مشہور فلسفی اور تاریخ داں افلاطون نے اپنی شہرہ آفاق
کتاب ’History‘میں ایک گمشدہ شہر ’اٹلانٹس‘ کے بارے میں لکھا ، جس کی وجہ
سے آج تک ماہرینِ آثاریات تحقیق میں مصروف ہیں۔ افلاطون نے لکھا کہ یہ
گمشدہ شہربحر اوقیانوس میں واقع بہاماز کےعلاقےمیں واقع ایک بہت بڑے جزیرے
پر آباد تھا ۔ اس جزیرے پر ایک عظیم الشان تہذیب قائم تھی اور یہاں کے لوگ
انتہائی ترقی یافتہ تھے۔بلکہ افلاطون اور اس نظریے پر کام کرنے والے ماہرین
آثاریات کے مطابق انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے کچھ میدانوں میں ایسی ترقی
اور کچھ ایسا عروج حاصل کر لیا تھا جس کا آج بھی سائنس دان خواب ہی دیکھ
سکتے ہیں۔ انہوں نے ناقابلِ یقین وزن کی چٹانوں کے ذریعے انتہائی اونچی اور
نفیس عمارتیں بنا لی تھیں۔ انہوں نے شیشوں سے توانائی حاصل کرنے کا طریقہ
بنا لیا تھا۔ ان کے مال بردار تجارتی بحری جہاز ساری دنیا میں جاتے تھے اور
ان کا شہر سونے چاندی اور دوسری قیمتی اشیاءسے بھرے ہوئے تھے۔ پھر اچانک ان
کے عروج کو زوال نے آ لیا اور ایساسالوںاور مہینوں میں نہیں بلکہ دن کے ایک
حصے میں ہو گیا۔ ان کی حیران کن ترقی اور عروج نے ہی ان کو کھا لیا اوروہ
افسانوی شہر یوں غائب ہو گیا کہ آج تک سینکڑوں مہم جو تحقیق دانوں نے اس کی
باقیات کھوجنے میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں مگر کوئی واضح نشان نہ مل سکا۔
ہوا یہ تھا کہ انہوں نے کرسٹلز کی توانائی سے سمندر میں سوئے ہوئے آتش
فشاؤں کو چھیڑ دیاتھا، یوں آتش فشاں پھٹ پڑے جس سے شدید زلزلے اور اس کے
نتیجے میں انتہائی شدید سونامی طوفان نے جنم لیا جس نے پورے جزیرے کو غرقاب
کر دیا۔بے شک یہ ایک روایت ہے لیکن افلاطون کے مقام اور اس کی علمیت کے پیش
نظر دو ہزار سالوں میں کسی نے بھی اس روایت کو یکسر نہیں جھٹلایا، پھر گاہے
گاہے اس روایت کے حق میں کئی ایسے ثبوت بھی ملتے رہے جس سے اس نظریے کو نئی
زندگی ملتی رہی۔ بہرحال افلاطون کی کتاب کے بعد آج تک اس افسانوی شہر کو
ادیبوں نے اپنے ناولوں میں زندہ رکھا اور ہالی ووڈ کی کئی مشہورسائنس فکشن
فلمیں بھی ’اٹلانٹس ‘پر بنیں اور کامیاب ہوئیں۔
اٹلانٹس سٹی حقیقت میں تھا یا یہ افلاطون کے تخیل کا کرشمہ ہے، یہ الگ بات
ہے لیکن اس الف لیلوی شہر کے قصے میں ایک سبق بہرحال پنہاں ہے اور وہ ہے
انسان کا اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کرنا۔اٹلانٹین قوم کی تباہی
میں تو بہرحال قدرت کا ایک قانون کارفرما تھا کہ ہر عروج کے بعد زوال ہے،
اور اس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں۔اٹلانٹین کی بے پناہ ترقیبھی ان کے
زوال کا باعث بن گئی تھی لیکن ملکِ عزیز پاکستان کا معاملہ عجیب تر ہے۔ ہم
نے عروج تو کیا دیکھنا تھا، اس کے ہجے بھی صحیح سے نہیں آتے لیکن کسی قابل
ہوئے بغیر خاکم بدہن یوں لگ رہا ہے کہ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ یہ ملک
خود اپنے ہی باسیوں کے ہاتھوںتباہ ہوتا جا رہا ہے۔بس فرق یہ ہے کہ اٹلانٹین
دن کے ایک حصے میں اچانک برباد ہو ئے اور ہم دھیرے دھیرےکسی گلیشیر کی طرح
پگھل رہے ہیں۔ہمارے نیچے سے زمین آہستہ آہستہ کھسک رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک
سانحہ۔ 47ءکے بعد صرف تیئس سال کے بعد 71ءمیں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں
کے پھل اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا اور گویا دو قومی نظریے کوبنگال کے
میدانوں میں شکست دے دی گئی، ایسی شرمناک شکست کہ نوے ہزار فوجی دشمن کی
قید میں چلے گئے۔ لیکن ہم پھر بھی ’ہم زندہ قوم ہیں‘ کے گیت گاتے رہے۔ہم
65ءکی جنگ کے ولولہ انگیز ترانے اپنے بچوں کو یاد کراتے رہے لیکن انہیں
کبھی 71ءکے شرمناک المیے سے روشناس نہیں کرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بچے
آج جب بڑے ہو کر مختلف شعبوں میں گئے ہیں تو اپنی ذہن سازی کے مطابق صرف
بڑی بڑی بڑھکیں مارتے ہیں اورعمل تو دور کی بات ہے، کسی بڑے خطرے کو محسوس
کرنے کی بھی گویا اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے خلاف دشمنوں کی ہمہ گیر
جارحیت اپنا دائرہ وسیع کرتی جا رہی ہے اور ہم نان ایشوز میں الجھے ہوئے
ہیں۔ خود مختاری کس چڑیا کا نام ہے، ہم بھول چکے ہیں۔خودمختار قوم کیا ہوتی
ہے،مارشل جزائر اس کی بہترین مثال ہے۔ مارشل جزائر 1991ءمیں امریکی تسلط سے
آزاد ہوا۔یہ جزائر پر مشتمل ملک دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس
کوئی فوج نہیں مگر اس غیور قوم نے آزادی کے فوراً بعدامریکا پر اپنے علاقے
میں جوہری آلودگی پھیلانے کے الزام میں (یہ جوہری تجربات امریکا نے پچاس کی
دہائی میں کیے تھے) دوبلین ڈالرز کا ہرجانہ طلب کیا اور پھر 183ملین ڈالرز
وصول بھی کیے،یوں یہ چھوٹا سا ملک امریکا سے ہرجانہ وصول کرنے والا دنیا کا
پہلا ملک بن گیا۔اور بھی دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے پاس نہ تو ایٹم
بم ہیں، نہ بہترین میزائل، ان کے پاس نہ ہی پاکستانی فوج جیسی صلاحیتیں
رکھنے والی فوج ہے لیکن ایک چیز ان کے پاس ایسی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی
ایک انچ زمین کی پائمالی پر اور اپنی عزت نفس پر ذرا سی آنچ آنے پر وقت کے
سپر پاور کو بھی آنکھیں دکھادیتے ہیں اور وہ چیز ہے غیرت!
بے شک غیرت ہی ایسی چیز ہے جو کسی فرد یا قوم کو دنیا میں عزت دے سکتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اب کوئی یہ کہے کہ میں خود بڑھکیں مارنے جا رہا ہوں اور’
زمینی حقائق‘ سے منہ پھیر کر قوم کو امریکا سے ٹکر لینے کے لیے تیار کررہا
ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ آج ملک کو درپیش تمام
مسائل کا حل ایک دو ٹوک ”انکار“ میں ہے۔ امریکا کو انکار۔ مشرف کی طرح ایک
کال پر لبیک کہنے والا طرز عمل ہمیں چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کو پوری
سنجیدگی سے ایک مضبوط لائحہ عمل اور ایک جامع منصوبہ بندی بنانی پڑے گی
اورامریکا کے معاملے میں ایک دو ٹوک رویہ اپنانا ہو گا۔ ہمارے شہری علاقے
ہوں، نیم قبائلی علاقے ہوں یا قبائلی۔سب ہمارا ہے، اور اس کے ایک ایک انچ
کے حوالے سے ہمیں نہایت حساسیت کا پیغام امریکا کو دینا ہو گا ورنہ یہ جنگ
آہستہ آہستہ اپنا دائرہ وسیع کرتے کرتے لاہور اور کراچی تک بھی آ سکتی
ہے۔اور اگرکچھ دانشور آپ کو یہ فرماتے نظر آئیں کہ امریکاکو واضح انکار
ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا، تویقین جانیے ایسا کچھ نہیں ہو گا
۔ہماری پارلیمنٹ آج ساری دنیا کو یہ پیغام پہنچا دے کہ نہ تو ہم آج کے بعد
کسی کے بھی معاملے میں تھانے دار بنیں گے اور نہ ہی کسی کو اپنے معاملات
میں تھانے دار بننے دیں گے تویقین کیجیے پوری دنیا میں پاکستان کی خود
مختاری اور عزت نفس کے حوالے سے ایک بے حد مثبت پیغام پہنچے گا اور یقینا
ہم عالمی طور پر اپنے آپ کو تنہا نہیں پائیں گے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ ابھی
کچھ دن پہلے کیسے چین جیسے طاقتور ملک اور برازیل اور وینزویلا جیسے امریکا
کے پڑوسیوں نے امریکی ڈرون حملوں پر کیسی تنقید کی تھی۔ ایسی تنقید کی جرات
تو کبھی ہمیں اور یمن کو بھی نصیب نہیں ہوئی جو خود براہِ راست ڈرون کے ڈسے
ہوئے ہیں۔تو اے میرے ملک کے حکمرانو! ایک بار غیرت مندانہ فیصلہ کر لو،
یقینا پاکستان کی تاریخ میں تمہارا نام سنہرے حرف میں لکھا جائے گا ورنہ
اللہ نہ کرے وہ وقت دور نہیں نظر آتا جب یہ ملک بنگال کی طرح، بلوچستان ،
وزیرستان اورخیبر پختون خواہ میں بٹ کر اٹلانٹس کی طرح معدوم ہو جائے گا۔ |