کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر میں
نے ایک سوال کیا کہ پاکستان میں تبدیلی یا انقلاب کب اور کون لائے گا؟ جس
پہ لوگوں نے اپنی اپنی رائے اپنے کمنٹس اور فون کالز کی شکل میں دی ہے ۔کچھ
تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ۔یہاں کچھ نہیں ہوگا ۔کچھ نے کہا کہ
عمران خان یہ تبدیلی لائیں گے ۔یو کے سے نوید صاحب نے فرمایا کہ فوج ،
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان ملکر آسانی سے تبدیلی یا انقلاب لا سکتے
ہیں ۔ کچھ نے جماعت اسلامی کی بات کی ۔البتہ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ کسی نے
بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا نام نہیں لیا ۔۔۔۔۔اس سے یہ ظاہر ہوتا
یہ کہ غا لب اکثریت کا یہ خیال ہے کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں تبدیلی نہیں
لائیں گی۔۔۔۔۔اور یہ بات سو فیصد درست ہے کیونکہ اس طرح کی ہمہ جہت تبدیلی
ان کے حق میں نہیں ہے ۔ اگر انہوں نے تبدیلی لانی ہوتی تو اب تک لا چکے
ہوتے کئی باریاں تو یہ لے چکے ۔تبدیلی کیا لانی تھی اس کی بنیاد بھی نہیں
رکھی ۔بس نعرے ہیں ۔۔۔۔روٹی کپڑا اور مکان ۔۔۔۔بدلا ہے پنجاب بدلیں گے
پاکستان ۔۔۔۔۔اور حال یہ ہے روٹی کپڑا اور مکان والوں نے یہ سب کچھ عوام سے
چھین کر اپنے بینک بھر لئے اور پنجاب بدلنے والوں نے دوسروں کے دور میں
مینار پاکستان پر ٹینٹ لگا کر پکھیاں چلی تھیں اور اب صورت حال اس بھی بد
تر ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔پنجاب حکومت اب حرکت نہیں کرتی ۔شائد اب حرکت کرنے کی
باری کسی اور کی ہے ۔کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں ڈیمو کریسی پہ کم اور ڈرامہ
کریسی پہ زیادہ یقین رکھتی ہیں ۔۔۔جن لوگوں نے مئی کے الیکشن میں تبدیلی
لانے کے لئے ووٹ ڈالا تھا وہ اب اپنی جمہوری عقل پہ ماتم کناں ہیں ۔سوال یہ
ہے کہ اگر اب بھی پارلیمنٹ میں سینتالیس فیصد ٹیکس نا دہندہ ہیں تو پھر
الیکشن کمیشن نے انتخابات کروائے تھے یا سٹیج ڈرامہ کیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟ اب تو
پنکچروں کے قصے بھی عام ہ ہو گئے ہیں کئی ممبران پارلیمنٹ کا کاروبار تو
کوئی بھی نہیں اور کروڑوں کے اثاثے بھی ہیں !!!!!وہ کیسے؟؟؟؟؟؟؟؟ان کے پاس
وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟کیا سیاست تو تجارت میں نہیں بدل گئی؟؟؟؟ سب
متعلقہ ادارے کیا کر ہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟ْاگر متعلقہ ادارے بھی ان لٹیروں کے
سامنے بے بس ہیں اور عوام بھی مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو
تبدیلی اک لازمی امر ہے ۔
تبدیلی سے مایوس لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تبدیلی تو آ کر رہے گی ۔دنیا
کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی کہ یہی فطرت ہے اور فطرت کے آگے کسی کا بس
نہیں چلتا چاہے کوئی فرعون ہی کیوں نہ بن جائے مگر سوال یہ ہے وہ تبدلی کب
کون اور کیسے لائے گا ؟ کونسی جماعت اس پوزیشن میں ہے اور ایک مثبت کوشش کر
سکتی ہے؟ ۔اگر آپ غور کریں تو تبدیلی کی قوتیں متحرک ہو چکی ہیں ۔ جن میں
ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستا ن عوامی تحریک اور عمران خان کی تحریک انصاف
دو واضح قوتیں ہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کی اکثریت تو فی
الحال اسی نظام جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے انقلا ب لانے پر یقین رکھتی ہے
مگر ان کی جماعت کے کچھ رہنما سمجھتے ہیں کہ ایسا شائد ممکن نہیں ایسے لوگ
ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شمولیت کے تب بھی حامی تھے اور اب بھی
ان کے تبدیلی کے نظریے کو درست مانتے ہیں مگر ابھی تک یہ لوگ تحریک انصاف
کی مرکزی قیادت کو اس سوچ پرمتفق نہیں کر پائے ہیں ۔سو تحریک انصاف کی
قیادت تذبذب کا شکار ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی لائیں یہ اس نظام
سے باہر آکر اس کا دھڑن تختہ کریں ۔۔ کبھی کبھی عمران خان یہ بات دہرا دیتے
ہیں کہ ڈاکٹر قاردی ٹھیک ہی کہتے تھے ۔۔۔مگر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریز
کر رہے ہیں ۔۔۔شائد وہ الیکشن ٹریبونل میں دائر اپنی پٹیشنز کے فیصلے کا
انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا فیصلہ قانون کے مطابق چار ماہ میں آنا
تھا ۔۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہو سکتا ہے یہ فیصلہ چار سال نہ آئے !!!!!!!اگر
ایسا ہوا تو تحریک انصاف کیا کرے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ جب
تک تحریک انصاف یکسو ہو کر حالات کا تجزیہ نہیں کرتی ۔ کوئی واضح فیصلہ
لیکر کوشش نہیں کرتی نتیجہ کچھ نہ نکلے گا ۔اور اگر اس کی قیادت اس بات پر
بھی مصر رہی کہ اسی فرسودہ نظام میں رہتے ہوئے ہی تبدیلی لانی ہے تو بھی
نتیجہ اک مکمل تبدیلی کی صورت میں نہیں نکلے گا !!وہی آبلے ہونگے اور وہی
جلن ہوگی ۔
اب آیئے جماعت اسلامی کی طرف ۔جماعت اسلامی کا مزاج بھی حالات کے ساتھ ساتھ
تبدیل ہوتا رہتا ہے۔الیکشن سے قبل انکا جھکاؤ مسلم لیگ نواز کی طرف تھا اور
پھر عمران خان کے ساتھ مہنگائی کے خلاف ریلی میں بھی شریک تھی اور حکومت کے
خلاف نعرے لگا رہی تھی ۔وہ بھی اب تک اسی نظام جمہوریت کے تابع معاشرتی
تبدیلی کے لیے جدوجہد پہ یقین رکھتی ہے ۔اگرچہ وہ گذشتہ پچاس سال سے اس
موجودہ جمہوری نظام کا حصہ بھی ہے مگر معاشرے اور نظام میں کوئی خاطر خواہ
تبدیلی نہیں لا سکی۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ فرسودہ جمہوری نظام اس جیسی
جماعت کو سپورٹ ہی نہیں کرتا ۔اس نظام میں رہتے ہوئے وہ اب تک جتنا کر سکی
ہے اس سے زیادہ نہیں کر سکتی ۔ بہر حال اس کو اب یہ سمجھ جانا چاہئے کہ کسی
چیز کو بار بار آزمانا دانشمندی نہیں ۔اور اگر وہ اسی ڈگر پہ قائم رہی تو
یہ بھی معاشرے میں کوئی ہمہ جہت تبدیلی نہ لا پائے گی ۔
اب آتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر
طاہرالقادری کی جماعت کو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر اس حوالے سے
فوقیت حاصل ہے کہ انکا نظریہ انقلاب زیادہ واضح اور ان کی سوچ اس حوالے سے
یکسو ہے ۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تحریک منھاج القران کی بنیاد ہی
ایک جامع اور ہمہ گیر انقلاب کے لئے رکھی تھی ۔سو پہلے دن سے ہی ان کا مقصد
اور نظریہ بڑا واضح تھا ۔۔۔۔۔میں نے کئی اینکر پرسنز سے یہ سنا کہ ڈاکٹر
طاہرلقادری نے عمران خان کا تبدیلی کا ایجنڈا ہائی جیک کر لیا ۔۔۔۔۔حالانکہ
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہ تو اسی کی دہائی میں ہی انقلاب لانے کا اعلان
کر چکے ہیں جس کی تفصیلات انکی کتاب قرآنی فلسفہ انقلاب میں درج ہیں ۔ اور
جب عمران خان کرکٹ کھیلا کرتے تھے اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری لاہور کی
سڑکوں پر احتساب مارچ کیا کرتے تھے ،پہلے احتساب اور پھر انقلاب کے نعرے
لگایا کرتے تھے یعنی وہ اپنے بنیادی انقلابی فلسفے پر پہلے دن سے ہی بہت
یکسو ہیں اور انہیں اپنی کامیابی کا بھی مکمل یقین ہے ۔
۔۔ڈاکٹر طاہر القادری اپنے ردھم کے ساتھ مناسب سمت میں بڑھ رہے ہیں انہوں
نے عوامی بیداری شعور مہم چلائی ، عام انتخابات سے قبل بھی عوام کو متحرک
کیا ۔آئین کے مطابق الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا اور اس کے لئے ایک لانگ
مارچ بھی کیا تھا۔ تب اکثر تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں نے انہیں کسی غیر
ملکی طاقت کا ایجنٹ قرار دیا تھا ۔اب الیکشن کے بعد وہ سب تجزیہ نگار کہہ
رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک ہی کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک پر امن لانگ
مارچ کرکے اپنی تنظیم اور اسکے نظم کو آزما بھی چکے ہیں ۔یہ پاکستان کی
تاریخ میں یقینا ایک ایسا لانگ مارچ تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
آئیڈیل صورت حال تو یہی ہے کہ جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور پاکستان
عوامی تحریک مشترکہ جدو جہد کریں تو انقلاب بہت جلد آسکتا ہے ۔۔مگر جہاں تک
میرا تجزیہ ہے شائد جماعت اسلامی اس تحریک میں ان جماعتوں کے ساتھ شامل نہ
ہوسکے ۔رہی تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک تو اگر یہ دونوں جماعتیں
پوری قوت جامع منصوبے کے ساتھ نکلیں تو انقلاب تب بھی ممکن ہے ان دونوں
جماعتوں کے پاس جتنی اتنی افرادی قوت ہے اگر وہ پوری کہ پوری قوت کو پروئے
کار لائیں تو یہ کام ہو سکتا ۔دونوں جماعتوں کی قیادت ملکر ایک انقلابی
کونسل تشکیل دے کر مشترکہ لائحہ عمل بنا کر اپنے مقصد کو حاصل کر سکتی ہے
۔اور اگر تحریک انصاف کوئی واضح فیصلہ نہ کر سکی اور اسنے عوامی تحریک کا
ساتھ نہ دیا تو تحریک انساف کی بد قسمتی ہو گی ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری تو آخری معرکے کا اعلان کر چکے ہیں اب وہ پیچھے ہٹنے
والے نہیں ۔مالی وسائل کبھی بھی انکی تحریک کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہے ۔
تنظیم اور اسکا نظم بے مثال ہے ، افرادی قوت بھی جو ہے ڈٹ جانے والی ہے ۔
مارچ کے بعد ماحول بننا شروع ہو جائے گا ۔وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس بھی
کم ہے اور اداروں کے پاس بھی جو بڑی خاموشی سے اپنی صفیں درست کر رہے ہیں
۔غالب امکان ہے کہ اگست یا نومبر میں یہ دھوم دڑہکا ہو جائے گا اب جب ڈاکٹر
طاہرلقادری کی عوامی تحریک پوری منصبوبہ بندی سے سب کشتیاں جلا کر منہاج
القرآن کے جملہ فورمز کے تمام ممبران ساتھ جب نکلے گی تو عوام بھی ساتھ چل
پڑے گی ۔ انقلاب کا قافلہ بنتا جائے گا ۔ انقلاب مخالف قوتیں دیکھتی رہ
جائیں گی ۔تجزیہ نگار تجزیے کرتے اور آنکھیں ملتے رہ جائیں گے اور وطن کا
یہ فرزند انقلاب کا جھنڈا گاڑھ دے گا ۔
اے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
|