طالبان سے مذاکرات اور عالمی میڈیا پرجاری تبصرے

بتایا جاتاہے کہ طالبان کی میڈیا مہم جوئی زور و شور سے جاری ہے۔ ان کے اپنے نمائندے اور عمران خان جیسے خدائی فوجدار ان کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اس پروپیگنڈا مہم کو مزید آگے بڑھانے کے لئے گزشتہ روز 40 کے لگ بھگ مذہبی رہنماؤں کو اکٹھا کیا اور امن کی اپیل کی۔درحقیقت مولانا سمیع الحق اور ان کے ساتھ پروفیسر محمد ابراہیم کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ بات چیت کا آغاز ہونے اور حکومت کی طرف سے تمام سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود گزشتہ دو ہفتے کے دوران درجنوں حملوں میں 70 سے زائد بے گناہوں کو کیوں شہید کیا گیا ہے۔ اس اہم ذمہ داری کو قبول کرنے کی بجائے اب طالبان کے نمائندے ملک کی مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں اپنے ہم مسلک اور ہم خیال عناصر کو اکٹھا کر کے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں بدامنی کی وجہ حکومت پاکستان ہے۔گزشتہ روز 40 مذہبی رہنماؤں نے جو بیان جاری کیا ہے اس میں اس خوں ریزی کا ذکر نہیں ہے جو مذاکرات ہونے کے باوجود طالبان کی طرف سے جاری رکھی گئی ہے۔ تاہم یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے گویا دو فریق ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں اور اب بعض غیر جانبدار عناصر انہیں صبر سے کام لینے اور امن کو ایک اور موقع دینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ حالانکہ طالبان کے سب سے بڑے ہمدرد اور ان کے نمائندے مولانا سمیع الحق ہی اس اجلاس کے کرتا دھرتا تھے۔ اس لئے اس بارے میں کسی شخص کو اس شبہ میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ اجلاس طالبان کے تعاون سے طالبان کے ظلم و استبداد کے لئے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔یہ عین ممکن ہے کہ بعض لوگ نیک نیتی سے محض امن کے نقطہ نظر سے اس اجلاس میں شریک ہوئے ہوں۔ لیکن ایسے لوگوں کو سادہ لوح ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جارحیت اور ظلم کا مظاہرہ مسلسل طالبان کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل سکیورٹی فورسز پر یکے بعد دیگرے متعدد حملوں کے بعد حکومت نے مجبور ہو کر فوجی کارروائی کے بارے میں سنجیدگی سے غور شروع کیا تھا۔ سیاسی اور فوجی لحاظ سے فوری فوجی ایکشن کے بارے میں اتفاق رائے موجود تھا۔ تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب سے تھوری دیر پہلے امن کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ اس خطاب میں وزیراعظم نے 4 رکنی کمیٹی کا اعلان کیا تھا اور اس کمیٹی کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مکمل اختیارات بھی دئیے گئے۔

اس اعلان کے بعد طالبان اور ان کے ہمدردوں کے پاس ہر دلیل اور جواز ختم ہو گیا تھا۔ اس لئے مجبوراً انہیں اس پیشکش کو قبول کرنا پڑا۔ لیکن مذاکرات کا آغاز ہونے اور طالبان کی طرف سے بار بار ان کی تائید کرنے کے باوجود نہ طالبان کی دہشت گردی میں کمی آئی اور نہ ہی مذاکرات سلام دعا سے آگے بڑھ سکے۔ اس دوران حکومت کے فراہم کردہ ہیلی کاپٹر پر طالبان کمیٹی قبائلی علاقے میں جا کر اپنے آقاؤں سے ملاقات بھی کر چکی ہے اور ان کے مطالبات کی فہرست بھی حکومت کو فراہم کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود طالبان کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بلکہ چندروز قبل کراچی میں پولیس بس پر حملے میں 14 افراد کو شہید کرنے کے بعد طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔

حکومت کی طرف سے اس دوران طالبان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی سمیت سب لوگ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے مذاکرات کو بامقصد بنانا چاہتے ہیں تا کہ ملک میں امن بحال ہو سکے۔ حکومت نے تمام تر مخالفت کے باوجود انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے لئے کسی قسم کی کوئی شرط بھی عائد نہیں کی۔ اس کے ساتھ ڈرون حملوں کے حوالے سے اپوزیشن اور طالبان کی حجت کا مداوا کرنے کے لئے امریکہ کو اس بات پر آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کو موقع فراہم کرے اور عارضی طور پر قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کر دئیے جائیں۔ لہٰذا دسمبر کے بعد سے قبائلی علاقوں میں کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا گیا۔طالبان کی طرف سے حکومت کے جذبہ خیر سگالی کو مسلسل اس کی کمزوری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس دوران طالبان کے حملے جاری رہے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے علاوہ عام لوگ بھی ان حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ طالبان کے نمائندے صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے اور طالبان قیادت کو عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دینے کی بجائے یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ حکومت اور طالبان کو جنگ بندی پر متفق ہو جانا چاہئے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں بھی یہی مؤقف سامنے آیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس اعلامیہ میں طالبان کی دہشت گردی کا ذکر کرنے اور مرنے والوں سے اظہار ہمدردی کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔

جنگ بندی کی بات یوں بھی ناقابل قبول اور غیر متعلق ہے کہ یہ معاملہ ایک ملک کے اندر بغاوت اور سرکشی پر آمادہ ایک گروہ کے جرائم سے متعلق ہے۔ اس گروہ کو اپنے جرائم کی معافی مانگتے ہوئے مزید دہشت گردی سے توبہ کرنے کا اعلان کرنا ہو گا۔ حیرت انگیز طور پر طالبان کے پاکستانی حمایتی اس اہم بنیاد کو سمجھنے یا قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ علماء اور مشائخ کے اس اجلاس میں جنگ بندی کی بات کر تے ہوئے طالبان کو ایک ریاستی قوت کے طور پر ایک فریق بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی ہرگز یہ حیثیت نہیں ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ اجلاس گزشتہ دنوں طالبان کی طرف سے چترال کی کالاش اقلیت اور گلگت میں آباد اسماعیلی فرقہ کے لوگوں کو جاری کی جانے والی دھمکیوں کا ذکر تک کرنے میں ناکام رہا ہے۔

طالبان کے حوالے سے عالمی میڈیا پرجاری بحث کے مطابق کہ طالبان سے مذاکرات کے سب سے بڑے حامی عمران خان نے بھی ان دھمکیوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ تاہم ہمارے علماء کو طالبان کی حمایت کے جوش میں ان کے دیگر جرائم کے علاوہ یہ معاملہ بھی نظر نہیں آتا۔اس دوران عمران خان نے طالبان کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے قوم سے یہ سوال بھی کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو ہم کیا کریں گے۔ انہوں نے یہ سوال تو اب کیا ہے تاہم وہ اس کا جواب دو روز قبل ایک انٹرویو میں دے چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے قرار دیا تھا کہ پاکستانی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ لاہور میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے عمران خان نے ان شرائط پر بھی تبصرہ کیا ہے جو طالبان کی طرف سے بھجوائی گئی ہیں۔ اگرچہ ان شرائط کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور اس حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کو بھی طالبان کے نمائندوں نے گمراہ کن قرار دیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے سربراہ یہ کہنے پر مصر ہیں کہ طالبان نے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے وہ صرف عورتوں اور بچوں کی رہائی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے دہشت گردی میں ملوث طالبان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔

مبصرین کاخیال ہے کہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک قومی لیڈر کا یہ رویہ کسی طور قابل ستائش اور حوصلہ افزا نہیں ہے۔ عمران خان بار بار ملک دشمن عناصر کا ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں خود بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بسا اوقات نادان دوست دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ عمران خان نے طالبان کی یہ پیشکش تو قبول کرنے سے گریز کیا تھا کہ وہ بھی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے میں طالبان کی نمائندگی کریں۔ لیکن مطالبات کے حوالے سے بیان جاری کرنے اور وضاحتیں دینے میں وہ بے لگام ہو رہے ہیں۔ اس رویہ کا واحد مقصد طالبان کے لئے عوام میں ہمدردی پیدا کرنا ہے۔ تا کہ لوگ اس دہشت گرد گروہ کی چیرہ دستیوں کو بھول کر عمران خان کی تجویز کے مطابق حکومت پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ ہو جائیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201352 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.