یہ تقریباً تین سال پہلے کی بات
ہے۔ فیصل آباد سول لائن ایریا میں زبردست تباہی مچی تھی۔ایک خوفناک دھماکے
کے نتیجے میں 25افراد نے موت کا لباس زیب تن کرلیا تھا اور ڈیڑھ سو سے اوپر
زخمیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ فیصل آباد نے اتنی خوفناک اور بڑی تباہی
شاید پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ شہر بھرمیں خوف اور سوگ کا عالم تھا۔ بہت سے
چہروں پر وحشت ناچ رہی تھی اور آنکھیں اشکبار تھیں۔ اس قیامت صغریٰ نے سب
کو غمزدہ اور افسردہ کردیا تھا۔ان دنوں میں فیصل آباد میں تھا اور چند
دوستوں کے ہمراہ اکثرایک ہوٹل میں چائے پینے جایا کرتا تھا ،جہاں ایک ستر
اسی سالہ بابا جی بھی اکثر آجایا کرتے تھے۔ اتنی زیادہ عمر کے باوجود وہ بے
حد ہشاش بشاش اور چست و توانا دکھائی دیتے تھے۔ بابا جی نے اپنی زندگی کا
اکثر حصہ فوج میں گزارا تھا،وہ بہت ہی سنجیدہ اور پرمغز گفتگو کیا کرتے تھے۔
ہم ان کی پرمغز باتوں سے محظوظ ہوا کرتے۔
دھماکے سے اگلے ہی روز جب ہم چائے پینے ہوٹل میں گئے تو بابا جی بالکل گم
سم اور افسردہ بیٹھے تھے۔ ہم نے جب ان سے افسردگی اور خاموشی کی وجہ دریافت
کی تو وہ دل گرفتہ لہجے میں گویا ہوئے۔ ”بیٹا پاکستان کے حالات دیکھ کر
کلیجہ منہ کو آتا ہے، ہم جب ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آئے، اس وقت میں
کافی کم عمر تھا، پھر بھی ایک ایک بات میرے ذہن میں گزرے ہوئے کل کی طرح
محفوظ ہے۔ ہمارے محلے دار ہمیں بھارت نہ چھوڑنے پر راضی کرنے کی ناکام کوشش
کرتے رہے اورمیرے ابا جی ہم پانچوں بہن بھائیوں کو لے کر پاکستان آگئے۔جبکہ
میرے تایا جی اپنی فیملی کے ساتھ بھارت میں ہی رہے۔ وہ ہمارے بھارت چھوڑنے
پر ناخوش تھے، انہوں نے میرے ابا کو بہت سمجھایا کہ بھارت کو چھوڑ کر نہ
جائیں، یہیں ایک ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں،لیکن میرے ابا کا کہنا تھا کہ
بھارت ہمارا ملک نہیں ہے۔ اب ہمارا اپنا ملک پاکستان بن گیا ہے، ہمیں وہیں
جانا چاہیے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ وہاں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ
مل جل کر پیار و محبت اور امن و سکون سے رہ سکیں گے۔ بیٹا! ہمیں بتایا جاتا
تھا کہ نیا بننے والا ملک پاکستان ”جنت ہو گا جنت“۔ وہاں مسلمانوں کی جان،
مال، عزت و آبرو بالکل محفوظ ہوگی۔ سب آزادی اور امن و سکون کے ساتھ زندگی
گزار سکیں گے۔ہندوستان سے آتے ہوئے ہمارے کئی رشتے دار شہید ہوئے۔
مسلمانوںکے ایک ایک گاﺅں اور ایک ایک گھر پر دھاوا بولا گیا۔ مردوں کو
اذیتیں دے دے کر اور عورتوں کو وحشیانہ عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا۔ ہمارا
مقدس ورثہ قرآن اور دیگر اسلامی کتابیں جلادی گئیں۔ ہم نے آتے ہوئے بہت دکھ
جھیلے ہیں۔ ہجرت کے بعد کئی دن ٹھوکریں کھاتے، بھوک و پیاس کی حالت میں ہم
پاکستان پہنچے تھے۔اب تم ہی بتاﺅ ،یہ سارا دکھ ہم نے کیا ایک ایسے پاکستان
کے حصول کے لیے جھیلا تھا جو غیر محفوظ اور بدامنی کا شکار ہو اور وہاں موت
کا بسیرا ہو؟ کیا ہر وقت موت و وحشت کی چھتری تلے سانس لیتے زندگی گزارنے
کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا؟ ہم نے تو سکون، امن اور آزادی کے لیے ہجرت
کی تھی۔وہ سکون، امن اور آزادی آج کہاں ہے؟کم از کم پاکستان میں تو نہیں
ہے۔بخدا پاکستان کے حالات دیکھ کر دل دکھتا ہے، دل پر چھریاں چل جاتی
ہےں۔یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے،سب بپھری ہوئی موت کے حصار میں ہےں۔بابا
جی کے آنسو چہرے سے بہتے ہوئے داڑھی کو تر کرنے لگے اور میں خاموشی سے سفید
ریش بابا جی کے جھریوں بھرے چہرے کو تکنے لگا۔
اس واقعہ کو آج تین سال ہونے کو آئے ہیں، ہر سال کی ابتدا اسی آس کے ساتھ
کرتا ہوں کہ شاید پاکستان کے قیام کا مقصد حاصل ہوجائے، مگر سال اپنے معمول
کے مطابق گزر جاتا ہے اور ملک میں سکون، امن، آزادی اور تحفظ نام کی کوئی
چیز نظر نہیں آتی۔ ملک کے حالات میں رتی بھر بھی بہتری نہیں آتی،بلکہ حالات
بہتری کی بجائے مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔روز اخبارات دل چھیدنے والی
خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر خبر کسی نئے سانحے کا پتا دے رہی ہوتی ہے اور
کوئی نئی قیامت اور افتاد وارد ہونے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔ کوئی دن ایسا
نہیں گزرتا جب دھماکوں اور قتل و غارت گری کی خبریں نہ آتی ہوں۔ پورا
پاکستان خون میں لت پت ہے۔ملک میں کھل کر خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔کچھ
پتا نہیں چل رہا ہے ،کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟پہلے ہفتے میں ایک
آدھ دھماکا ہوتا تھا، اب روزانہ بھی نہیں، صبح شام دھماکے ہوتے ہیں۔پہلے
پہل کہا جاتا تھا کہ فلاں شہر محفوظ ہے، فلاں علاقہ محفوظ ہے، لوگ غیر
محفوظ شہروں کو چھوڑ کر محفوظ شہروں کی طرف ہجرت کرجاتے تھے۔اب تو ہر طرف
موت کا بسیرا ہے۔کوئی شہر بھی محفوظ نہیں ہے۔دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ
میں لے رکھا ہے۔
میرے وطن میں موت کی تیز ہوا کے تھپیڑے ایسے آئے کہ ہر ذی شعور انسان کو
رلا کے رکھ دیا۔نہ سفر محفوظ، نہ گھر محفوظ، نہ بازار اور نہ اسکول و
ہسپتال محفوظ، ہر جگہ دہشت کی حکمرانی ہے۔ زندگی کی سانسیں پھول گئی ہیں۔
زندگی، موت کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ ہر طرف قتل و غارتگری کا
بازار گرم ہے اور اس بازار میں سب سے سستی و ارزاں چیز موت ہی ہے۔ڈاکٹروں،
پروفیسروں، انجینئروں اور صحافیوں کو چن چن کر تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔دن
دہاڑے مختلف مسالک کے علمائے کرام کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہا ہے،
ملک میں فرقہ واریت کا عفریت منہ کھولے معاشرے کو ہڑپ کرنے کو تیار ہے۔لوگ
عبادت گاہوں میں جانے سے بھی خوفزدہ ہیں کہ عبادت گاہیں قتل گاہوں میں بدل
گئی ہیں۔ شہریوں کی نہ عزت محفوظہے نہ جان و مال۔میرے ملک کے شہری کہیں بم
دھماکوں کی نذر ہوجاتے ہیں اور کہیں انہیں تاک تاک کر سیاست کی بھینٹ
چڑھادیا جاتا ہے۔گھروں سے نکلتے وقت ذہن میں یہ خوف اور وسوسہ ہوتا ہے کہ
کیا خیریت سے گھر واپس پہنچ پائیں گے یا پھر خدانخواستہ کسی ٹارگٹ کلر کی
اندھی گولیوں کا شکار ہوجائیں گے۔ شوہر کی واپسی کے لیے بیوی، باپ کی واپسی
کے لیے بچے دست بہ دعا ہوتے ہیں۔ بھائیوں کی خیریت سے واپسی کے لیے بہنوں
کی آنکھوں میں غیر یقینی کی پرچھائیں اور آنسو ہیں اور ہونٹوں پر دعائیں
ہیں۔
ہر بستی، ہر محلے ،ہر علاقے میں لاشیں ہیں۔آہ و زاریاں ، دھاڑیں اور آنسو
ہیں۔قاتل ، دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد بے خوف و خطر دھڑلے سے ڈاکے ڈال
رہے ہیں۔بینک لوٹ رہے ہیں اور بھتا لے کر لوگوں کے کاروبار اجاڑ رہے ہیں۔
بے گناہ شہریوں کو اغوا و قتل کیا جارہاہے۔ شاید کوئی بڑا شہر ایسا نہیں
جہاں بدقماش عناصر معصوم شہریوں کو اغوا کرکے ہر ماہ ان کے اعزا و اقربا سے
تاوان کی مد میں کروڑوں روپے اپنی جیبوں میں نہ بھر رہے ہوں۔ سیاستدان
حالات کو سدھارنے کی بجائے قوم کو آپس میں لڑاکر بگاڑنے میں مصروف
ہیں۔اربابِ اختیار صرف بیانات کے ذریعے بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ملک کی
ڈوبتی ناﺅ کو بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں یا پھر بچانا نہیں چاہتے!
شاید سرور ارمان کے یہ اشعارہی کچھ میرے جذبات کی ترجمانی کر سکیں
پھر یوں ہوا کہ وقت کے تیور بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ حشر کے ساماںہو گئے
پھر یوں ہوا کہ شہر بیاباں ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ غلبہ ¿ آفات ہو گیا
پھر یوں ہوا کہ قتل مساوات ہو گیا
|