعقاد کی اہمیت مسلم، مگر
انتخابات کی ساکھ کا معاملہ ، انعقاد سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔دراصل
انتخابی عمل کی ساکھ اور اعتبار ہی انتخابات میں شمولیت اور بعد ازاں نتائج
کی قبولیت کا ضامن ہے۔ 1971 میں انتخابی نتائج کی عدم قبولیت کی وجہ سے
پاکستان ٹوٹ گیا۔1977 میں بھی انتخابات کی ناقابل اعتبارساکھ اور نتائج کی
عدم قبولیت نہ صرف طویل مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنی بلکہ ایک
مقبول رہنما اور سابق وزیر اعظم کو تختہ دار تک لے گئی ۔ بعد ازاں یہی قضیہ
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی منتخب حکومتوں کے عدم استحکام اور پے در پے
بر طرفیوں کا باعث بنتا رہا۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات کی شفاف اور غیر
جانبدار ساکھ کو یقینی بنانابے حد ضروری ہے۔ تاکہ دھاندلی ،عدم شفافیت ، نا
انصافی اور جانبداری جیسا کوئی جواز حرف گیری باقی نہ رہے اور انتخابی عمل
اور نتائج تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہوں۔
اس حوالے سے اولین ذمہ داری الیکشن کمیشن اورقومی و صوبائی نگران حکومتوں
پر عائد ہوتی ہے ۔ حوصلہ افزاء امرہے کہ حالیہ دور میں ماضی کے بر عکس با
اختیار عدلیہ ، غیر جانبدارا فواج ، توانا میڈیا اور متحرک سول سوسائٹی بھی
انتخابی عمل کی نگرانی اور تقویت کے لیے موجود ہیں۔ بلاشبہ یہ تمام ادارے
اپنی استعداد کار اور حلقہ اختیار کے حوالے سے بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔
مگر اپنے دائرہ اثر کی وسعت اور عوام الناس تک براہ راست رسائی کا حامل
ہونے کے باعث میڈیا کی اہمیت دو چندہے ۔ رائے سازی میں میڈیا اور خاص طور
پر الیکڑانک میڈیا کا کردار بے حد اہم ہے ۔ مگرکچھ عرصے سے بعض معاملات پر
میڈیا کا اپنا کردار بھی زیر بحث ہے اوراسے صحافتی ضابطہ اخلاق کا پابند
بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے کردار اوردائرہ کار سے
متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔ مگرنفاذکے بغیر یہ مو جودگی قطعی بے فائدہ
ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کو رضاکارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔صحافتی
اداروں کا خودساختہ انتظام اور نگہبانی ، کسی بھی قانونی شکنجے اور پیمرا
جیسے حکومتی اداروں کی نگرانی سے زیادہ اہم اور موثر ہو گی۔ میڈیا مالکان
اور حکام بالا کو باہمی رضا مندی سے اپنے اداروں کے لیے خود اختیاری داخلی
نظام وضع کرنا چاہیئے ۔بالخصوص انتخابات جیسے اہم موقع پر عوام الناس تک
حتی الامکان غیر جانبدار اور متوازن معلومات کی ترسیل ازحد ضروری ہے ۔ اپنے
ذاتی نکتہ نگاہ کو حرف آخر اور قطعی بنا کر پیش کرنے کا چلن نہ صرف صحافتی
اصولوں کے منافی ہے بلکہ عوام الناس سے بھی زیادتی اور نا انصافی کے مترادف
ہے ۔ کالم نگاری اور تجزیہ نگاری کی حد تک جانبداری اور ذاتی آراء کا اظہار
حق بجانب ، مگر رپورٹر اور اینکر کے مناصب پر براجمان ہو تے ہوئے، یک رخی
اورجانبداری کا مظاہرہ نا مناسب امرہے ۔ انتخابات کی کوریج ، سیاسی جماعتوں
کی کارکردگی اورا امیدواروں کی گزشتہ کارگزاری سے متعلق اظہار خیال میں،
pluralism کا عنصر بنیادی اصول کے طور پر اختیار کیا جاناچاہیے۔ اس حوالے
سے مالکان ، مدیران اور خبر نگاروں سمیت کسی بھی درجہ پر کسی کے میلان طبع
یا ذاتی رائے کا تواتر اور افراطmedia contents کی غیر جانبداری کو بری طرح
متاثر کرئے گا۔ میڈیا کوتعلق خاطر سے قطع نظر منصفانہ اور لا تعلق طرز عمل
اختیار کرنا ہو گا۔
میڈیاcontents کوکمرشلزم اور اشتہارات کے زیر اثر اور زیر بار ہونے سے
بچانابھی نہایت اہم معاملہ ہے۔ بسا اوقات میڈیا ہاؤسز کروڑوں کاکاروبار
دینے والی سیاسی جماعت کے مر ہون احسان ،خبریں اور تجزئیے اس کے حق میں
موڑنے پر مجبور یا مائل ہو جاتے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر اشتہارات کے عوض
اس قسم کی پیکج ڈیل کے ذریعے دانش فروشی اور صحافتی سوداگری سے صرف
نظرانتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو گا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو
متا ثر کرنا سیاسی جماعتوں کا قابل تائید حق سہی، مگر یہ حق نافذ کردہ
حدودو قیود کے زیر نگیں ہونا چاہیے۔ روپے پیسے کی ریل پیل کو اشتہارات کی
بہتات کی صورت رائے عامہ پر ناحق غالب آنے سے بچانے کی غرض سے سیاستدانوں
کیساتھ ساتھ میڈیا پربھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں اور
امیدواران کی انتخابی مہم اور تشہیر کے حوالے سے قوانین و ضوابط گذشتہ کئی
سالوں سے موجود ہیں ۔ مگر اصل مسئلہ ان کے اطلاق و نفاذ کا ہے۔ الیکشن
کمیشن اس حوالے سے قانونی اختیارکا حامل ہے۔ ماضی میں انتخابی مہم کے
اخراجات سے متعلق حد بندی کی خلاف ورزی پرتعزیری کاروائی سے ہمیشہ تغافل
برتاگیا۔ سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو حدود و قیود کا پابندبنانے کیلئے
موجودہ الیکشن کمیشن کو کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر جرات مندانہ
اقدامات کرنا ہوں گے۔الیکشن مہم میں جلسے جلوسوں اور حلقہ جاتی تشہیر جیسے
معاملات پر اصراف کی مکمل جانچ پڑتال ممکن نہیں، مگر ذرائع ابلاغ پر
اشتہارات کی مد میں اٹھنے والے اخراجات کا مکمل گوشوارہ پیمراکی مدد سے
باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔چند ایک پرگرفت کی صورت دیگر افراد خودبخود
قانون کی پابندی پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن ان قانونی اقدامات سے قطع نظر،
میڈیا کا فرض ہے کہ اپنی آزادی اور اثر انگیزی کو مثبت طریقے سے استعمال
کرے اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور امیدواران کا حتی
المقدوراصل چہرہ عوام الناس کے سامنے لائے اور ذاتی پسند ناپسند اور تجارتی
ذہنیت کو صحافتی ذمہ داریوں پر حاوی ہونے سے بچائے رکھے۔ کیونکہ فقط حقیقی
نمائندوں کا انتخاب اور با اختیار ہونا ہی ملک و قوم کے درپیش مسائل سے
نجات دلانے کا ضامن ہے۔ |